خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍ جنوری 2025ء

ایک عورت کو جس پر قتل کا الزام نہیں ہے قید کرکے ٹھنڈے لمحات میں قتل کرنا اور پھر
قتل بھی اس طریق پر کرنا جو اس روایت میں بیان کیا گیا ہے یہ تو ایک بہت دور کی بات ہے۔
اسلام تو عین جنگ کے میدان میں بھی عورت کے قتل کو سختی کے ساتھ روکتا ہے(سیرت خاتم النبیینؐ )

سوال یہ ہے کہ جب صحابہ نے اُمِّ قِرفہ سے سخت اور زیادہ خونی دشمنوں اور پھر مرد دشمنوں کو بھی کبھی اس طرح قتل نہیں کیا تو یہ خیال کرنا کہ زید بن حارثہ جیسے واقف کار صحابی کی کمان میں ایک بوڑھی عورت کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا ہو گا ہرگز قابل تسلیم نہیں ہو سکتا

اس بات میں ہر گز کوئی شبہ نہیں رہتا کہ اُمِّ قِرفہ کے ’’ظالمانہ قتل‘‘ کا واقعہ ایک بالکل جھوٹا اور بےبنیاد واقعہ ہے جو کسی مخفی دشمن اسلام اور منافق کی مہربانی سے بعض تاریخی روایتوں میں راہ پا گیا ہے اور حق یہ ہے کہ اس سریّہ کی حقیقت اس سے بڑھ کر اَور کچھ نہیں جو مسلم اور ابو داؤد نے بیان کی ہے

اسلام کے متعلق ہمیں اعتراف ہے کہ وہ ان جھوٹے جذبات کا مذہب نہیں ہے۔ وہ مجرم کومجرم قرار دیتا ہے اور اس کی سزا کو ملک اور سوسائٹی کے لیے رحمت سمجھتا ہے۔ وہ ایک سڑے ہوئے عضو کوجسم سے کاٹ دینے کی تعلیم دیتا ہے اور اس بات کا اظہار نہیں کرتا کہ ایک متعفن عضو اچھے اور تندرست اعضا ءکو خراب کر دے

غزوہ بنو فزارہ اور غزوہ عبد اللہ بن عتیک نیز مدینہ میں فساد پھیلانے والے یہودی ابورافع کے قتل کے حالات و واقعات کا تفصیلی بیان

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍ جنوری 2025ء بمطابق10؍ صلح 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے سریّات اور غزوات کا ذکر

گذشتہ خطبہ سے پہلے چل رہا تھا۔ اس میں

بنو فَزَارَہ کے سریّہ کا ذکر

ہوا تھا۔ تاریخ میں بنو فزارہ کے خلاف سریہ میں ایک واقعہ کا ذکر ملتا ہے جو

اُمِّ قِرفہ

کے قتل کا ہے۔ بعض تاریخ دانوں نے اس کو جس طرح لکھا ہے وہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حقیقت کے خلاف واقعہ ہے۔ طبقات الکبریٰ میں لکھا ہے کہ حضرت زید بن حارثہؓ 6؍ہجری میں تجارت کے سلسلہ میں شام کی طرف روانہ ہوئے۔ آپؓ کے ہمراہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابؓ کا مالِ تجارت تھا۔ جب وہ وادی القُرٰی کے قریب پہنچے تو انہیں بنو فَزَارَہ کی شاخ بنو بدر کے کچھ لوگ ملے جنہوں نے آپؓ کو اور آپؓ کے ساتھیوں کو مارا پیٹا اور جو سامان ان کے پاس تھا وہ چھین لیا۔پھر جب حضرت زید ؓتندرست ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعہ کی خبر دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حملہ کرنے والوں کی طرف بھیجا۔ یہ لوگ جو مسلمان تھے دن کو چھپتے اور رات کو چلتے لیکن بنو بدر کو ان کی خبر ہو گئی۔ پھر حضرت زیدؓ اور آپؓ کے ساتھی صبح کے وقت ان لوگوں کے پاس پہنچے۔ اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور جو وہاں موجود تھے انہیں گھیر لیا۔ اُمِّ قِرْفَہ کو جس کا اصل نام فَاطِمَہ بنتِ رَبِیعہ بن بدر تھا اور اس کی بیٹی جاریہ بنت مالک بن حذیفہ بن بدر کو گرفتار کر لیا۔ جاریہ کو حضرت سلمہ بن اکوع نے گرفتار کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد وہ حَزْن بن ابی وہب کو ہبہ کر دی۔

اس بارے میں

تاریخ کی بعض کتب میں اُمِّ قِرْفَہ کے قتل کا واقعہ جیسا کہ میں نے کہا ہے عجیب طرح پیش کیا گیا ہے جس کو اسلامی تعلیم اور عمل کی روشنی میں ماننا ممکن نہیں۔

بہرحال بعض کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ قَیْس بنِ مُحَسِّرنے ام قرفہ کی طرف قصد کیا۔ وہ ایک بوڑھی عورت تھی۔ قیس نے اس کو نہایت سختی سے قتل کیا۔اس کے دونوں پاؤں میں رسی باندھ کر دو اونٹوں کے ساتھ باندھ دیا۔ پھر اونٹوں کو ہنکایا تو وہ دوڑے اور اس عورت کے ٹکڑے کر دیے۔ قیس نے دو اَور آدمیوں کو بھی قتل کیا۔ حضرت زید بن حارثہ ؓاپنی اس مہم سے واپس آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ آپؐ اپنا کپڑا کھینچتے ہوئے زید ؓکی طرف اٹھ کھڑے ہوئے یہاں تک کہ زیدؓ  کو گلے لگا لیا اور بوسہ دیا اور زیدؓ سے حال دریافت کیا تو زیدؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی جو اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح عطا فرمائی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ جزء 2 صفحہ 69 دارالکتب العلمیۃ بیروت) (کتاب المغازی واقدی جلد 2 صفحہ 61 دارالکتب العلمیۃ بیروت) تو یہ اس طرح کا واقعہ بیان کیا کہ اس طرح اس کو دو ٹکڑوں میں چیر دیا لیکن

اس واقعہ کا ذکر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بڑی دلیل کے ساتھ بڑے احسن رنگ میں کیا ہے۔

آپؓ نے یہ لکھا کہ ’’سریہ حضرت ابو بکرؓ کی جگہ جس کا ذکر‘‘ ابھی بیان ہوا ہے ’’… ابن سعد نے ایک ایسے سریہ کا ذکر کیا ہے جس میں زید بن حارثہ امیر تھے۔یعنی ابن سعد اس سریہ میں حضرت ابو بکر کی بجائے زید بن حارثہ کو امیر بیان کرتا ہے اور تفاصیل میں بھی کسی قدر اختلاف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ مہم بنو فزارہ کی گو شمالی کے لیے تھی جو وَادِی الْقُرٰی کے پاس آباد تھے اور جنہوں نے مسلمانوں کے ایک تجارتی قافلہ پر چھاپہ مار کر اس کا سارا مال واسباب چھین لیا تھا۔ اس مفسد گروہ کی روح رواں ایک بوڑھی عورت تھی جس کا نام امِ قِرفہ تھا جو اسلام کی سخت دشمن تھی۔ جب یہ عورت اس لڑائی میں پکڑی گئی تو زید کی پارٹی کے ایک شخص قیس نامی نے اس عورت کو قتل کر دیا۔اور ابن سعد اس قتل کا قصہ یوں بیان کرتا ہے‘‘یہ لکھنے والا تاریخ کا ’’ کہ اس کے دونوں پاؤں دو مختلف اونٹوں کے ساتھ باندھے گئے اور پھر ان اونٹوں کو مختلف جہات میں ہنکایا گیا جس کے نتیجہ میں یہ عورت درمیان میں سے چر کر دو ٹکڑے ہو گئی اور اس کے بعد اس بوڑھی عورت کی لڑکی سلمہ بن اکوع کے سپرد کر دی گئی۔یہی قصہ کسی قدر اختصار اور اجمال اور اختلا ف کے ساتھ ابنِ اسحاق نے بھی بیان کیا ہے۔

اس روایت کی بنا پر سر ولیم میور نے‘‘جو orientalist ہے ’’جو دوسرے یورپین مؤرخین کی نسبت زیادہ تفصیل دینے کا عادی ہے اس واقعہ کو مسلمانوں کی ’’وحشیانہ روح ‘‘کی مثال میں بڑے شوق سے اپنی کتاب کی زینت بنایا ہے بلکہ سرولیم میور نے اسے اپنی کتاب میں درج کرنے کی وجہ ہی یہ لکھی ہے کہ اس مہم میں مسلمان ایک ظالمانہ فعل کے مرتکب ہوئے تھے۔ چنانچہ میور صاحب لکھتے ہیں :۔

