الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ امۃالوحیدخان صاحبہ کے قلم سے حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ (المعروف چھوٹی آپا) کا ذکرخیر ذاتی مشاہدات کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ حضرت چھوٹی آپا جان صاحبہ کو اپنی زیر نگرانی خدمتِ دین کرنے والی ممبرات کا بہت خیال رہتا تھا۔اُن کی چھوٹی سے چھوٹی خوشی اور غمی میں جس حد تک ممکن ہوتا ازراہِ شفقت ضرور شرکت کرتیں۔آتے جاتے،اُٹھتے بیٹھتے قیمتی نصائح فرماتیں۔ایک مرتبہ ہم کچھ لڑکیاں آپ کے ہمراہ موجود تھیں کہ آپ نے ہمیں مخاطب ہو کر فرمایا:بچیو!کل کو تم نے شادیوں کے بعد مختلف ممالک میں پھیلنا ہے۔ آج جو یہاں سیکھ رہی ہو، وہاں کی جماعتوں میں جاکر اس پر عمل بھی کرنا۔اُس وقت تو ہم سب ایک دوسرے کو دیکھ کر شرما گئیں لیکن آج سوچتی ہوں کہ یہ کتنی قیمتی نصیحت تھی۔ آج وہ سب دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم ہیں اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے مطابق خدمت دین بجا لا رہی ہیں۔
صد سالہ جوبلی کے موقع پر لجنہ اِماءاللہ مرکزیہ کو اپنا مجلّہ شائع کرنے اور سکارف بنوانے کی توفیق ملی تو بیرونی ممالک یا پاکستان کی مختلف مجالس سے آنے والی ممبرات کو یہ تاریخی اشیاء حاصل کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتیں کہ اب میرے پاس بچیاں آتی ہیں اور پنجاہ سالہ جوبلی پہ شائع ہونے والے مجلّہ کی فرمائش کرتی ہیں جو کہ اب نایاب ہے اس لیے یہ قیمتی سرمایہ اپنی آئندہ نسلوں کے لیے ضرور خریدیں۔
حضرت سیّدہ چھوٹی آپا جان صاحبہ کی زندگی کا بیشتر حصہ دین کی خدمت میں وقف نظر آتا ہے۔جب ایم ٹی اے کے لیے ’المائدہ‘پروگرام شروع کرنا تھا تو انچارج صاحبہ کی خواہش تھی کہ اس سلسلہ کا آغاز حضرت سیّدہ چھوٹی آپا جان صاحبہ کے ساتھ ہو۔آپ ان دنوں گھٹنوں کی تکلیف کی وجہ سے بآسانی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتی تھیں جبکہ کچن دفتر کی پہلی منزل پہ تھا۔جب آپ کی خدمت میں اس خواہش کا اظہار کیا تو آپ نے اپنی تکلیف کے با وجود بنفسِ نفیس شرکت کر کے اس پروگرام کا افتتاح کیا۔ آپ نے جماعتی کاموں کو اپنی ہرمصروفیت اور تکلیف پر ہمیشہ ترجیح دی۔
حضرت سیّدہ چھوٹی آپا جان صاحبہ اور آپ کی اکلوتی بیٹی مکرمہ صاحبزادی امۃالمتین بیگم صاحبہ کے پاس ہم بیٹھی تھیں کہ اس دوران ملازم دونوں کے لیے سودا(سبزی وغیرہ)بازار سے لایااور چیزوں کے ساتھ دونوں کی بقایا رقم اکٹھی واپس کی۔ دونوں نے الگ الگ خریداری کی لِسٹ دی ہوئی تھی۔ اپنی اپنی اشیاء لے کر باجی متین چھوٹی آپا جان صاحبہ سے رقم کا حساب کرنے لگیںاور غالباً ایک روپے سے بھی کم رقم تھی جس کو کلیئر کرنے میں کچھ وقت لگا۔جب معاملہ کلیئر ہو گیا اور تمام رقم کی وضاحت ہو گئی تو بعد میںمَیں نے باجی متین سے پوچھاکہ آپ چند پیسوں کی خاطر چھوٹی آپا سے حساب کر رہی تھیں تو سمجھانے کے بعد ایک پنجابی محاورہ بولا جس کا مطلب یہ ہے کہ روپے پیسے کے حساب میں چاہے اپنی ماں ہی کیوں نہ ہو، معاملات صاف رکھنے چاہئیں۔اُس وقت تو بات آئی گئی ہوگئی لیکن شادی کے بعد جب گھرکی ذمہ داری کاندھوں پہ پڑی تو اِس اصول پر میں نے جس حد تک ہو سکا عمل کیا اور نتیجۃً اس معاملے میں اپنی زندگی کو سہل پایا۔
