کیوں؟
پیارے بچو! ایک دلچسپ سوال کے ساتھ پھرحاضر ہیں۔ آج کا سوال ہے کہ
ہم جمائی کیوں لیتے ہیں؟
ہمارا آج کا سوال نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ بہت اہم بھی ہے۔ یاد رکھیں کہ اگر کسی بات کا فائدہ ہےتو اس کا نقصان بھی ہوتا ہے۔
جمائی لینے کا عمل از خود رُونما ہوتا ہے۔ اس کے لیے کوشش نہیں کرنا پڑتی۔ یہ ایک اضطراری عمل ہوتا ہے جو ہمارے پھیپھڑوں میں آکسیجن کو پر زور طریقے سے داخل کرتا ہے۔ اس کی وجہ ماحول میں آکسیجن کی کمی یا پھر دیر تک گہرے سانس نہ لینے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ گہرے سانس نہ لینے کےسبب عام طور پر تھکن یا پھر دباؤ میں رہنا ہوتا ہے۔
بعض اوقات ہم زیادہ دیر تک غیر فعال یعنی فارغ بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ صورتحال بھی ضرورت کے مطابق آکسیجن کی ترسیل کو ممکن نہیں رہنے دیتی۔ جب خون میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھ جاتی ہے تو جسم کا فطری نظام جمائی لینے کا عمل پیدا کردیتا ہے۔ اس عمل میں ہمارا منہ بہت زیادہ کھل جاتا ہے۔ زیادہ منہ کھلنے سے زیادہ ہوا پھیپھڑوںمیں داخل ہوتی ہے اوربھرپور مقدار میں آکسیجن ملنے سے اِضْمِحْلال یعنی کمزوری یا سُستی اور تھکن دُور ہو جاتی ہے۔
جمائی کی وجہ تو ہم نے جان لی لیکن دیکھتےہیںکہ اسلام کی اس بارے میں کیا تعلیم ہے؟
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی کہ آپؐ نے فرمایا: جمائی بھی شیطان کی وجہ سے ہی ہوتی ہے۔ اس لیے جب تم میں سے کوئی جمائی لے تو جہاں تک ہو سکے چاہیےکہ وہ اس کو روکے۔ کیونکہ جب تم میں سے کوئی(جمائی لیتے وقت)ہاہا کی آواز نکالتا ہے تو شیطان ہنستا ہے۔
(صحیح البخاری كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ بَابُ صِفَةِ إِبْلِيسَ وَجُنُودِهِ)
اور یہ بات آداب میں شامل ہے کہ جب کسی کو جمائی آئے تو وہ اپنے ہاتھ کا پچھلا حصہ منہ پر رکھے یا بازو میں اپنا منہ دبا لے۔
تو بچو! آپ کوآج کاسوال اور اس کا جواب کیسالگا؟ ان شاء اللہ اگلے سوال اور اس کے جواب کے ساتھ پھر حاضر ہوں گا۔
آپ کا بھائی ۔خلیق احمد بشیر(جرمنی)