مکتوب ایشیا (دسمبر۲۰۲۴ء)
(بر اعظم ایشیاکے تازہ حالات و واقعات کا خلاصہ)
سیریا (شام ) کی خطرنا ک صورتحال
ابھرتے سورج کی سر زمین ’’شام‘‘اپنی ایک صدیوں پرانی تاریخ رکھتی ہے۔ غیروں نے کیا ’’شام ‘‘کے اپنے حکمرانوں نے اس کے ساتھ وہ ظلم کیا کہ تاریخ اسے یاد رکھے گی۔ شام میں اپوزیشن فورسز کے دارالحکومت دمشق کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ۲۴سال سے برسراقتدار بشارالاسد کی آمریت کا خاتمہ صرف ۱۱دنوں میں ہوگیا۔ بعد ازاں دمشق میں کچھ ایسے ہی مناظر دیکھنے میں آئے جیسے اس سے قبل عراق اور لیبیا میں دیکھے گئے تھے، لوگوں نے بشارالاسد کے صدارتی محل میں داخل ہوکر سیلفیاں اور ویڈیوز بنائیں اور قیمتی اشیالوٹ کر فرار ہوگئے جبکہ دمشق میں نصب اسد خاندان کے مجسمے بھی گرادیے گئے۔ ایسے میں رات کی تاریکی میں بشارالاسد کو ایک طیارے میں ماسکو فرار ہونا پڑا اور اس طرح اسد خاندان کے ۵۴سالہ اقتدار کا سورج غروب ہوگیا۔ شام کی مجموعی آبادی ڈھائی کروڑ سے زائد ہے جس میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے جبکہ ۱۳فیصد کا تعلق شیعہ علوی گروپ سے ہے۔ بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کی وفات کے بعد ۲۰۰۰ء میں اقتدار میں آئے تھے۔ حافظ الاسد ۲۹برس تک شام کے حکمران رہے جبکہ بشارالاسد نے بھی اپنے والد کی طرح ۲۴ برسوں تک روس اور ایران کی مدد سے ملک پر آہنی کنٹرول رکھا اور ان کے دور میں شام کی جیلیں سیاسی قیدیوں اور باغیوں سے بھری تھیں۔ بشارالاسد باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں طویل عرصے سے روس، ایران اور حزب اللہ جیسے اتحادیوں پر انحصار کررہے تھے تاہم ۲۰۲۲ءسے جاری روس، یوکرین جنگ کے باعث روس کی توجہ یوکرین جنگ پر مرکوز ہوگئی اور شام روس کی ترجیح نہیں رہا۔ ایسی صورتحال میں روسی طیارے ماضی کے مقابلے میں اس بار شامی فوج کو وہ مدد فراہم نہیں کرسکے جس کی توقع کی جارہی تھی۔ دوسری طرف ایران کی قیادت کو رواں سال اسرائیلی حملوں میں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا اور اسرائیل، ایران کشیدگی کے باعث ایران کی خطے میں گرفت کمزور پڑگئی۔ اسی طرح لبنان میں اسرائیل کے خلاف جنگ میں حزب اللہ کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ موجودہ صورتحال کا شام کے باغیوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور وہ منظم ہوکر حکومت کے خلاف بغاوت میں کامیاب رہے۔ شام کی ایک لاکھ ۷۰ ہزار سے زائد سرکاری فوج تتر بتر ہوچکی ہے مگر شام کا مستقبل غیر یقینی نظر آرہا ہے جو ملک کو مزید عدم استحکام سے دوچار کرسکتا ہے۔
اسد خاندان کے اقتدار اور ایران کے اثر و رسوخ کے خاتمے کو اسرائیل اپنی فتح سے تعبیر کررہا ہے کیونکہ لبنان میں حزب اللہ کو ایران کی جانب سے ہتھیار سپلائی کرنے کا دستیاب راستہ اب بند ہوگیا ہے۔ موجودہ صورتحال کا امریکہ اور اسرائیل بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں جو بشار الاسد حکومت کے خلاف باغی فورسز کی بغاوت کو طویل عرصے سے سپورٹ کررہے تھے۔ بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے اسرائیل کے زیر قبضہ شام کے گولان کے پہاڑی علاقوں میں اپنی فوج بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔آجکل دمشق کے عوام ایک طرف تو بشار الاسد سے گلو خلاصی کی خوشیاں منا رہے ہیں تو دوسری جانب اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قدم دمشق تک پہنچ چکے ہیں۔ نہ صرف دمشق تک اسرائیلی فوجی رسائی حاصل کر چکے ہیں بلکہ دمشق پر گولہ و بارود برسا کر اسے تہس نہس کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔ اسرائیلی فوجیوں نے جب غزہ پر یلغار کی تو دنیا سراپا احتجاج ہوئی ایک سال سے تجاوز کرتے اسرائیلی مظالم یہاں تک آ پہنچے ہیں کہ ظلم کا سلسلہ دوسرے سال کے تیسرے ماہ میں داخل ہو چکا ہے۔ ایسے میں شام کے حالات اس نہج کو پہنچے کہ وہاں باغی کامیاب ہوئے تو موقع پاتے ہی اسرائیل بھی جا پہنچا اور جاتے ہی وہاں کی پہاڑیوں اور علاقوں پر قابض ہو گیا اور اب وہ شام کی سلامتی پر وار کرناچاہتا ہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری شام پر اسرائیلی کارروائیوں کو اس کی سلامتی پر حملہ قرار دے رہے ہیں لیکن اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری یا اقوام متحدہ کی کسی قرارداد یا دنیا کے کسی دباؤ کو اسرائیل نے خاطر میں رکھا ہی کب ہے؟ شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ایسا لگتا ہے کہ گویا ایک ایسا عمل ہے جیسے شام کو ایک آمر سے نجات دلا کر عالمی دہشت گردوں کے سپرد کیا جارہا ہو۔
دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے جو قومیں سبق سیکھتی ہیں وہی کامیاب ہوتی ہیں۔اگر لیبیا، عراق اور شام کے عوام، حکمران اور فوج متحد ہوتے تو شایدآج ان کا یہ حشر نہ ہوتا۔غزہ، لبنان، عراق اور شام میں پیش آنے والے واقعات ایک وارننگ ہیں۔ روس کی طاقت اور ایران کی مدد کے باوجود شام کی حکومت کو غیر منظم باغیوں کے ہاتھوں شکست و ریخت کا سامنا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ آج بھی ایک ہی سپر پاور ہے، دوسرا صد ر ٹرمپ کے آنے کے بعد شاید یہ ڈیل طے ہو گئی ہے کہ امریکہ یوکرائن کی حمایت بند کر دے گا اور اسے روس کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گا اور جواباً روس، امریکہ کو مڈل ایسٹ میں کِھل کھیلنے کا موقع فراہم کرے گا۔
ایران کے وزیرخارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ انہوں نے شام میں موجود مختلف فریقوں سے بات چیت کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ایران کو شام میں سیدہ زینب اور رقیہ کے مزاروں سمیت مقدس مقامات کی حفاظت کی یقین دہانی کروادی گئی ہے، ہمارے سفارتخانے پر حملہ کسی تنظیم یا مسلح گروپ نے نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ ان مقدس مقامات کا تقدس برقرار رکھا جائے گا اور ہمارے سفارتخانے کا احترام بھی یقینی بنایا جائے گا۔
اسرائیل نے فلسطین پر چڑھائی کر کے مسلمانوں کی گردن تو دبوچ ہی لی تھی اب شام پر ہلہ بول کر وہ آگے بڑھنے کے راستے ہموار کر رہا ہے مسلمانوں کے لیے ظاہری طور پر یہ ممکن نہیں کہ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک لیں۔ اسرائیل شام سے ہوتا ہوا ایران تک پہنچنا چاہتا ہے۔ شام ایک ایسی راہداری تھی کہ ایران جہاں سے مزاحمتی تنظیموں تک اسلحہ یا امداد پہنچاتا تھا،لیکن شام پر اسرائیلی قبضے کے بعد اب یہ بھی ممکن نہیں رہا۔
