امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے ساؤتھ ایسٹ ریجن کےایک وفد کی ملاقات
سب سے پہلے آپ کا خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک ذاتی تعلق ہونا چاہیے۔ کبھی کسی نماز کو نہ چھوڑنا۔ تمام نمازیں فرض ہیں اور ان کو پورے انہماک سے ادا کرو اَورقرآن کریم کی تلاوت کرو
اور قرآنی تعلیمات اور احکامات سے بخوبی واقف ہو جاؤتا کہ آپ خود اس پر عمل کر سکو اور دوسروں کو بھی اس پیغام کو پہنچا سکو
مورخہ۵؍جنوری ۲۰۲۵ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کےساؤتھ ایسٹ ریجن کےایک سولہ(۱۶) رکنی وفد کو بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ خدام نےخصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےامریکہ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔یہ ملاقات اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔
جب حضورِانور مجلس میں رونق افروز ہوئےتو آپ نے تمام حاضرین کو السلام علیکم کا تحفہ پیش فرمایا۔
دورانِ ملاقات حضورِانور نے ہر خادم سے انفرادی گفتگو فرمائی اور ان سے ان کے پیشہ جات اور خاندانی پس ِمنظر وغیرہ کے بارے میں دریافت فرمایا۔
بعدازاں خدام کو حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں سوالات پیش کرنے اور ان کی روشنی میں بیش قیمت راہنمائی حاصل کرنے کا موقع بھی ملا۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ پیارے حضور! ہم اپنے نوجوانوں کو کیسے سمجھائیں کہ مسلم اور احمدی پہچان پر فخر کریں چاہے سوسائٹی کا دباؤ یا دوستوں کا سلوک الگ ہو؟
حضورِانور نے اس پر مفصّل راہنمائی فراہم کرتے ہوئے بیان کیا کہ اب جو زیادہ تر نئی نسل آئی ہے وہ تو immigrants (مہاجرین) ہی آ رہے ہیں۔ کوئی تھائی لینڈ سے ،کوئی سری لنکا سے، کوئی نیپال سے، کوئی ملائیشیا سے۔ ان سے کہو کہ پاکستان سے کیوں نکلے تھے؟ اس لیے نکلے تھے کہ وہاں تمہیں مذہب کی آزادی نہیں تھی، یہاں آکے تم کم از کم اپنے آپ کو مسلمان تو declareکر سکتے ہو۔جو اس طرح کے immigrants آئے ہیں، ان کو تو اس طرح سمجھاؤ کہ تم لوگ یہاں ایک احمدی کی حیثیت سے آئے ہو تا کہ مسلمان ہونے کی آزادی ہو اور practice کرو، اس لیے اپنے آپ پر فخر کرو کہ تم مسلمان ہو۔ دوسرے جو یہاں پیدا ہوئے ہوئے ہیں، ان کو کہو کہ اسلام وہ مذہب ہے جو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ آخری شریعتی مذہب ہے، بڑا comprehensive ہے۔ ہر چیز اس میں موجود ہے۔ اس لیے کسی قسم کےcomplexکی ضرورت نہیں۔
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ دنیا میں اس وقت سوائے قرآنِ کریم کے کوئی بھی مذہب ایسا نہیں جس کی شریعت اور کتاب اپنی original formمیں موجود ہو۔اس کا مطلب ہے کہ قرآنِ کریم ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے کہا تھا کہ یہ ہمیشہ preserve اور intact رہے گی اور اللہ تعالیٰ نے اس وعدے کے مطابق کیا ہے۔
اس لیے ہمیں اس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ ہماری شریعت ہی ایک ایسی شریعت ہے جو اپنی original formمیں ہے اور چودہ سو سال سے قائم ہے اور اس میں بڑی comprehensiveتعلیم دی گئی ہے، ہر چیز کو اس میں coverکر لیا ہے۔ اس پر ہمیں کسی قسم کا کمپلیکس نہیں ہونا چاہیے۔
حضورِانور نے واضح کیا کہ دنیادار سمجھتا ہے کہ ہم نے دنیا کما لی اور دنیا کے پیچھے چل کے بعض دفعہ لوگ کمپلیکس میں آجاتے ہیں۔لیکن اسلام کی تعلیم ایسی ہے کہ جس نے قرآنِ شریف میں دین، دنیا، سائنس، بزنس اور خدمتِ انسانیت غرض ہر ایک قسم کی تعلیم دے دی۔ تو اتنی comprehensive تعلیم ہے کہ جس کا کوئی اور مقابلہ ہی نہیں کر سکتا۔ قرآنِ شریف میں اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ یہ کیسی کتاب ہے کہ جس نے ہر چیز کو coverکر لیا ہے۔ تو اس جیسی کتاب کو ماننے والے جو ہوں ان کوکسی کمپلیکس کی ضرورت کیا ہے؟
