خطاب حضور انور

جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی2024ء کے موقع پر مستورات کے اجلاس سے سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا بصیرت افروز خطاب

’’تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے
اور ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حِصنِ حصین ہے‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)

تقویٰ ہی ہے جو ہر سطح پر ہماری زندگیوں کو سنوارنے میں کردار ادا کر سکتا ہے

یہ سوچ ہر احمدی عورت اور مرد کی ہونی چاہیے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کو پانے کے لیے اور سلامتی کے حصار میں آنے کے لیے تقویٰ پر چلنے کی بھرپور کوشش کرنی ہے
اور خدا تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے ہر برائی سے بچنا ہے اور ہر نیکی کو اختیار کرنا ہے

کل میں نے درود شریف سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ اور استغفار اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہ۔
یہ پڑھنے کے لیے کہا تھا۔ یہ بھی ہر ایک کو پڑھنا چاہیے

ایک احمدی عورت کا آج فرض ہے کہ جہاں اپنی اصلاح کرے وہاں دوسروں کی اصلاح کے لیے بھی ایک خاص مہم چلائے۔ اور احمدی عورتوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی زینت وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلنے سے ملتی ہے

ہمیشہ استغفار کرتے ہوئے، دعا کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کا خوف کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے حصار میں آنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے آپ کو ان خاردار کانٹوں والی جھاڑیوں سے بچانے کی کوشش کریں اور معاشرے کے اثر سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کریں
اور تقویٰ کے لباس کو ہمیشہ پہننے کی کوشش کریں اور یہی وہ چیز ہے جو ایک احمدی لڑکی، ایک احمدی عورت کا ایک خاص امتیاز ہے۔ اس کو حاصل کرنا بہت ضروری ہے

میاں بیوی کے رشتے میں اعتماد کا رشتہ ہی ہے جو اس بندھن کی بنیاد ہے

جماعتی تربیت کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہر فرد جماعت مرد اور عورت اپنی اصلاح کی کوشش کرے، اپنے نیک نمونے قائم کرے، اپنا خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑے اور اپنی اولاد کو بھی اس تعلق جوڑنے کی طرف لے کر آئے اور ان کی ایسی تربیت کرے جس سے حقیقی معنوں میں وہ اللہ کے حق ادا کرنے والے بنیں اور اپنی روحانیت کو بڑھانے والے بنیں

قولِ سدید یہی ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی ہر بات ایک دوسرے سے شیئر کریں اور اعتماد حاصل کریں تا کہ ہر قسم کی غلط فہمی جو اُن میں ہے وہ ہمیشہ دور ہوتی رہے اور کبھی ایسی صورت پیدا نہ ہو کہ غلط فہمی کی بنا پر ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہو

ہمارے لڑکوں، لڑکیوں، مردوں، عورتوںکو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے کہ میرا اوّل فرض تقویٰ پر چلنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے

ہمیں خاص طور پر اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ ہم نے دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے اپنے معاشرے کو بنانا اور قائم کرنا ہے نہ کہ دنیا کو اپنے اوپر حاوی کرنا ہے

جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی2024ء کے موقع پر مستورات کے اجلاس سے سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا بصیرت افروز خطاب
(فرمودہ مورخہ 24؍اگست 2024ء بروزہفتہ بمقام ایوانِ مسرور اسلام آباد (ٹلفورڈ) سرے یوکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

مجھے امید ہے کہ اس دفعہ ان شاء اللہ تعالیٰ آواز کا نظام وہاں بہتر ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت میں دیکھ رہا ہوں کہ کافی اچھی تعداد لجنہ ممبرات کی، خواتین کی نظر آ رہی ہےباوجود اس کے کہ سنا ہے وہاں ٹریفک کے بڑے مسائل تھے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفاظت میں بھی رکھے اور جلسہ سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

قرآن کریم میں تقویٰ کی بیشمار جگہ تلقین کی گئی ہے کیونکہ اس کے بغیر ایک مسلمان مرد اور عورت اپنے دین کی تعلیم پر عمل کرنے اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کا حق ادا نہیں کر سکتے۔

ہماری گھریلو اور معاشرتی زندگی میں اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ نکاح کے وقت جو ایک لڑکی اور لڑکے کے بندھن اور نئی زندگی شروع کرنے کا وقت ہے، دوخاندانوں کے آپس میں معاشرتی تعلقات قائم ہونے کا وقت ہے جو قرآنی آیات پڑھنے کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ان میں پانچ مرتبہ تقویٰ کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ نے عائلی زندگی اور اپنی نسل کی دنیا و آخرت سنوارنے کا طریق بتایا اور نصیحت فرمائی ہے۔ اسی طرح تقویٰ پر چلتے ہوئے نئے قائم ہونے والے رشتوں کو ایک دوسرے کے رحمی رشتوں کا حق ادا کرنے کی بھی تلقین کی گئی ہے۔ پس

