ہمارے پیارے والد محترم غلام احمد صاحب
اگر ہم زندگی سے رشتے نکال دیں تو ہم کس قدر نامکمل ہو جائیں اسی طرح اِن رشتوں سے جڑے اگر بعض لفظ زندگی سےنکال دیے جائیں یا بھلا دیے جائیں تو زندگی کھوکھلی اور بے رنگ ہو جائے کیونکہ لفظوں کا بھی ذائقہ ہوتا ہے اور اُن میں احساس بھی ہوتا ہے۔
ایک ایسا ہی لفظ ’’باپ‘‘ہے۔جواعتبار، اعتماد اور تحفظ کے حصار میں لے لینے والا جاندار لفظ ہے۔یہ ایک ایسا لفظ ہے کہ خودبخود ہماری آنکھوں کے سامنے اس لفظ سے جڑے فرد کی ایک تصویر بن جاتی ہے۔
باپ کی راہنمائی اور محبت کےبغیر ہماری ذات بھٹکی ہوئی ہوتی ہے۔ باپ کا رشتہ عظیم نعمت خداوندی ہے۔اس نفسانفسی کے دور میں ماں کے بعد باپ ہی وہ ہستی ہے جو اولاد کی معمولی سی تکلیف پر بے چین ہو جاتاہے۔
بظاہر رعب والی اس ہستی کے پیچھے ایک شفیق اور مہربان چہرہ ہوتا ہے جسے ماں کی طرح اپنے جذبات کا اظہار کرنا نہیں آتا،جومسلسل مشقت کرتا ہے تاکہ اس کے بچوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچےاور ان کے چہروں پرہمیشہ مسکراہٹ رہے۔
دنیا کا ہر باپ ہی اپنی اولاد کے لیے ایسے زندگی بسر کرتا ہے،اسی طرح ہمارے والد،غلام احمد صاحب بھی کچھ مختلف نہ تھے،جن کا۳۰؍مئی ۲۰۲۴ء کو جرمنی میں انتقال ہوگیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون
سوچا کہ آپ کے بلندئ درجات اور مغفرت کے لیے اُذْكُرُوا مَحَاسِنَ مَوْتَاكُمْ کے تحت کچھ یادداشتیں تحریر کی جائیں۔
آپ کی پیدائش قریباً ۱۹۴۳ء میں موجودہ انڈین کشمیر کےضلع ریاسی کے گاؤں حموسان میں ہوئی۔آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے والد محترم عبدالسبحان صاحب کے ذریعہ تقریباً ۱۹۱۵ء میں آئی۔ ۱۹۴۸ء میں آپ نے اپنے والد محترم کے ہمراہ کشمیر سےراولپنڈی پاکستان ہجرت کی اور بعد ازاں ۱۹۵۹ء میں ربوہ منتقل ہوگئے۔ والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ اُن کے والد صاحب نے جب راولپنڈی ہجرت کی تھی تو کچھ عرصے کے بعد جی ایچ کیو میں ملازمت اختیار کر لی تھی جہاں سے فارغ ہونے کے بعد ربوہ ہجرت کی۔
جب یہاں ربوہ آئے تواُن کے والد صاحب کو مکرم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نےاپنے ساتھ فضل عمر ہسپتال میں ملازم رکھ لیا جو اُس وقت ہسپتال کے انچارج تھے۔اسی وجہ سے ابا کو ۱۹۶۵ء تک مکرم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کے گھر پرملازمت کا موقع مل گیا۔ آپ ذکر کیا کرتے تھے کہ میاں صاحب کے گھر پر اس ملازمت کے دوران، کیونکہ وہیں ایک کمرے میں رہائش بھی مل گئی تھی، بعض اوقات میاں صاحب کے ساتھ جانے کی وجہ سے حضرت مصلح موعودؓ کے دیدار، کی سعادت حاصل ہوئی اور ایک دو بار آپؓ کے قریب جانےکا موقع ملا کیونکہ مرزا منور احمد صاحب حضر ت مصلح موعودؓ کا چیک اَپ وغیرہ کرنے جاتے تھے۔ اس دوران حضورؓ کے لیےبھی کھانا بنا نے کی سعادت ملتی رہی۔بتایا کرتے تھے ایک باراُن کا بنایا ہوا پلاؤ پیش ہواتو حضورؓ نے دریافت فرمایا کہ کس نے بنایا ہے؟ جس پر بتایا گیا کہ احمد نے بنایا ہے، جس پر پیغام موصول ہوا کہ حضورؓنے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا کہ آئندہ سے احمد ہی پلاؤ بنایا کرے۔
بعد ازاں آپ نے ۱۹۶۵ء میں پاکستان آرمی جوائن کی۔آرمی کی ٹریننگ ابھی جاری تھی کہ جنگ شروع ہو گئی،جس پر ابا کو کوٹلی کشمیریونٹ بھجوا دیا گیا اور پھر باضابطہ بھی ادھر ہی پوسٹنگ ہوگئی اور ۱۹۷۰ء تک mortar battery کے یونٹ میں قیام پزیر رہے۔۱۹۷۰ء میں فارورڈ کہوٹہ کی infantry میں بھجوا دیا گیا جہاں ۱۹۷۱ء کی جنگ لڑی۔
اپنی سروس کے دوران دونوں جنگوں میں شمولیت کی وجہ سے آپ کو تمغہ جنگ اور ستارہ حرب ملا۔سروس کے آخری دس سالوں میں پہلے بھٹو اور پھر ضیاء الحق کی جماعت مخالفت کی وجہ سے لانس حوالدار کے رینک پر ہی رہے اور احمدی ہونے کی وجہ سے دوبار promotion روکی گئی۔ چنانچہ آخرکار آپ نے ۱۹۸۳ء میں ریٹائرمنٹ لے لی۔
شادی اور اولاد
۱۹۷۵ء میں آپ کی شادی ہماری والدہ شاہینہ احمد صاحبہ بنت خواجہ عبد الحئی صابر صاحب سے ہوئی۔ جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کوایک بیٹی اور پانچ بیٹوں سے نوازا۔
والدین کے فرائض میں سے ایک فرض اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت ہوتا ہے۔ آپ نے اپنا یہ فرض بخوبی سرانجام دیا۔ شروع سے ہی بچوں کی تعلیمی وعملی تربیت میں بنیادی کردار ادا کیا اور تعلیم دلوانے کے لیے انتھک محنت کی اور کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔اور بفضلہ تعالیٰ اُن کی محنت رنگ لائی۔ پانچوں بیٹوں نے اپنے اپنے میدان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور بفضلہ تعالیٰ اور آپ کی دعاؤں اور جماعت سے وابستگی کے زیرِ اثردنیا کی حسنات کمانے کے ساتھ ساتھ جماعت کی خدمت کرنے کی بھی توفیق مل رہی ہے۔
سب سے بڑے بیٹے وقاص احمد صاحب ایڈیشنل قائد تعلیم مجلس انصار اللہ کینیڈا کے طور پر خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔
دوسرے بیٹے احتشام احمد صاحب صدر جماعت احمدیہ باد نوہائم جرمنی ہیں۔ تیسرا بیٹا یعنی خاکسار مربی سلسلہ ہے۔اور دونوں چھوٹے بیٹے صالح احمد صاحب اور حارث احمد صاحب واقفین نَو ہیں جن میں سے صالح احمد صاحب باقاعدہ واقفِ زندگی کے طور پر ایم ٹی اے سٹوڈیو گھانا میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔
آپ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند،خلافت کے فدائی اور خلیفہ وقت سے گہری محبت رکھنے والے،اسی طرح تمام چندہ جات کی تحریکات میں شامل تھے اور صدقات کی ادائیگی بھی باقاعدگی سے کیا کرتے تھے۔جب بھی کوئی رقم ملتی تو سب سے پہلے اُس میں سے چندہ کی ادائیگی کرتے۔اسی طرح جماعتی پروگرامز میں باقاعدگی سے شمولیت کرتے اور ایم ٹی اے کے نئے اور پرانےپروگرامز مستقل دیکھتے رہتے تھے۔ غرباء پروری اور ہر کسی سے اپنائیت سے ملنا آپ کے اوصاف میں شامل تھا۔
نمازوں کے پابند اور اپنے بچوں کے لیے دعاؤں کا خزانہ تھے۔ اللہ کے فضل سےپانچوں نمازوں کے پابند اور جمعہ کی نماز بھی باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔ جب بھی پاکستان آتے تو ہر نمازپر پیدل مسجد جاتے۔اس بار چونکہ موسم سرما کی بجائے مارچ کے آخر میں پاکستان آئے تھے جب کہ یہاں گرمی کا آغاز ہوچکا تھاتو بھی باقاعدہ مسجد جاتے رہے۔میری غیرموجودگی میں کسی نہ کسی کے ساتھ جاتے ہوئے یا واپسی پر بائیک پر بیٹھ جاتے۔ پیدل چلنے کی وجہ سے ایک دو بار سانس پھولااور ذرا مشکل ہوئی تومیں نے کہا کہ گرمی ہے آپ کے لیے پیدل جانا مشکل ہو جاتا ہے، گھر پر نماز پڑھ لیا کریں۔ چنانچہ اگلے روز ساری نمازیں گھر ادا کیں۔ لیکن پھر دوسرے دن ہی دوبارہ مسجد جانا شروع کر دیا۔میں یہ دیکھتے ہوئے کہ مسجد ہی جائیں گے عرض کی کہ جس نماز پر میں محلے میں موجود ہوں تو آپ کو بائیک پر لے جایا کروں گا،تو فوراً کہنے لگے کہ بائیک پر تو میں دوسروں کے ساتھ بھی چلا جاتا ہوں تم جیسے ساتھ پیدل جاتے ہو ویسے بس ساتھ چل لیا کرو یوں مجھے پیدل چلنے کا ثواب ہو جاتاہے۔
کلامِ الٰہی سے بے انتہا محبت تھی۔ اوائل عمری میں ہجرت اور مستقل نقل مکانی کی وجہ سے دنیاوی تعلیم بالکل بنیادی تھی۔چنانچہ بڑی عمر میں جا کر قرآن کریم پڑھنا سیکھا۔بعد ازاں باقاعدگی سے موبائل پر لگا کر سنتے بھی رہتے۔
جماعت کے فدائی اور خلافت سے گہرا محبت کا تعلق رکھنے والے تھے اور اولاد کے دلوں میں بھی اس وصف کو پیدا کیا۔ جماعتی پروگرامز جیسے جلسہ ہائے سالانہ اور اجتماعات میں باقاعدگی سے شمولیت کرتے۔ والدین کے جلد فوت ہوجانے کی وجہ سے اور خاندان میں سے کسی بڑےکے سر پر نہ ہونے کے باوجود خدا کے فضل سے اپنے آپ کو جماعت اور خلافت سے وابستہ رکھا اور خلیفة المسیح اور نظام جماعت کی ہر تحریک پر لبیک کہہ کر اُس میں شامل ہوتے۔ جماعت کے لیے بہت غیرت رکھتے تھے۔ جماعتی عہدیداران کی بہت عزت کرنے والےتھے۔ اپنے بچوں میں بھی جماعتی عہد یداران کی عزت کی روح پیدا کی اور بچپن ہی سےاپنے والدین، جماعت اور جماعتی عہدیداران کی عزت و احترام کی تربیت دی۔ اپنے بچوں کو ہمیشہ جماعت کے ساتھ جڑے رہنے کی اور خلافت سے وفا کا تعلق رکھنے کی نصیحت کرتے تھے۔