اس لیےضروری ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ ہم مسلمان اور احمدی مسلمان ہیں۔ اس زمانے میں جو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعودؑ کو بھیجنے کا وعدہ کیا تھا، اس کو ہم نے مان لیا، اس لیے ہمیں کسی قسم کے کمپلیکس کی ضرورت نہیں۔ بلکہ ہم نے دنیا کو اپنے پیچھے چلانا ہے ،ہم نے گائیڈ بننا ہے اور دنیا کو اپنے پیچھے چلانے والا بنانا ہے۔ اس لیے اس کمپلیکس کو چھوڑدو۔ تو اس طرح مختلف situations میں دیکھو کہ کس قسم کے سوال اُٹھتے ہیں تو ان کا جواب دو، ان کوtackleکرو، مربیان سے پوچھو اور جہاں سمجھ نہیں آتی تو مجھ سے پوچھو۔
ایک خادم نے حضورِانور سے دریافت کیا کہ قیامت کے دن کون سی چیز زیادہ وزن رکھے گی، ہمارے نیک اعمال یا ہمارے دین کی حالت؟
حضورِانور نے اس کا جواب دیتے ہوئے سوال میں نشاندہی کردہ دونوں پہلوؤں یعنی نیک اعمال اور دینی حالت کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ دیکھیں دونوں باتیں بہت ضروری ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ جو بھی ایمان رکھتے ہیں، اس کے مطابق عمل کریں، اگر آپ کہیں کہ مَیں مسلمان ہوں اور اگر آپ اپنی پنج وقتہ نمازیں ہی ادا نہیں کر رہے تو پھر آپ اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور احکامات پر عمل تو نہیں کر رہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں نے جنّ اور اِنس کو پیدا کیا، ان میں بعض امیر ہیں اور بعض دوسرے عام لوگ ہیں، اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو اپنے احکامات پر عمل کرنے کے لیے اور اپنی عبادت بجا لانے کے لیے پیدا کیا۔
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ اس لیے اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا بہت ضروری ہے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ آپ کی دعائیں قبول نہیں ہوں گی اگر آپ بنی نوع انسان کے لیے اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھا رہے اور بنی نوع انسان کے حقوق ادا نہیں کر رہے۔تو یہ دونوں باتیں بہت ضروری ہیں۔
حضورِانور نے توجہ دلائی کہ اگر آپ سچ نہیں بولتے، اگر آپ جھوٹے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ نیک عمل نہیں ہے۔ اگر آپ بنی نوع انسان کی خدمت نہیں کر رہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں تم سے خوش نہیں ہوں۔ اگر آپ اپنے والدین کی خدمت نہیں کر رہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر مَیں تمہاری دعائیں قبول نہیں کروں گا اور اگر آپ اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر رہے اور ان کے ساتھ امن سے نہیں رہ رہے تو پھر اللہ تعالیٰ آپ کی دعائیں قبول نہیں فرمائے گا۔
آخر میں حضورِانور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی اوّل الذکر ہدایت کا ایک مرتبہ پھر اعادہ فرمایا کہ یہ دونوں باتیں ضروری ہیں۔ اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مَیں دو ہی بنیادی مقاصد لے کر آیا ہوں، ایک یہ کہ بنی نوع انسان کو اپنے خالق سے قریب لایا جائے اور دوسرا یہ کہ انہیں بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے۔ تو یہ وہ دو باتیں ہیں ،جن پر ہم نے عمل کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر آپ ان دونوں باتوں پر عمل کریں گے تو پھر آپ کامل مسلمان بنیں گے اور خدا آپ سے خوش ہو گا۔
