خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 3؍ جنوری 2025ء

حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے آدم کے بیٹے! تُو اپنا خزانہ میرے پاس جمع کر کے مطمئن ہوجا۔
نہ آگ لگنے کا خطرہ ہے، نہ پانی میں ڈوبنے کا اندیشہ ہے اور نہ کسی چور کی چوری کا ڈر ہے۔
میرے پاس رکھا گیا خزانہ اس دن پورا تجھے دوں گا جبکہ تُو اس کا سب سے زیادہ محتاج ہو گا

ایک حقیقی مومن جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش میں رہتاہے، نیکیوں کے وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے اوراسے کرنی چاہئیں جو اس کو خدا تعالیٰ کے قریب لانے والی ہوں

’’بات یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی رضا مندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے حاصل نہیں ہو سکتی جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں۔‘‘

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں۔ ان میں سے ایک کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے سخی کو اَور دے اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے اَور پیدا کر۔
دوسرا کہتا ہے کہ اللہ روک رکھنے والے کنجوس کو ہلاک کر دے اور اس کا مال و متاع برباد کر دے

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر مالی قربانیوں کے لیے بہت زیادہ تحریک فرمائی ہے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا تھا کہ مال تو میں تجھے دوں گا اور وہ مال اللہ تعالیٰ دے رہا ہے۔اللہ تعالیٰ جماعت کو اس کو صحیح مصرف میں لانے کی بھی توفیق ہمیشہ دیتا رہے۔ صحیح خرچ کرنے کی توفیق دے اور اس میں کبھی کسی قسم کی بےقاعدگی نہ ہو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کے ستاسٹھ ویں (67) سال کے دوران جماعت ہائے احمدیہ عالمگیر کو ایک کروڑ 36؍ لاکھ 81؍ ہزار پاؤنڈز کی مالی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی۔ یہ وصولی گذشتہ سال کے مقابلے میں 7؍ لاکھ 36؍ ہزار پاؤنڈز زیادہ ہے

قربانیوں کے لحاظ سے اول نمبر پر برطانیہ ہے

وقف جدید کے ستاسٹھ ویں(67)سال کے دوران افرادِ جماعت کی طرف سے پیش کی جانے والی مالی قربانیوں کا تذکرہ اور اڑسٹھ ویں(68)سال کے اجرا کا اعلان

مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مخلص احمدیوں کی مالی قربانیوں کے ایمان افروز واقعات کا پُراثربیان

دنیا بھر کے احمدیوں کے لیے، دنیا کی بگڑتی صورتِ حال کے پیش نظر نیز مظلوموں کی ظالم کے ظلم سے نجات کے لیے دعاؤں کی تحریک

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 3؍ جنوری 2025ء بمطابق3؍ صلح 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ۔

(آل عمران :93)

اس آیت کا ترجمہ ہے کہ تم کامل نیکی کو ہرگز نہیں پا سکتے جب تک اپنی پسندیدہ اشیاء میں سے خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کرو اور جو کوئی چیز بھی تم خرچ کرو اللہ اسے یقیناً خوب جانتا ہے۔

بِرّ اعلیٰ قسم کی نیکی اور کامل نیکی کو کہتے ہیں

جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ کامل نیکی تم اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک تم اپنی پسندیدہ چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر قربان نہ کرو اور ان کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے خرچ نہ کرو۔ پس

ایک حقیقی مومن جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش میں رہتاہے،
نیکیوں کے وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے اور
اسے کرنی چاہئیں جو اس کو خدا تعالیٰ کے قریب لانے والی ہوں۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لیے مختلف جگہوں میں مختلف رنگ میں تلقین کی گئی ہے۔ مختلف نیکیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور

اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال کے خرچ کو بھی ایک نیکی قرار دیا گیا ہے۔

اس آیت میں بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کو بہت بڑی نیکی قرار دیا گیا ہے اور فرمایا کہ جس مال یا جس چیز سے تم محبت کرتے ہو اگر وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو گے تو تب یہ بڑی نیکی ہو گی۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر نیکی کا اجر دیتا ہے جو اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے کی جائے لیکن انسان کو مال سے کیونکہ محبت ہوتی ہے اس لیے اس کی طرف بھی خاص توجہ دلائی گئی ہے۔ پس ایمان اور سچی نیکی اور قربانی کے اعلیٰ معیار کا ایک معیار اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کو مقرر فرمایاہے جس کو تم پسند کرتے ہو جیسا کہ فرمایا اس محبت کے بغیر اصل نیکی وہی ہے کہ تم وہ چیز دو اللہ کی راہ میں جس سے تم محبت کرتے ہو لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اسے قربان کر دیتے ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بارے میں بہت سی جگہوں پر وضاحت فرمائی ہے۔ چنانچہ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں ’’مال کے ساتھ محبت نہیں ہونی چاہیے‘‘ آجکل کے زمانے میں تو خاص طور پہ یہ بڑا مشکل کام ہے۔ فرمایا مال کے ساتھ محبت نہیں ہونی چاہیے۔ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ۔ تم ہرگز نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ تم ان چیزوں میں سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو جن سے تم پیار کرتے ہو۔

اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے ساتھ آجکل کے حالات کا مقابلہ کیاجاوے تو اِس زمانہ کی حالت پر افسوس آتا ہے کیونکہ جان سے پیاری کوئی شئے نہیں اور اُس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان ہی دینی پڑتی تھی۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں۔ فرمایا کہ ’’تمہاری طرح وہ بھی بیوی اور بچے رکھتے تھے۔ جان سب کو پیاری لگتی ہے مگر وہ ہمیشہ اس بات پر حریص رہتے تھے کہ موقع ملے تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان قربان کر دیں۔‘‘

پھر آپؑ نے فرمایا کہ ’’بیکار اور نکمی چیزوں کے خرچ سے کوئی آدمی نیکی کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ نیکی کا دروازہ تنگ ہے۔ پس یہ امر ذہن نشین کر لو کہ نکمی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی اس میں داخل نہیں ہو سکتا کیونکہ نص صریح ہے لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ۔ جب تک عزیز سے عزیز اور پیاری سے پیاری چیزوں کو خرچ نہ کرو گے اس وقت تک محبوب اور عزیز ہونے کا درجہ نہیں مل سکتا۔ اگر تکلیف اٹھانا نہیں چاہتے اور حقیقی نیکی کو اختیار کرنا نہیں چاہتے تو کیونکر کامیاب اور بامراد ہو سکتے ہو؟‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’کیا صحابہ کرام مفت میں اس درجہ تک پہنچ گئے جو ان کو حاصل ہوا۔ دنیاوی خطابوں کو حاصل کرنے کے لیے کس قدر اخراجات اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں تو پھر کہیں جا کر ایک معمولی خطاب جس سے دلی اطمینان اور سکینت حاصل نہیں ہو سکتی ملتا ہے پھر خیال کرو کہ رضی اللہ عنہم کا خطاب جو دل کو تسلی اور قلب کو اطمینان اور مولیٰ کریم کی رضا مندی کا نشان ہے کیا یونہی آسانی سے مل گیا؟‘‘آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’بات یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی رضا مندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے حاصل نہیں ہو سکتی جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں۔‘‘

فرمایا ’’خدا ٹھگا نہیں جا سکتا۔

مبارک ہیں وہ لوگ! جو رضائے الٰہی کے حصول کے لیے تکلیف کی پرواہ نہ کریں کیونکہ ابدی خوشی اور دائمی آرام کی روشنی اس عارضی تکلیف کے بعد مومن کو ملتی ہے۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد سوم صفحہ177-178)

پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے۔ اسی واسطے علمِ تعبیر الرؤیا میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے‘‘ خواب میں ’’کہ اس نے جگر نکال کر کسی کو دے دیا ہے تو اس سے مراد مال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقی اتقاء اور ایما ن کے حصول کے لیے فرمایا۔ لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ۔ حقیقی نیکی کو ہرگز نہ پاؤ گے جب تک تم عزیز ترین چیز نہ خرچ کرو گے کیونکہ مخلوقِ الٰہی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے …اور ابنائے جنس‘‘ یعنی اپنی قوم کے لوگوں ’’اور مخلوقِ خدا کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے جو ایمان کا دوسرا جزو ہے جس کے بدوں ایمان کامل اور راسخ نہیں ہوتا۔ جب تک انسان ایثار نہ کرے دوسرے کو نفع کیونکر پہنچا سکتا ہے۔‘‘نفع پہنچانے کے لیے تو قربانی کرنی پڑتی ہے۔ ’’دوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لیے ایثار ضروری شئے ہے اور اس آیت میں لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ۔ میں اسی ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے۔ پس

مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی
انسان کی سعادت اور تقویٰ شعاری کا معیار اور محک ہے۔‘‘

آپؑ نے فرمایا کہ ’’ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ کی زندگی میں للہی وقف کا معیار اورمحک وہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ضرورت بیان کی اور وہ کل اثاث البیت لے کر حاضر ہو گئے۔‘‘ (ملفوظات جلد2 صفحہ 95-96۔ ایڈیشن 1984ء)گھر کا سارا سامان لے کے حاضر ہو گئے۔

پھر آپ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’مال سے محبت نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ۔ یعنی تم بِر تک نہیں پہنچ سکتے‘‘ اس حقیقی نیکی تک، کامل نیکی تک نہیں پہنچ سکتے ‘‘جب تک وہ مال خرچ نہ کرو جس کو تم عزیز رکھتے ہو۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد سوم صفحہ180)

جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ بِرّ اس نیکی کو کہتے ہیں جو اعلیٰ قسم کی ہو اور کامل نیکی ہو۔ پس یہ وہ راز ہے جسے آج جماعت احمدیہ کے افراد نے صحیح طور پر سمجھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تربیت کا یہ اثر ہے کہ آج تک یہ قربانی کے معیار ہم دیکھتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ معیار جو صحابہؓ نے قائم کیے پھر جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں آپؑ کے قریب رہنے والوں نے اور آپؑ کے صحابہ نے قائم کیا۔ پھر اس کے بعد خلافت کے دور میں ہر زمانے میں ہم یہ قربانیاں دیکھتے چلے آتے ہیں اور آج تک یہی قربانیاں ہمیں نظر آ رہی ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مالی قربانی کی بہت زیادہ تحریک فرمائی تھی اور اس بات کو آپؐ کے صحابہ نے سمجھا اور اس پر خوب عمل کیا۔ ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں کرنا چاہیے۔ ایک وہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے اسے راہ حق میں خرچ کر دیا۔ دوسرے وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے سمجھ، دانائی اور علم و حکمت دی جس کی مدد سے وہ لوگوں کے فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا ہے۔

(صحیح البخاری کتاب العلم باب الاغتباط فی العلم والحکمۃ حدیث 73)

پس یہ معیار تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ میں قائم فرمانے کے لیے نصیحت فرمائی اور یہ قائم ہوا۔ ایک روایت میں آتا ہے جو حضرت ابومسعود انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صدقہ کرنے کا ارشاد فرماتے تو ہم میں سے کوئی بازار کو جاتا، وہاں محنت مزدوری کرتا، اسے اجرت کے طور پر ایک مُد اناج وغیرہ ملتا (یہ مُد ایک پیمانہ ہے چند کلو کے برابر) یا جو چیز بھی ملتی وہ اسے صدقہ کر دیتا۔ یہ کوشش ہوتی کہ ہم نے اس تحریک میں حصہ لینا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے اور کما کے حصہ لینا ہے۔ یہ نہیں کہ کسی سے مانگ کے حصہ لینا ہے بلکہ محنت کر کے، کما کے حصہ لینا ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ان میں سے اب بعضوں کا یہ حال ہے، اللہ تعالیٰ نے ان قربانیوں کا اتنا ان کو اجر دیا کہ اب ایک ایک لاکھ درہم ان کے پاس موجود تھے۔ جو مزدوری کر کے چندے دیا کرتے تھے وہ اب لاکھوں کے مالک ہیں۔

(صحیح البخاری کتاب الزکاۃ باب اتقوا النار ولو بشق تمرۃ حدیث 1416)

تو یہ ہے قربانی کی وہ برکت۔ پس یہی وہ راز ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بھی اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں نصیحت فرمائی کہ تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اس میں سے خرچ کرو جس سے تمہیں محبت ہے۔ روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ چندوں کی تحریک کرتے تھے تو صحابہؓ گھر میں جو کچھ ہوتا لے آتے اور مختلف چیزوں کے وہاں ڈھیر لگ جاتے۔

تو جماعتی ضرورت کے لیے چندے کی ضرورت ہوتی ہے، مال کی ضرورت ہوتی ہے، چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمیشہ سے انبیاء کی جماعت نے اس کو سمجھا اور اپنے اپنے طور پر جس حد تک وہ لوگ قربانی کر سکتے تھے وہ انہوں نے کی۔

مالی قربانی کے کتنے فضل ہوتے ہیں؟

اس بارے میں ایک جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا، اپنی نسبتی ہمشیرہ حضرت اسماء کو یہ نصیحت فرمائی کہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر ہی دیا کرے گا۔ اپنے روپوؤںکی تھیلی کا منہ بند کر کے کنجوسی سے نہ بیٹھ جاؤ ورنہ پھر اس کا منہ بند ہی رکھا جائے گا۔ فرمایا کہ جتنی طاقت ہے کھول کر خرچ کرو۔ اللہ پر توکل کرو اللہ دیتا چلا جائے گا۔

(صحیح البخاری کتاب الزکاۃ باب التحریض علی الصدقۃ والشفاعۃ فیھا حدیث 1433)

پھر آپؐ نے ایک موقع پر فرمایا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے سخی کو اَور دے اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے اَور پیدا کر۔ دوسرا کہتا ہے کہ اللہ روک رکھنے والے کنجوس کو ہلاک کر دے اور اس کا مال و متاع برباد کر دے۔

(صحیح البخاری کتاب الزکاۃ باب قول اللّٰہ تعالیٰ فامّا من اعطی … الخ حدیث 1442)

بہرحال یہ راز آجکل احمدیوں کو معلوم ہے۔ بہت ساری مثالیں ہیں جن سے احمدیت کی تاریخ بھری پڑی ہے اور ہر روز اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ خرچ کرنے والے سخی کی کیا اہمیت ہے۔

ایک شخص نے لکھا کہ میرے پاس صرف تھوڑی سی ایک رقم تھی اور اس رقم سے میں نے کاروبار کرنا تھا۔ کوئی ضروری چیزیں لینی تھیں۔ حالات بڑے ناسازگار تھے اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ کاروبار ہو بھی سکے گا کہ نہیں۔ میرے باپ نے مجھے کہا کہ یہ جتنی رقم ہے تم چندے میں دے دو۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر قربان کر دو۔ چنانچہ میں نے چندہ دے دیا اور اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا فرمائے کہ ایک ایسا آرڈر مجھے مل گیا جس سے کئی گنا زیادہ رقم مجھے میسر آ گئی اور پھر میں نے وہ کاروبار شروع کیا اور اس میں اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت ڈالی کہ بےشمار مال آنے لگ گیا۔

تو یہ تجربات اللہ تعالیٰ اس زمانے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والوں، آپؑ کے غلاموں کو ان کے ایمان میں زیادتی کے لیے دکھاتا رہتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر مالی قربانیوں کے لیے
بہت زیادہ تحریک فرمائی ہے۔

حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور یہ حدیث قدسی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے حوالے سے آپؐ نے یہ بیان فرمایا کہ

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے آدم کے بیٹے! تُو اپنا خزانہ میرے پاس جمع کر کے مطمئن ہو جا۔ نہ آگ لگنے کا خطرہ ہے نہ پانی میں ڈوبنے کا اندیشہ ہے اور نہ کسی چور کی چوری کا ڈر ہے۔ میرے پاس رکھا گیا خزانہ اس دن پورا تجھے دوں گا جبکہ تو اس کا سب سے زیادہ محتاج ہو گا۔ یعنی مرنے کے بعد کی زندگی جب انسان کو کوئی پتہ نہیں ہوتا اس کے ساتھ کیا سلوک ہونا ہے۔ اس کو اپنی نیکیوں کا تو پتہ نہیں ہوتا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری قربانیاں جو ہیں میں تمہیں ان کا اجر دوں گا اور اس کے ذریعہ سے تمہاری بخشش کے سامان ہو جائیں گے۔

