حضرت مصلح موعود ؓ

اَلسَّلَام (قسط دوم۔ آخری)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده یکم اکتوبر ۱۹۲۰ء)

مرنے کے بعد جو تحفہ خدا کی طرف سے انسان کے لئے آتا ہے وہ بھی یہی ہے کہ فرشتے آکر خداتعالیٰ کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں۔ کوئی بڑے سے بڑا آدمی ہو جو کہے مجھے کیا ضرورت ہے کہ مَیں کسی کو سلام کہوں۔ ہم کہیں گے خدا تعالیٰ نے بھی جب اپنے اوپر واجب کر دیا کہ سلام کہے تو اور کون ہے جو اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اس کی ضرورت نہ رکھتا ہو

اس وقت مَیں جو حکم بیان کرنے لگا ہوں وہ بھی ایسا ہی ہے اور وہ سلام کا حکم ہے۔ اسلام نے تاکید کی ہے اور قرآن میں بھی آیا ہے فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَيِّبَةً (النور:۶۲)کہ جب گھروں میں داخل ہو تو سلام کرو۔ اس میں خوبی یہ ہے کہ یہ نہیں فرمایا: فَسَلِّمُوْا عَلٰی اِخْوَانِکُمْ۔ بلکہ یہ فرمایا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ کہ اس کا فائدہ تمہارے اپنے ہی نفسوں پر ہو گا۔

یہ ایک ایسا حکم ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت ہر مسلمان کو دوسرے مسلمان سے ملتے وقت بجا لانا چاہئے۔

چونکہ اس کا موقع ہر وقت ملتا رہتا ہے اس لئے عام طور پر لوگ اسے معمولی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایسا ضروری ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے یہ جنت میں جانے کا ذریعہ ہے اور فرمایا ہے مسلمانوں کے اتفاق و اتحاد کی بنیاد اسی پر قائم ہے۔ چنانچہ فرمایا آپس میں سلام کرو۔ سلام سے محبت پیدا ہوتی ہے اور محبت کے ذریعہ ہی جنت میں داخل ہونا ہے۔(مشکوٰۃ کتاب الآداب باب السلام)

مگر افسوس اب بہت سے ایسے لوگ مسلمانوںمیں موجود ہیں جو سلام کو ترک کر بیٹھے ہیں اور ایسے لوگ غیراحمدیوں میں ہی نہیں کسی قدر قلیل تعداد احمدیوں میں بھی ہے۔

ایسے لوگ بجائے سلام کے ایک دوسرے کو آداب وغیرہ الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں۔ اور جو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہے اسے کہتے ہیں پتھر مار دیا۔ حالانکہ وہ خود اسلام کے ایک حکم اور رسولِ کریمؐ کے ارشاد کا انکار کر کے اپنے اوپر پتھر گراتے ہیں اور جو مرہم ہے اُسے پتھر سمجھتے ہیں۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کے معنے ہیں کہ زخم بھر جائیں۔ مگر نادان کہتے ہیں یہ پتھر مار دیا اور اس شخص سے زیادہ احمق اور کون ہو سکتا ہے جو مرہم کا نام پتھر رکھے۔ تو مسلمانوں کا ایک حصّہ تو ایسا ہے جو سلام کہنے کابالکل تارک ہے اور دوسرا ایسا ہے جو تارک تو نہیں لیکن اس کی حقیقت سے ناواقف ہے۔ ایسے لوگ مجلس میں آئیں گے اور چُپ کر کے بیٹھ جائیں گے۔ گھروں میں داخل ہوں گے اور خاموش ہو کر بیٹھ رہیں گے اور انہیں خیال بھی نہ آئے گا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اس موقع کے لئے کوئی حکم ہے۔

بعض کہہ دیں گے معمولی بات ہے اگر سلام نہ کہا تو کیا ہؤا۔ بعض کہیں گے حیا کی وجہ سے نہیں کہا۔ بعض کہیں گے عادت نہیں ۔مگر یہ تینوں قسم کے لوگ نادان ہیں۔

حیا کے معنے ہیں رُکنا اور رُکنا ایسی باتوں سے چاہئے جو مُضر ہوں نہ کہ ان سے جو فائدہ مند ہوں اور پھر وہ جن کا فائدہ روحانی ہو اسی طرح اسے معمولی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس کا فائدہ مرنے کے بعد قیامت تک ملتا رہے گا۔ پھر یہ اس لئے معمولی نہیں کہ قرآن میں اس کے متعلق حکم دیا گیا ہے اوربیسیوں ایسے احکام ہیں جن کا قرآن میں ذکر نہیں مگر اس کا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَيِّبَةً ۔تو اﷲتعالیٰ کی طرف سے جو تحفہ ہو اس کو کون معمولی کہہ سکتا ہے۔

قرآن کریم میں اور کسی چیز کو اس رنگ میں تحفہ نہیں کہا گیا جیسے سلام کو کہا گیا ہے۔

حتّٰی کہ مرنے کے بعد جو تحفہ خدا کی طرف سے انسان کے لئے آتا ہے وہ بھی یہی ہے کہ فرشتے آکر خداتعالیٰ کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں۔ کوئی بڑے سے بڑا آدمی ہو جو کہے مجھے کیا ضرورت ہے کہ مَیں کسی کو سلام کہوں۔

ہم کہیں گے خدا تعالیٰ نے بھی جب اپنے اوپر واجب کر دیا کہ سلام کہے تو اور کون ہے جو اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اس کی ضرورت نہ رکھتا ہو۔

سب سے پہلی چیز جو بندہ کو خدا تعالیٰ کی ملاقات کے وقت دی جاتی ہے وہ یہی سلام ہے۔ جبرئیل رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ کو سلام کہا۔(بخاری کتاب الاستِئذَان باب تَسْلِیْم الرِّجَال عَلَی النِّسَاء)

اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ان کو دیکھ کر سلام کہتے ہیں۔ ان سے بڑا کون سا انسان ہے جسے سلام کہنے کی ضرورت نہ ہو مگر بہت لوگ ہیں خصوصاً انگریزی تعلیم یافتہ جو سلام کو بہت حقیر چیز سمجھتے ہیں۔وہ اپنے عمل سے رسولِ کریمؐ، جبریل حتّٰی کہ خدا تعالیٰ سے بھی اپنے آپ کو بڑا قرار دیتے ہیں۔

کیونکہ جس حکم کو بہت سی حکمتوں کے ماتحت خدا تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے بلکہ اپنی ذات کے لئے بھی رکھا ہے اور جس کی تاکید رسولِ کریم ؐنے کی ہے اور خود جبرئیل کو کہا ہے اس سے یہ لوگ اپنے آپ کو مستغنی سمجھتے ہیں۔ اوّل تو صرف ہاتھ سے اشارہ کر دیتے ہیں یا اتنا بھی نہیں کرتےیاایک دوسرے سے یوں ملیں گے۔ مولوی صاحب اور اس کے جواب میں کہہ دیا جائے گا بھائی صاحب۔ یا یہ کہ سناؤ جی کیا حال ہے۔ اسی قسم کے فقروں کو اُنہوں نے سلام سمجھ لیا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کے ساتھ تین انگلیاں مِلا دیں گے اور یہ مصافحہ ہو جائے گا لیکن شریعت کا یہ حکم نہیں۔ شریعت نے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہنا ضروری قرار دیا ہے اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کو اتفاق و اتحاد کی جڑ ٹھہرایا ہے اور نجات کا ستون بنایا ہے۔

رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ایک دفعہ دریافت کیا گیا کہ بہتر سلام کیا ہے۔ تو آپؐ نے خاص حکموں میں سے بتایا کہ غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلانا اور کسی کو جانو یا نہ جانو سلام کہنا۔(بخاری کتاب الایمان باب اِطْعَام الطَّعَامِ مِنَ الْاِسْلَامِ) یہ دونوں باتیں اتفاق و اتحاد کی جڑ ہیں۔

آج مَیں خطبہ کو یہیں بند کرتا ہوں کیونکہ وقت زیادہ ہو چُکا ہے۔ مگر تاکید کرتا ہوں کہ یہ ایک خاص حکم ہے جو اسلام نے دیا ہے اور جس کے متعلق رسول کریمؐ نے تاکید فرمائی ہے۔ صحابہؓ اس کے اس قدر پابند تھے کہ ایک دن عبداﷲ ایک صحابی کے پاس آئے اور کہا آؤ بازار چلیں۔ صحابی نے سمجھا کوئی کام ہو گا۔ چل پڑا، لیکن وہ بازار میں سے گھوم کر یونہی چلے آئے۔ نہ کوئی کام کیا اور نہ کوئی چیز خریدی۔ دو تین دن کے بعد پھر آئے اور کہا آؤ بازار چلیں۔ اس صحابی نے کہا اس دن آپ نے نہ کچھ خریدا اور نہ کام کیا۔ آج کوئی کام ہے۔

اُنہوں نے کہا مَیں بازار اس لئے جاتا ہوں کہ بھائی ملتے ہیں، وہ ہم کو سلام کہتے ہیں ہم اُن کو سلام کہتے ہیں۔(مشکوٰۃ کتاب الآداب باب السلام)

تو صحابہؓ بازاروں میں صرف سلام کہنے کے لئے بھی جاتے تھے۔ تمہیں بھی چاہئے کہ بازاروں میں، محلوں میں، مجلسوں میں، گھروں میں جہاں کسی سے مِلو سلام کہو۔ جاننے والوں کو سلام کہو۔ نہ جاننے والوں کو سلام کہو۔ اگر دُعا کوئی چیز ہے اور ہر مسلمان مانتا ہے کہ بہت بڑی چیز ہے اور اسلام کے رکنوں میں سے ایک رُکن ہے۔ اور اسلام اس کے سوا کچھ بھی نہیں تو سب اولیاء اور خدا کے پیاروں کا یہ بھی متفقہ مسئلہ ہے۔ اگر کوئی دُعا زیادہ قبول ہونے والی ہوتی ہے تو وہی ہوتی ہے جو خداتعالیٰ کی سکھائی ہوئی ہو اور وہ یہی دُعا ہے۔ پھر کیسا نادان ہے وہ انسان جو سجدہ میں ناک رگڑتا اور دُعائیں کرتا ہے مگر اﷲ تعالیٰ کی بتائی ہوئی اس دُعا کو استعمال نہیں کرتا۔

جو شخص خداتعالیٰ کی سکھائی ہوئی دُعا کونہیں لیتا خدا تعالیٰ اس کی سجدہ میں کی ہوئی دعا کو کب سنتا ہے۔

پہلے خدا کی سکھائی دعا کو رستوں میں، گھروں میں،ملنے والوں سے، جُدا ہونے والوں سے، اپنوں سے، بیگانوں سے، واقفوں سے، ناواقفوں سے کرے گا اور پھر جاکر خدا تعالیٰ سے دُعا مانگے گا تو سُنے گا کہ مَیں نے جس دُعا کا حکم دیا تھا وہ کر آیا ہے۔ اب مَیں اس کی دُعا سنوں پھر اس کے محبت اور اتفاق کے لئے بہت اثرات ہیں اور اگر ضرورت ہوئی تو ان کو پھر بیان کر دوں گا۔ (الفضل ۷؍اکتوبر ۱۹۲۰ء)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: اَلسَّلَام (قسط اول)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button