تقویٰ ہی ہے جو ہر سطح پر ہماری زندگیوں کو سنوارنے میں کردار ادا کر سکتاہے۔

ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آنے کا دعویٰ کرتے ہیں تو آپؑ ہم میں تقویٰ پیدا کرنے کے لیے آئے ہیں ہمیں حقیقی اسلامی تعلیم پر کاربند کروانے کے لیے آئے ہیں۔ ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ اس بیعت کا حق ادا کرنے کے لیے اپنے تقویٰ کے معیار کو بلند سے بلند تر کرنے کی کوشش کرتے رہیں نہ کہ دنیا میں پڑ کر اپنے عہد سے ہٹنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ہم میں تقویٰ کا بہت اونچا معیار دیکھنا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو فرمایا کہ یہ تقویٰ کی جڑ ہی ہے جو انسان اگر اپنے اندر قائم کر لے تو اسے سب کچھ مل جائے گا۔ دین بھی مل جائے گا اور دنیا بھی مل جائے گی۔ احمدی مسلمان مرد ہو یا عورت ہم ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں اور پھر ہماری خواہش ہوتی ہے اور سب سے بڑی یہی خواہش ہوتی ہے اور ہونی چاہیے کہ وہ خدا کو پا لے کیونکہ ایک مومن کا یہی سب سے بڑا مقصد ہے جس کو پانے کی اس کو کوشش کرنی چاہیے تا کہ اس کا دین بھی سنور جائے اور دنیا بھی سنور جائے۔ پس اگر خدا کو پانا ہے، اس کی رضا کو حاصل کرنا ہے تو پھر تقویٰ پر چلنا ضروری ہے اور

تقویٰ یہی ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی برائی کو بیزار ہو کر ترک کرنا اور ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی دل کی گہرائیوں سے چاہتے ہوئے اختیار کرنا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پرہیزگاری کے لئے بڑی تاکید ہے۔ وجہ یہ کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوّت بخشتی ہے اور ہر ایک نیکی کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے اور اس قدرتاکید فرمانے میں بھید یہ ہے کہ

تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے
اور ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حصنِ حصین ہے۔
‘‘

مضبوط قلعہ ہے۔

’’ایک متقی انسان بہت سے ایسے فضول اور خطرناک جھگڑوں سے بچ سکتا ہے جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہو کر بسا اوقات ہلاکت تک پہنچ جاتے ہیں۔‘‘

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14صفحہ 342)

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے۔‘‘ فرمایا کہ

’’تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں۔‘‘

خوبصورت اور پیارے نقش ہیں ’’اورظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اورسر سے پیر تک جتنے قویٰ اور اعضاء ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اورباطنی طور پر دل اوردوسری قوتیں اور اخلاق ہیں۔ ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک ٹھیک محلِ ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواضع سے روکنا‘‘ غلط استعمال سے روکنا ’’اوران کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق عباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے جوانسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے۔‘‘ یعنی صرف شیطانی حملوں سے محفوظ نہیں رہنا بلکہ حقوقِ عباد بھی ادا کرنا ضروری ہے۔ فرمایا :’’اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے۔ چنانچہ لِبَاسُ التَّقویٰ قرآن شریف کالفظ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔اور

تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اورایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدور کاربند ہوجائے۔‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 209-210)

باریک باریک جو پہلو ہیں ان پر بھی کاربندہو، ان پر بھی عمل کرے۔ پس یہ وہ معیار ہے جو اگر حاصل ہو جائے تو معاشرے کو بہت سے مسائل سے بچا لیتا ہے۔

معاشرے کی بنیادی اکائی مرد اور عورت ہیں جو گو مختلف صنف سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے قویٰ مختلف ہیں، ان کی صلاحیتیں مختلف ہیں لیکن میاں بیوی کے رشتے میں منسلک ہونے کے بعد ایک اکائی بن جاتے ہیں اور یہی وہ رشتہ اور جوڑ ہے جس سے آگے نسل انسانی چلتی ہے۔ اگر اس اکائی میں تقویٰ نہ ہو تو پھر آئندہ نسل کے تقویٰ کی بھی ضمانت نہیں اور معاشرے کے اعلیٰ اخلاق اور تقویٰ کی بھی ضمانت نہیں۔ آجکل جو غلط قسم gender کے نام پر باتیں ہوتی ہیں وہ نسل کی بقا کو نقصان پہنچانے والی ہیں اور ہر احمدی کو اس سے بچنا چاہیے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تقویٰ سلامتی کا تعویذ ہے۔ پس اگر تو آپ سلامتی چاہتی ہیں اور یقینا ًہر شخص چاہے گا، چاہے وہ کسی مذہب پر یقین رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو وہ یہ چاہتا ہے کہ وہ سلامتی کے حصار میں رہے۔ ہر ایک کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے دن اور رات خیریت اور عافیت سے گزریں اور ہر دشمن سے محفوظ رہیں، ہر پریشانی سے بچیں اور کبھی ان کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ تو ہر ایک انسان کی فطری خواہش ہے چاہے وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہے یا نہیں رکھتا۔

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ہم پر یہ نکتہ واضح فرمایا کہ اگر تم سلامتی چاہتے ہو تو پھر تقویٰ اختیار کرو کیونکہ یہ ایک ایسا تعویذ ہے جو تمہاری سلامتی کی ضمانت ہے۔ تم تقویٰ اختیار کرو گےتو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جاؤ گے۔ آپؑ نے ایک جگہ فرمایا :

’’اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقیناً سمجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے۔تم سوئے ہوئے ہو گے اور خدا تعالیٰ تمہارے لیے جاگے گا۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 22)