چھوٹا بھائی بتاتا ہے کہ گھانا جانے کے بعد اکثر یاددہانی کی غرض سے توجہ دلاتے رہتے تھے کہ اپنے ذاتی کام سے پہلے اپنے وقف کو اور دفتر کو فوقیت دو۔ جماعت جب بھی بلائے تو بغیر کسی عذرفوراًحاضر ہو جاؤ۔ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ آپ کو ہم نے وقف کیا تھا اور آپ نے اُس کو جاری رکھا ہے تو ہمیشہ اِس کو وفا سے نبھانا۔چنانچہ ایک دن والد صاحب کا فون آیا گھامیں لائٹ نہیں تھی۔بات کرتے ہوئے ذکر ہوا تو پوچھنے لگے کہ جنریٹر ہے؟ میں نے پوچھا کہ گھر میں جنریٹر کا پوچھ رہے ہیں یا دفتر کے حوالے سے؟ تو بڑے جوش سے کہنے لگے کہ تمہارے لیے نہیں بلکہ دفتر کا پوچھ رہا ہوں۔ تمہارا مسئلہ نہیں ہے،جماعت کو زیادہ ضرورت ہے۔ تم وقف ہو، اگر مل جائے تو شکر ادا کرو، اور اگرکچھ نہ ملے تو اُس کی خواہش بھی مت رکھنا۔
چھوٹے بھائی نےمزید بتایا کہ جب میرے پاس گھانا آئےتو خاکسار کی خواہش تھی کہ والد صاحب کو جماعتی دفاتر، سکولز اور جامعات کا وزٹ کروا دیاجائے۔اُس پرمجھے کہنے لگے کہ بیٹا میری وجہ سے تعطیلات لے کر دفتر سے اپنا وقت ضائع مت کرنا، میں تمہارے پاس آگیا ہوں بس میرے لیے یہی کافی ہے۔ اگر افسر کی اجازت ہو تو ٹھیک ہے۔
خاکسار نے خود بھی جب عملی میدان میں قدم رکھا تو جب بھی پاکستان ملنے یا فون پر بات ہوتی تو وقتاً فوقتاً وقف کو احسن رنگ میں نبھانےکی طرف توجہ دلاتے رہتےاور ہمیشہ نصیحت کرتے کہ تم وقف ہو، تم نے ہمیشہ وہاں خدمت کرنی ہے جہاں حضور تم سے خدمت لینا چاہیں۔
جہاں ہماری والدہ محترمہ نے تربیت میں کردارادا کیا وہاں ابا نے بھی جماعت کے ساتھ ایک عملی تعلق جوڑنے کے لیے کردار ادا کیا۔بڑے بھائی بتاتے ہیں کہ ۹۰ء کی دہائی میں جب جرمنی میں مقیم تھے تو ابتدا میں والد صاحب کے پاس گاڑی نہیں تھی۔ جب مجلس اطفال الاحمدیہ کے اجتماع کا وقت آیا توبہت بے چین تھے کہ کیسے اپنے بچوں کو اجتماع پر بھیجوں۔ لوگوں سےفون کرکرکے گاڑی میں گنجائش کا پوچھتے رہے اور جب تک اجتماع پر جانے کا انتظام نہیں ہوگیا تب تک چین سے نہ بیٹھے۔ پھر تربیت کا ایک طریق یہ بنایا کہ جب تک اُس وقت جرمنی میں رہے لوکل جماعت کے جماعتی پروگرامز اور نمازوں کے لیے سنٹر کے طور پر اپنا گھر پیش کیے رکھا۔
اولاد کو محنت کی عادت ڈالی اور وقف کی حقیقی روح کو سمجھایا۔ خاکسار کو یاد ہے کہ جب میں نے میٹرک سے قبل مربی بننے کی خواہش کا اظہار کیا تو کہنے لگے کہ اگر اچھے نمبروں کے ساتھ میٹرک پاس کرو گے تو ہی جامعہ میں داخل ہونے دوں گا۔ یعنی اگر تم نے مربی بننا ہے تو یہ نہیں کہ صرف داخلہ کے لیے درکار بنیادی نمبرز حاصل کر لو بلکہ اچھے نمبروں کے ساتھ داخلہ ہونا چاہیے۔یہ ان کا، محنت کرنے اور صحیح رنگ میں وقف کرنے کی طرف توجہ دلانےکا انداز تھا۔چاہتے تھے کہ جو بیٹا اپنے امام اور جماعت کو پیش کریں وہ قابلیت کے لحاظ سے باقی بیٹوں سے ہرگز کمتر نہ رہے۔نیز کہا کہ اگر خدا کی راہ میں وقف کرنا ہے تو بے لوث اور پورےاخلاص سے کرنا ہے۔
