دادی جان کا آنگن

حضرت شعیب علیہ السلام

گڑیا: دادی جان! دیکھیں احمد میری چاکلیٹ کھا گیا ہے، گڑیا نے ہاتھ میں ریپر پکڑے دہائی دی۔

احمد: معذرت گڑیا آپی! میں سمجھا کہ میری ہے، احمد نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔

دادی جان: بہت بری بات احمد بیٹا! کسی کی چیز پر نظر نہیں رکھتے، اب آئندہ سے میں یہ حرکت نہ دیکھوں۔

احمد: معذرت دادی جان! میں بس آپی کو تنگ کرنا چاہ رہا تھا، احمد کو اب سچ میں شرمندگی محسوس ہوئی۔

گڑیا: دادی جان! مجھے بتائیں، یہ اصحاب الایکہ کون لوگ تھے؟ سیکرٹری صاحبہ ناصرات کو اگلے اجلاس میں جواب دینا ہے۔

دادی جان: چلو آج میں آپ کو مَدْیَن والوں کی کہانی سناتی ہوں۔ ایک گھنا اور وسیع جنگل خلیجِ عقبہ کے پاس کے علاقے میں واقع تھا۔ اس جنگل میں مختلف قسم کے پھل دار درخت موجود تھے جن کے پھل جنگلی جانوروں اور انسانوں کے لیے خوراک کا کام دیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس جنگل میں کثرت کے ساتھ ہرن، جنگلی اونٹ اور بارہ سنگھے پائے جاتے تھے۔ اس جنگل کے ارد گرد کافی دُور تک ایک قوم آباد تھی جو حضرت ابراہیمؑ کے ایک بیٹے مدین کی نسل میں سے ہونے کی وجہ سے قوم مدین کہلاتی تھی۔ یہ ایک بڑی قوم تھی جو عرب کے بہت بڑے علاقے پر پھیلی ہوئی تھی۔ ان کے مرکزی شہر کا نام بھی مدین ہی تھا جو اس وسیع جنگل کے قریب ہی خلیج عقبہ کے پاس آباد تھا۔ مدین کے چرواہے اپنے جانور چرانے کی غرض سے اس جنگل میں آتے جاتے رہتے تھے، اس وجہ سے لوگ انہیں اصحاب الایکہ یعنی جنگل والے لوگ بھی کہہ دیا کرتے تھے۔

یہ علاقہ اُس زمانے میں تجارتی لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اُس زمانے میں یمن سے شام جانے کے لیے اور خلیجِ فارس سے مصر جانے کے لیے جو دو بڑے راستے استعمال ہوتے تھے وہ مدیانی قوم کے علاقے میں سے گزرتے تھے۔ جغرافیائی لحاظ سے یہ بات بہت اہمیت رکھتی تھی کیونکہ عرب کی تمام تجارت کا انحصار ان راستوں پر تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ اس قوم کی اکثریت تجارت کے پیشے کو اپنائے ہوئے تھی۔ خداتعالیٰ نے مدیانی قوم کو بہت ساری نعمتوں سے نوازا تھا۔ لیکن اس فضل کے نتیجے میں شکر گزار بننے کی بجائے زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ لالچی اور حریص ہو گئے تھے۔

احمد: وہ کیسے؟

دادی جان: یمن سے شام جانے والے قافلے اس قوم کے ہاتھوں سخت تنگ تھے کیونکہ جب وہ مدین کے علاقے سے گزرتے تو انہیں بھاری ٹیکس ادا کرنے پڑتے تھے اور یہ علاقہ مدیانی ڈاکوؤں اور لٹیروں کی وجہ سے غیرمحفوظ تھا۔ جنگل کا فائدہ اٹھا کر آئے دن قافلے لوٹ لیے جاتے تھے اور سوداگروں کو قتل کر دیا جاتا تھا۔ یوں مدین قوم کا ظلم بڑھتا چلا گیا، وہ بے ایمانی، بد دیانتی، رہزنی اور اخلاقی برائیوں میں ترقی کرتے چلے گئے۔ خدا تعالیٰ سے بالکل غافل ہو گئے اور اچھے اخلاق کو خیر باد کہہ دیا۔ یہ وقت وہ تھا جب خدا تعالیٰ کو اس قوم کی حالت پر رحم آیا اور اس نے اس قوم کو سیدھا راستہ دکھانے کے لیے ایک نبی کو اُن میں مبعوث فرمایا۔