پس جس کے لیے خدا جاگے اور اس کی ہر شر سے حفاظت فرمائے وہ ایک ایسے زبردست سلامتی کے حصارمیں آ جاتا ہے جس کو کوئی دنیا کی طاقت نہیں توڑ سکتی۔ لیکن جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ کریم میں فرمایا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی وضاحت فرمائی ہے کہ اس سلامتی کے لیے تقویٰ شرط ہے۔ خدا تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے ہر برائی سے بچنا ضروری ہے اور ہر نیکی کو اختیار کرنا ضروری ہے۔پس

یہ سوچ ہر احمدی عورت اور مرد کی ہونی چاہیے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کو پانے کے لیے اور سلامتی کے حصار میں آنے کے لیے تقویٰ پر چلنے کی بھرپور کوشش کرنی ہے اور خدا تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے ہر برائی سے بچنا ہے اور ہر نیکی کو اختیار کرنا ہے۔

جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لیے قوت بخشتی ہے۔اور یہ قوت حاصل ہو جائے تو پھر انسان کے پاس وہ انمول وہ قیمتی تعویذ آ جاتا ہے جو سلامتی کی ضمانت ہے۔ انسان ایک ایسے مضبوط قلعے کے اندر آ جاتا ہے جس کے اندر خدا تعالیٰ نے پہرہ بٹھایا ہوا ہے جس تک کوئی شیطان پہنچ نہیں سکتا اور بہت سے فتنوں سے انسان اس حصار کے اندر آ کر بچ سکتا ہے۔ اس کے لیے

کل میں نے درود شریف سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ اور استغفار اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہ۔یہ پڑھنے کے لیے کہا تھا۔ یہ بھی ہر ایک کو پڑھنا چاہیے۔

پس آج کے معاشرے میں ہمیں اس بات کی ضرور ت ہے کہ ہم لغویات اور فضولیات سے بچیں۔ اپنی زندگیوں میں امن و سکون پیدا کریں ۔ذکر الٰہی کریں گے تو لغویات سے بچتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے انسان کو مختلف فتنوں اور خطرناک جھگڑوں سے بچنے کے راستے بتائے ہیں لیکن بدقسمتی ہے کہ انسان ان پر عمل نہیں کرتا۔ دنیا میں پڑا ہوا ہے اور اپنی زندگیوں کو برباد کر رہا ہے اور اس خوبصورتی سے اپنے آپ کو محروم کر رہا ہے جس خوبصورتی کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے پیدا فرمایا ہے۔انسان کی فطرت ہے کہ خوبصورت چیزیں پسند کرتا ہے، اچھی چیزیں اس کو اچھی لگتی ہیں اور عورتوں میں تو خاص طور پر خوبصورت بننے کے لیے میک اَپ کرنے کا بھی رواج ہے۔ اپنے حسن اور زینت کا بڑا خیال رکھتی ہیں ۔لیکن بہت سی ایسی عورتیں ہیں جو اپنی اصل زینت سے بے خبر رہتی ہیں اور اس مغربی معاشرے میں تو اکثر عورتیں جو غیر مسلم عورتیں ہیں، لامذہب عورتیں ہیں یا جن کو اللہ تعالیٰ پر یقین نہیں ہے اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان کی اصل زینت کیا ہے۔

پس

آج ایک احمدی عورت کو چاہیے کہ اس اصلی زینت کو جہاں خود اختیار کرے وہاں اپنے معاشرے کو بھی بتائے کہ عورت کا اصل حسن اور اس کی اصل زینت کیا ہے۔ اور اگر اس کا پتہ لگ جائے تو پھر عورت کا حسن اور زینت کئی گنا بڑھ جائے گا جو آجکل کے آزاد ماحول میں رہ کر حاصل نہیں ہو سکتے۔

انسان سمجھتا ہے کہ میں نے یہ میک اَپ کر لیا یا بڑے اعلیٰ کپڑے پہن لیے یا غلط قسم کا لباس پہن لیا تو میرا حسن ظاہر ہورہا ہے اور مجھے آزادی حاصل ہو گئی ہے حالانکہ یہ حسن ایسا ہے جس سے نہ حسن ظاہر ہو رہا ہے نہ زینت ظاہر ہو رہی ہے۔ یعنی نہ حقیقی حسن ہے نہ حقیقی زینت ہے بلکہ یہ انسان کو تباہی کی طرف لے جانے والی چیزیں ہیں۔

پس

ایک احمدی عورت کا آج فرض ہے کہ جہاں اپنی اصلاح کرے وہاں دوسروں کی اصلاح کے لیے بھی ایک خاص مہم چلائے ۔اور احمدی عورتوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی زینت وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلنے سے ملتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ حجاب اگر پہنو، پردے کا خیال رکھو، اپنے حیا دار لباس کا خیال رکھو تو پھر ان چیزوں کا خیال رکھنا پڑے گا کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ یہ زینت حجاب کو یا پردے کویا لباس کو ختم کرنے سے نہیں ملتی جس کا آجکل مغرب کے زیر اثر بعض عورتوں پر ہماری عورتوں پر بھی اثر ہو جاتا ہے اور اظہار کر دیتی ہیں بلکہ زینت تقویٰ کا لباس پہننے سے ملتی ہے نہ کہ ننگے ہونے سے اور یہ لباسِ تقویٰ ان کو میسر آتا ہے جو اپنے ایمانی عہدوں اور امانتوں کو اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ

اللہ تعالیٰ نے جو احکامات دیے ہیں ان کے اوپر چلنے کی کوشش ہم نے کرنی ہے اور نیکیوں میں آگے سے آگے قدم بڑھانے کی کوشش کرنی ہے۔ اپنے آپ کو اس معاشرے میں ہر برائی سے بچانے کی کوشش کرنی ہے۔

برائیاں یہاں خاردار یا کانٹوں والی جھاڑیوں کی طرح ہمارے راستے میں حائل ہیں اور کہیں سے بھی یہ خاردار جھاڑیوں میں، کانٹے دار جھاڑیوں میں ہمارا لباس اٹک سکتا ہے یا ہمیں یہ کانٹے دار جھاڑیاں زخمی کر سکتی ہیں یا ہمارے کپڑے پھاڑ سکتی ہیں جس سے ہماری زینت جو ہے اس کو نقصان پہنچتا ہے۔

پس

ہمیشہ استغفار کرتے ہوئے، دعا کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کا خوف کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے حصار میں آنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے آپ کو ان خاردار کانٹوں والی جھاڑیوں سے بچانے کی کوشش کریں اور معاشرے کے اثر سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کریں اور تقویٰ کے لباس کو ہمیشہ پہننے کی کوشش کریں اور یہی وہ چیز ہے جو ایک احمدی لڑکی ایک احمدی عورت کا ایک خاص امتیاز ہے۔ اس کو حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ اپنے جسم کے تمام اعضا کو جو ظاہری اعضا ہیں ان امانتوں کا حق ادا کرنے والا بناؤ۔ ہر مرد اور عورت کا کام ہے کہ اپنے کان، آنکھ، زبان اور ہر عضو کے استعمال کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع بنائیں اور اس کی ہدایات کے مطابق استعمال کریں۔

اب دنیا میں آجکل عموماً اور یہاں ہمارے معاشرے میں بھی یہ بات پیدا ہو گئی ہے احمدیت میں بھی یہ باتیں زیادہ پیدا ہو رہی ہیں

عائلی جھگڑے ہوتے ہیں میاں بیوی کے جھگڑے ہوتے ہیں۔ غور کریں تو ان میں زبان، کان، آنکھ کا بہت بڑا کردار ہے۔

مرد ہیں تو وہ اس کو صحیح استعمال نہیں کرتے بعض عورتیں ہیںوہ بھی غلطیاں کرتی ہیں صحیح استعمال نہیں کرتیں۔ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو اور غیر عورتوں کو نہ دیکھو۔ اس طرف وہ توجہ نہیں کرتے۔ عورتیں ہیں تو وہ اپنے حیا دار لباس کاخیال نہیں رکھتیں۔ اگر ان چیزوں کا خیال رکھیں اور پھر مردوں سے باتیں کرتے ہوئے یا مرد عورتوں سے باتیں کرتے ہوئے اپنی آنکھیں اور زبان اور اپنے کانوں کا صحیح محل پر استعمال کریں تو پھر بہت ساری برائیاں معاشرے کی کبھی جنم نہ لیں کبھی پیدا نہ ہوں اور اعتماد کی جو فضا ہے گھروں میں وہ خراب نہ ہو جو جھگڑوں کی صورت میں پیدا ہوتی ہے۔ پس

بعض دفعہ لوگ مجھے پوچھتے ہیں کہ ہمارے عائلی رشتے کو قائم رکھنے کے لیے سب سے اچھی کیا چیز ہے ؟تو ان کو میں یہی کہا کرتا ہوں کہ اپنی زبان، کان اور آنکھ کا اگر صحیح استعمال کرو گے صحیح محل پر تم استعمال کرو گے ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوئے استعمال کرو گے تو تمہارے جھگڑے پیدا نہیں ہوں گے۔

اسی سے اعتماد کی فضا پیدا ہو گی۔اور جب اعتماد کی فضا پیدا ہو گی تو اس سے پھر محبت اور پیار کی فضا پیدا ہو جائے گی اور یہی وہ چیز ہے جو ایک معاشرے کو خوبصورت بنانے کے لیے ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کے لیے مرد اور عورت کے بندھن قائم ہوتے ہیں۔

پھر اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے حوالے سے ہی یہ بھی نصیحت فرمائی ہے کہ

مرد اور عورت اپنے رحمی رشتوں کا بھی خیال رکھیں۔ ایک دوسرے کے جو رحمی رشتے ہیں ان کا خیال رکھیں اور کسی کے بارے میں غلط بات نہ کریں

کیونکہ اس سے پھر تلخیاں پیدا ہوتی ہیں۔پھر لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ پس یہ بہت ضروری چیزیں ہیں کہ

نہ صرف آپس کے تعلقات رکھنے ہیں بلکہ اپنے رشتہ داروںکے ساتھ تعلقات میں بھی بہتری کرنی ہے تا کہ معاشرے میں امن اور سکون قائم رہے اور یہ آج ہر احمدی مرد اور عورت کا کام ہے۔