’’اس سال مسلمانوں کو بہت سی مہموں میں مدینہ سے نکلنا پڑا مگر یہ سب قابل ذکر نہیں ہیں البتہ‘‘ یہ کہتے ہیں کہ ’’البتہ میں ان میں سے ایک مہم کے ذکر سے رک نہیں سکتا کیونکہ اس کا انجام مسلمانوں کی طرف سے ایک نہایت ظالمانہ فعل پر ہوا تھا‘‘۔ یہ میور صاحب کا بیان ہے۔

اس کے تجزیے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ جو مؤرخ ایک واقعہ کو دوسرے واقعات پر محض اس وجہ سے ترجیح دے کر اسے اپنی کتاب کی زینت بناتا ہے کہ اس میں کسی قوم کے ظلم وستم کا ثبوت ملتا ہے وہ درحقیقت ایک غیر جانبدار محقق کہلانے کا حقدار نہیں ہے۔‘‘ اس نے خود لکھا ہے کہ باقی واقعات میں چھوڑتا ہوں صرف یہ واقعہ لیتا ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ جانبدار تھا غیرجانبدار تحقیق کرنے والا نہیں تھا ’’کیونکہ اس سے کبھی بھی یہ توقع نہیں ہو سکتی‘‘ جو غیر جانبدار ہو ’’کہ وہ اس بات کی تحقیق کی طرف توجہ کریگا کہ آیا یہ ظلم  وستم کا واقعہ کوئی اصلیت بھی رکھتا ہے یا نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے اس کے ہاتھ سے اس کی ایک دلیل نکل جاتی ہے۔ بہر حال میور صاحب نے اس واقعہ کو خاص شوق کے ساتھ اپنی کتاب میں درج کیا ہے مگر جیسا کہ‘‘ کہتے ہیں میں ’’ابھی‘‘ ثابت کروں گا یہ ’’ظاہر ہو جائے گا کہ یہ واقعہ بالکل غلط اور قطعاً بے بنیاد ہے اور نقل و عقل ہر دو طرح سے اس کا بناوٹی ہونا ثابت ہے۔

عقلی طریق پر تو یہ جاننا چاہیے کہ

ایک عورت کو جس پر قتل کا الزام نہیں ہے قید کرکے ٹھنڈے لمحات میں قتل کرنا اور پھر قتل بھی اس طریق پر کرنا جو اس روایت میں بیان کیا گیا ہے یہ تو ایک بہت دور کی بات ہے۔ اسلام تو عین جنگ کے میدان میں بھی عورت کے قتل کو سختی کے ساتھ روکتا ہے۔‘‘

اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مرتبہ واضح فرمایا کہ جو عورتیں ہیں ان کو قتل نہیں کرنا۔ ’’…چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک موقع پر میدانِ جنگ میں کسی دشمن قبیلہ کی ایک عورت مقتول پائی گئی تو باوجود اس کے کہ یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ عورت کن حالات میں اور کس کے ہاتھ سے قتل ہوئی ہے آپؐ اسے دیکھ کر بہت ناراض ہوئے اور صحابہؓ سے یہ تاکیداً فرمایا کہ ایسا کام آئندہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘کسی عورت کو قتل نہیں کرنا۔ ’’…اسی طرح جب کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی دستہ روانہ فرماتے تھے تو منجملہ اَور نصیحتوں کے صحابہؓ سے ایک اَور نصیحت یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ کسی عورت اور بچے کو قتل نہ کرنا۔

