سریہ کُرز بن جابراور غزوہ ذی قرد کے تناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۲۴؍جنوری ۲۰۲۵ء
٭…سریہ کرز بن جابر میں ظلم کی ابتداء کفار کی طرف سے تھی۔ پھر یہ فیصلہ بھی موسوی شریعت کے مطابق کیا گیا تھا لیکن پھر بھی اسلام نے اسے برقرار نہیں رکھا اور آئندہ کے لیے ایسے طریق سے منع کردیا
٭… اسلام افراط و تفریط کے رستے کو چھوڑ کر وہ وسطی تعلیم دیتا ہے جو دنیا میں حقیقی امن کی بنیاد ہے۔ یعنی ہر بدی کی سزا اس کے مناسبِ حال اور اس کی شدّت کے مطابق ہونی چاہیےلیکن اگر حالات ایسے ہوں کہ معاف کرنے یا نرمی کرنے سے اصلاح کی امید ہو تو پھر معاف کرنا یا نرمی کرنا بہتر ہے
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۴؍جنوری۲۰۲۵ء بمطابق ۲۴؍ صلح ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۲۴؍جنوری ۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعدحضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:
آنحضرتﷺ کے زمانے کے سرایاکا ذکر ہورہا ہے۔
آج اس سلسلے میں پہلے سریہ کُرز بن جابر کا ذکر کروں گا۔
یہ سریہ شوال ۶؍ہجری میں عرانیین کی طرف ہوا۔ بعض کے نزدیک یہ سریہ سعید بن زید کا تھا لیکن اکثریت کا قول ہے کہ یہ سریہ کُرزبن جابر کا تھا جبکہ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ سریہ جریر بن عبداللہ کا ہے۔ لیکن اس قول کی تردید بھی کی گئی ہے۔ اس سریے کی تفصیل یوں ہے کہ عُکل اور عرینہ قبائل کے تقریباً آٹھ آدمی آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو بیماری بھی تھے اور عرض کی کہ ہمیں پناہ دیں اور ہمیں کھانا کھلائیں۔ وہ مسجدِ نبوی میں مقیم ہوئے اور جلد ہی صحت مند ہوگئے مگر انہیں مدینےکی آب و ہوا راس نہ آئی ۔چنانچہ آنحضرتﷺ کی اجازت اور حکم سے یہ اونٹوں کی چرا گاہوں میں چلے گئے۔ آنحضرتﷺ کے بے پناہ شفقت کے اس سلوک کے باوجود جب یہ لوگ چرا گاہوں میں اونٹنیوں کے پاس آئے تو کافر ہوگئے اور اونٹنیوں کو ہانک کر اپنے ساتھ لے گئے، گویا صحت مند ہوکر انہوں نے آنحضورﷺ سے دھوکاکیا۔ آنحضرتﷺ کے آزاد کردہ غلام یسار اور ان کے چند ساتھیوں نے ان کا پیچھا کیا تو انہوں نے مسلمانوں سے لڑائی کی اور نہایت بےرحمی سے یسار کے ہاتھ پیر کاٹ کر، ان کی آنکھوں اور زبان میں کانٹے چبھوئے اور انہیں شہید کردیا۔ پھر یہ چرواہوں کی طرف آئے اور ان سب کو بھی قتل کردیا۔ بچ جانے والا ایک شخص آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ انہوں نے میرے ساتھی کو قتل کردیا ہے اور اونٹوں کو لے کر چلے گئے ہیں۔ اس اطلاع کے ملنے پر آنحضرتﷺ نے بیس افراد کی ایک پارٹی روانہ کی، جس نے آنحضورﷺ کی دعا کے طفیل اسی روز یا اگلے روز ان لوگوں کو گرفتار کرلیا اور یہ لوگ آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کیے گئے۔
مختلف روایات کے مطابق آنحضرتﷺ نےان لوگوں کے ساتھ وہی سلوک فرمایا جو انہوں نے مسلمان چرواہوں کے ساتھ کیا تھا، مگر اُس وقت تک مثلے کی ممانعت کی اسلامی تعلیم نازل نہ ہوئی تھی ، بعد میں جب یہ ممانعت نازل ہوئی تو آنحضرتﷺ جس بھی لشکر کو روانہ کیا کرتےاسے مثلے سے منع فرماتے اور صدقے کی تعلیم دیتے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے یہ دن بہت خطرناک تھے، کیونکہ قریش اور یہود کے انگیخت سے سارا ملک ان کی عداوت کی آگ سے شعلہ زن ہورہا تھا اور اپنی جدید پالیسی کے ماتحت انہوں نے یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ مدینہ پر باقاعدہ حملہ کی بجائے مسلمانوں کو دھوکے سے نقصان پہنچایا جائے۔
ان ظالموں کو سزا دیے جانے کے متعلق حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ فرماتے ہیں:
اس معاملے میں ظلم کی ابتدا کفار کی طرف سے تھی۔پھر یہ فیصلہ بھی موسوی شریعت کے مطابق کیا گیا تھا، لیکن پھر بھی اسلام نے اسے برقرار نہیں رکھااور آئندہ کے لیے ایسے طریق سے منع کردیا۔