پھر یہ بھی باتیں ہیں کہ اپنے دل کو ناجائز باتوں کی آماجگاہ نہ بناؤ۔ ان کو اپنے دلوں میں جگہ نہ دو۔ اس کو اللہ تعالیٰ کے خوف سے بھرے رکھو تو پھر کبھی مسائل پیدا نہیں ہوتے۔ کبھی پھر شیطان چور دروازے سے داخل ہو کر گھروں میں فساد پیدا نہیں کرتا۔ پہلے بھی میں نے کہا تھا کہ

میاں بیوی کے رشتے میں اعتماد کا رشتہ ہی ہے جو اس بندھن کی بنیاد ہے۔

اگر یہ اعتماد ختم ہو جائے تو وہی ایک خوبصورت عمارت جو پیار اور محبت کے عہد کے ساتھ تعمیر کی گئی ہوتی ہے ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہے ۔کھنڈر بن جاتی ہے ۔ پس ایک مومن جہاں خدا سے کیے گئے اپنے عہد کو پورا کرنے کی کوشش کرنے و الا ہونا چاہیے وہاں مخلوق کے عہد کو بھی پورا کرنے کی بھرپور کوشش ہونی چاہیے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے اور اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ بعض دفعہ حقوق العباد کی ادائیگی کے بغیر حقوق اللہ کی ادائیگی کے معیار بھی حاصل نہیں ہو سکتے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 8 صفحہ 19، ایڈیشن 1984ء)

یہ کہنا غلط ہے کہ ہم اللہ کا حق ادا کر رہے ہیں اور بندوں کا حق صحیح طرح ادا نہیں ہو رہا۔ جب تک بندوں کا حق ادا نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ کا حق بھی ادا نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ اس کو قبول بھی نہیں کرتا۔

پس

حقوق العباد کی ادائیگی بھی بہت ضروری ہے۔ اگر حقوق العباد ادا نہیں ہو رہے تو حقوق اللہ کی ادائیگی کے معیار میں بھی دراڑیں پڑنی شروع ہو جاتی ہیں۔

پس ہمیشہ یاد رکھیں جیسا کہ میں نے کہا کہ حقوق العباد کی ادائیگی بھی بہت ضروری ہے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے والے بھی بن سکیں۔حقوق العباد میں جو گھر کا بنیادی یونٹ (unit)ہے وہ خاوند اور بیوی کا رشتہ ہے اور آپس میں ان کے حقوق بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور معاشرے اور اگلی نسل کی بہتری کے لیے بھی یہ گھر کا بنیادی یونٹ (unit) ہے۔ اس کے لیے آپس میں اعتماد اور ایک دوسرے کے حق کی ادائیگی بہت ضروری ہے اور یہ ایک مومن کی حقیقی مومن کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس کا خیال رکھے۔

اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بہت توجہ دلائی ہے ۔جیسا کہ میں نے شروع میں ذکر کیا تھا کہ نکاح کے خطبہ میں جو آیات ہیں ان میں تقویٰ پر چلتے ہوئے ان حقوق کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اگرہم یہ حقوق ادا کریں گے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تبھی تم خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی بھی صحیح رنگ میں ادائیگی کر سکو گے اور اپنے معاشرے کی امانتوں اور عہدوں کی بھی صحیح ادائیگی کر سکو گے۔ پس

ہر مومن اور مومنہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے عہد کے دعوے تب ہی ان کو پورا کرنے والے بن سکتے ہیں جب اپنے رشتے جو ہیں ان میں مضبوطی پیدا کریں۔جب میاں بیوی اپنے رشتوں میں ایک جان بن کر رہیں اور ایک دوسرے پر اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

شادی کا پاک رشتہ جہاں خدا تعالیٰ نے ایک دوسرے کی تسکین کے سامان کے لیے قائم فرمایا ہے اور نسل انسانی کو جاری رکھنے کے لیے قائم فرمایا ہے وہاں معاشرے کی امن کی ضمانت بھی اس ذریعہ سے قائم فرمائی ہے بشرطیکہ ایک نیک نسل پیدا ہو جس کی تربیت صحیح طرح کی جائے ۔اور یہ

صحیح تربیت کرنے کے لیے میاں بیوی کو اپنی صحیح تربیت کرنے کی بہت ضرورت ہے جس طرف توجہ دینے کی ہمیں آجکل بہت ضرورت ہے اور اس سے پھر اگلی نسل کی اور بچوں کی صحیح تربیت ہو گی۔

صرف جسمانی تسکین حاصل کرنا یا بچے حاصل کر لینا یہ تو کوئی ایسا کام نہیں ہے جس کے لیے کہا جائے کہ اشرف المخلوقات انسان کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔ یہ ایسی باتیں تو جانور بھی کرتے ہیں۔

اشرف المخلوقات بننے کے لیے کچھ لوازمات ہیں اور ان کو انسان کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور اس کی اصل اور بنیاد یہی ہے کہ تقویٰ پر چلتے ہوئے ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے مقصد پیدائش کو سمجھیں۔اللہ تعالیٰ کا صحیح عبد بننے کی کوشش کریں ۔اللہ تعالیٰ کا صحیح فرمانبردار بننے کی کوشش کریں۔