(الجامع لشعب الایمان للبیہقی جلد 5 صفحہ 45 حدیث 3071 مکتبۃ الرشد)

یہ ہے وہ سودا جو اللہ تعالیٰ ایک مومن سے کرتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’میں یقیناً سمجھتا ہوں کہ بخل اور ایمان ایک ہی دل میں جمع نہیں ہو سکتے۔ جو شخص سچے دل سے خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے وہ اپنا مال صرف اس مال کو نہیں سمجھتا کہ اس کے صندوق میں بند ہے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے تمام خزائن کو اپنے خزائن سمجھتا ہے اور اِمساک اس سے اس طرح دور ہو جاتا ہے‘‘ یعنی کنجوسی اس سے دور ہو جاتی ہے ’’جیسا کہ روشنی سے تاریکی دور ہو جاتی ہے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ498۔ایڈیشن1989ء)

پھر آپؑ نے فرمایا کہ ’’قوم کو چاہیے کہ ہر طرح سے اس سلسلہ کی خدمت بجا لاوے۔ مالی طرح پر بھی خدمت کی بجاآوری میں کوتا ہی نہیں ہونی چاہیے۔ دیکھو! دنیا میں کوئی سلسلہ بغیر چندہ کے نہیں چلتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سب رسولوں کے وقت چندے جمع کئے گئے۔ پس ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی اس امر کا خیال ضروری ہے۔ اگر یہ لوگ التزام سے ایک ایک پیسہ بھی سال بھر میں دیویں تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد6صفحہ 38-39۔ایڈیشن 1984ء)

اس بارے میں حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نمونہ دیکھیں وہ کیا تھا۔ کس طرح آپؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے آپ کے مشن کو پورا کرنے کے لیے قربانی کی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’اگر میں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں فدا کر کے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور ہر دم صحبت میں رہنے کا حق ادا کرتے۔‘‘ پھر آپؑ نے لکھا کہ ’’ان کے بعض خطوط کی چند سطریں بطور نمونہ ناظرین کو دکھلاتا ہوں‘‘ انہوں نے لکھا یعنی حضرت خلیفہ اوّلؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لکھا کہ ’’میں آپ کی راہ میں قربان ہوں۔ میرا جو کچھ ہے میرا نہیں آپ کا ہے۔ …حضرت پیرو مرشد میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا۔ اگر خریدار براہین کے توقف طبع کتاب سے مضطرب ہوں۔‘‘ یعنی اگر خریداروں کی کمی کی وجہ سے یا ان کے پیسے نہ دینے کی وجہ سے کتاب کی اشاعت میں کوئی روک آ رہی ہے۔ ’’تو مجھے اجازت فرمایئے کہ یہ ادنیٰ خدمت بجا لاؤں کہ ان کی تمام قیمت ادا کردہ اپنے پاس سے واپس کر دوں‘‘ اور جو آمد آئے وہ بھی واپس کر دوں۔ اور بڑے درد سے آپؓ نے فرمایا کہ ’’…میری سعادت ہے۔‘‘ بلکہ آپؓ نے فرمایا کہ ’’میرا منشاء ہے…‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ عرض کیا کہ ’’میرا منشاء ہے کہ براہین کی طبع کا تمام خرچ میرے پر ڈال دیا جائے۔ ‘‘(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 35۔36)یہ حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قربانی کا معیار تھا۔

حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب وقفِ جدید کی اور تحریکِ جدید کی تحریک کی ہے تو بےشمار لوگوں نے، غریب لوگوں نے تھوڑی تھوڑی رقمیں لا کے چندے میں دینی شروع کیں۔ کوئی مرغی لے آیا، کوئی مرغی کے انڈے لے آیا اور یہ کہا کہ ہمارے پاس جو کچھ تھا وہ ہم نے پیش کر دیا

اور اُس زمانے میں بھی جہاں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ غریبوں کی مثال پیش کرتے تھے وہاں بعض پرانے بزرگوں کی مثال بھی پیش کرتے تھے۔

اسی ضمن میں آپؓ نے ایک مثال حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ کی پیش کی ہے جو حضرت خلیفةالمسیح الثانی ؓکی پہلی حرم یعنی حضرت ام ناصر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد تھے۔ اس طرح یہ حضرت خلیفةالمسیح الثالثؒ کے نانا تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا کہ ’’جب انہوں نے ایک دوست سے‘‘یعنی حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ نے ’’حضرت مسیح موعود کا دعویٰ سنا تو آپ نے سنتے ہی فرمایا کہ اتنے بڑے دعویٰ کا شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا۔‘‘ پس مجھے کوئی دلیلوں کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہ دعویٰ ہی اتنا بڑا ہے کہ مجھے کسی اَور دلیل کو سننے کی ضرورت نہیں۔ مَیں مانتا ہوں کہ وہ مسیح موعود ہی ہیں ’’اور آپ نے بہت جلد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بیعت کر لی۔ حضرت صاحب نے ان کا نام اپنے بارہ حواریوں میں لکھا ہے اور ان کی مالی قربانیاں اس حد تک بڑھی ہوئی تھیں کہ حضرت صاحب نے ان کو تحریری سند دی کہ آپ نے سلسلہ کے لیے اس قدر مالی قربانی کی ہے کہ آئندہ آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں‘‘ گو وہ قربانیاں تو کرتے رہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس طرح خوشنودی کا اظہار فرمایا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ زمانہ مجھے یاد ہے جبکہ آپؑ پر مقدمہ گورداسپور میں ہو رہا تھا اور اس میں روپیہ کی ضرورت تھی۔ حضرت صاحب نے دوستوں میں تحریک بھیجی کہ چونکہ اخراجات بڑھ رہے ہیں، لنگر خانہ دو جگہ پر ہو گیا ہے ایک قادیان میں اور ایک یہاں گورداسپور میں۔‘‘حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی موجودگی کی وجہ سے وہاں بھی لوگ آتے تھے اور کھانا بھی انہیں دیا جاتا تھا۔ فرمایا ’’اور اس کے علاوہ مقدمہ پر بھی خرچ ہو رہا ہے۔ لہٰذا دوست امداد کی طرف توجہ کریں۔‘‘ یعنی اخراجات کے لیے چندہ دیں۔ ’’جب حضرت صاحب کی تحریک ڈاکٹر صاحب کو پہنچی تو اتفاق ایسا ہوا کہ اسی دن ان کو تنخواہ تقریباً چار سو پچاس روپے ملی تھی۔‘‘ جو اس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی۔ ’’وہ ساری کی ساری تنخواہ اسی وقت حضرت صاحب کی خدمت میں بھیج دی۔ ایک دوست نے سوال کیا‘‘ ڈاکٹر صاحب سے کہا ’’کہ آپ گھر کی ضروریات کے لیے کچھ رکھ لیتے تو انہوں نے‘‘ڈاکٹر صاحب نے ’’کہا کہ خدا کا مسیح لکھتا ہے کہ دین کے لیے ضرورت ہے تو پھر اَور کس کے لیے رکھ سکتا ہوں۔ غرض

ڈاکٹر صاحب تو دین کے لیے قربانیوں میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ حضرت صاحب کو انہیں روکنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور انہیں کہنا پڑا کہ اب آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں۔‘‘

(تقاریر جلسہ سالانہ 1926ء، انوارالعلوم جلد9صفحہ 403)

پس یہ نمونے تھے جو پرانے صحابہؓ نے قائم کیے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہؓ نے قائم کیے۔ پھر ہر خلافت کے دور میں یہ نمونے نظر آتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کے ہی ایک دو اَور واقعات