واقفین زندگی بچوں کا زیادہ خیال کرتے۔وفات پر کئی لوگ جو تعزیت کرنےآئے تو انہوں نے بتایا کہ اگر ہم پوچھتے کہ آپ ہر سال پاکستان آتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے، لوگ تو پاکستان سے جا کر کئی کئی سال واپس نہیں آتے، تو جواب دیتے کہ اپنی ذات کے لیے اگر آتا ہوتا تو اپنی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے کب کا پاکستان آنا چھوڑ گیا ہوتاکیونکہ اب لمبا سفر نہیں ہوتا لیکن اس لیے آتا ہوں کہ میرا ایک بیٹا واقفِ زندگی ہے اور اُس کے بچے یہاں پر ہیں اُن کے پاس آتا ہوں تاکہ انہیں کوئی کمی محسوس نہ ہو۔ جب بھی آتے تو اپنی طرف سے ہر ضرورت کا خیال رکھتے، گھر میں نوٹ کرتے رہتے کہ کس چیز کی کمی ہےاور خاموشی سے لا کر دے دیتے۔ہر دوسرے دن بازار جاتے تازہ پھل لے کر آتے۔ جب تک یہاں قیام ہوتا ایک دن بھی ایسا نہ ہوتا کہ ڈائننگ ٹیبل پر پھل موجود نہ ہوں۔ جب آپ واپس چلے جاتے تو ہم اپنی کشائش کو دیکھتے ہوئے ہی پھل لاتے چنانچہ اگر کبھی ڈائننگ ٹیبل خالی ہو تو خاکسار اپنی اہلیہ سے از راہِ تفنن کہتا کہ پتا لگتا ہے کہ ابو واپس چلے گئے ہیں۔
خدا تعالیٰ پر ہمیشہ توکل کرتے۔ جب خاکسار نے میٹرک اللہ کے فضل سے ۸۰؍فیصد کے قریب نمبروں کے ساتھ پاس کیا تو بعض رشتہ داروں کا خیال تھا کہ اچھے نمبر آئے ہیں تو دنیاوی تعلیم جاری رکھے اور کچھ اَور بن کر ماں باپ کا سہارا بنے اور پھر حسبِ توفیق خدمت کر لے۔ کیونکہ والد صاحب بیرون ملک ہوتے تھے لہٰذا جب انہیں یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے مجھے فون کیا اور کہا کہ تمہارا جودل کرتا ہے وہ بنو، مجھے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہے، پہلے بھی خدا تعالیٰ ضرورتیں پوری کر دیتا ہے آئندہ بھی تم لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے کی توفیق دیتا رہےگا لہٰذا تم نے کسی کی باتوں میں نہیں آنا اور اگر تم مربی بننا چاہتے ہو تو پھر مربی ہی بنو۔
چنانچہ خاکسار نے جامعہ احمدیہ میں داخلہ لے لیا۔جامعہ میں پڑھائی کا آغاز ہوگیا۔ممہدہ کے ابتدائی مہینوں میں پاکستان آئے ہوئے تھے، کہنے لگے کہ جامعہ کی پڑھائی کے دوران تمہیں جماعتی کتابوں کی ضرورت ہوگی، پتا کرو کہ کون کون سی کتب ہیں اور کتنے کی آئیں گی۔ چنانچہ میں نے اُس وقت جوبھی جماعتی کتب دستیاب تھیں ان کی فہرست اور درکار رقم سے آگا ہ کیا۔ لہٰذاآپ نے ایک بھاری رقم اکٹھی خرچ کر کے ساری کتب خرید کر دیں، بلکہ کتب رکھنے کے لیے ایک سپیشل الماری بھی بنوا کر دی۔جامعہ میں تعلیم کے دوران خاکسار کو بہت ہی کم کتاب ایشو کروانی پڑی اور اپنی لائبریری سے ہی استفادہ کرتا رہا۔
