سریہ عبدالله بن رواحہ بطرف اُسَیْر بن رِزام اور سریہ عمرو بن اُمیہ ضمری کے تناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان (خلاصہ خطبہ جمعہ ۱۷؍جنوری ۲۰۲۵ء)
٭…آنحضرتؐ کے یہ الفاظ کہ شکر کرو کہ خدا نے تمہیں اِس ظالم پارٹی سے نجات دی اِس بات کے ثابت کرنے کےلیے کافی ہیں کہ مسلمانوں کی نیّت بالکل صاف اور پُر امن تھی
٭… جماعت احمدیہ پاکستان اور فلسطین کے لیے دعا کی تحریک
٭…شیخ مبارک احمد صاحب(ناظر دیوان صدر انجمن احمدیہ ربوہ )، مکرم محمد منیر اِدلبی صاحب آف قطر
اور عبدالباری طارق صاحب(انچارج کمپیوٹر سیکشن وقفِ جدید ربوہ)کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۷؍جنوری۲۰۲۵ء بمطابق ۱۷؍ صلح ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۱۷؍جنوری ۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔ جمعہ کي اذان دينے کي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آج جن سرایا کا ذکر ہو گا، اِن میں سے ایک
سریہ عبدالله بن رواحہ بطرف اُسَیْر بن رِزام ہے۔
یہ سریّہ شوال چھ ہجری میں اُسَیْر یا یُسیربن رِزام کی طرف خیبر میں ہوا۔
اِس کی تفصیل میں بیان ہوا ہے کہ جب ابو رافع سلام بن ابی الحقیق کو قتل کیا گیا تو یہودیوں نے اُسَیْر بن رِزام کو اپنا امیر مقرر کیا۔وہ یہود میں کھڑا ہو کر خطاب کرنے لگا کہ الله کی قسم! محمد(صلی الله علیہ وسلم) جب بھی یہود میں کسی طرف چلے یا اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو بھیجا ،تو جس بات کا ارادہ کیا، اُس میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن مَیں وہ کام کروں گا،جو میرے ساتھیوں میں سے کسی ایک نے بھی نہیں کیا، یہود نے پوچھا کہ تمہارا کیا کرنے کا ارادہ ہے؟ وہ کہنے لگا کہ مَیں قبیلہ غطفان کی طرف جاتا ہوں اور اُن کو اکٹھا کرتا ہوں اور ہم محمد(صلی الله علیہ وسلم) کی طرف چل کر اُن کے گھر میں گھس جائیں گے، جب بھی کوئی اپنے دشمن کے گھر میں آ کر حملہ کرتا ہےتو وہ اپنے مقصد میں کسی حدّ تک کامیاب ہو ہی جاتا ہے۔ تو یہود نے کہا کہ تمہارا خیال بہت اچھا ہے۔ چنانچہ وہ غطفان اور دیگر قبائل کی طرف چلا گیا اور اُن کو رسول اللهؐ کے خلاف جنگ کرنے کے لیے اکٹھا کرنے لگا۔
اِس کی تفصیل میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی الله عنہ نے لکھا ہے کہ جب آنحضرتؐ کو اِن حالات سے اطلاع ہوئی تو آپؐ نے فوراً اپنے ایک انصاری صحابی عبداللہ بن رواحہؓ کو تین دوسرے صحابیوں کی معیّت میں خیبر کی طرف روانہ فرمایا اور اُنہیں تاکید فرمائی کہ خفیہ خفیہ جائیں اور سارے حالات معلوم کر کے جلد تر واپس آجائیں۔ چنانچہ عبداللہ بن رواحہؓ اور اُن کے ساتھی گئے اور خفیہ خفیہ تمام حالات اور کوائف کا پتا لے کر اور یہ تصدیق کر کے کہ یہ خبریں درست ہیں واپس آگئے بلکہ عبداللہ بن رواحہؓ اور ان کے ساتھیوں نے ایسی ہوشیاری سے کام لیا کہ خیبر کےقلعوں کے آس پاس گھوم کر اور اُسَیْر بن رِزام کی مجلس گاہوں کے پاس پہنچ کر خود اُسیر اور اُس کے ساتھیوں کی زبانی یہ سن لیا کہ وہ آنحضرتؐ کے خلاف یہ یہ تدبیریں کر رہے ہیں۔ اِنہی دنوں میں ایک غیر مسلم شخص خارجہ بن حُسَیْل اتفاقا ًخیبر کی طرف سے مدینہ میں آیا اور اُس نے بھی عبداللہ بن رواحہؓ کی تصدیق کی اور کہا کہ مَیں اُسیر کو ایسی حالت میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ وہ مدینہ پر حملہ آور ہونے کے لیے اپنے لاؤ لشکر کو جمع کر رہا تھا ۔
اِس تصدیق کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن رواحہ ؓکی امارت میں تیس صحابہؓ کی ایک پارٹی خیبر کی طرف روانہ فرمائی۔اِس گفت و شنید سے جو خیبر میں عبداللہ بن رواحہؓ اور اُسَیْر بن رِزام میں ہوئی ،یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء یہ تھا کہ اُسیر کو مدینہ میں بلا کر اس کے ساتھ کوئی ایسا سمجھوتہ کیا جائے جس سے اِس فتنہ انگیزی کا سلسلہ رک جائے اور ملک میں امن وامان کی صورت پیدا ہو ۔ اِس خواہش میں آپؐ اِس حد تک تیار تھے کہ اگر اُسیر کو خیبر کے علاقے کا امیر تک تسلیم کرنا پڑے تو تسلیم کر لیا جائے۔
جب عبد اللہ بن رواحہ ؓکی پارٹی خیبر میں پہنچی تو سب سے پہلے انہوں نے اُسَیْر بن رِزام سے دوران گفتگو کے لیےامن وامان کا عہد لیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس وقت خطرہ اِس قدر بڑھ چکا تھا کہ مسلمان سمجھتے تھے کہ کہیں اِس گفت و شنید کے درمیان ہی اُسیر کی طرف سے کوئی غداری کی صورت نہ پیدا ہو جائے۔ عبداللہ بن رواحہؓ نے اُسیر سے گفتگو شروع کی، جس کا مآل یہ تھا کہ آنحضرتؐ تمہارے ساتھ ایک امن و امان کا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں تا کہ یہ آپس کی جنگ رک جائے اور اِس کے لیےبہترین صورت یہ ہے کہ تم خود مد ینہ میں چل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ بات کرو۔ اگر اس قسم کا معاہدہ ہو گیا تو میں امید کرتا ہوں کہ رسول اللہ تمہارے ساتھ احسان کا معاملہ کریں گے اور ممکن ہے کہ تمہیں خیبر کا باقاعدہ رئیس تسلیم کر لیا جائے ۔اُسیر کو جو سخت جاہ طلب تھا یا یہ بھی ممکن ہے کہ اُس کے دل میں کوئی اور نیّت مخفی ہو یہ تجویز پسند آئی اور کم از کم اس نے یہ ظاہر کیا کہ مجھے یہ تجویز پسند ہے مگر ساتھ ہی اس نے خیبر کے یہودی عمائد کو جمع کر کے ان سے مشورہ مانگا کہ مسلمانوں کی طرف سے یہ تجویز پیش ہوئی ہے، اِس کے متعلق کیا کیا جائے ؟ یہود نے جو اسلام کے خلاف عامیانہ عداوت میں اندھے ہو رہے تھے، عام طور پر اس تجویز کی مخالفت کی اور اُسیر کو اس ارادے سے باز رکھنے کی غرض سے کہا کہ ہمیں اُمید نہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہیں خیبر کا امیر تسلیم کریں مگر اُسیر جو حالات سے زیادہ واقف تھا ،اپنی بات پر قائم رہا اور کہنے لگا کہ تم نہیں جانتے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اِس جنگ سے تنگ آیا ہوا ہے اور دل سے چاہتا ہے کہ جس طرح ہو ،اِس لڑائی کا سلسلہ رک جائے ۔