بیان کر دیتا ہوں۔ حضرت صوفی نبی بخش صاحبؓ مہاجر قادیان کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں سالانہ جلسے پر حاضر ہوا تو میں نے عرض کی کہ میں نے خلوت میں، علیحدگی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کچھ عرض کرنا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اندر آ جاؤ۔ کہتے ہیں اتفاق سے وہ کھڑکی کھلی رہی جس دروازے سے اندر داخل ہوئے تھے وہ کھلا رہا اور میرے ساتھ اَور کئی احباب بھی اندر آ گئے۔ میں نے عرض کیا کہ والد صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے لڑکے کو اچھی اور اعلیٰ تعلیم دی ہے جب سے ملازم ہوا ہے ہماری کوئی خدمت نہیں کی۔ والد صاحب کا شکوہ ہے کہ بیٹے کو اتنی تعلیم میں نے دلوائی ہے ہماری خدمت کوئی نہیں کر رہا۔ مالی مدد کرنی چاہیے، نہیں کرتا۔ تو یہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عرض کیا کہ باپ یہ کہتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم دی اور خدمت کوئی نہیں کر رہے اور بیوی کہتی ہے کہ اچھا احمدی ہوا ہے کہ جو کچھ میرے پاس زیور تھا وہ بھی بک گیا۔ ہر چیز جا کے چندے میں دے دیتا ہے۔ شاید گھر کو چلانے کے لیے ان کو زیور بیچنا پڑتا ہو یا ضرورت کے وقت کوئی ایسی بات آ جاتی ہو جہاں زیور بیچنا ہو۔ اس بات پر بیوی کو شکوہ تھا۔ کہنے لگے کہ باپ کو بھی شکوہ ہے، بیوی کو بھی شکوہ ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اب میں قادیان آیا ہوں تو یہاں میں دیکھتا ہوں، یہاں کے نظارے دیکھ رہا ہوں کہ اس سلسلہ کی خدمت کے لیے آپ کے مرید ہزاروں روپیہ قربان کر دیتے ہیں اور آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے دوگنی تگنی تنخواہ دے تو میں آپ کی خدمت کر سکوں۔ ان شکووں کا ذکر کر کے پھر آپ کہتے ہیں کہ لوگوں کے نمونے جب دیکھتا ہوں تو میرے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں اس سے بڑھ کر دوں اور پھر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ ان کو دوسرے ملک میں ملازمت مل گئی اور تنخواہ بھی بڑھ گئی اور انہوں نے مالی مدد بھی کی اور اپنے گھر والوں کی مدد بھی کی۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر 15 صفحہ 105، روایت حضرت صوفی نبی بخش صاحبؓ)

وہ نیک لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوتِ قدسی کے نتیجہ میں اس زمانے میں یعنی وہ زمانہ بھی دنیاداری کا تھا جہاں دنیاداری غالب تھی پھر بھی وہ قربانیاں کر رہے تھے اور آج بھی یہ نمونے ہمیں دیکھنے میں نظر آتے ہیں جبکہ دنیاداری اس زمانے میں بڑھ کر غالب ہے اور پھر خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں۔ بعض غریب آدمی کس طرح قربانی کیا کرتے تھے آج بھی ہمیں یہ نمونے نظر آتے ہیں۔ افریقہ کے بعض لوگ اپنے واقعات بھیجتے ہیں لیکن میں پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کے غریب لوگوں کا نمونہ پیش کر دیتا ہوں۔

حضرت قاضی قمر الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سائیں دیوان شاہ کے بارے میں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں میں بھی سائیں صاحب سے کبھی کبھی دریافت کیا کرتا تھا کہ آپ کو قادیان تشریف لے جانے کی کوئی خاص وجہ ہے۔ بہت زیادہ قادیان جایا کرتے تھے کیونکہ جہاں ان کا گاؤں تھا سائیں صاحب وہاں سے گزر کر جایا کرتے تھے۔ قاضی صاحب کے گاؤں سے گزر کر جاتے تھے اور رات وہیں بسر کیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں سائیں دیوان شاہ نارووال کے رہنے والے تھے اور پیدل سفر کر کے قادیان جاتے تھے اور یہ کئی میل کا سفر تھا جو یہ طے کیا کرتے تھے۔ نارووال سے قادیان تک۔ وہ کہتے ہیں اگر بیچ میں سے بھی جائیں، شارٹ کٹ (short cut) کر کے بھی جائیں تب بھی قریباً سو میل کا فاصلہ ہو گا جو وہ پیدل سفر کرتے تھے۔ تو انہوں نے سائیں صاحب سے کہا۔ قادیان جانا کسی خاص وجہ سے ہے یا صرف شوقِ ملاقات میں جا رہے ہیں کہ جاؤں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مل لوں۔ تو سائیں صاحب کہتے ہیں کہ میں غریب آدمی ہوں۔ ایک تو یہ ہے کہ شوقِ ملاقات ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا۔ دوسرا یہ کہ میں غریب ہوں اور چندہ دے نہیں سکتا جس طرح امیر لوگ دیتے ہیں ہزاروں سینکڑوں میں۔ اس لیے جا رہا ہوں کہ مہمان خانہ کی چارپائیاں بناؤں گا اور میرے سر سے چندہ اتر جائے گا۔ یعنی چارپائیاں مفت بناؤں گا اور چندے کا بوجھ اتر جائے گا۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر 2 صفحہ 96، روایت حضرت قاضی قمر الدین صاحبؓ)

چندہ نہ دینے کی وجہ سے جو احساس رہتا ہے وہ بوجھ کم ہو جائے گا۔ یہ کام جو ہے چارپائیوں کے بُننے کا اس سے مجھے تسلی ہو جاتی ہے۔ پس میں لنگر خانے کی چارپائیاں بُن لیتا ہوں اور تسلی ہوتی ہے کہ مزدوری کا یہ کام کروں گا تو وہی میرا چندہ ہے۔

تو اس طرح کی روح تھی جو اس زمانےمیں بھی غریبوں میں بھی پیدا تھی۔ اس زمانے میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے لوگوں میں یہ روح پیدا کی ہوئی ہے۔ دور دراز رہنے والے ممالک کے لوگ جہاں چند سال پہلے احمدیت کا تعارف ہوا ہے ان لوگوں نے اسلام قبول کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ان کے مالی قربانیوں کے شوق کے بھی عجیب نظارے نظر آتے ہیں۔ چودہ سو سال پہلے کا جذبہ ان لوگوں میں بھی ہمیں نظر آتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جن بعضوں کی مثالیں اپنے زمانے میں دی ہیں ان کا جذبہ ہمیں نظر آتا ہے۔ اور

یہ وہ روح ہے جو آج جماعت احمدیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد ایمان میں تازگی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔

مارشل آئی لینڈ

کے مبلغ نے لکھا کہ لادری آئزک (Isacc) صاحبہ ایک مخلص رکن ہیں اور جماعت کے لنگر چلانے کے لیے انتھک محنت کرتی ہیں۔ جہاں روزانہ دو وقت کھانا تیار کیا جاتا ہے۔ آتی ہیں، پکاتی ہیں اور خدمت کرتی ہیں لیکن جب بھی انہیں تنخواہ ملتی ہے تو ان کا پہلا کام اپنے اور اپنے پانچ پوتے پوتیوں کی طرف سے مالی قربانی پیش کرنا ہوتا ہے اور ان کی وقفِ جدید کی قربانی جماعت میں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ مربی صاحب کہتے ہیں کہ بڑے غریب گھر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے گھروں کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بابرکت الفاظ یاد آ جاتے ہیں کہ متقی سچی خوشحالی ایک جھونپڑی میں پا سکتا ہے جو دنیا دار حرص و آز کے پرستار کو رفیع الشان قصر میں بھی نہیںمل سکتی۔

اسی طرح وہیں کی ایک اَور خاتون لورین (Loreen) صاحبہ ہیں یہ بھی

مارشل آئی لینڈ

میں جماعت کے لنگر میں کام کرتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے وقفِ جدید کے چندے کی یاددہانی کروائی کہ سال ختم ہو رہا ہے اور ہمارا چندہ پچھلے سال سے کم ہے۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ جمعہ کے بعد لورین صاحبہ دفتر آئیں اور اپنے وقفِ جدید کا چندہ پیش کیا تا کہ ہم پچھلے سال کا ہدف حاصل کر سکیں یا اس سے زیادہ کر سکیں۔

قازقستان

کے مبلغ سلسلہ ایان ابرائیف صاحب کے چندے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایان ابرائیف صاحب نے کہا کہ میں نے زندگی میں ایسا وقت بھی دیکھا ہے جب میرے پاس روٹی خریدنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ مجھے کھانے پینے کی چیزیں قرض لینا پڑتی تھیں اور میری بیوی متفکر رہتی تھی کہ ہم آگے کیسے زندگی گزاریں گے لیکن ان حالات میں بھی کہتے ہیں کہ میں نے چندہ ادا کرنا شروع کر دیا اور اب بھی میرا یہ اصول ہے کہ جب بھی میرے پاس پیسے آتے ہیں تو سب سے پہلے میں چندہ ادا کرتا ہوں لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا عجیب حسنِ سلوک ہے میرے ساتھ کہ جب بھی میں چندہ ادا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ مجھے بہتر مالی وسائل سے نواز دیتا ہے اور میری بیوی بعض دفعہ یہ پوچھتی ہے کہ یہ پیسے کہاں سے آئے ہیں؟ تو میں اس کو یہی کہتا ہوں یہ سب چندے کی برکت ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ادھار نہیں رکھتا اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جب تم مال کو میری خاطر خرچ کرو گے تو میں تمہیں دوں گا، بڑھا کے دوں گا اور اللہ تعالیٰ اپنا یہی وعدہ پورا کرتا ہے۔