عبد بننا صرف عبادت کرنا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی فرمانبرداری کرنا بھی ہے اور اس کا حق ادا کرتے ہوئے اس کی عبادت کا بھی حق ادا کریں اور اس کے بندوں کے بھی حق ادا کریں تبھی اپنی عاقبت کو بھی سنوارنے والے ہوں گے، تبھی اپنی نسل کی عاقبت کو بھی سنوارنے والے ہوں گے اور تبھی اس حصار میں آ جائیں گے جہاں اللہ تعالیٰ کی پناہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ پھر انسان کو ہر فکر سے، ہر تکلیف سے آزاد فرما دیتا ہے۔ اور پھر

جب گھر کا ایسا ماحول ہو گا تو وہ نسلیں بھی پیدا ہوں گی اور پھر قائم بھی رہیں گی جو نیک نسل ہوتی ہے جو ماں باپ کے لیے دعائیں کرنے والی نسل ہوتی ہے جو ماں باپ کا نام روشن کرنےوالی نسل ہوتی ہے۔

نہیں تو پھر دنیا میں پڑ کر بگاڑ پیدا کرنے والی نسلیں پیدا ہوتی ہیں جس سے معاشرے کا امن بھی بعد میں برباد ہوتا ہے اور ایسے بچے ماں باپ کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔اور پھر اگر جماعت کے نام سے منسوب ہیں تو جماعت کی بدنامی کا بھی باعث بنتے ہیں۔ پس

جماعتی تربیت کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہر فرد جماعت مرد اور عورت اپنی اصلاح کی کوشش کرے، اپنے نیک نمونے قائم کرے، اپنا خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑے اور اپنی اولاد کو بھی اس تعلق جوڑنے کی طرف لے کر آئے اور ان کی ایسی تربیت کرے جس سے حقیقی معنوں میں وہ اللہ کے حق ادا کرنے والے بنیں اور اپنی روحانیت کو بڑھانے والے بنیں۔

دنیا کی آبادی میں مرد اور عورت کی جو تعداد ہے عورتوں کی تعداد تقریباً زیادہ ہے اور پھر اس آبادی میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے ہیں جن کی وجہ سے مرد اور عورت کے تعلقات کی وجہ سے ہی اولادیں بھی پیدا ہوتی ہیں ۔اور دنیا کی آبادی میں کافروں کی تعداد جو ہے وہ مومنوں سے بہت زیادہ ہے۔ ان کے ہاں اولادیں پیدا ہوتی ہیں۔ کثرت کافروں کے ذریعہ سے دنیا میں پھیل رہی ہے۔ مومنوں کے مقابلے میں اگر دیکھیں تو مذہب سے دور جانے والوں کی اس وقت زیادہ کثرت ہے۔ مومنوں کے مقابلے میں کافروں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

حقیقی کثرت اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ ہے جو تقویٰ پر چلنے والوں کی ہے کیونکہ یہ تقویٰ پر چلنے والے ہی ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ دنیا کے باقی انسانوں پر بھی رحم اور فضل فرما دیتا ہے۔ ایک بھی انسان متقی ہوتا ہے تو اس کی خاطر پورا شہر بھی ساتھ بچا لیا جاتا ہے۔

پس اللہ تعالیٰ ہمیں یہ فرماتا ہے کہ

تم دنیاداروں کی طرف دیکھ کر متاثر نہ ہو بلکہ تقویٰ پر چلو تو اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بنو گے اور تمہاری اولادیں بھی ایسی ہوں گی کہ نیکیوں پر چلتے ہوئے تمہاری نیک نامی کا باعث ہوں گی اور تمہارے لیے دعائیں کرنے والی ہوں گی۔

اس ضمن میں

اَور عائلی مسائل بھی میں

یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں۔کیونکہ یہ باتیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہیں کہ اس طرف توجہ دو۔

بہت سارے عائلی مسائل جو سامنے آتے ہیں

بعض دفعہ یہ ایشو (issue)بہت زیادہ سامنے آتا ہے عورت کی طرف سے بھی مرد کی طرف سے بھی کہ خاوند یا بیوی ہمارے ماں باپ کی عزت نہیں کرتے۔

مرد کہتا ہے کہ عورت ہمارے ماں باپ کی عزت نہیں کرتی۔ عورت کہتی ہے کہ مرد میرے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا۔ اس طرح جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں یا ایک دوسرے کو گھروں میں آنے جانے سے روکتے ہیں۔ تویہ چیزیں جو ہیں اس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک دوسرے کے رحمی رشتوں کا خیال رکھو کیونکہ اللہ فرماتا ہے کہ یہ تقویٰ سے دور بات ہے کہ تم رحمی رشتوں سے قطع تعلقی کرو اور ان کا خیال نہ رکھو۔ اس سے تم لوگ معاشرے میں فساد پیدا کرنے والے بنو گے۔

اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو انسانی فطرت کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے آپؐ نے نکاح کے خطبہ میں جو آیات منتخب فرمائی ہیں ان میں مرد اور عورت کو یہ نصیحت بھی فرمائی کہ اپنے رحمی رشتوں کا خیال رکھو۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی اس خطبہ کی آیات میں شامل فرمایا کہ اپنے رحمی رشتوں کا خیال رکھو تاکہ اس سے پھر جہاں دو خاندانوں کی آپس میں پیار اور محبت کی فضا قائم ہو گی وہاں معاشرے کا امن اور سکون بھی قائم ہو گا اور یہی ایک حقیقی مومن کی نشانی ہے۔