ان اصولی ہدایات کے ہوتے ہوئے صحابہؓ کے متعلق اور صحابہؓ میں سے زید بن حارثہؓ کے متعلق جو گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے آدمی تھے یہ خیال کرنا کہ انہوں نے کسی عورت کو اس طریق پر قتل کیا یا کروایا تھا جو ابن سعد نے بیان کیا ہے ہر گز قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ بیشک روایت میں قتل کرنے کا فعل زید کی طرف منسوب نہیں کیا گیا بلکہ ایک دوسرے مسلمان کی طرف کیا گیا ہے لیکن جبکہ یہ واقعہ زید کی کمان میں ہوا تو بہرحال اس کی آخری ذمہ داری زید پر ہی سمجھی جائے گی اور زید کے متعلق یہ خیال کرنا کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو جانتے ہوئے اس قسم کے کام کی اجازت دی ہو گی ہر گز قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ بیشک اگر کوئی عورت کسی جرم کی مرتکب ہوتی ہے تو وہ اس جرم کی سزا پائے گی اور کسی مذہب کی شریعت اور کسی ملک کے قانون نے عورت کو جرم کی سزا سے مستثنیٰ نہیں رکھا اور آئے دن عورتوں کی سزا بلکہ قتل کے جرم میں پھانسی تک کے واقعات چھپتے رہتے ہیں مگر محض مذہبی عداوت کی وجہ سے یا شرکت جنگ کی وجہ سے کسی عورت کو قتل کرنا اور قتل بھی اس طریق پر کرنا جو اس روایت میں بیان ہوا ہے ایک ایسا فعل ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اصولی ہدایت اور ساری اسلامی تاریخ صریح طور پر ردّ کرتی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ عورت مجرم تھی اور جیسا کہ بعض روایتوں میں بیان ہو اہے اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ کیا تھا۔ اس لیے اس کے خلاف جائز طور پر قتل کی سزا جاری کی جاسکتی تھی تو یہ درست ہے۔ مگر

سوال یہ ہے کہ جب صحابہ نے امِ قِرفہ سے سخت اور زیادہ خونی دشمنوں اور پھر مرد دشمنوں کو بھی کبھی اس طرح قتل نہیں کیا تو یہ خیال کرنا کہ زید بن حارثہ جیسے واقف کار صحابی کی کمان میں ایک بوڑھی عورت کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا ہو گا ہرگز قابل تسلیم نہیں ہو سکتا۔

پس معقولی رنگ میں اس قصہ کا جھوٹا اور بناوٹی ہونا ظاہر وعیاں ہے اور کوئی غیر متعصب شخص اس میں شبہ کی گنجائش نہیں دیکھ سکتا۔

اب رہا منقولی طریقہ

سواول توابن سعد یاابن اسحاق نے اس روایت کی کوئی سند نہیں دی اور بغیر کسی معتبر سند کے اس قسم کی روایت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح ہدایت اور صحابہ کے عام اور معروف طریق کے خلاف ہو ہرگز قبول نہیں کی جا سکتی۔ دوسرے یہ کہ یہی واقعہ حدیث کی نہایت معتبر کتب صحیح مسلم اور سنن ابوداؤد میں بیان ہوا ہے مگراس میں امِ قِرفہ کے قتل کئے جانے کا قطعاً کوئی ذکر نہیں ہے اور بعض دوسری تفصیلات میں بھی اس بیان کو ابن سعد وغیرہ کے بیان سے اختلاف ہے۔ اور چونکہ صحیح احادیث عام تاریخی روایات سے یقیناًاور مسلمہ طورپر بہت زیادہ مضبوط اور قابل ترجیح ہوتی ہیں۔ اس لیے

صحیح مسلم اور سنن ابوداؤد کی روایت کے سامنےابن سعد وغیرہ کی روایت کوئی وزن نہیں رکھتی۔

یہ امتیاز اور بھی نمایاں ہوجاتا ہے جب ہم اس بات کو مدنظر رکھیں کہ جہاں ابن سعد اورابن اسحاق نے اپنی روایتوں کو یونہی بلاسند بیان کیا ہے وہاں امام مسلم اور ابوداؤد نے اپنی روایتوں کو پوری پوری سند دی ہے اور ویسے بھی محدثین کی احتیاط کے مقابلہ میں جنہوں نے انتہائی احتیاط سے کام لیا ہے مؤرخین کی عام روایت کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔

صحیح مسلم اورسنن ابوداؤدمیں یہ واقعہ جس طرح بیان ہوا ہے …اس میں امِ قِرفہ کے قتل کا ذکر تک نہیں ہے۔ بیشک مسلم اورابوداؤد کی روایت میں امِ قِرفہ کا نام مذکور نہیں ہے اور امیر کانام بھی زید کی بجائے ابوبکر درج ہے مگراس کی وجہ سے یہ شبہ نہیں کیا جاسکتا کہ یہ مہم اور ہے کیونکہ باقی جملہ اہم تفصیلات ایک ہیں مثلاً:

1۔ دونوں روایتوں میں یہ تصریح ہے کہ یہ مہم بنوفزارہ کے خلاف تھی۔

2۔ دونوں میں یہ ذکر موجود ہے کہ بنوفزارہ کی رئیس ایک بوڑھی عورت تھی۔

3۔دونوں میں اس عورت کے قید کئے جانے کا ذکر ہے۔

4۔ دونوں میں یہ ذکر ہے کہ اس عورت کی ایک لڑکی بھی تھی جو ماں کے ساتھ قید ہوئی۔‘‘

پھر یہ بھی کہ

’’5۔ دونوں میں یہ ذکر ہے کہ یہ لڑکی سلمہ بن اکوع کے حصہ میں آئی تھی۔

اس کے علاوہ اور بھی بعض باتوں میں اشتراک ہے۔ اب غور کرو کہ

کیا ان اہم اور بنیادی اشتراکات کے ہوتے ہوئے کوئی شخص شبہ کر سکتا ہے کہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں۔

مگر ہم صرف اس عقلی استدلال پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ گذشتہ محققین نے بھی صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ صحیح مسلم اور سنن ابوداؤد میں وہی واقعہ بیان ہوا ہے جو ابن سعدنے دوسرے رنگ میں درج کیا ہے۔ چنانچہ علامہ زَرْقَانِی اور امام سُہَیْلِی اور علامہ حَلَبِی نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ یہ وہی واقعہ ہے جو ابن سعد اور ابن اسحاق نے امِ قِرفہ والے قصہ میں غلط طور پر بیان کیا ہے مگر اس سے بھی بڑھ کر اس بات کا ثبوت کہ یہ وہی واقعہ ہے یہ ہے کہ طبری نے ان دونوں روایتوں کو پہلو بہ پہلو بیان کر کے‘‘ساتھ ساتھ رکھا ان کو، ’’اس بات کی صراحت کی ہے کہ یہ دونوں ایک ہی واقعہ ہیں۔

الغرض یہ بات بالکل یقینی ہے کہ مسلم اور ابوداؤدکی سلمہ بن اکوع والی روایت میں وہی واقعہ بیان کیا گیا ہے جسے ابن سعد اور ابن ہشام نے امِ قِرفہ کے سریہ کے نام سے غلط طور پر درج کیا ہے

اور چونکہ صحاح کی روایت‘‘ یعنی یہ جو چھ حدیثوں کی کتابیں ہیں ان میں سے جو مستند حدیثوں کی کتابیں ہیں ان کی روایت ’’جو سند کے ساتھ بیان کی گئی ہے اور ایک شریکِ واقعہ کی زبان سے مروی ہے بہرحال ابن سعد اور ابن ہشام کی غیر مستند روایت سے قابل ترجیح ہے اس لیے

اس بات میں ہر گز کوئی شبہ نہیں رہتا کہ امِ قِرفہ کے ’’ظالمانہ قتل‘‘ کا واقعہ ایک بالکل جھوٹا اور بے بنیاد واقعہ ہے جو کسی مخفی دشمن اسلام اورمنافق کی مہربانی سے بعض تاریخی روایتوں میں راہ پا گیا ہے اور حق یہ ہے کہ اس سریہ کی حقیقت اس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں جو مسلم اور ابو داؤد نے بیان کی ہے۔

کسی غلط واقعہ کا تاریخ میں درج ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ اس قسم کی مثالیں ہر قوم اور ہر ملک کی تاریخ میں ملتی ہیں۔لیکن یہ ضرور ایک تعجب کی بات ہے کہ سرولیم جیسا انسان اس غلط واقعہ کو بغیر کسی تحقیق کے اپنی کتاب میں جگہ دے اور اس بات کا برملا اعتراف کرے کہ اس کے اندراج کی وجہ محض یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں کے ایک ظالمانہ فعل کی مثال ملتی ہے۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 717تا721)

تو بہرحال یہ واقعہ ہی غلط ہے جو اس طرح نہیں ہوا۔

ایک سریہ عبداللہ بن عتیکؓ

ہے۔ اس کا ذکر تاریخ میں آتا ہے جو ابورافع کی طرف تھا۔ ابن سعد نے بیان کیا ہے یہ سریہ رمضان چھ ہجری میں ہوا۔