ایک خادم نے حضورِ انورسے راہنمائی طلب کی کہ ہمارے جو خدام تبلیغ کرنے سے گھبراتے ہیں ،ہم انہیں کیسے تبلیغ کی طرف راغب کر سکتے ہیں؟
حضورِانور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اسی لیے گھبراتے ہیں کہ ان کو علم نہیں ہے یاعلم کی کمی ہے یا یہ کمپلیکس ہے کہ ہم تبلیغ کریں گےتو لوگ ہمارا مذاق اڑائیں گے۔ یا یہ خوف ہےکہ تبلیغ کرنے سے ہمیں کہیں مار نہ پڑ جائے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ بڑا radicalمسلم ہے، اس کو مارو۔یا پھرپولیس یا لوگوں سے ڈر کے مارے تبلیغ کرنے سے گھبراتے ہیں۔
حضورِانور نے اس بات پر زور دیا کہ اس کمپلیکس کو دُور کرو اور ان کو بتاؤ کہ ہماری تعلیم کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس لیےپیدا کیا ہے کہ ہم اللہ کے پیغام کو دنیا کو سمجھائیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا پیغام کیا ہے؟ پہلے تو محبّت، پیار، امن اور service to humanity ،یہ ہمارے پیغام ہیں، ان سے تبلیغ کرنے کے طریقے ہیں۔
حضورِانور نے مثال کے ذریعے سمجھایا کہ مثلاً ایک atheistہے، اس کو تم کہو کہ جماعت احمدیہ سچی ہے ، وہ کہے گا کہ ہو گی سچی مجھے اس سے کیا؟ تو یہ تو تبلیغ نہیں ہے۔ atheistکو کہنا پڑے گا کہ ہمیں قرآنِ شریف کہتا ہے کہ humanityکی خدمت کرو، اپنے ساتھیوں کی خدمت کرو اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو، ماں باپ کی عزت کرو، اپنے دوستوں کا خیال رکھو، اپنے ہمسایوں کا خیال رکھو۔ تو یہ چیزیں ہمیں تعلیم دیتی ہیں تو پھروہ قریب آئیں گے۔ پھر ان کو بتاؤ کہ یہ یہ اسلام کی تعلیم ہے اور یہ تعلیم ہمیں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں دی ہے۔ تو اس طرح تبلیغ کے مختلف طریقے ہیں، ان کو طریقے سمجھانے پڑیں گے، کس environment میں ہم رہتے ہیں، کس طرح کےلوگوں کے ساتھ ان کا interactionہے؟ جو لامذہب ہیں، ان کے ساتھ اور تبلیغ کا ذریعہ ہے، ان کو تم کہو گے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے تو انہوں نے کہنا ہے کہ ٹھیک ہے مگر ہم مانتے ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک ہو گا۔ یا ایک ہو یا چار ہو، ہمیں اس سے کیا؟ نہ ہم عیسائیت کو مانتے ہیں ، نہ یہودیت کو مانتے ہیں اور نہ ہی اسلام کو مانتے ہیں۔تو مختلف situations میں مختلف طریقے ہیں جو تبلیغ کےاختیار کرنے ہوں گے۔ اس لیے پہلی چیز یہی ہے کہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اسلام کی پیار اور امن کی تعلیم سے اپنے سارےenvironmentکو زیادہ introduce (متعارف)کرا ؤ۔ اپنے دوستوں کو اور پھر آہستہ آہستہ آگے بڑھو تو اس طرح ان میں کمپلیکس بھی دُور ہو گا۔
مزید برآں حضورِانور نے سیمینارز کے اہتمام کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ پھر یہ ہے کہ سیمینار کریں، وہاں غیر احمدیوں کو بلائیں، اس میں جو contemporary issues ہیں ان کے اوپر اسلام کی رائے کے مطابق کوئی اپنے لیکچر deliverکرو۔ تو اس میں لوگ آئیں گے، انٹرسٹ لیں گے، تو جب وہ غیروں کو دیکھیں گےکہ اس طرح انٹرسٹ لے رہے ہیں تو جو تمہارے ساتھ خدام ہیں، ان کا کمپلیکس بھی دُور ہو جائے گا۔ تو اس لیے غیروں کے ساتھ انٹریکشن کرنے کے لیے، ان کی gatheringبھی ہونی چاہیے، ہر سال دوتین سیمینار میں اپنوں کو بھی بلاؤ جو ذراکمپلیکس میں مبتلا ہیں۔
تو مختلف situationsمیں مختلف فیصلے ہونے ہوتے ہیں تو آپ لوگ یہ دیکھ کے کریں۔ ماشاءالله! آپ لوگوں کےfertile (زرخیز) ذہن ہیں۔