حضرت سیّدہ نے ایک بات کی نہ صرف نصیحت فرمائی بلکہ اس پہ عمل بھی کروایا کہ لڑکیاں جب بھی دفتر آئیں تو اتنی دیر پہلے گھر کے لیے روانہ ہو جائیں کہ مغرب سے قبل اپنے گھر پہنچ جائیں۔ لیکن بعض اوقات تربیتی کلاس، گیمز یا دیگر پروگرامز کے لیے اگر رات گئے تک رُکنا پڑتا تو تاکیدی ہدایت تھی کہ ڈرائیور کے ساتھ ایک مرد اور کسی بڑی عمر کی خاتون کی موجودگی میں لڑکیوں کو گھر میں پہنچا کر آئیںاور ڈرائیور کو بھی اس بات کی ہدایت تھی کہ جب تک لڑکی گھر کے اندر نہ داخل ہو جائے اُس وقت تک واپس نہیں آنا۔
………٭………٭………٭………
حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ رشیدہ سلیمان راجہ صاحبہ نے مختصر مضمون میں حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کا ذکرخیر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ میری والدہ کے ذریعے مجھے اور ہماری بعض رشتہ دار خواتین کو حضرت سیّدہ ناصرہ بیگم صاحبہ کی خدمت کی سعادت حاصل ہوتی رہی ہے اور آپ کی شفقتوں سے استفادہ کرنے کا موقع بھی ملتا رہا ہے۔
میری شادی ۱۹۶۹ء میں ہوئی۔ شادی سے اگلے دن جب مَیں بذریعہ ٹرین لاہور روانہ ہونے لگی تواُسی ٹرین پر حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ اور حضرت صاحبزادی امۃالباسط صاحبہ بھی لاہور کے لیے روانہ ہو رہی تھیں۔ ریلوے سٹیشن پر ان سے ملاقات ہوئی تو دونوں محترم خواتین نے مجھے دعائیں دیں اور نصیحت کی کہ اپنے خاوند کی تابعداری کرنا اور سسرال میں محبت سے رہنا۔
۲۰۰۷ء میں مَیںجرمنی سے ربوہ گئی تو حضرت سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ سے ملنے قصر خلافت گئی۔ ہم بر آمدہ میں بیٹھے تھے کہ آپ دو خواتین کے سہارے باہر تشریف لائیں۔ جب آپ کو معلوم ہوا کہ ہم جرمنی سے آئے ہیں تو فرمانے لگیں: مَیں نے خواب میں دیکھا ہے کہ جرمنی کی کنجیاں (حضرت) مسرور (ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) کو ملی ہیں۔
………٭………٭………٭………
محترمہ صاحبزادی امۃالقیوم صاحبہ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں محترمہ صاحبزادی امۃالقیوم صاحبہ کا ذکرخیر مکرم مرزا ظاہر مصطفیٰ احمد صاحب کے قلم سے شامل ہے۔ اس مضمون کا ترجمہ مکرمہ شگفتہ احمد صاحبہ نے پیش کیا ہے۔