پاکستان اور بھارت تین سال تک ایک دوسرے کی سرزمین پر کرکٹ نہیں کھیلیں گے
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے پاک بھارت فیوژن فارمولے کی منظوری دے دی ہے جو چیمپئنز ٹرافی، ویمنز ورلڈ کپ اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ پر نافذ ہوگا۔آئی سی سی ترجمان کے مطابق چیمپیئنز ٹرافی ۲۰۲۵ء سے لے کر ۲۰۲۷ء تک ہونے والے تمام آئی سی سی ایونٹس میں پاکستان کے میچز نیوٹرل وینیو پر ہوں گے، گرین شرٹس بھی بھارت کا سفر کرنے سے گریز کرے گی، آئی سی سی کی جانب سے مشروط معاہدے پر دونوں بورڈز نے رضامندی ظاہر کردی ہے۔معاہدے کے تحت آٹھ ٹیموں کے چیمپئنز ٹرافی ایونٹ میں بھارت کے میچز ایک غیر جانبدار مقام پر کھیلے جائیں گے جبکہ بدلے میں آئی سی سی کے وہ ایونٹس جن کی میزبانی بھارت کرے گا، ان میں پاکستان کے میچز نیوٹرل وینیو پر کھیلے جائیں گے جبکہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی ۲۰۲۵ء کا شیڈول جلد جاری کردیا جائے گا۔آئی سی سی کے مطابق پاکستان چار سال بعد ایک اور آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی کرے گا، جس میں پاکستان کو ۲۰۲۸ء کے ویمنز ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کی میزبانی دی گئی ہے۔۲۰۲۸ء ویمنز ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ ۲۰۲۵ء کا پہلا آئی سی سی ایونٹ ہوگا اور ویمنز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی پاکستاں بھارت کا فیوژن فارمولا اپلائی ہوگا جبکہ پاک بھارت فیوژن فارمولا ناک آؤٹ میچز پر بھی اپلائی ہوگا۔اس کے علاوہ ۲۰۲۷ء تک دونوں ٹیمیں ایک دوسرے کے ملک میں آئی سی سی ایونٹ کا میچ نیوٹرل وینیو پر کھیلیں گی اور نیوٹرل وینیو کا انتخاب میزبان بورڈ کرے گا۔دوسری جانب چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کا کہنا ہے کہ چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹ پاکستان کی عزت ہے، کوئی حرف نہیں آنے دیں گے۔چیئرمین کی زیرِ صدارت گورننگ بورڈ کا ۷۶ واں اجلاس ہوا، جس میں گورننگ بورڈ کے گذشتہ اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کی گئی۔اجلاس کو آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹ پر اب تک کی پیشرفت سے آگاہ کیا گیا۔گورننگ بورڈ کو قذافی، نیشنل اور راولپنڈی اسٹیڈیم کی تعمیر نو پر پیشرفت کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔انہوں نے گورننگ بورڈ کو چیمپئنز ٹرافی سے متعلق اعتماد میں لیا۔اراکین نے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی سے متعلق محسن نقوی کے اصولی موقف کو سراہا۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے دن سے ہی پاکستان اور کرکٹ کی جیت کی بات کر رہا ہوں، پی سی بی چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹ کے انعقاد کے لیے ہر لحاظ سے تیار ہے۔چیئرمین پی سی بی کا کہنا ہے کہ چیمپئنز ٹرافی کے لیے ہر طرح کی تیاریاں مکمل ہیں، پاکستان کے اصولی مؤقف کو ہر کسی نے سراہا ہے، تمام ٹیموں کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہیں گے۔