ایک شریکِ مجلس نے حضور انور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ نوجوان نسلیں کس طرح ایسے پیشے کا انتخاب کرسکتی ہیں جوان کے ذاتی شوق اور خدمت انسانیت دونوں پر مشتمل ہو؟
حضورِانور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اگر آپ کسی بھی پیشے کے لیے کوئی ذاتی شوق نہیں رکھتے تو پھر آپ بہتر کارکردگی نہیں دکھا سکتے۔ اس لیے بہتر ہے کہ آپ اپنا مستقبل کا پیشہ اپنی خواہش اور شوق کے مطابق چنیں۔ اگر آپ وکیل ہیں تو آپ انسانیت کی خدمت کر سکتے ہیں اور جماعت کی بھی بہتر طور پر خدمت کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہیں تو بھی آپ انسانیت کی خدمت کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ٹیچر ہیں تو بھی آپ انسانیت کی خدمت کررہے ہوں گے۔اسی طرح اگر آپ انجنیئر ہیں۔ چنانچہ مختلف پیشوں کی مختلف اہمیتیں ہیں اور وہ سب ضروری ہیں۔
حضورِانور نے توجہ دلائی کہ یہ نہ سوچیں کہ اگرمَیں فلاں پیشہ اختیار کروں گا تو جماعت کے لیے فائدہ مند نہیں ہو گا بلکہ آپ کا ذاتی جوش و جذبہ ہے جو آپ کو جماعت کی خدمت کرنے کے قابل بناتا ہے خواہ کسی بھی پیشے میں آپ کام کر رہے ہیں، یہ آپ پر منحصر ہے۔
تو پہلی چیز جو آپ کو سامنے رکھنی چاہیے وہ آپ کی ذاتی دلچسپی ہے اور پھر جب بھی آپ اپنے مستقبل کا پیشہ اپنی ذاتی دلچسپی کے مطابق تلاش کر رہے ہوں تو آپ کو ایک بات مقدّم رکھنی چاہیے کہ وہ کام آپ کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے دُور نہ لے جانے والا ہو۔ آپ کی پنجگانہ نمازوں میں حائل نہ ہو اور آپ کو انسانیت کی خدمت کرنے سے روکنے والا نہ ہو۔ اگر آپ ان تمام باتوں کو مدِّ نظر رکھیں گے تو پھر ہر career(کیریئر)ٹھیک ہے۔
ایک خادم نے حضورِانور سے مغربی ممالک کی ان سخت پالیسیوں کے متعلق سوال کیا کہ جن کے نتیجے میں صرف ایسے مہاجرین کےلیے ان کے ملکوں میں آنے کی گنجائش رہتی ہے جو اپنے ہنر میں ماہر ہیں۔ نیز اس حوالے سے بڑے بڑے کاروبار پائے جاتے ہیں جن کا اقتصادی حالات اور سیاست پر بڑا گہرااَثر مرتّب ہوتاہے۔
حضورِانور نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ پہلی چیز تو یہ ہے کہ اگر لوگ پڑھے لکھے ہوں، چاہے وہ انڈین ہے یا پاکستانی ہے یا کوئی بھی ہے جوimmigrantsہیں، اگر وہ پڑھے لکھے ہیں تو وہ اس معاشرے میں گھل مل جائیں گے اور سرکاری اہلکار انہیں قبول کر لیں گے۔
حضورِانور نے اس بات کی یاددہانی کروائی کہ مَیں تو بڑے عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ مسلمانوں کو بھی اور احمدیوں کو بھی بزنس میں آنا چاہیے اور اپنے بزنس کو بڑھانا چاہیے۔
حضورِانور نے اس حقیقتِ حال پراظہارِ افسوس کرتے ہوئے بیان کیا کہ ہمارے مسلمان عیاشیاں کرتے ہیں اور سارےoil money والے ملک، مڈل ایسٹ ہے یا یہ ساری جتنیoil producing countries ہیں، یہ امریکہ میں جا کے اپنا پیسہ casino میں لٹا کے آ جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ investment کرکے ساری economyپر قبضہ کریں اور پھر امریکہ سے مانگتے ہیں۔ وہ لوگ اپنی قوم کو دیکھتے ہیں۔ ہم لوگ اپنی ذاتیchestکو دیکھتے ہیں کہ ہمارا کتنا بینک بیلنس ہوگیا ہے؟ تو یہ تو ہماری بدقسمتی ہے اور “unfortunately, this is what is happening” یعنی بدقسمتی سے یہی ہو رہا ہے۔
حضورِانور نے اس تناظر میں اپنی اوّل الذکر یاددہانی کااعادہ فرماتے ہوئےتوجہ دلائی کہ اس لیے پہلی بات تو یہی ہے کہ بزنس میں آئیں۔ باقی آجکل جو حالات ہیں، وہ تو یہی ہیں، اس کےلیے اپنے آپ کو تیار کرو۔