پس

پہلے دن سے ہی اس سوچ کے ساتھ مرد اور عورت کو شادی کے رشتے میں منسلک ہونا چاہیے کہ صرف ایک رشتہ نہیں نبھانا بلکہ جو بھی قریبی رشتے ہیں وہ سب نبھانے ہیں ۔اس سوچ کے ساتھ عورت کو خاوند کے گھر جانا چاہیے اور اسی سوچ کے ساتھ مرد کو عورت کو بیاہ کے لانا چاہیے۔

اگر ہم اپنے معاشرے میں اس سوچ کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے پیدا کر لیں تو ہمارے معاشرے میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑے ہو کر جو انتہائی کیس بن جاتے ہیں بعض دفعہ معاملات پولیس تک چلے جاتے ہیں وہ نہ جائیں۔ خلع طلاق کی جو نوبتیں آتی ہیں وہ بھی نہ آئیں جو آجکل افسوسناک بات ہے کہ ہماری جماعت میں بھی یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے ۔اس کی ہمیں فکر کرنی چاہیے۔ پس

اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ اعتماد قائم رکھنا ہے، رحمی رشتوں کا خیال رکھنا ہے اور رحمی رشتوں کے تعلقات میں اعتماد قائم کرنے کے لیے سب سے بڑی بات یہ بھی ہے کہ جھوٹ نہیں بولنا۔
ساسوں کو بھی میں کہوں گا کہ وہ بھی اپنی بہوؤں کا خیال رکھیں
اپنے دامادوں کا خیال رکھیں

کیونکہ جہاں تک رحمی تعلقات کا سوال ہے ان کے لیے بھی حکم ہے کہ ساسیں اپنی بہوؤں کو بیٹیوں کی طرح دیکھیں اپنے دامادوں کو بیٹوں کی طرح دیکھیں اور کوشش یہ کریں کہ ان کے گھروں میں خوشیاں قائم ہوں نہ کہ لڑائیاں اور جھگڑے اور بدظنیاں۔

اگر ساسیں اپنا کردار ادا کریں تو ایک بہت بڑا انقلاب آ سکتا ہے۔

پھر اعتماد قائم کرنے کے لیے سب سے بڑی بات یہ بھی ہے کہ

جھوٹ نہیں بولنا۔

اس لیے نکاح کے خطبات میں جو آیات پڑھی جاتی ہیں ان میں ایک نصیحت یہ بھی کی گئی ہے کہ قول سدید سے کام لو اور یہ تقویٰ ہے اور جھوٹ نہ بولو اور

قولِ سدید یہی ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی ہر بات ایک دوسرے سے شیئر کریں اور اعتماد حاصل کریں تا کہ ہر قسم کی غلط فہمی جو ان میں ہے وہ ہمیشہ دور ہوتی رہے اور کبھی ایسی صورت پیدا نہ ہو کہ غلط فہمی کی بنا پر ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہو۔

اسی طرح ضمناً یہ بھی بتا دوں کہ رشتہ قائم کرنے سے پہلے بھی لڑکی اور لڑکے میں اگر کوئی کمزوریاں ہیں نقائص ہیں تو پہلے ہی بتا دینا چاہیے اور پھر ان کو کہنا چاہیے کہ دعا کر کے فیصلہ کرو تا کہ شادی ہونے کے بعد پھر کوئی مسائل پیدا نہ ہوں۔

پس اللہ تعالیٰ جو انسانی فطرت کو جانتا ہے اس نے انسان کو پیدا کیا ہے اس سے زیادہ اور کون جان سکتا ہے۔ اس نے یہی فرمایا ہے کہ سچائی کو قائم رکھو ۔اور سچائی کو قائم رکھو گے تو تمہارے معاشرے کا امن بھی قائم رہے گا اور کبھی اپنے رشتوں میں جھوٹ کو قریب نہ آنے دو، غلط بیانی کو قریب نہ آنے دو تا کہ تمہارے رشتے بھی ہمیشہ پائیدار رہیں۔

پھر ایک بہت بڑی بات یہ بھی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ہمیں فرمایا ہے کہ

اپنے عہدوں کو پورا کرو ۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 6 صفحہ 62 ایڈیشن 1984ء)

اور عہد پورا کرنا ایک بہت بنیادی چیز ہے۔پس آپس کے معاشرتی رشتوں میں جہاں ایک دوسرے کے ساتھ عہدوں کو پورا کرنا ضروری ہے وہاں شادی بیاہ کے معاملے میں رشتوں کو نبھانے کے لیے بھی جو ایک عہد ہے اس کو بھی مرد اور عورت کو پورا کرنا ضروری ہے۔ ایک احمدی مومن عورت اور مرد کو اپنی زندگی اس نہج پر چلانی چاہیے کہ وہ تقویٰ پر چلتے ہوئے ہمیشہ اپنے عہد کو پورا کرنے کی کوشش کریں اور اس بنیادی سطح پر جب عہد پورا کریں گے تو تبھی اپنے عہد بیعت کو پورا کرنے والے ہوں گے کیونکہ عہد بیعت میں بھی یہ شرط ہے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے اور ہمیشہ سچائی پر قائم رہیں گے اور امن اور سلامتی اور پیار اور محبت کو فروغ دینے والے ہوں گے۔ آپس میں محبت اور پیار کو بڑھانے والے ہوں گے۔ پس