دادی جان: آپ جانتے ہیں کہ یہ نبی کون تھے؟

احمد: مدین کی طرف حضرت شعیب ؑ آئے تھے۔

دادی جان: جی ہاں! حضرت شعیبؑ بڑے دکھ کے ساتھ اپنی قوم کی حالت دیکھا کرتے تھے۔ آپؑ اپنی قوم کو سیدھا راستہ دکھانے کے لیے اپنے دل میں بے انتہا درد اور تڑپ رکھتے تھے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی نیکی اور اخلاص کو ضائع نہ ہونے دیا اور آپؑ کو نبی کی حیثیت سے اس قوم کی اصلاح کرنے کا حکم دیا۔

گڑیا: پھر کیا ہوا؟

دادی جان: حضرت شعیبؑ نے اللہ کا نام لے کر انہیں سیدھے راستے کی طرف بلانا شروع کر دیا۔ حضرت شعیبؑ نے بستی بستی، گاؤں گاؤں ایک ہی صدا بلند کی کہ اے لوگو! باز آجاؤ۔ خدا تعالیٰ سے ڈرو اور میری بات مان لو۔ دیکھو! یہ جو ناپ تول میں کمی کرنا، بد دیانتی کرنا اور ڈاکے مارنا ہے، یہ چھوڑ دو۔ خداتعالیٰ نے تمہیں اس قدر نعمتوں سے مالامال کیا ہے کہ اگر تم یہ سب کچھ نہ بھی کرو تب بھی ایک اچھی زندگی گزار سکتے ہو۔ پھر کیوں باز نہیں آ جاتے؟ کیوں یہ سب چھوڑ نہیں دیتے؟

احمد: تو ان لوگوں نے کیا جواب دیا؟

قوم کے لوگ آپ کی باتوں پر ہنستے۔ طنز کے ساتھ ایک دوسرے سے کہتے، یہ دیکھو شعیب کیسے اچھے کاروباری راز بتا رہا ہے۔ کہتا ہے ناپ تول میں کمی نہ کرو، ملاوٹ نہ کرو، بد دیانتی نہ کرو۔ ارے یہ سب تو کاروبار کا حصہ ہے۔ اگر ہم نے وزن کے باٹ لینے کے لیے الگ اور دینے کے لیے الگ بنا رکھے ہیں تو یہ ہماری ذہانت ہے۔ ہم نے کتنی محنت سے تجارت میں ترقی کے نئے نئے طریقے بنائے ہیں۔

غرض یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ قوم کی اکثریت اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہ تھی کہ شعیب اللہ کے نبی ہیں اور ہماری راہنمائی کے لیے مبعوث کیے گئے ہیں۔ وہ مسلسل آپ کو جھوٹا کہتے، آپ کی باتوں کو غلط کہتے، اور کوئی بات ماننے کے لیے تیار نہ ہوتے۔ حضرت شعیب نے انہیں بہت سمجھایا لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔

یہ سلسلہ چلتا رہا اور قوم اپنی بد دیانتی اور ظلم میں بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس قوم کو سزا دینے کا فیصلہ کر لیا گیا اور اس سزا کے متعلق حضرت شعیبؑ نے اپنی قوم کو بھی آگاہ کر دیا۔ قوم مدین نے سزا کی پیشگوئی کو بھی جھوٹا سمجھا اور بجائے اس کے کہ باز آتی، اس نے پہلے سے بڑھ کر حضرت شعیب کا انکار کرنا شروع کر دیا۔ وہ کہتے کہ اے شعیب! بہت باتیں ہو چکی ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ تیری حیثیت کچھ بھی نہیں ہے، تو ایک عام آدمی ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر جا اور ہم پر جو عذاب لانا چاہے لے آ۔ اب تو ہم تب ہی تمہیں سچا سمجھیں گے جب تم ہم پر کوئی عذاب لے آؤگے۔ ہم پر آسمان سے کچھ ٹکڑے گرا اگر تو سچوں میں سے ہے۔ اور کہتے کہ اے شعیب! تُو جو کہتا ہے اس میں سے بہت سا ہم سمجھ نہیں سکتے جبکہ تجھے ہم اپنے درمیان بہت کمزور دیکھتے ہیں۔ اور اگر تیرا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم ضرور تجھے سنگسار کر دیتے اور تو ہمارے مقابل پر کوئی غلبہ نہیں رکھتا۔

گڑیا: تو کیا ان کی قوم پر بھی عذاب آیا؟

جی ہاں! قوم نے انکار میں حد کر دی تھی۔ انہوں نے حضرت شعیبؑ کی سچائی کا معیار ہی عذاب کو ٹھہرایا تھا، اس لیے اب لازم تھا کہ عذاب ان پر آ کر رہتا تاکہ اللہ کے اس بزرگ نبی کی سچائی ثابت ہو سکتی۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ حضرت شعیبؑ نے اپنے ربّ سے دُعا کی: رَبَّنَا افۡتَحۡ بَیۡنَنَا وَبَیۡنَ قَوۡمِنَا بِالۡحَقِّ وَاَنۡتَ خَیۡرُ الۡفٰتِحِیۡنَ (الاعراف: 90) اے ہمارے ربّ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردے اور تُو فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔

پھر بادل آ گئے۔ مدین کے لوگ بڑے سکون کے ساتھ اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے۔ بعض لوگ بادلوں کی آمد کو خوشگوار موسم کی طرف ایک قدم قرار دے رہے تھے لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر کچھ اور ہی رنگ دکھانے لگی تھی۔ بادل گہرے ہوتے چلے گئے، تیز آندھی کے ساتھ ہی موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ ان کو ایک سایہ کردینے والے مہلک بادل کے دن کے عذاب نے آپکڑا۔ وہ آسمان کا کوئی ٹکڑا مانگ رہے تھے۔ تو زبردست قسم کے کڑاکے بھی لگے اور بارش ایسی شروع ہوئی کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ وقت گزرتا گیا اور بارش تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئی۔ قوم مدین کی تمام ترقیات بارش کے اس شدید طوفان میں بہتی چلی جا رہی تھیں۔ قرآن کریم کے مطابق بہت زبردست زلزلہ بھی آیا اور وہ اپنے گھروں میں ہی دبے رہ گئے۔

گھر، عمارتیں، دکانیں، سب کچھ منہدم ہوتا جا رہا تھا۔ لوگ مر رہے تھے، چیخ و پکار ہو رہی تھی لیکن اس عذاب سے بچنا ممکن نہ تھا۔ جو گھر گرتا تھا وہ اس گھر میں رہنے والوں کی قبر بن جاتا۔ سب کے سب مکانات کے ملبے تلے دب جاتے اور بارش اور طوفان دیگر مکانوں کو گرانے لگتا۔

پھر جب بارش تھمی تو بہت ہی دردناک منظر تھا۔ قوم مدین کے خوبصورت گھر جو انہوں نے بے ایمانی کی کمائی سے تعمیر کیے تھے، ان کی قبروں میں تبدیل ہوچکے تھے۔ بغیر کسی اِستِثْنا کے ہر طرف یہی عالم تھا۔ تباہی اور بربادی کا عالم، جو قوم مدین نے خود اپنا مقدر بنا لی تھی۔ ہر طرف بالکل خاموشی تھی۔ گھنے درختوں کا وسیع سلسلہ اب بھی وہیں موجود تھا، لیکن کوئی مدیانی چرواہا اپنے جانور لے کر اس طرف نہیں جا تاتھا۔ یمن سے شام جانے والے قافلے اب بھی وہاں سے گزرتے تھے لیکن بددیانت مدیانی قوم کو وہاں نہ پاتے تھے جو ایک بہت بڑی قوم داستان بن چکی تھی۔ آج تو وہاں صرف چند کھنڈر اور چند ٹیلے ہیں۔

گڑیا: تو حضرت شعیبؑ کہاں گئے؟

دادی جان: جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ انبیاء کی اقوام پر عذاب نازل کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ اپنے انبیا کو محفوظ مقام پرلےجاتا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ وہ مکہ کی طرف ہجرت کر گئےتھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو خطیبُ الانبیاء قرار دیا ہے۔ قرآن کریم نے بھی قوم کے ساتھ ان کے کئی مکالمے محفوظ کئے ہیں۔

گڑیا: جزاکم اللہ دادی جان۔

دادی جان: جب محمود واپس آجائے تو گڑیا نے اسے بھی یہ کہانی سنانی ہے۔

گڑیا: جی ٹھیک ہے دادی جان!

(درثمین احمد، جرمنی)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button