حضورِانور نے اس بات پر زور دیا کہ مَیں کیا بتا سکتا ہوں کہ کیا کرنا ہے؟ مَیں تو بڑے عرصے سے بتا رہا ہوں کہ محنت کریں اور ہمارے لوگوں کو پڑھ لکھ کےایسی skillآنی چاہیے کہ جس کی وہاں ضرورت ہو۔ اچھے سائنٹسٹ ہوں، ہمارے ابھی تک کتنے ہیں، nobel prizeبھی کسی کو نہیں ملتا ، مشکل سے ملتا ہے۔ اچھے سائنٹسٹ، ٹاپ کے سائنٹسٹ کوئی نہیں ہیں، جتنے امریکہ میںJournals، میگزین ریسرچ کے چھپتے ہیں ان میں سے ایک آدھ کہیں کسی مسلمان کا ہوتا ہے ،نہیں تو اکثر دوسروں کے ہوتے ہیں تو ہم کیوں نہیں آگے آتے؟
حضورِانور نے آخر میں اس حوالے سے غور کرنے اور اس پر توجہ مرکوز کرنے کی جانب توجہ دلاتے ہوئے نصیحت فرمائی “We should consider it and have to focus on it” کہ ہم نے اپنا educational levelبڑھانا ہے اور اپنی skillبڑھانی ہے۔مسلمان تو کھاپی گئے۔ ہمارے احمدیوں کے پاس تو کچھ نہیں ہے، لیکن oil producing countries کے پاس تو بہت کچھ ہے، وہ کھا پی رہے ہیں۔تو جب مسلمانوں کو ہوش ہی نہیں آتی تو ہم کیا کریں؟
ایک شریکِ مجلس کا سوال درود شریف سے متعلق تھا کہ ہم درود شریف میں اٰلِ محمد صلی الله علیہ وسلم اور اٰلِ ابراہیم علیہ السلام میں تھوڑا سا فرق کرتے ہیں، جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ اَے الله! محمدؐ اور اٰلِ محمدؐ پر خاص فضل فرمااوربرکت نازل کر جس طرح تُو نے ابراہیمؑ اور اٰلِ ابراہیمؑ پر خاص فضل فرمایااور برکت نازل کی، تو ایسا ہم کیوں کرتے ہیں؟
حضورِانور نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ابوالانبیاءکہلاتے ہیںاس لیے کہ ان کی نسل میں سے حضرت اسحٰقؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ پیدا ہوئے۔ حضرت اسحٰق ؑکی نسل میں سے بہت سارے نبی آئے۔ اس کے بعد پھر حضرت اسمٰعیلؑ کی نسل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آئے۔ جو اللہ تعالیٰ کی height of blessing حضرت ابراہیم ؑپرتھی، اس کیclimax وہ تھی جب وہ دعا کر رہے تھے اورکعبہ کی بنیادیں اُٹھا رہے تھے کہ اس نسل میں سے ایسا پیدا کر جس پر شریعت کامل ہو اور اللہ تعالیٰ نے وہ دعا قبول کی اور اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمٰعیلؑ کی نسل میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا۔ تو وہ جو زیادہ سے زیادہ کسی بھی چیز کا ایک فائدہ ہو سکتا تھا اور جو کسی بھی چیز کیclimaxتھی وہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں آ کے ختم ہو گئی۔
اس لیے ہم دعا کرتے ہیں جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس مقام تک پہنچایا کہ اس کی انتہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں ظاہر ہوئی، اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مقام تک پہنچا کے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو یہ فضل فرمایا ہے کہ آپؐ کوآخری شرعی نبی بنایا، ساری دنیا میں اس کا فائدہ ہو۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جو پہلے نبی آتے رہے، وہ مختلف چھوٹی قوموں کے لیے آتے رہے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری دنیا کے لیے بھیجا۔لیکن پوری دنیا نے ابھی اسلام کو قبول نہیں کیا، اس لیے ہم یہ دعا کرتے ہیں، درود بھیجتے ہیں کہ جس طرح جو فضل اللہ تعالیٰ نے ان پر کیا ، وہی فضل، وہی blessing آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دین بھی ساری دنیا میں پھیل جائے۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقام بڑھ گیا ، باوجود اس کےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہی زیادہ ہے۔