جہاں ہم اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے اپنے رشتوں کو مضبوط کرتے ہیں وہاں اپنے عہد بیعت کو بھی مضبوط کر رہے ہوتے ہیں۔

اس نکتے کو بھی ہمیشہ ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہیے

ہمارے لڑکوں، لڑکیوں، مردوں، عورتوںکو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے کہ میرا اوّل فرض تقویٰ پر چلنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے۔

اور جب یہ ہو گا تو پھر سچائی پر بھی قائم رہیں گے، رحمی رشتوں کا بھی خیال رکھیں گے، اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے بھی ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا اس کا مقصود ہو گا۔

پس یہ بات ہمیشہ ہر احمدی مرد اور عورت کو سامنے رکھنی چاہیے ۔اور جب یہ ہو گا تو پھر ہی ہم وہ حسین معاشرہ قائم کر سکیں گے جو قائم کرنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام آئے تھے اور جس کے قائم کرنے کے لیے ہم نے آپؑ کے ہاتھ پر عہد بیعت باندھا ہے۔ پس ہمیشہ نیکیوں کو قائم کرنے کی کوشش کریں۔ لڑکے بھی نیکیوں کو قائم کرنے کی کوشش کریں، لڑکیاں بھی نیکیوں کو قائم کرنے کی کوشش کریں۔ جب نیکیوں کو قائم کرنے کی کوشش کریں گے تبھی رشتوں کو قائم کرنے کے لیے بھی لڑکا اور لڑکی بھی بجائے دنیا داری کی طرف جانے کے، دنیا کو دیکھنے کے، دولت کو دیکھنے کے، صورت اور شکل کو دیکھنے کے، دین کو دیکھیں گے۔اور جب دین کو دیکھ کر رشتے قائم ہوں گے تو وہ دائمی رشتے ہوں گے کیونکہ اللہ کا خوف رکھتے ہوئے قائم کیے گئے ہوں گے۔ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے قائم کیے گئے ہوں گے۔

پس

ہمیں خاص طور پر اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ ہم نے دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے اپنے معاشرے کو بنانا اور قائم کرنا ہے نہ کہ دنیا کو اپنے اوپر حاوی کرنا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک جگہ فرمایا کہ ’’غیر قوموں کی تقلید نہ کرو کہ جو بکلّی اسباب پر گر گئی ہیں۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 22)

جن کا کام ہی صرف یہ ہے کہ صرف دنیاوی چیزیں اور دنیاوی ظاہری سامان جو ہے وہی سب کچھ ہے۔ فرمایا تم ان لوگوں کے پیرو مت بنو جنہوں نے سب کچھ دنیا کو ہی سمجھ رکھا ہے۔ پس

ہمیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ کی بہت ضرورت ہے۔ دنیا کو دیکھ کر ہمارے اندر بھی جو کمزوریاں آ رہی ہیں، رشتوں میں بھی جو ہماری کمزوریاں آ رہی ہیں اور ایک جائزے کے مطابق تو بعض دفعہ یہ کمزوریاں بہت حد تک بڑھ جاتی ہیں ہمیں اس سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔

اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم لوگ ان برائیوں سے بچنے والے ہوں اور تقویٰ پر قدم مارنے والے ہوں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینے والے ہوں اور ہر قسم کے چھوٹے بڑے گناہوں سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ اگر یہ ہو گا تو ہم وہ پاک اور حسین معاشرہ قائم کر سکیں گے جسے قائم کرنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام آئے تھے اور جس کے قائم کرنے کے لیے ہم نے اپنی خوشی سے آپؑ کی بیعت کی ہے ۔ہمیں مجبور نہیں کیا گیا۔ ہمیں کسی نے مجبور نہیں کیا تھا کہ ہم آپؑ کی بیعت میں شامل ہوں۔ جب ہم نے بیعت کر لی تو پھر ہمیں ان باتوں پر یقیناً عمل کرنا چاہیے جن کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے اور جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ہم سے توقع کی ہے اور جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بار بار نصیحت فرمائی ہے اور جس کی قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ میں نے شروع میں کہا بےشمار جگہ تلقین فرمائی ہے۔ اگر یہ ہو گا تو یہی وہ پاک معاشرہ ہے جو قائم ہو گا اور جس سے پھر دنیا میں ایک انقلاب آئے گا اور دنیا کو خدا تعالیٰ کی طرف ہم لانے والے بنیں گے۔ یہی وہ ذریعہ ہے جس سے پھر ہم دنیا میں اسلام کی تبلیغ کر کے دنیا والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف لانے والے ہوں گے اور دنیا میں حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا لہرانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں گے۔

اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم یہ سب کچھ حاصل کرنے والے ہوں اور ایک پاک معاشرہ جماعت احمدیہ میں قائم ہو جائے اور آجکل جو دنیاوی لہو و لعب اور جو دنیاوی چکا چوند ہے دنیاوی خواہشات ہیں ان سے ہم بچنےوالےہوں اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے بن کر اپنی عملی حالتوں میں انقلاب لانے والے بن جائیں، آمین۔

اب دعا کر لیں۔(دعا)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 2021ء کے اختتامی اجلاس سے براہِ راست معرکہ آرا،بصیرت افروز اور دل نشیں خطاب

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button