آپؓ فرماتے ہیں کہ بعض مغربی محققین نے جن میں میور صاحب بھی شامل ہیں اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے حسبِ عادت اعتراض کیا ہے ، فرمایا اس معاملے میں اسلام کا دامن بالکل پاک نظر آتا ہے کیونکہ دراصل یہ فیصلہ اسلام کا نہیں تھا بلکہ حضرت موسیٰ کا تھا جن کی شریعت کو حضرت مسیح ناصری نے منسوخ نہیں کیا بلکہ برقرار رکھا۔ ہاں اگر ہمارے معترضین کے پیشِ نظر حضرت مسیح کا یہ قول ہے کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسرا گال بھی سامنے کردو… سوال یہ ہے کہ کیا یہ تعلیم کسی عقل مند کے نزدیک قابلِ عمل ہے اور کیا آج تک کسی مسیحی مرد یا عورت یا کسی مسیحی جماعت یا حکومت نے اس تعلیم پر عمل کیا ہے؟ منبروں پر چڑھ کر وعظ کرنے کےلیے بیشک یہ ایک عمدہ تعلیم ہے مگر عملی دنیا میں اس تعلیم کو کوئی بھی وزن حاصل نہیں۔ فرمایا
اسلام افراط و تفریط کے رستے کو چھوڑ کر وہ وسطی تعلیم دیتا ہے جو دنیا میں حقیقی امن کی بنیاد ہے۔ یعنی ہر بدی کی سزا اس کے مناسبِ حال اور اس کی شدّت کے مطابق ہونی چاہیے لیکن اگر حالات ایسے ہوں کہ معاف کرنے یا نرمی کرنے سے اصلاح کی امید ہو تو پھر معاف کرنا یا نرمی کرنا بہتر ہےاور ایسا شخص خداکے نزدیک نیک اجر کا مستحق ہوگا۔
اب ایک غزوے کا ذکر کروں گا جو غزوہ ذی قرد کہلاتا ہے۔
اس کے متعلق سیرت نگاروں اور محدثین میں اختلاف ہے کہ یہ کب ہوا۔ محدثین اسے صلح حدیبیہ کے بعد اور غزوہ خیبر سے پہلے قرار دیتے ہیں جبکہ سیرت نگار اسے غزوہ لحیان کے بعد بتاتے ہیں۔ امام بخاری اور امام مسلم اسے غزوہ خیبر سے تین دن پہلے بیان کرتے ہیں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس غزوہ کو محرم ۷؍ہجری کا غزوہ بیان کیا ہے۔
اس غزوے کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ رسول اللہﷺ کی بیس دودھ دینے والی اونٹنیاں تھیں اور کچھ دوسرے اونٹ بھی شامل تھے۔ یہ اونٹنیاں چراگاہ میں چرتی تھیں اور ایک چرواہا روز مغرب کے وقت ان کا دودھ رسول اللہﷺ کی خدمت میں لایا کرتا تھا۔ ایک روز عیینہ فزاری نے بنو غطفان کے چالیس گھڑسواروں کے ساتھ ان پر حملہ کردیا اور یہ لوگ اونٹنیاں لے گئے۔ حملے کے دوران ان لوگوں نے حضرت ابوذرکے بیٹے ذر کو قتل کردیا جو ان اونٹنیوں کا چرواہا تھا اورحضرت ابو ذر کی بیوی لیلیٰ کو قیدکرکے لے گئے۔ عیینہ غزوہ احزاب کے موقعے پر قبیلہ بنو فزارہ کا سردار تھا،عیینہ نے فتح مکہ کے بعد یا ایک روایت کے مطابق فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کیا، اس نے غزوہ حنین اور طائف میں بھی شرکت کی۔ نبی کریمﷺ نے اسے بنو تمیم کی سرکوبی کے لیے پچاس سواروں کے ساتھ بھیجا تھا، اس میں کوئی بھی مہاجر یا انصار صحابی موجود نہ تھا۔ عہدِ صدیقی میں یہ ارتداد کا شکار ہوگیا، اور طلیحہ کے دعوے کے بعد اس کے ساتھ مل گیا، اور اس کی بیعت کرلی، جب یہ قید ہوکر حضرت ابوبکرؓ کے پاس آیا تو آپؓ نے اس پر احسان کرتے ہوئے اسے معاف کردیا، اس کے بعد اس نے دوبارہ اسلام قبول کرلیا۔
تفاصیل کے مطابق آنحضرتﷺ نے حضرت ابوذرؓ کو غابہ کی طرف جانے سے روکا تھامگر آپ اس جانب چلے گئے تھے، اور پھر آنحضرتﷺ کے بیان فرمودہ نقشے کے مطابق ابوذرؓ کا بیٹا شہید ہوا اور بیوی قیدی بنائی گئی۔ سلمہ بن اکوع نے اونٹنیاں لے جانے والوں کاتعاقب کیا اور ان پر بڑا بھرپور حملہ کیا اور کئی اونٹنیاں واپس لینے میں کامیاب ہوگئے۔ جب رسول اللہﷺ کو اس سب معاملے کا علم ہوا تو مدینے میں منادی کروادی گئی ، اس منادی پر کئی اکابر صحابہؓ حاضر ہوگئے، رسول اللہﷺ نے سعد بن زید ؓکو امیر مقرر فرمایا اور تعاقب کے لیے روانہ کیا اور خود رسول اللہﷺ پانچ سَو یا سات سَو صحابہ کے ساتھ روانہ ہوئے۔
حضوراکرمﷺ نے مقداد بن اسودکے نیزے پر جھنڈا باندھا ۔ اس غزوے میں صحابہؓ نے بڑی بہادری اور جاں نثاری سے لڑائی کی اوربعض صحابہؓ نے بڑی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہادت کو گلے لگایا۔
خطبے کے اختتام پر حضورِانور نے یہ تفصیل آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمایا۔
٭…٭…٭