سامنے آنے والے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے فیصلے اس اعتبار سے کرکٹ کی فتح کہلانے کے مستحق ہیں کہ ان میں نہ صرف چیمپئنز ٹرافی کی حیثیت و سربلندی کا احترام متاثر ہونے کے امکانات حتی الوسع ختم کر دیے گئے بلکہ آئندہ تین برسوں کے دوران پاکستان اور بھارت کی ٹیموں کے کھیلنے کے مقام کے حوالے سے بھی واضح حکمت عملی طے کردی گئی۔ کئی ہفتوں کے مذاکرات کے بعد جاری کیےگئے اعلان کے بموجب چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی پاکستان کریگا جبکہ اسلام آباد کا فیوژن ماڈل بھی مان لیا گیا ہے۔ تیسرے ملک میں میچ کرانے کا اعلان پاکستان کرکٹ بورڈ آئی سی سی کی مشاورت سے کرے گا۔ ڈائیلاگ کے ذریعے بظاہر الجھے ہوئے مسئلے کا احسن حل نکالنا بڑی کامیابی ہے جس میں پی سی بی کے چیئرمین کے کردار کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ آئی سی سی بورڈ کے اجلاس میں ۲۰۲۸ء میں ہونے والی آئی سی سی ویمنز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی میزبانی بھی پاکستان کو دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ آئی سی سی کے۱۹؍دسمبر کے اعلان سے یہ بات واضح ہوگئی کہ شکوک و شبہات کے بادل چھٹ چکے ہیں۔ روایتی حریف پاکستان اور بھارت ۲۰۲۷ء تک ان دونوں ممالک میں ہونے والے کسی بھی آئی سی سی ٹورنامنٹ میں اپنے میچ نیوٹرل مقام پر کھیلیں گے۔ ٹورنامنٹ کے شیڈول کا اعلان جلد کیا جائے گا جو ممکنہ طور پر ۱۹؍فروری سے ۹؍مارچ ۲۰۲۵ءتک ہوسکتا ہے۔ کرکٹ کے حوالےسے پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والا یہ سمجھوتہ ڈائیلاگ کے ذریعے الجھاؤ دُور کرنے کی قابل قدر مثال ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ یہ روش دوسرے مسائل اور تنازعات کے حوالے سے بھی اختیار کی جائے گی۔
انسانی سمگلنگ کی بگڑتی صورتحال
سادہ لوح اور ضرورت مند پاکستانیوں کے تارک وطن ہونے اور انتہائی خطرناک سفر کے دوران اب تک کشتیاں ڈوب جانے،طویل پہاڑی سفر اور قید و بند کی ظالمانہ سزاؤں کے دوران مارے جانے کے متعدد واقعات منظرعام پر آچکے ہیں، تاہم پاکستان میں تمام تر قوانین اوران پرعمل درآمد کرنے والی فورس ہونے کے باوجودکم و بیش پچاس برسوں میں ان واقعات کا تدارک نہ ہو سکا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق،جمعہ اور ہفتہ (۱۳۔۱۴؍دسمبر)کی درمیانی شب یونان کے قریب سمندرمیں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے غیرقانونی تارکین وطن کی تین کشتیاں ڈوب جانے کا واقعہ افسوسناک ہے۔پاکستان دفتر خارجہ کے مطابق ۸۶؍افراد کو ڈوبنے سے بچالیا گیا ہے جن میں ۴۷؍پاکستانی شامل اور دیگر لاپتا ہیں۔ابتدائی رپورٹ کے مطابق تینوں کشتیاں ایک ساتھ لیبیا سےجنوب مشرقی یورپ کے لیے روانہ ہوئی تھیں۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والی کشتیوں کی تعداد پانچ جبکہ جاں بحق ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی ہے۔