وقت کے ساتھ ساتھ خدا کےفضل سے ملنے والی مالی کشائش پر کبھی لالچ نہیں کیا اور نہ کسی کے ساتھ اس کو بانٹنے میں کبھی اپنی مٹھی بندکی۔بچوں کی اچھی نوکریوں اور ملازمتوں کے باوجود، اپنی اولاد کی اولاد کی بھی اکثر ضرورتوں کا خود خیال رکھتے۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ اپنے تمام پوتے پوتیوں وغیرہ کا عقیقہ خود کیا جب کہ بچے خود بھی کرنے کی استطاعت رکھتے تھے۔
دوسروں کی تکلیف کا احساس کرنا اوردوسروں سے محبت اور ملنساری سے پیش آنا آپ کی ایک نمایاں خوبی تھی۔ بعض اوقات خاندان میں کسی سے کوئی اختلاف بھی ہوتا تو اُس اختلاف کے باوجوداُس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے اور کوئی ضرورت یا پریشانی ہوتی تو انتہائی کوشش کرکے دُور کرتے۔
غرباء پروری بھی آپ کے اوصاف میں شامل تھی۔ بیماروں کے لیے خاص محبت اورشفقت تھی۔کئی احباب، جن کو خاکسار یہاں رہ کر بھی نہیں جانتا تھا، وفات پر افسوس کرنے آئے اور بتایا کہ جب پاکستان آتےتوہماری مدد کر دیا کرتے تھےاور ایسے ایسے فلاں موقع پر ہماری ضرورت پوری کی۔
اگر کوئی مجبوری کا اشارةً بھی اظہار کرتاتو بے چین ہوکر فوراً امداد کرتے۔ اب بڑھاپے میں پہنچ کر بھی ہم سے بعض اوقات خواہش کا اظہار کرتے کہ میرا دل کرتا ہے کہ اُس فلاں شخص کی میں مدد کروں اور اگر ہم کہتے کہ ہم نے کر دی ہے تو کہتے کہ پھر بھی میری طرف سے الگ سے کردو۔
غرباء پروری کے حوالے سے ہی ان کی بہو بتاتی ہیں کہ جب ابو آئے ہوتے تو اکثر انجان لوگ گیٹ پر دستک دیتے اور ابو کا پوچھتے،جس پر ابو گیٹ پر جا کر بات سنتے اور کچھ دیر بعد جیب میں جو بھی رقم ہوتی وہ بطور امداد نکال کر دے دیتے۔
۲۰۲۲ءمیں پاکستان آئے تو محلے کےخادم مسجد کو وعدہ کیاکہ اگلی بار آؤں گاتو تمہارےبچوں کے لیے سکول بیگ لاؤں گا ۔چنانچہ یہ وعدہ وفا کیا اور ابھی جب مارچ ۲۰۲۴ءمیں پاکستان واپس آئے تواُس کے بچوں کے لیے جرمنی سے سکول بیگز لے کر آئے۔
اسی طرح چھوٹا بھائی بتاتا ہے کہ ۱۹۹۶ءکی بات ہے کہ ایک دن والد صاحب ہم سب بھائیوں کو سکول سے لینے آئے تھے۔ گرمی کے شدید موسم کے باعث ایک طالب علم بے ہوش ہوگیا، ابا جان نے اُس طالب علم کو اٹھایا، خیال رکھا اور اُس کی تیمارداری کی۔
بہت خود دارتھے اور فارغ بیٹھنا پسند نہ کرتے تھے۔ کوئی نہ کوئی کام نکال کر اپنے آپ کو مصروف اور متحرک رکھتے تھے۔ پاکستان میں بھی اور جرمنی میں بھی گھروں میں باغیچہ موجود ہےجس کا خود خیال رکھتے۔ باوجود اس کے کہ ہم اس کام کے لیے تنخواہ دار مالی رکھنے کاکہتے لیکن پودے لگانا، ان کا خیال رکھنااور گوڈی وغیرہ خود کرتے تھےیہاں تک کہ آخری عمر میں بلکہ جس دن ہسپتال داخل ہوئے اُس دن بھی صبح باغیچہ میں کام کیا۔