کیمرون

کے ایک شہر مروہ کے قریب ایک جماعت ہے، وہاں ایک دوست محمد یوسن صاحب ہیں کہتے ہیں میں بہت غریب تھا۔ لوگوں کے فارم پر کام کرتا تھا لیکن احمدی ہونے کے بعد میں نے چندہ دینا شروع کیا اور چندے کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے نہ صرف میرے اس چندے کو قبول کیا بلکہ اس قدر نوازا کہ میرا اپنا فارم بن گیا اور یہ چیز مجھے تسلی دلاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کر لیا ہے کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بےشمار نوازا اور مجھے فارم کا مالک بنا دیا۔ کہاں میں مزدوری کرتا تھا اور کہاں میں اب اپنے فارم کا مالک بن گیا ہوں۔

نائیجر

ایک غریب جماعت ہے۔ وہاں کے مبلغ نے لکھا کہ ایک احمدی لاولی صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں ٹائیگرنَٹ (Tiger Nut)کاشت کرتا ہوں اور مَیں نے بتایا تو نہیں کہ اس کا دسواں حصہ چندے میں دے دوں گا لیکن دل میں ارادہ کیا ہوا تھا لیکن حالات ایسے ہوئے کہ کاشت کے بعد بارشیں بےشمار ہو گئیں اور فصل خراب ہونے کا خطرہ تھا۔ اس کے لیے پانی اتنا نہیں چاہیے ہوتا۔ ارد گرد کے ہمسائے جو تھے ان کی فصلیں خراب ہو گئیں یا بہت کم ہوئیں لیکن اللہ تعالیٰ نے میری فصل میں اتنی برکت ڈالی کہ جہاں لوگوں کو میرے سے زیادہ زمینوں پہ پانچ یا چھ بیگ ملتے تھے وہاں مجھے دس بیگ یا بوریاں حاصل ہوئیں بلکہ گیارہ بوریاں بھی میرے کھیتوں میں سے حاصل ہوتی رہیں اور ایسے حالات میں جبکہ فصل خراب ہوجائے تو قیمتیں بھی زیادہ ہو جاتی ہیں اور مارکیٹ میں پیسے انسان اچھے کما سکتا ہے لیکن انہوں نے پیسے کا لالچ نہیں کیا۔ انہوں نے دل میں اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا تھا اور کسی کو نہیں بتایا تھا کیونکہ دل میں اللہ تعالیٰ سے وعدہ کر لیا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانی کے لیے تیار ہو گئے اور اپنے وعدے کے مطابق وہ گیارہویں بوری جو تھی انہوں نے جماعت کو چندے میں دینی تھی وہ دے دی اور مال کی محبت ان پر غالب نہیں آئی۔ پس یہ وہ قربانی کرنے والے لوگ ہیں جو آج بھی ہمیں جماعت احمدیہ میں نظر آتے ہیں اور ہر ملک میں نظر آتے ہیں۔

گیمبیا

کی ایک جماعت یورو باؤل ہے۔ وہاں کے صدر صاحب کہتے ہیں انہیں کہیں سے کچھ رقم ملی جو انہوں نے دو حصوں میں بانٹ دی۔ ایک حصہ چندے کے لیے رکھ دیا۔ دوسرا حصہ ذاتی استعمال کے لیے رکھ لیا۔ کہتے ہیں بدقسمتی سے جو ان کے ذاتی استعمال کی رقم تھی وہ گم گئی۔ اب ان کے پاس صرف چندے والی رقم باقی تھی جو وہ استعمال کر سکتے تھے لیکن باوجود ضرورت کے انہوں نے چندے کی رقم ذاتی طور پر استعمال نہیں کی۔ ان پر مال کی محبت غالب نہیں آئی اور انہوں نے کوئی بہانہ نہیں بنایا کہ وہ گم ہو گئی ہے تو اس لیے اس میں سے آدھا خرچ کرلوں۔ انہوں نے کہا نہیں جو رقم میں نے چندے کے لیے علیحدہ کر دی تھی وہ چندے میں ادا کروں گا اور کہتے ہیں وہ میں نے چندے میں ادا کر دی۔ اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ عرصہ بعد وہی گمشدہ رقم ان کو مل گئی اور ان کی ضرورت پوری ہو گئی۔ ایسے حالات میں جب ضرورت ہوتی ہے تو مال کی محبت یقیناً بڑھتی ہے لیکن لوگوں کے عجیب اخلاص ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے جو وعدہ کیا ہے اس کو پورا بہرحال کرنا ہے۔

پھر ایک اور واقعہ ہے جہاں مال کی ضرورت اور مال کی محبت قربانی پر غالب نہیں آسکی۔

نائیجر

میں ہی مراوی ریجن کی ایک جماعت ہے۔ ایک دوست احمد ثانی صاحب وہاں وقفِ جدید کا چندہ ادا کرنے والے ہیں۔ ہر سال بڑی باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ اس سال ریجن میں سیلاب کی وجہ سے فصلیں خراب ہوگئیں۔ خیال تھا کہ شاید اس لیے لوگ زیادہ چندہ نہیں ادا کر سکیں گے لیکن انہوں نے یعنی ثانی صاحب نے کہا کہ بیشک زیادہ بارشوں کی وجہ سے اور سیلاب کی وجہ سے فصلیں خراب ہو گئی تھیں۔ بیشک سیلاب کی وجہ سے فصلیں تو اچھی نہیں ہوئیں لیکن اس وجہ سے وہ چندے میں کمی نہیں کریں گے اور جتنا چندہ وہ پہلے دیتے تھے اس سے بڑھ کر انہوں نے دیا۔

پھر ایک اَور قصہ ہے کہ ضرورت کے باوجود قربانی کو ترجیح دی۔ نائیجر میں ایک جماعت ڈیبسو (Dibsu) ہے۔ وہاں بارشیں کم ہوئیں جس کا فصلوں پر بہت برا اثر پڑا۔ کہیں بارشیں زیادہ ہو رہی ہیں، کہیں کم ہو رہی ہیں، آفات ہیں۔ ہماری اکثر جماعتیں جو افریقہ میں ہیں دیہاتی جماعتیں ہیں۔ دوسرے وہاں ملک کی سیاسی صورتحال بھی آجکل بہت خراب ہے۔ مہنگائی میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ یہ صورتحال دیکھ کر معلم کہتے ہیںکہ مجھے پریشانی تھی کہ ان لوگوں کے پاس تو پیسے نہیں ہیں چندہ وہ کہاں سے دیں گے؟ لیکن جب گاؤں والوں کو بتایا کہ وقفِ جدید کا سال ابھی ختم ہو رہا ہے تو وہاں ایک شافعی صاحب ہیں شافعی اینگو صاحب انہوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ ہر سال ہم باقاعدگی سے چندہ دیتے ہیں اور کوئی ایسا سال نہیں ہوا جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑھ کر نہ لوٹایا ہو۔ اس لیے چندے کی برکت سے اللہ تعالیٰ ہمیں نوازتا ہے اور ہمارے معاشی حالات بھی ٹھیک ہوتے ہیں۔ باوجود تنگی کے ہم بہتر ہوتے ہیں اس لیے ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے ہم چندہ ادا کریں گے اور انہوں نے ادا کیا۔ یہاں بھی وہی بات ہے کہ مال کی محبت ان پر غالب نہیں آئی۔