یونانی کوسٹ گارڈز نے ریسکیو آپریشن ختم کردیا ہے۔اس وقت بھی مزیدپاکستانیوں سمیت۳۵؍افراد لاپتا ہیں۔جنہیں یونانی حکام نے مردہ قرار دے دیا ہے۔ خوش قسمتی سےیونانی سمندر میں ڈوب جانے والی کشتیوں کے ۴۷پاکستانیوں کو زندہ بچالیا گیا ہےتاہم یہ بات اپنی جگہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ اگر ایسا ممکن نہ ہوسکتا تو ان سب کے گھروں میں بھی صف ماتم بچھ جاتی۔مختلف ذرائع ابلاغ کے مطابق لیبیا میں پاکستانی اور مقامی ایجنٹوں کے پاس یورپ جانے کے خواہشمند پانچ ہزار پاکستانی موجود ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستانیوں کو جھانسہ دے کر غیرقانونی طریقوں سے بیرون ملک بھجوانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ان کا کہناہے کہ انسانی اسمگلنگ پاکستان کے لیے بدنامی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ یونان کے اسی علاقے میں جہاں گذشتہ برس ۲۶۲؍پاکستانی جاں بحق ہوئے تھے،،ریکروٹنگ ایجنٹوں کے بھیس میں پائے جانے والے انسانی اسمگلروں کے خلاف اس واقعہ کی روشنی میں کارروائی غیر سنجیدہ طور پرکیوں کی گئی؟اس امرپر وزیر اعظم نے ملوث افسران کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی۔
واضح رہے کہ غیرقانونی تارکین وطن کے لیے پاکستان سے یورپ تک کا سفر انتہائی پرخطرہے،جس میں انہیں زمینی راستے سے کنٹینرز میں خفیہ طریقے سے سوار کرکے لیبیا پہنچایا جاتا ہے،جہاں سے یونان تک سمندری سفرہے۔بہت سے واقعات میں انہیں ساحل پر پہنچتے ہی گرفتار کرلیا جاتا ہے۔اس کے نتیجے میں بعض ملکوں کی جیلوں میں متعدد پاکستانی کئی کئی برس سے بغیر مقدمہ چلائےقید ہیں۔ پاکستان میں ان واقعات کے بعد متعلقہ محکمے متحرک دکھائی دیتے ہیں لیکن آج تک ان کی روک تھام نہ ہوسکی۔
صدربیلاروس کا دورہ پاکستان اور ترقی کے امکانات
بیلاروس کے صدرالیگزینڈر لوکاشینکو کے حالیہ دورہ پاکستان کو اگر عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ اسی ریجنل شفٹ کی پالیسی کا حصہ نظر آتا ہے جو ایک دہائی قبل سی پیک کے آغاز سے شروع ہوئی تھی۔ اس پالیسی کے تسلسل میں ہی ۲۰۱۷ءمیں پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس سے عالمی سطح پر پاکستان کے حوالے سے یہ تاثرزائل کرنے میں خاطر خواہ مدد ملی کہ وہ سفارتی طور پر تنہا نہیں ہے بلکہ امریکہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ ساتھ چین اور روس کے علاوہ وسطی ایشیا کے ممالک سے بھی اپنے تعلقات کو بہتر بنا رہا ہے۔ اسی طرح بیلاروس کے صدر کی آمد سے قبل آنے والے ۶۸؍رکنی وفد میں شامل بیلاروس کی حکومت کے اہم وزراء، حکومتی محکموں کے سربراہان اور اہم کاروباری شخصیات کی آمد بھی اس بات کا ثبوت تھی کہ یہ ایک روایتی دورہ نہیں ہے بلکہ دو طرفہ تعلقات کو اقتصادی تعاون اور اشتراک میں تبدیل کرنے کے روڈ میپ کا تعین کر لیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کے اس تین روزہ دورے کے دوران دونوں ممالک نے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، منی لانڈرنگ اوردہشت گردی کی فنانسنگ سمیت دیگر جرائم کو روکنے، پاکستان نیشنل ایکریڈیشن کونسل اور