حضرت صاحبزادی امۃالقیوم صاحبہ اہلیہ محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب (المعروف ایم ایم احمد)کی وفات ۹۲؍ سال کی عمر میں ہوئی۔ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی نواسی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی بیٹی تھیں۔ والدہ محترمہ سیدہ امۃالحی بیگم صاحبہؓ تھیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ کسی احمدی خاتون نے رؤیا میں آواز سنی کہ بی بی امۃالقیوم ولی اللہ ہیں۔ حضورایدہ اللہ نے فرمایا کہ یہ حقیقت ہے۔
بی بی امۃالقیوم کی زندگی کی سب سے اہم بات آپ کی اللہ تعالیٰ سے محبت تھی۔ ہر وقت خداتعالیٰ سے تعلق جوڑنے کی کوشش میں لگی رہتیں۔ قرآن مجید پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی تلقین کرتی رہتی تھیں اور کہتی تھیں کہ ایسے پڑھو جیسے انسان کسی محبوب ہستی کا خط پڑھتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ان کو جو قرآن مجید کا نسخہ دیا اس کے پہلے صفحہ پر حضورؓ نے تحریر فرمایا:’’میری پیاری امۃالقیوم! یہ خدا کا کلام ہے اس کے سوا میں کیا کہوںجو کچھ بھی مجھے ملا، مجھے قرآن پاک سے ملا ہے۔‘‘اس نصیحت پر آپ نے تمام عمر عمل کیا اور قرآن پاک سیکھنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کی۔ ہمارے گھر میں جتنے بھی قرآن پاک کے نسخے تھے ان میں ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نوٹس موجود ہیں۔
اپنی تلاوت قرآن، احادیث اور حضرت مسیح موعود ؑکی زندگی کے واقعات سنا کر انہوں نے میرے اور میرے بچوں کی روحوں اور دلوں میں بھی اللہ سے محبت کا جذبہ پیدا کیا۔ ایک ماں کی حیثیت سے آپ جانتی تھیں کہ بچوں کے دلوں میں دین کی محبت کیسے ڈالنی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں پانچ یا چھ سال کا تھا تو میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں بہت سوال کرتا تھا۔ آپ مجھے کہتیں کہ اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ یہ بات میری سمجھ میں نہ آتی۔ ایک دن جب مَیں سو کر اٹھا تو آپ نے مجھے بتایا کہ جب میں سونے کے لیے چلا گیا تو آپ نے دائرہ کی شکل میں ریل گاڑی کے ٹریک دیکھے جن پر ایک ریل گاڑی تھی۔ آپ نے گاڑی کو ٹریک پر آگے چلایا اور چلاتی گئیں اور کہا کہ اس ٹریک کا نہ کوئی آغازہے اور نہ کوئی انتہا ہے اسی طرح خدا کی ہستی ہے۔
خدا کے ساتھ آپ کا خاص تعلق تھا اور یہی وجہ تھی کہ آپ کسی سے بھی اپنی کسی خواہش کا اظہار نہ کرتیں۔ خدا سے مانگتی تھیں اور جو ملتا اس پرشکر کرتیں۔ قناعت کا نمونہ تھیں۔
ایک بار آپ نے مجھے بتایا کہ جب آپ چھوٹی سی تھیں تو آپ نے کسی رشتہ دار سے کوئی کپڑا ادھار لیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جب آپ کو وہ کپڑا پہنے ہوئے دیکھا تو اس کے بارے میں دریافت فرمایا۔ جب یہ معلوم ہوا کہ کپڑا آپ کا نہیں ہے تو حضورؓ نے آپ کو کپڑے بدلنے کے لیے کہا اور فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے جو دیا ہے اس پر قناعت کریں اور دوسروں سے چیزیں مانگ کر نہ پہنیں‘‘۔ مزید یہ فرمایا کہ’’جس چیز کی بھی ضرورت ہو خدا سے مانگنی چاہیے اور لوگوں سے نہیں۔‘‘ اس دن کے بعد آپ نے کبھی کسی سے کوئی چیز نہیں مانگی۔