الغرض اُسيرعبداللہ بن رواحہ کی پارٹی کے ساتھ مدینہ چلنے کے لیے تیار ہو گیا اور عبداللہ بن رواحہ ؓکی طرح خود اُس نے بھی تیس یہودی اپنے ساتھ لے لیے ۔ جب یہ دونوں پارٹیاں خیبر سے نکل کر ایک مقام قرقرہ میں پہنچیں، جو خیبر سے چھ میل کے فاصلے پر تھا ،تو اُسیر کی نیّت بدل گئی یا اگر اُس کی نیّت پہلے سے خراب تھی تو یوں سمجھنا چاہیےکہ اُس کے اظہار کا وقت آگیا۔ چنانچہ اُس نے باتیں کرتے کرتے بڑی ہوشیاری کے ساتھ مسلمانوں کی پارٹی کے ایک معزز فرد عبداللہ بن اُنَیْس انصاری ؓکی تلوار کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ عبداللہ فوراً تاڑ گئے کہ اِس بد بخت کے تیور بدلے ہوئے ہیں ۔ چنانچہ اُنہوں نے جھٹ اپنی اونٹنی کو ایڑ لگا کر اُسے آگے کر لیا اور پھر اُسیر کی طرف گھوم کر آواز دی کہ اَے دشمنِ خدا ! کیا تم ہمارے ساتھ غداری کرنا چاہتے ہو؟ عبداللہ بن اُنَیْس نے دو دفعہ یہ الفاظ دُہرائے ۔ مگر اُسیر نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ اور نہ ہی اُس نے اپنی کوئی بریّت کی، بلکہ وہ سامنے سے جنگ کےلیے تیار تھا۔ یہ غالباً یہودیوں میں پہلے سے مقرر شدہ اشارہ تھا کہ ایسا موقع آئے تو سب مل کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں۔چنانچہ اِسی جگہ عین راستہ میں مسلمانوں اور یہودیوں میں تلوار چل گئی۔ اور گو دونوں پارٹیاں تعداد میں برابر تھیں اور یہودی لوگ پہلے سے ذہنی طور پر تیار تھے اور مسلمان بالکل بے ارادہ تھے، مگر خدا کا ایسا فضل ہوا کہ بعض مسلمان زخمی تو بیشک ہوئے، مگر اُن میں سے کسی جان کا نقصان نہیں ہوا، لیکن دوسری طرف سارے یہودی اپنی غدّاری کا مزا چکھتے ہوئے خاک میں مل گئے ۔
جب صحابہ ؓکی یہ پارٹی مدینہ میں واپس پہنچی اور آنحضرتؐ کو حالات سے اطلاع ہوئی تو آپؐ نے مسلمانوں کے صحیح سلامت بچ جانے پر خدا کا شکر کیا اور فرمایا کہ قَدْ نَجَاكُمُ اللّٰهُ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ، شکر کرو کہ خدا نے تمہیں اِس ظالم پارٹی سے نجات دی ۔
اِس واقعہ کے متعلق بعض مسیحی مؤرّخین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ گویا عبداللہ بن رواحہؓ کی پارٹی اُسیر وغیرہ کو خیبر سے اِسی نیّت سے نکال کر لائی تھی کہ رستہ میں موقع پا کر اُنہیں قتل کر دیا جائے مگر جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ
تاریخ میں اِس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ مسلمان اِس نیّت سے وہاں گئے تھے بلکہ غور کیا جاوے تو قطعٔ نظر دوسرے شواہد کے صرف عبد اللہ بن اُنیسؓ کے یہ الفاظ ہی کہ اَے دشمن خدا! کیا غداری کی نیّت ہے؟ اور پھر آنحضرتؐ کے یہ الفاظ کہ شکر کرو کہ خدا نے تمہیں اِس ظالم پارٹی سے نجات دی اِس بات کے ثابت کرنے کےلیے کافی ہیں کہ مسلمانوں کی نیّت بالکل صاف اور پُر امن تھی۔
پھر ہے سریہ عمرو بن اُمیہ ضمری
یہ ابوسفیان کی طرف گیا تھا۔ ابنِ ہشّام، ابنِ کثیر اور طبری وغیرہ نے اِس سریّہ کو چار ہجری کے ضمن میں واقعۂ رجیع کے بعد بیان کیا ہے، لیکن ابنِ سعد اور زرقانی نے اِس سریّہ کو چھ ہجری کے سرایا کے ذیل میں بیان کیا ہے۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی سیرت خاتم النبیینؐ میں اِس سریّہ کو چھ ہجری میں بیان کیا ہے۔
اِس سریّہ کی تفصیل یوں ہے کہ ابوسفیان نے قریش کے چند آدمیوں کو کہا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے، جو محمد(صلی الله علیہ وسلم) کو اچانک قتل کر دے، جب وہ بازاروں میں چلتے پھرتے ہوں۔ چنانچہ ابو سفیان کے پاس بادیہ نشینوں میں سے ایک آدمی اِن کے گھر آیا اور کہا کہ تُو مجھے لوگوں میں سے سب سے زیادہ مضبوط دل والا پائے گا، میری گرفت اِن سے زیادہ سخت ہے اور مَیں سب سے تیز بھاگ سکتا ہوں، اگر تُو میری مدد کرے تو مَیں اِن کی طرف جاؤں گا، یہاں تک کہ اچانک محمد (صلی الله علیہ وسلم) پر حملہ کر دُوں۔ اور میرے پاس ایک خنجر ہے، جو گدھ کے پَر کی طرح ہے ، اُس سے مَیں محمد (صلی الله علیہ وسلم ) پر حملہ کروں گا۔ پھر مَیں کسی قافلے میں مل جاؤں گا اور بھاگ کر اِس قوم سے آگے بڑھ جاؤں گا، کیونکہ راستے کا مَیں بہت ماہر ہوں۔
ابو سفیان نے کہا کہ تُو ہی ہمارا ساتھی ہے، چنانچہ ابو سفیان نے اِس کو اونٹ اور زادِ راہ دیا اور کہا کہ اپنے کام کو پوشیدہ رکھنا۔وہ رات کو نکلا اور اپنی سواری پر پانچ دن چلتا رہا اور چھٹی صبح وہ حرّہ میں پہنچا۔ وہ پھر مدینہ پہنچ کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوا اور رسول اللهؐ کے بارے میں پوچھنے لگا۔ یہاں تک کہ اُسے آپؐ کے متعلق بتایا گیا، تو اُس نے اپنی سواری کو باندھا، پھر آپؐ کی طرف آیا اور آپؐ بنو عبدالاشھل کی مسجد میں تھے۔
جب نبیٔ کریمؐ نے اِس کو دیکھا تو فرمایا کہ
یقیناً اِس آدمی کا دھوکا دینے کا ارادہ ہے اور الله تعالیٰ اِس کے اور اِس کے ارادہ کے درمیان حائل ہے۔
چنانچہ وہ آپؐ پر حملہ کرنے کے لیے چلا ،تو اُسَیْد بن حُضَیْر نے اِس کو اِس کی چادر کے اندر والے کنارے کی طرف سے پکڑ کر کھینچا ، تو اچانک اُس کے ہاتھ سے خنجر گر پڑا اَور وہ پکارنے لگاکہ میرا خون، میرا خون! یعنی میری جان بخشی کر دو۔ حضرت اُسَیْد نے اُس کو گردن سے پکڑا، پھر چھوڑ دیا، رسول اللهؐ نے اِس سے فرمایا کہ مجھے سچ سچ بتاؤ کہ تم کون ہو؟ اُس نے کہا کہ مَیں اَمان طلب کرتا ہوں۔آپؐ نے فرمایا کہ ہاں! ٹھیک ہے۔ اِس نے اپنا کام اور جو کچھ ابوسفیان نے اِس کے لیے مقرر کیا، بتایا، تو آپؐ نے اُس کو چھوڑ دیا۔ اور اِس شفقت پر وہ مسلمان ہو گیا اور کہنے لگا کہ اَے محمدؐ! مَیں لوگوں سے نہیں ڈرتا تھا، لیکن جب مَیں نے آپؐ کو دیکھا تو میری عقل چلی گئی اور میرا دل کمزور ہو گیا۔ پھر مَیں اپنے اِس ارادہ پر آگاہ ہوا، جو میرا عزم تھا، جس کے بارہ میں کئی سوار کوشش کر چکے تھے۔ مگر کوئی کامیاب نہ ہوا۔ مَیں نے جان لیا کہ آپؐ کی حفاظت کی گئی ہے اور یقیناً آپؐ حقّ پر ہیں۔ اور ابوسفیان کا لشکر شیطان کا لشکر ہے۔اِس پر آپؐ مسکرانے لگے۔ پھر وہ آپؐ سے اجازت لے کر چلا گیا۔اِس کے بعد اِس آدمی کا کوئی ذکر نہیں سنا گیا۔
ابوسفیان کی اِس خونی سازش نے اِس بات کو آگے سے بھی زیادہ ضروری کر دیا کہ مکّہ والوں کے ارادے اور نیّت سے آگاہی رکھی جائے ۔ چنانچہ آپؐ نے اپنے دو صحابہؓ عَمر و بن اُمَیَّہ ضَمْرِی اور سلمہ بن اسلم کو مکّہ کی طرف روانہ فرمایا اور ابوسفیان کی اِس سازش ِقتل اور اِس کی سابقہ خون آشام کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے اُنہیں اجازت دی کہ اگر موقع پائیں تو بیشک اسلام کے اِس حربی دشمن کا خاتمہ کر دیں ۔ مگر جب اُمیہ اور اِن کا ساتھی مکّہ میں پہنچے تو قریش ہوشیار ہو گئے اور یہ دو صحابی اپنی جان بچا کر مدینہ کی طرف واپس لَوٹ آئے ۔ راستہ میں اُنہیں قریش کے دو جاسوس مل گئے، جنہیں رؤسائے قریش نے مسلمانوں کی حرکات و سکنات کا پتا لینے اور آنحضرتؐ کے حالات کا علم حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا اور کوئی تعجّب نہیں کہ یہ تدبیر بھی قریش کی کسی اور خونی سازش کا پیش خیمہ ہو۔ مگر خدا کا فضل ہوا کہ اُمیہ اور سلمہ کو اِن کی جاسوسی کا پتا چل گیا ، جس پر انہوں نے اِن جاسوسوں پر حملہ کر کے اُنہیں قید کر لینا چاہا، مگر اُنہوں نے سامنے سے مقابلہ کیا۔ چنانچہ اِس لڑائی میں ایک جاسوس تو مارا گیا اور دوسرے کو قید کر کے وہ اپنے ساتھ مدینہ میں واپس لے آئے ۔
حضورِ انور نے ارشاد فرمایا کہ باقی ان شاء الله آئندہ!
حضورِ انور نےجماعت احمدیہ پاکستان نیز فلسطین کے لیے دعا کی تحریک فرمائی جس کی تفصیل درج ذیل لنک پر موجود ہے۔
https://www.alfazl.com/2025/01/17/114973/
خطبہ ثانیہ سے قبل حضورِ انور نے درج ذیل تین مرحومین کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے اِن کی نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان بھی فرمایا۔
۱۔ شیخ مبارک احمد صاحب(ناظر دیوان صدر انجمن احمدیہ ربوہ ): یہ ۱۱؍جنوری ۲۰۲۴ء کو ستتر سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔شیخ مبارک احمدصاحب نے بی اے بی ایڈ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۹۶۶ء سے ۱۹۸۱ء تک تقریباً پندرہ سال بطور اُستاد تعلیم الاسلام ہائی سکول میں خدمت کی۔۱۹۷۳ء میں جب سکول نیشنلائز ہو گئے تھے تو اِس کےبعد پھر اِنہوں نے بعض دوسرے سکولوں میں حکومت کی سروس بھی کی۔ ۱۹۸۲ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ الله کی خدمت میں اِنہوں نے وقف کےلیےاپنے آپ کو پیش کیا، اُنہوں نے اِن کا وقف قبول فرمایا ۔الله تعالیٰ کے فضل سے وقف کو اِنہوں نے خوب نبھایا ہے، مَیں نے بھی دیکھا ہے، میرے ساتھ بھی اِنہوں نے کام کیا ہے، مَیں بھی صدر انجمن میں تھا۔ ہمیشہ ایک مثال تھے دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے کی، سادہ رہنا، سادگی سے زندگی گزارنا اور اپنا پورا وقت دینا۔ اکثر یہ ہوتا تھا کہ دَورہ کیا اور دَورہ کر کے واپس آئے ہیں، دفتربھی اٹینڈ کیا اور شام کو پھر دَورے پر چلے گئے اور یہی کوشش ہوتی تھی کہ مجھے خدمت کا موقع ملتا رہے۔ اِن کے بچوں میں سے کبھی کسی نے آرام کا مشورہ دیا تو اِنہوں نے کہا کہ میری ریٹائرمنٹ میری وفات پر ہی ہو گی۔ الله تعالیٰ اِن سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
۲۔ مکرم محمد منیر اِدلبی صاحب آف قطر: اِن کی گذشتہ دنوں میں چھہترسال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔ فعّال مبلغ، مقرر ، دانشور اور احمدی تبلیغی علوم کے مصنف تھے۔ ۱۹۸۴ء کے شروع میں بیعت کی، جب اُنہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرّابعؒ سے ملاقات کی تو پھر یہاں لندن میں لمبا عرصہ قیام کیا اور لقاء مع العرب کے کچھ پروگراموں نیز بعض دیگر پروگراموں کا ترجمہ بھی کیا۔ اِنہوں نے دس سے زیادہ کتابیں بھی لکھیں جن میں سے سات کتب جماعتِ احمدیہ کی تبلیغ پر مشتمل مضامین کے بارہ میں ہیں۔ دیر سے آئے لیکن بہت کام کر گئے۔ شام جماعت میں سیکرٹری تبلیغ اور سیکرٹری تعلیم و تربیت کے طور پر خدمت کی۔درجنوں احباب نے اِن کے ذریعہ سے بیعت کی۔۲۰۱۳ء میں شام کے حالات خراب ہونے کے بعد اپنے بچوں کے ساتھ قطر چلے گئے اور وہاں فیس بُک پر احمدیت اور خلافت کے بارہ میں لکھتے رہے۔ جہاں بھی موقع ملتا، وہاں بیٹھ کر گفتگو کو احمدیت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اورآپؑ کے پیغام کی تبلیغ کی طرف موڑنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ الله تعالیٰ اِن سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔
۳۔ عبدالباری طارق صاحب(انچارج کمپیوٹر سیکشن وقفِ جدید ربوہ): اِن کی گذشتہ دنوں وفات ہو گئی۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ اِن کے پڑدادا مکرم محمد یار صاحب ساکن گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ کے ذریعہ ہوا۔ مرحوم نے ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس کی تعلیم پائی۔پھر کراچی میں ملازمت کرتے رہے، پھر اِن کو کینسر کی بیماری ہو گئی اور اُس سے صحت یاب ہوئے اور پھر دوبارہ کینسر عود کر آیا، پھر اِنہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرّابعؒ کی خدمت میں لکھا، اُنہوں نے اِن کو ہومیو پیتھی دوائی بھیجی، ساتھ ہی اِنہوں نے وقف کی بھی درخواست کی تھی جسے حضرت خلیفۃ المسیح الرّابعؒ نے منظور فرمایا۔اِنہوں نے عہد کیا تھا کہ بیماری سے صحت یاب ہو کر وقف کروں گا، صحت یاب ہوئے، تو پھر اِنہوں نے اکیس سالہ وقف کا عرصہ بےنفس ہو کر کام کیا، نہ دن دیکھا نہ رات دیکھی اور ایسا نمونہ واقفین کے لیے قائم کیا جو قابلِ تقلید ہے۔ انصار الله مرکزیہ میں بھی قائد کے طور پر کام کر رہے تھے ، وہیں جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے تو اِن کو ہارٹ اٹیک ہوا اَور اِن کی وفات ہو گئی۔ سافٹ ویئر وغیرہ بنانے کی کچھ اجرت لینے کے مشورہ پر کہنے لگے کہ مَیں وقفِ زندگی ہوں اور مجھے معاوضہ خدا کے پاس ملے گا۔آپ نے وقف کے تقاضوں کو بخوبی نبھایا۔ الله تعالیٰ اِن سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔
٭…٭…٭