دعا اور خدا سے مانگنے کا ایک انوکھا طریق تھا۔ بڑے بھائی بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ بچپن میں جمعہ کی نماز پڑھ کرمسجد اقصیٰ ربوہ سے نکلا تو لوگوں کو گاڑیوں میں جاتے ہوئے دیکھ کر خواہش کا اظہار کیا کہ ہمارے پاس بھی ایسی گاڑی ہو۔ یہ سن کرکہنے لگے کہ اللہ سے مانگ رہے ہو کہ انسان سے؟ اگر تو اللہ سے مانگ رہے ہوتو اللہ کی ہستی کے مطابق مانگو۔ ایک گاڑی کیا وہ تو کئی گاڑیاں عطا کرنے کی طاقت رکھتا ہےاورسمجھایا کہ جب اللہ سے مانگو تو بلا جھجک اوربے انتہا مانگو۔ پھر ایک دفعہ نماز کا ایک سجدہ لمبا کرنے پرسمجھایا کہ نماز ایسی ہو کہ ہر مقام پہ دعا ہو نہ کہ صرف ایک سجدہ میں۔
بہت ملنساراورسادہ طبیعت کے مالک تھے۔ ہر عمر کے افراد سے فوری گھل مل جاتےاور اپنی محفل سجا لیتے۔ آپ ایک انتہائی شفیق باپ تھے۔ ہم یا ہمارے بچے اگر کوئی نقصان کر دیتے تو بہت پیار سے سمجھاتے اور اصلاح کرتے۔
ابا ۱۶؍مئی کو بیمار ہوئے، اور ۹-۱۰ گھنٹے پر مشتمل طویل ہارٹ سرجری ہوئی جو بظاہر کامیاب ہوئی۔ تاہم دوسرے دن ڈاکٹرز نے multiple organ failure کی وجہ سے جواب دے دیااور کہا کہ ہم آپ کو کوئی امید نہیں دیتے۔یعنی ڈاکٹرز نے اُس دن ہی امید چھوڑ دی تھی۔ تاہم اللہ کے فضل اور حضور کی دعاؤں کے طفیل اگلے دوہفتوں میں وفات تک غیرمعمولی ریکوری ہوئی۔ چنانچہ میرا یہ یقین ہے کہ حضور کی دعاؤں کے طفیل ہی یہ آخری دو ہفتے ابا کو ملے جس میں انہیں ہوش آئی، سب کو پہچاننے بھی لگے اور جرمنی میں موجود خاندان کے سب افراد سے ایک بار مل بھی لیا۔ اس بات کی اس سے بھی توثیق ہوئی جو جرمنی میں موجود بڑے بھائی نے بتائی کہ وفات سے ایک دن قبل یعنی ۲۹؍مئی کو ڈاکٹرز کی ٹیم نے جب راؤنڈ کیا تواس بات کا برملا اظہار کیا کہ ہمیں اس طرح کی ریکوری کی بالکل امید نہیں تھی اور اب ہمیں امید ہے کہ مکمل ریکور کر جائیں گے۔
لیکن خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو مُحیِی اور مُمِیت ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جلوہ دکھایا کہ جب ڈاکٹرزنا امید تھے تو خدا نے ابامیں زندگی پھونکی اوردکھایا کہ زندگی اور موت اُس کے ہاتھ میں ہے۔اورپھر جب ڈاکٹرز نے کوئی امید دکھانی چاہی تواللہ تعالیٰ نے رحم اور پیار کا سلوک فرماتے ہوئے کسی مستقل معذوری اور محتاجی سے بچاتے ہوئے ۳۰؍مئی کو حرکتِ قلب بند ہوجانے پر اپنے پاس بلا لیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
اللہ تعالیٰ اباکے درجات بلند فرمائے، آپ سے رحم، مغفرت اور پیار کا سلوک فرمائے اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطافرمائے اور ہمیں ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین