متفرق

صنعت وتجارت

ارشاد نبوی صلى الله عليه وآله وسلم

أَنَّ حَكِيْمَ بْنَ حِزَامٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْطَانِي ثُمَّ سَأَلْتُهُ، فَأَعْطَانِي ثُمَّ قَالَ لِي: يَا حَكِيْمُ، إِنَّ هَذَا المَالَ خَضِرٌ حُلْوٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ، بُوْرِكَ لَهُ فِيهِ وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ، لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيْهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى

(بخاری کتاب الوصية باب تاويل قوله من بعد وصية يوصى بها،حدیث نمبر:۲۷۵۰)

حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کچھ امداد کے لیے عرض کیا تو آپ نے میرے سوال کے مطابق مجھے عنایت فرمایا۔ ایک بار پھر ایسی ہی میں نے درخواست کی۔ آپ نے یہ منظور فرمالی۔ تیسری بار پھر میں درخواست گزار ہوا۔ اسے بھی آپ نے منظور فرما لیا لیکن ساتھ ہی ارشاد فرمایا: دنیا بہت مرغوب چیز ہے۔ بہت کچھ سمیٹنے کو جی چاہتا ہے لیکن برکت بے نیازی میں ہی ہے۔ جو شخص اس دنیا کے حاصل کرنے میں حرص ولالچ کا مظاہرہ کرتا ہے وہ بے برکتی کا منہ دیکھتا ہے اور اس کی مثال اس بھوک کے مریض کی سی ہے جو کھاتا جاتا ہے لیکن اس کی بھوک ختم نہیں ہوتی ۔ یاد رکھو اوپر والا یعنی دینے والا ہاتھ نیچے والے یعنی لینے والے ہاتھ سے افضل ہے یعنی دینے والے بنو لینے والے نہ ہو۔

(مرسلہ: وکالت صنعت و تجارت)

مزید پڑھیں: شکر گزاری ترقی اور برکت کا ذریعہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button