اس کی مثال اس طرح ہی ہے کہ جیسے fruit trees ہیں۔orange fruits ہیں، اس میں بعض دفعہ ایک درخت پر ہزار سے پندرہ سَوmaximum فروٹس لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک mango tree ہے اس پر ہزاروں فروٹ لگ جاتے ہیں۔ تو وہ مثال اس کی یہ ہے کہ جس طرح ابراہیم علیہ السلام کے درخت کو اتنا maximum کیا کہ اس کا جو maximum potential پھل لگانے کا تھا، وہ اس کو لگ گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درخت کو بھی اتنا بڑھایا کہ اس کا جو maximum potentialہے اور Allah knows کہ what is that potentialکیونکہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ساری دنیا پر اسلام غالب آئے گا اور ساری دنیا کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے ، باقی کسی نبی کو نہیں بھیجا، تو وہ پھل اس کی جو maximum potentialہے، اس تک وہ پہنچ سکے۔ اس سے یہ مراد ہے۔
یہ مثال اس لیے دی ہے کہ اس وقت دنیا میں نبیوں کی جو historyہے اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی ایسے ہیں جن کی نسل میں نبی پیدا ہوئے اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہونے کے بعدابراہیم علیہ السلام کا ایکmaximum،جوultimate purposeرکھا ہوا تھا ، وہ تو ان کی دعا کا پورا ہو گیا۔لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ تمہیں پوری دنیا کے لیے نبی بنا کے بھیجا ہے اور وہ اس وقت تک پورا نہیں ہو گا جب تک کہ ساری دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے نہ لگ جائے یا اس میں سے جو maximum populationہے، وہ ماننے نہ لگ جائے۔ تو یہ دعا ہے۔
درود شریف میں دعا سکھائی گئی ہے کہ تم یہ دعا کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی طرح وہ resultحاصل ہو جائیں ،جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کی دعاکے ذریعہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مل گئے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ نے ان کی نسل میں سے وہ نبی پیدا تو کر دیا جو ساری دنیا کے لیے prophetہے لیکن اب اس کے کام ابھی پھیلنے والے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تو عرب کے چند قبائل میں اسلام پھیلا تھا، پھر خلافتِ راشدہ میں پھیلا، پھر بعد میں اَور زیادہ پھیلا، لیکن ابھی بھی دنیا میں اگر دو بلین مسلمان ہیں اور باقی چھ بلین so called عیسائی، atheist اور دوسرے لوگ ہیں تو ابھی تو جب تک ہم یہ نہیں کہتے کہ دنیا میں چھ بلین مسلمان ہو گئے، اس وقت تک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ چیز حاصل نہیں ہوئی۔
اس لیے درود شریف کا مطلب یہی ہے کہ ہمیں درود شریف پڑھنا چاہیے، ساتھ کوشش کرنی چاہیےکہ اللہ تعالیٰ وہ پھل جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیا اور جو pinnacleتھا، جو اس کی heightتھی، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں ظاہر ہوا، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اب اتنا دے کہ دنیا میں ہم حقیقی مسلمانوں کو، یہ مسلمان نہیں جو پیسہ آئے تو casinoمیں جا کے یا شراب پینے میں خرچ کر دیتے ہیں، وہ مسلمان جو حقیقی مسلمان ہیں، وہ مسلمان دے۔
[قارئین کی معلومات کے لیے تحریر کیا جاتا ہے کہPinnacle ایک انگریزی لفظ ہے جس کا اردو میں مطلب بلند چوٹی، عروج یا کامیابی کی بلند ترین سطح ہے۔ اس کا استعمال کسی چیز یا کسی شخص کی کامیابی یا بلندی کی انتہا، حدِّ کمال اور شان و شوکت کو ظاہر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔]اگر آپ اس طرح درود پڑھتے ہوئے درود پڑھیں گے تو اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتنا فضل فرما ! جو بہت زیادہ فضل ہے۔ صَلِّ کیا ہے، صَلِّ کا مطلب ہے دعا کرنا، اللہ تعالیٰ دعا تو نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کو کہتے ہیں کہ تُو اپنا اتنا فضل کر کہ جو سارا تیری دنیا و کائنات کا سسٹم ہے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لگا دے اور ان کے دلوں میں یہ پیدا کر دے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام بہت اونچا ہے۔ جس طرح تُو نے ابراہیمؑ کے زمانے میں ان کی نسل میں سے نبی پیدا کر کے لوگوں کے دلوں میں ابراہیمؑ کا ایک تقدّس پیدا کیا، ایک مقام پیدا کیا، ایک statusپیدا کیا۔
اور پھر اَللّٰھُمَّ بَارِكْ، اس کو اتنی برکت دے کہ وہ پھیلتا جائے، پھر یہاں ایک دفعہ مل کے رک نہ جائے بلکہ وہ پھیلتا جائے اور اگر اس طرح انسان درود پڑھے اور دعا کرے تو وہ دعا پھر ایسی ہے کہ جو حقیقی مسلمان کو آرام سے نہیں بیٹھنے دے گی، وہ کوشش کرے گا کہ مَیں دعا کے ساتھ کوشش بھی کروں کہ لوگوں کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سائے کے نیچے لے کے آؤں۔
ایک خادم نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ میرا سوال یہ ہے کہ This week with Huzoor کی گذشتہ قسط میں حضورِانور نے فرمایا تھاکہ احمدی مَرد و زن کے لیے بنیادی اور حتمی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ احمدیت کے پیغام کو پھیلائیں اور اس کی تعلیم کو عام کریں۔ اس سفر کو پایہ تکمیل تک پہنچانےکے لیے ہمیں خود کو کس طرح سے تیار کرنا چاہیے؟
حضور ِانور نے اس پر استفہامیہ انداز میں دریافت فرمایا کہ کیا آپ پنج وقتہ نمازیں ادا کرتے ہیں؟ سائل نے اثبات میں تصدیق کی تو حضورِانور نے راہنمائی فرمائی کہ تو پھر اپنی نمازوں میں یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس ہدف یا مقصد کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ قرآنِ کریم کی تلاوت کرو اور اس کے معانی کو جاننے کی کوشش کرو نیز اس کا ترجمہ اور تفسیر سیکھو۔ اور تمام قرآنی تعلیمات اور احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ پھر اگر آپ ایک باعمل مسلمان ہو اور قرآن کریم میں مذکور تمام احکامات پر عمل درآمد کرتے ہو جن کا الله تعالیٰ نے حکم دیا ہےاور آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت پر عمل کرتے ہو تو پھر آپ کامل مسلمان بن جاؤ گے۔ اگر آپ ایک کامل مسلمان ہو اور آپ ساتھ ساتھ دعائیں بھی کر رہے ہو تو پھر اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے گا۔ اور یہ بھی آپ کے لیے اسلام اور احمدیت کا پیغام پھیلانے میں ممد و مددگار ثابت ہوگا۔
حضورِانور نے اس بات پر بھی زور دیا کہ احمدیت کا پیغام کیا ہے؟ احمدیت کا پیغام جو دراصل حقیقی اسلام کا پیغام ہے تو یہ وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعہ سے ہم اسلام کی تبلیغ کرسکتے ہیں۔سب سے پہلے آپ کا خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک ذاتی تعلق ہونا چاہیے۔ کبھی کسی نماز کو نہ چھوڑنا۔ تمام نمازیں فرض ہیں اور ان کو پورے انہماک سے ادا کرو اَورقرآنِ کریم کی تلاوت کرو اور قرآنی تعلیمات اور احکامات سے بخوبی واقف ہو جاؤتا کہ آپ خود اس پر عمل کر سکو اور دوسروں کو بھی اس پیغام کو پہنچا سکو۔
حضور انور نے واضح فرمایا کہ اسی طرح ہو گا ، اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں، صرف یہی ایک ذریعہ ہے۔
ملاقات کے اختتام پر تمام حاضرینِ مجلس کو از راہِ شفقت حضورِانور کے ہمراہ گروپ تصویربنوانے اور بطورِ تبرک قلم حاصل کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔
٭…٭…٭