بیلاروس کے ایکریڈیشن سینٹر کے درمیان تعاون کو بڑھانے کے علاوہ بین الاقوامی روڈ ٹرانسپورٹ کا انفراسٹرکچر بہتر بنانے کے حوالے سے بھی اقدامات کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ علاوہ ازیں ماحولیاتی تحفظ کے شعبے میں بھی دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے سمجھوتوں پر دستخط ہوئے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گذشتہ چند سال کے دوران روس اور پاکستان کے تعلقات تیزی سے بہتر ہوئے ہیں اور ستمبر میں روس کے ڈپٹی وزیر اعظم الیکسی اوورچک دو روزہ دورے پر پاکستان آئے تھے جس کے بعد ماسکو میں روس پاکستان انویسٹمنٹ فورم کا انعقاد ہوا۔ دوطرفہ تعلقات میں بہتری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن پاکستان کو نارتھ ساؤتھ کوریڈور میں شرکت کی دعوت بھی دے چکے ہیں۔ وہ وزیر اعظم شہباز شریف کو یہ پیشکش بھی کر چکے ہیں کہ روس پائپ لائن کے ذریعے پاکستان کو گیس فراہم کر سکتا ہے۔ یہ پیشکش اس لحاظ سے اہم ہے کہ گیس پائپ لائن کے اس منصوبے کے حوالے سے قازقستان، ازبکستان اور روس میں پہلے ہی انفراسٹرکچر موجود ہے اور اگر پاکستان اس سہولت سے مستفید ہونا چاہے تو اس کے لیے زیادہ انتظار یا سرمایہ کاری نہیں کرنی پڑے گی۔ اسی طرح تجارتی تعلقات کو بڑھانےکے لیے پاکستان، روس، بیلاروس، قازقستان، ازبکستان اور افغانستان گذشتہ سال ایک ایم او یو سائن کر چکے ہیں جس کے تحت یہ ممالک مشترکہ طور پر ایک ٹرانسپورٹ کوریڈور تعمیر کریں گے جسے متوقع طور پر سینٹرل یوریشین کوریڈور یا ایس سی او کوریڈور کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک ریل کوریڈور بھی زیرغور ہے جو ازبکستان، افغانستان اور پاکستان سے ہوتا ہوا انڈیا تک جائے گا۔ اس سلسلے میں روس کی طرف سے پاکستان کے افغانستان اور انڈیا سے تعلقات بہتر بنانےکے لیے بھی کوششیں جاری ہیں اور ابتدائی طور پر تینوں ممالک میں دہشت گردی کے خلاف تعاون پر اتفاق رائے جلد متوقع ہے۔ ان حالات میں بیلاروس کے صدر کا دورہ پاکستان اس لحاظ سے اہم ہے کہ وہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے یہ بات خارج از امکان نہیں کہ وہ دو طرفہ تعلقات میں بہتری کے ساتھ ساتھ روسی صدر کی طرف سے جاری کوششوں کے حوالے سے بھی کوئی اہم پیغام لے کر پاکستان آئے ہوں اور مستقبل قریب میں روس کے صدر بھی پاکستان کا دورہ کریں۔ یوکرائن میں جاری جنگ کی طوالت کے باعث یورپ اور امریکہ کی پالیسی میں آنے والی حالیہ تبدیلیوں اور امریکی الیکشن میں ٹرمپ کی کامیابی نے روس اور چین کی کوششوں میں مزید تیزی پیدا کر دی ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید ٹرمپ کے صدر بننے سے قبل ہی ایس ای او ممالک کے مابین گیس کی سپلائی اور روڈ نیٹ ورک کی تعمیر کے ذریعے تجارتی سرگرمیوں کی بحالی کا کوئی ٹھوس بریک تھرو ممکن ہو جائے۔ اس سلسلے میں روس نے طالبان کو ٹیررسٹ لسٹ سے نکالنے اور افغانستان کو شنگھائی تعاون تنظیم میں مبصر رکن کے طور پر نشست دوبارہ حاصل کرنے میں مدد کا بھی یقین دلایا ہے۔
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: مکتوب افریقہ (نومبر۲۰۲۴ء)