آپ کی یہی خاص خوبی تھی یعنی اللہ تعالیٰ سے محبت۔ کیونکہ ہر اچھائی اس سے شروع ہوتی ہے۔
………٭………٭………٭………
چند مشہور مسلمان جغرافیہ دان
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۷؍دسمبر ۲۰۱۴ء میں چند مشہور مسلمان جغرافیہ دانوں کا تذکرہ شامل اشاعت ہے۔
٭…ابن بطوطہ :۱۳۰۴ء میں مراکش کے شہر طنجہ میں پیدا ہونے والے معروف سیاح، مؤرخ اور جغرافیہ دان ابوعبداللہ محمد ابن بطوطہ کا انتقال ۱۳۷۸ء میں ہوا۔ انہوں نے جزائر شرق الہند اور چین کی سیاحت کی۔ عرب، ایران، شام، فلسطین، افغانستان اور ہندوستان بھی گئے۔ وہ محمد تغلق کے عہد میں ہندوستان آئے تھے۔یہیں سے ایک سفارتی مشن پر چین جانے کا حکم ملا۔ ۲۸؍سال کی مدت میں انہوں نے ۷۵؍ہزار میل کا سفر کیا۔ آخر میں فارس کے بادشاہ ابو حنان کے دربار میں آئے اور اس کے کہنے پر اپنے سفر نامے کو کتابی شکل دی۔ اس کتاب کا نام ’’عجائب الاسفارفی غرائب الدیار‘‘ ہے جو مختلف ممالک کے تاریخی و جغرافیائی حالات کا مجموعہ ہے۔
٭…ابن رشد : جغرافیہ دان، فلسفی، ریاضی دان، ماہر علم فلکیات اور ماہرفن طب ابن رشد قرطبہ میں ۱۱۲۶ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا پور انام ابو الولید محمدبن احمد بن محمد بن احمد بن رشد القرطبی الا ندلسی ہے۔ ابن طفیل اور ابن اظہر جیسے مشہو رعالموں سے دینیات، فلسفہ، قانون، علم الحساب اور علم فلکیات کی تعلیم حاصل کی۔ یوں تو ابن رشد نے قانون، منطق، قواعد زبان عربی، علم فلکیات، جغرافیہ اور طب پر متعدد کتب لکھی ہیں۔ مگر ان کی وہ تصانیف زیادہ مقبول ہوئی ہیں جو ارسطوکی مابعدالطبعیات کی وضاحت اور تشریح کے سلسلے میں ہیں۔ ابن رشد ۱۱۹۸ء کو مراکش میں انتقال کر گئے۔ جمال الدین العلوی نے ابن رشد کی ۱۰۸؍تصانیف شمار کی ہیں جن میں سے ہم تک عربی متن میں ۵۸؍تصانیف پہنچی ہیں۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۱۰؍مئی۲۰۱۴ء کی زینت مکرم ابن آدم صاحب کی غزل میں سے انتخاب پیش ہے:
سنا ہے اس کو جو دیکھیں تو مر کے دیکھتے ہیں
وہ کوئی بُت ہے جسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ایسے میں کوئی فلک سے آتا ہے
فساد دنیا میں جب بحر و بر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چمکا ہے ایسے وہ چودھویں کا چاند
ستارے چاند کو اب بن سنور کے دیکھتے ہیں
سنا ہے مانگتے ہیں مر کے مانگنے والے
دعا میں موت ہے لازم تو مر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ان کو فرشتے اٹھانے دوڑتے ہیں
گرا کے آنسو کہیں چشم تر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے سوال و جواب کی مجلس
فرشتے بامِ فلک سے اُتر کے دیکھتے ہیں
مزید پڑھیں: مصر کے اہم مقامات