تنزانیہ

میں ایک دوست ابراہیم صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں، جب مجھے چندے کی برکت کا علم ہوا تو میں نے ہر ماہ ایک مخصوص حصہ مالی قربانی کے لیے مقرر کر دیا اور اس کی برکت سے میرے کام میں اضافہ ہوتا رہا۔ اللہ تعالیٰ میرے رزق میں اضافہ کرتا رہا۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ چندے کے لیے معلم نے مجھے کہا تو میرے پاس کچھ رقم تھی جو میں نے ایک کام کے لیے رکھی ہوئی تھی۔ کاروبار تھا اس کے لیے وہ رقم رکھی ہوئی تھی لیکن تحریک ہونے پر میں نے وہ چندے میں دے دی اور اگلے دن فون کر کے اس مال بیچنے والے کو، جس سے میں نے خریدنا تھا میں نے کہا کہ میرے پاس اب پیسے نہیں ہیں اس لیے میں تمہارے سے مال نہیں اٹھا سکوں گا جو میں نے لینا تھا۔ اس پر اس نے مجھے کہا کہ کوئی بات نہیں تمہارا مال جو تم نے لینا تھا اس کی آدھی رقم تو ادا ہو چکی ہے اور باقی پیسے تم بعد میں دے دینا۔ کہتے ہیں مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ یہ آدھی رقم کہاں سے ادا کی ۔کس نے ادا کی، آج تک مجھے یہ راز سمجھ نہیں آیا۔ تو اللہ تعالیٰ کبھی اس طرح بھی مدد کر دیتا ہے کہ پتہ ہی نہیں لگتا۔

بعضوں کو اللہ تعالیٰ نے مالی قربانیاں کرنے سے نوکریاں دلوا دیں۔
چیک ریپبلک

سے ایک خادم بتاتے ہیں۔ وہاں چیک ریپبلک کے لوکل آدمی ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ مجھے مالی قربانی کا فلسفہ سمجھا رہا ہے۔ کہتے ہیں مجھے مالی قربانی کی بدولت ایک نئی روحانی زندگی عطا ہوئی ہے۔ میں اپنے ساتھی طلبہ کو دیکھتا ہوں وہ پریشانیوں میں گرفتار ہیں لیکن میں بڑے سکون میں ہوں۔ جہاں ہر ایک پیسے جمع کرنے میں مصروف ہے وہاں خدا کے فضل سے میری عادت یہ بن چکی ہے کہ جو بھی پیسہ ہاتھ میں آتا ہے وہ خدا کی راہ میں قربان کر دیتا ہوں۔ میرے دوست کہتے ہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے مگر میرا خدا گواہ ہے کہ میری زندگی اس سے وابستہ ہے۔ کہتے ہیں میں اپنی فیلڈ میں نوکری کی تلاش میں تھا، مشکل پیش آ رہی تھی۔ خدا کے فضل سے چندے کی برکت سے وہ دور ہو گئی۔ رہائش نہیں تھی، اللہ تعالیٰ نے رہائش کا انتظام فرما دیا۔ کہتے ہیں کہ پہلے میری جیب ہر وقت خالی رہتی تھی لیکن اب میری جیب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر وقت بھری رہتی ہے۔ چندے بھی دیتا ہوں تو اللہ تعالیٰ پھر کہیں سے بھر دیتا ہے۔

انڈیا

سے وہاں کے ایک انسپکٹر صاحب لکھتے ہیں۔ ایک دوست ہیں ان کا وقف جدید کا چندہ چوبیس ہزار تھا۔ چند دن رہ گئے تھے انہوں نے کہا کہ میرے پاس کچھ رقم ہے لیکن ایک اہم کام میں مَیں نے یہ رقم دینی ہے۔ تو انہیں میں نے کہا کہ یہ وقفِ جدید کے سال کا آخر ہے۔ آپ دیکھ لیں جو بھی آپ مناسب سمجھتے ہیں کہ ابھی دینی ہے یا بعد میں دینی ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ اللہ پر توکل کرتا ہوں اور رقم چندے کی ادائیگی میں دے دی۔ دوسرے دن ہی موصوف کا فون آیا کہ کاروبار کی ایک بہت بڑی رقم کہیں پھنسی ہوئی تھی وہ اچانک مل گئی ہے اور پوری رقم تو نہیں ملی لیکن اس میں سے پچاس ہزار مل گئے ہیں اور باقی کا بھی دینے والے نے وعدہ کیا ہے کہ جلدی دے دوں گا۔ تو دیکھیں اللہ تعالیٰ نے ان کو کہا کہ اچھا تم میری خاطر مال کی محبت کو چھوڑ رہے ہو اور ذاتی ضروریات کو چھوڑ رہے ہو، جماعتی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہو تو میں تمہاری مدد کرتا ہوں تو اس طرح اللہ تعالیٰ مدد کرتا ہے۔

جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جو اخراجات ہو رہے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جس طرح فرمایا کہ کوئی دنیا میں نبی نہیں گزرا جس نے جماعتی نظام کو چلانے کے لیے مالی تحریک نہ کی ہو۔ جماعت احمدیہ میں بھی جماعتی نظام کو چلانے کے لیے تحریکات کرنی پڑتی ہیں۔ تحریکِ جدید اور وقفِ جدید کے جو چندے ہیں وہی خالصةً مرکز میں آتے ہیں باقی تو مقامی ملکوں میں ہی خرچ ہو جاتا ہے لیکن افریقن ممالک میں اتنے لوگ امیر نہیں ہیں باوجود اس کے وہ چندہ دیتے ہیں لیکن اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ ہمارے دنیا میں جتنے مشن ہاؤس ہیں، مساجد ہیں جو چل رہی ہیں۔ افریقہ میں اس وقت 7 ہزار 953 مساجد بن چکی ہیں اور 306 مساجد زیر تعمیر ہیں اور اسی طرح ہر سال درجنوں مساجد کا منصوبہ بنایا جاتا ہے۔ 1860مشن ہاؤس چل رہے ہیں۔ کچھ کرائے پہ بھی ہیں، کچھ اپنے ہیں۔ مرکزی مبلغین چار سو کی تعداد میں ہیں جو وہاں کام کر رہے ہیں۔ دو ہزار سے زیادہ معلمین کام کر رہے ہیں۔

پھر قادیان ہے، پھر ساؤتھ امریکہ کے ملکوں میں، جزائر میں مرکز سے خرچ کیا جاتا ہے وہاں ان کے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ مشن کے اخراجات پورے کرنے کے لیے running expenditure بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

لٹریچر کی تقسیم کے لیے اخراجات ہیں۔ لٹریچر بھی بعض دفعہ یہاں سے بھجوایا جاتا ہے۔ بڑی کتابوں کے علاوہ اکثر ان میں سے بھی بہت ساری کتابیں مفت تقسیم ہوتی ہیں، چھوٹا لٹریچر تو مفت ہوتا ہے۔ کچھ لٹریچر کی وہاں اشاعت بھی ہوتی ہے ۔ تو یہ ساری رقمیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے خرچ کے لیے دیتا چلا جاتا ہے۔ بعض دفعہ سمجھ نہیں آتی کہ اتنے وسیع پروگرام ہیں، اتنے اخراجات ہو رہے ہیں اور آمد تھوڑی ہے۔ اب تحریکِ جدید اور وقفِ جدید کے چندے کو اگر ملا لیں جو خالصةً مرکز میں آتا ہے تو وہ تقریباً تیس اکتیس ملین پاؤنڈ بنتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی یہ خرچ ہورہا ہے۔ 106ممالک کے مشنز کو جو سالانہ گرانٹ دی جا رہی ہے وہی تقریباً اس کے برابر ہے۔

پھر جامعات ہیں، ان میں کئی ملین خرچ ہوتے ہیں، ان کی گرانٹ دی جاتی ہے۔ ایم ٹی اے ہے، اس پر کئی ملین خرچ ہوتے ہیں۔ پھر مرکز کے اخراجات ہیں تو

یہ خرچے اللہ تعالیٰ اس طرح پورے کرتا ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ کس طرح پورے کر رہا ہے۔

بعض دفعہ یہ خیال آتا ہے کہ شاید بہت زیادہ اخراجات ہیں،کس طرح پورے ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اخراجات پورے کرتا چلا جاتا ہے اور اس میں کبھی کمی نہیں آنے دیتا۔ یہ مشن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جاری ہیں۔ ان پہ کام ہو رہے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا تھا کہ مال تو میں تجھے دوں گا اور وہ مال اللہ تعالیٰ دے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ جماعت کو اس کو صحیح مصرف میں لانے کی بھی توفیق ہمیشہ دیتا رہے، صحیح خرچ کرنے کی توفیق دے اور اس میں کبھی کسی قسم کی بےقاعدگی نہ ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’تمہارے لیے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا سے بھی۔ صرف ایک سے محبت کر سکتے ہو۔ پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے۔ اور اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کر کے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے۔ پس جو شخص خدا کے لیے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا لیکن جو شخص مال سے محبت کر کے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جو بجا لانی چاہیے تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا۔ یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجا لا کر خدا تعالیٰ اور اس کے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو بلکہ یہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کے لیے بلاتا ہے۔ اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تم سب کے سب مجھے چھوڑ دو اور خدمت اور امداد سے پہلو تہی کرو تو وہ ایک قوم پیدا کر دے گا کہ اس کی خدمت بجا لائے گی۔ تم یقیناً سمجھو کہ یہ کام آسمان سے ہے اور تمہاری خدمت صرف تمہاری بھلائی کے لیے ہے۔پس ایسا نہ ہو کہ تم دل میں تکبر کرو اور یہ خیال کرو کہ ہم خدمت مالی یا کسی قسم کی خدمت کرتے ہیں۔ میں بار بار تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تمہاری خدمتوں کا ذرا محتاج نہیں۔ ہاں تم پر یہ اس کا فضل ہے کہ تم کو خدمت کا موقعہ دیتا ہے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد3صفحہ497-498)

پس یہ وہ احساس ہے، یہ وہ سوچ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جماعت میں پیدا کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج ایک سو تیس پینتیس سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود یہ جذبہ جماعت احمدیہ کے افراد میں موجود ہے جو نوجوانوں میں بھی اور نئے آنے والوں میں بھی ہے اور وہ قربانیاں کرتے چلے جا رہے ہیں جن کے چند واقعات میں نے بیان کیے ہیں کہ کس طرح انہوں نے اس روح کو سمجھا کہ اللہ تعالیٰ ان کے مال میں برکت دیتا ہے اور اس کے لیے وہ ہر قربانی کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے اموال و نفوس میں برکت ڈالے۔

اس کے ساتھ ہی میں ایک رپورٹ بھی پیش کروں گا جو اس سال

وقفِ جدید کے چندے کی رپورٹ

ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے کس حد تک قربانیاں دی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کا ستاسٹھواں سال اکتیس دسمبر کو ختم ہوا ہے اور جماعت احمدیہ عالمگیر کی طرف سے ایک کروڑ 36لاکھ 81ہزار پاؤنڈ یعنی تقریباً چودہ ملین کی مالی قربانی پیش ہوئی ہے۔ یہ وصولی گذشتہ سال سے 7 لاکھ 36 ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے۔ الحمد للہ۔ اس کے ساتھ ہی نئے سال کا بھی اعلان کرتا ہوں۔

اور اس میں

قربانیوں کے لحاظ سے، رقموں کے لحاظ سے اول نمبر پر برطانیہ ہے

ان کا اور کینیڈا کا بڑا سخت مقابلہ ہے۔ کینیڈا نے بھی بہت اضافہ کیا ہے اپنی قربانیوں میں لیکن برطانیہ سے ابھی پیچھے ہی ہیں۔ پھر نمبر تین پہ جرمنی ہے۔ پھر امریکہ۔ پھر بھارت۔ پھر آسٹریلیا۔ مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے۔ پھر انڈونیشیا ہے اور پھر مڈل ایسٹ کی جماعت ہے۔ پھر بیلجیئم ہے۔

افریقہ میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے جو جماعتیں ہیں ان میں گھانا نمبر ایک پہ ہے۔

پھر ماریشس ہے۔ پھر نمبر تین پہ برکینا فاسو ہے۔یہاں بھی حالات بہت مخدوش ہیں لیکن اس کے باوجود قربانیاں دے رہے ہیں۔ ان کی بہت جگہوں کی تو ابھی رپورٹس بھی نہیں آ سکیں کیونکہ رابطے نہیں تھے۔ پھر تنزانیہ ہے۔ پھر لائبیریا ہے۔ گیمبیا ہے۔ نائیجیریا۔ سیرالیون۔ بینن اور کونگو کنشاسا۔

وقفِ جدید کے مالی نظام میں شامل ہونے والوں کی تعداد

جو رپورٹیں آئی ہیں اس کے مطابق

پندرہ لاکھ 51ہزار

ہے اور گذشتہ سال سے چندہ دینے والوں میں جو اضافہ ہوا ہے ان میں باوجود خراب حالات کے پاکستان کے لوگوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نائیجیریا۔ کیمرون۔ سیرالیون۔ گیمبیا اور کانگو برازاویل۔

برطانیہ کی جودس بڑی جماعتیں ہیں قربانی کرنے والوں کی ان میں فارنہم (Farnham) نمبر ایک پر ہے۔ پھر ووسٹر پارک (Worcester Park)۔ پھر اسلام آباد۔ پھر وال سال(Walsall)۔ پھر آلڈر شاٹ ساؤتھ (Aldershot South)۔ ایش (Ash)۔ چیم ساؤتھ (Cheam South)۔ جلنگھم(Gillingham)۔ آلڈر شاٹ نارتھ (Aldershot North)۔ یول (Ewell) ۔

پہلی پانچ ریجنز

جو ہیں ان میں پہلے نمبر پہ ریجن اسلام آباد ہے۔ پھر بیت الفتوح۔ پھر مڈلینڈز(Midlands)۔ پھر مسجد فضل۔ پھر بیت الاحسان۔

دفتر اطفال

یہ وقفِ جدید کا علیحدہ ہوتا ہے۔ اس میں پہلی دس جماعتیں جو ہیں وہ نمبر ایک پہ آلڈر شاٹ نارتھ (Aldershot North)۔ فارنہم (Farnham)۔ ایش(Ash)۔ آلڈر شاٹ ساؤتھ (Aldershot South)۔ بورڈن۔ چیم ساؤتھ۔ اسلام آباد۔ روہیمپٹن ویل (Roehampton Vale)۔ مانچسٹر نارتھ۔ والسال۔

وصولی کے لحاظ سے کینیڈا کی امارتیں

جو ہیں ان میں نمبر ایک پہ وان (Vaughan)۔ پھر کیلگری (Calgary)۔ پھر پیس ولیج(Peace Village)۔ پھر وینکوور(Vancouver)۔ ٹورنٹو ویسٹ۔ بریمپٹن ایسٹ(Brampton East) پھر ٹورنٹو۔

اور

کینیڈا کی دس بڑی جماعتیں

جو ہیں ان میں ہملٹن نمبر ایک پر۔ پھر ایڈمنٹن ویسٹ۔ پھر ہملٹن ماؤنٹین۔ پھر ملٹن ویسٹ(Milton West)۔ پھر بیت الرحمٰن سسکاٹون۔ ڈرہم ویسٹ(Durham West)۔ رجائنا (Regina)۔ مونٹریال ویسٹ۔ پھر بیت العافیت سسکاٹون۔ وینی پیگ۔ ایرڈری۔ لائیڈ منسٹر۔ نیوفائونڈلینڈ(Newfoundland)

اور دفتر اطفال میں جو نمایاں امارتیں ہیں وہ ہیں وان (Vaughan) نمبر ایک پر۔ پھر ٹورنٹو ویسٹ (Toronto West)۔ وینکوور(Vancouver)۔ پھر پیس ولیج (Peace Village)۔ کیلگری(Calgary)۔ مسی ساگا (Mississauga)۔بریمپٹن ایسٹ۔ بریمپٹن ویسٹ۔ ٹورنٹو۔

جماعتوں میں دفتر اطفال میں نمبر ایک پہ ڈرہم ویسٹ (Durham West)۔ حدیقہ احمد۔ بریڈ فورڈ ایسٹ۔ مونٹریال ویسٹ(Montreal West)۔ ہملٹن ایسٹ۔ہملٹن۔ہملٹن ماؤنٹین(Hamilton Mountain)۔ انسفیل۔ ملٹن ویسٹ(Milton-West)۔ ونڈسر۔

جرمنی کی پانچ لوکل امارتیں

جو ہیں ان میں ہیمبرگ (Hamburg) نمبر ایک پر۔ پھر فرینکفرٹ (Frankfurt)۔ ویزبادن (Wiesbaden)۔ گروس گیرا ئو(Gross-Gerau)۔ریڈ شٹڈ (Riedstadt)۔

دس جماعتیں

جو ہیں۔ (پہلی امارات تھیں) یہ جماعتیں ہیں روڈگائو(Rodgau)۔ نیڈا(Nidda)۔ روڈرمارک(Rodermark)۔ فلورس ہائم(Florsheim)۔ نوئی ویڈ (Neuwied)۔ کوبلنز(Koblenz)۔ وائن گارٹن (Weingarten)۔ پنی برگ (Pinneberg)۔ برلن۔ نوئس (Neuss)۔

دفتر اطفال میں پانچ ریجن جو ہیں ان میں نمبر ایک پر ویزبادن۔ پھر ہیمبرگ۔ ہیسن زود ایسٹ۔ویسٹ فالن۔ ڈیٹسن باخ۔

امریکہ کی دس جماعتیں

میری لینڈ(Maryland) نمبر ایک پر۔ لاس اینجلس (Los Angeles) نمبر دو پر۔ نارتھ ورجینیا۔ سیلیکون ویلی(Silicon Valley)۔ سیئیٹل (Seattle)۔ ڈیٹرائٹ۔ شکاگو۔ ڈیلس۔ ساؤتھ ورجینیا۔ ہاؤسٹن(Houston)۔

اطفال کے لحاظ سے ان کی دس جماعتیں یہ ہیں۔ نمبر ایک پر سیئیٹل (Seattle)۔ پھر فلا ڈلفیا۔ نارتھ ورجینیا۔ جارجیا۔ کیرولائنا۔ شکاگو۔ آسٹن۔ ڈیلس۔ اوش کوش۔ ڈیٹرائٹ۔ میری لینڈ۔

پاکستان

نے اللہ کے فضل سے یہاں بھی اپنے لحاظ سے تو بہت محنت کی ہے اور قربانیاں کی ہیں۔ اس میں نمبر ایک پر یہاں لاہور ہے۔ پھر نمبر دو پر ربوہ۔ پھر نمبر تین پر کراچی۔

اور اضلاع کی پوزیشن جو ہے بالغان کی وہ ہے اسلام آباد نمبر ایک۔ سیالکوٹ نمبر دو۔ فیصل آباد۔ گجرات۔ گوجرانوالہ۔ سرگودھا۔ عمر کوٹ۔ ملتان۔ حیدرآباد۔ میر پور خاص۔

پہلی دس جماعتیں جو ہیں نمبر ایک پر اسلام آباد۔ پھر ٹاؤن شپ (لاہور)۔ دارالذکر (لاہور)۔ عزیزآباد (کراچی)۔ علامہ اقبال ٹاؤن (لاہور)۔ پھر سمن آباد (لاہور)۔ بیت الفضل (فیصل آباد)۔ ملتان شہر۔ دہلی گیٹ (لاہور)۔گوجرانوالہ شہر۔

اطفال میں جو تین بڑی جماعتیں ہیں نمبر ایک پر لاہور۔ نمبر دو پر ربوہ۔ نمبر تین پر کراچی اور دفتر اطفال میں اضلاع کی پوزیشن یہ ہے کہ اسلام آباد نمبر ایک۔ پھر سیالکوٹ۔ پھر نارووال۔ عمرکوٹ۔ راولپنڈی۔ گوجرانوالہ۔ میر پور خاص۔ گجرات۔ حیدرآباد۔ شیخوپورہ۔

بعض غیر معمولی مساعی کرنے والی مجالس جماعتیں بھی ہیں۔

بھارت کی پہلی دس جماعتوں میں۔ صوبہ جات میں

کیرالہ نمبر ایک پر۔ پھر تامل ناڈو۔ جموں کشمیر۔ پھر کرناٹکا۔ تلنگانہ۔ اڈیشہ۔ پنجاب۔ ویسٹ بنگال۔ مہاراشٹرا۔ اترپردیش۔

دس جماعتیں جو ہیں ان میں نمبر ایک پر کوئمبٹور۔ نمبر دو پر قادیان۔ پھر حیدر آباد۔ پھر کالی کٹ۔ منجیری۔ بنگلور۔ مَیلا پالایام (Melapalayam)۔ کولکتہ۔ کیرنگ۔ کیرولائی۔

آسٹریلیاکی دس جماعتیں

جو ہیں نمبر ایک پر کاسل ہل (Castle Hill)۔ پھر ملبرن لانگ وارن(Melbourne Langwarrin)۔ مارسڈن پارک(Marsden Park)۔ پھر ملبرن کلائیڈ (Melbourne Clyde)۔ لوگن ایسٹ(Logan East)۔ ملبرن بیروک(Melbourne Berwick)۔ پینرتھ (Penrith)۔ پرتھ(Perth)۔ ایڈیلیڈ۔ ایڈیلیڈ ویسٹ(Adelaide West)۔

بالغان میں آسٹریلیا کی جماعتیں جو ہیں کاسل ہل نمبر ایک پر۔ پھر ملبرن لانگ وارن۔ مارسڈن پارک۔ لوگن ایسٹ۔ ملبرن بیروک۔ ملبرن کلائیڈ۔ پینرتھ۔ پرتھ۔ ایڈیلیڈ ویسٹ اور بلیک ٹاؤن۔

اطفال میں ان کے ہیں ملبرن لانگ وارن۔ پرتھ۔ پلمپٹن۔ ایڈیلیڈ ساؤتھ۔ ملبرن کلائیڈ۔ پینرتھ۔ ملبرن ویسٹ۔ مارسڈن پارک۔ برزبن سینٹرل اور ملبرن بیروک۔

اللہ تعالیٰ ان قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے۔
یہ بھی دعا کریں کہ یہ 2025ء کا سال جماعت کے لیے برکتوں والا سال ہو۔
اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر شر سے محفوظ رکھے۔

پاکستان میں جو شدت پسند گروہ ہیں اور ان کے جو یہ ٹولے ہیں ان کو وقتاً فوقتاً ابال آتا رہتا ہے اور بعض جگہ جماعت کی مخالفت میں، بعض جگہ قانون کی آڑ میں یہ ہر قسم کا ظلم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ نہ قبرستان محفوظ ہیں نہ گھر محفوظ ہیں۔

اللہ تعالیٰ ان ظالموں کی پکڑ کے سامان جلد فرمائے۔
احمدیوں کو اپنی حفاظت میں رکھے۔

ربوہ میں بھی ان لوگوں کی بڑی نظر رہتی ہے۔ اس کی حفاظت بھی اللہ تعالیٰ فرماتا رہے۔

درود شریف اور بعض دعاؤں کی طرف میں نےکچھ عرصہ پہلے توجہ دلائی تھی۔ اس طرف دنیا کا ہر احمدی اور پاکستان کے احمدی بھی خاص توجہ رکھیں۔
بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لیے دعا کریں۔

اللہ تعالیٰ انہیں بھی شدت پسندوں کے شر سے محفوظ رکھے اور شام میں بھی اب نئی حکومت آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ وہاں بھی احمدیوں کو ہر قسم کے شر سے بچائے۔ اپنی حفاظت میں رکھے۔ اسی طرح دوسرے ممالک ہیں، افریقہ کے ممالک ہیں ہر جگہ اللہ تعالیٰ احمدیوں کو اپنی حفاظت میں رکھے۔

ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس کے لیے خاص طور پر خود بھی بہت دعائیں کرے۔ اپنے ملکوں کے لیے بھی اور پاکستان کے جو باہر بسنے والے ہیں پاکستان کے لیے بھی۔
دنیا کے عمومی حالات اور جنگوں کی صورتحال کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ اس کے بداثرات سے ہر معصوم اور مظلوم کو بچائے۔

نئے سال پر یہ لوگ بڑے جشن مناتے ہیں۔ بڑے فائرورکس ہوتے ہیں۔ پھلجھڑیاں اڑائی جاتی ہیں لیکن ہر ایک صرف اپنی خوشیاں دیکھتا ہے۔ دوسروں کے درد کا انہیں احساس نہیں ہے۔ غریب لوگ جو ہیں، غریب قومیں جو ہیں، مظلوم لوگ جو ہیں ان پر طاقتور قومیں ظلم کرتی چلی جا رہی ہیں۔

اللہ تعالیٰ اس سال میں ان سب طاقتوں کے منصوبے، طاقتور قوموں کے منصوبے بھی خاک میں ملا دے اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ہم دنیا میں قائم ہوتا دیکھیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 27؍ دسمبر2024ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button