(طبقات الکبریٰ جلد2 صفحہ70 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اپنی تحقیق جو تاریخ کی مختلف کتابوں سے لی ہے اس میں آپؓ نے یہ اس طرح لکھا ہے کہ ’’ابورافع کے قتل کے زمانہ کے متعلق روایات میں اختلاف ہے۔ بخاری نے زہری کی اتباع میں اسے معین تاریخ دینے کے بغیر مطلقاً کعب بن اشرف کے قتل کے بعد بیان کیا ہے جوبہرحال درست ہے اور غالباً ان واقعات کومتصل کرکے اس لیے بیان کیا ہے۔‘‘ دو کو آپس میں جوڑ کے بیان کیا گیا ہے ’’کہ ان کی نوعیت ایک سی ہے۔ طبری نے اسے 3ھ میں کعب بن اشرف کے واقعہ کے بعد رکھا ہے۔ واقدی نے 4ھ میں بیان کیا ہے۔ ابن ہشام نے بروایت ابن اسحاق اسے مطلقاً غزوہ بنوقریظہ کے بعد رکھا ہے جو اواخر 5ھ میں ہوا تھا اور اس طرح اسے اوائل 6ھ میں سمجھا جاسکتا ہے۔مگر ابن سعد نے صراحتاً 6ھ میں بیان کیا ہے اورعام مؤرخین نے ابن سعد کی اتباع کی ہے۔ واللہ اعلم‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 726)

ابن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ جب غزوہ خندق اور بنو قریظہ کا معاملہ ختم ہوا اورسلّام بن ابی حُقَیْق یعنی ابورافع ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لشکر جمع کیا تھا اور قبیلہ اوس غزوہ احد سے پہلے کعب بن اشرف یہودی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی اور آپ کے خلاف بھڑکانے کی وجہ سے قتل کر چکا تھا تو قبیلہ خزرج نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سلام بن ابی حقیق کے قتل کی اجازت چاہی۔ اس وقت وہ خیبر میں تھا ۔آپؐ نے ان کو اجازت دے دی۔ یہ دونوں قبیلے یعنی اوس اور خزرج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ دو نر اونٹوں کی مانند مقابلے کرتے تھے۔ قبیلہ اوس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کوئی کام سرانجام دیتا تو قبیلہ خزرج والے کہتے یہ تو اس کام کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اور اسلام میں ہم سے فضیلت لے جائے گا۔ پس وہ نہیں رکتے تھے یہاں تک کہ وہ اس جیسا کوئی کام سرانجام دیتے۔ اور خزرج نے کوئی ایسا کام کر دیا تو قبیلہ اوس بھی اس کی مثل کرتا تھا۔ جب اوس والوں نے کعب بن اشرف کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےعداوت کی وجہ سے قتل کیا تو خزرج والوں نے کہا اللہ کی قسم! قبیلہ اوس اس کی وجہ سے کبھی بھی ہم سے فضیلت نہیں لے سکتا اور وہ ان کاموں میں مقابلے کرتے تھے جو ان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کر دیں۔ پس انہوں نے غور و فکر کی کہ کون سا آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں کعب بن اشرف کے برابر ہے تو انہوں نے ابن ابی حُقَیق کو یاد کیا جو خیبر یا حجاز کی زمین میں تھا۔ ابن سعد کہتے ہیں کہ خزرج نے کہا ابورافع بن ابی حُقَیق نے قبیلہ غطفان اور اس کے ارد گرد کے مشرکین عرب کو جمع کیا اور ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کے لیے بہت بڑا وظیفہ مقرر کر دیا۔ پس خزرج نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےاس کے قتل کی اجازت طلب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی۔اس طرح خزرج میں سے بنو سلمہ کے پانچ آدمی عبداللہ بن عتیک، مسعود بن سِنَان، عبداللہ بن اُنیس جُہَنِی جو کہ انصار کے حلیف تھے، ابوقتادہ حَرْث بن رِبْعِی، خُزَاعِی بن اَسْوَد، یہ سب لوگ نکلے۔ محمد بن عمر اور ابن سعد کے نزدیک یہ اسود بن خُزَاعِی تھا جو قبیلہ اسلم میں سے انصار کا حلیف تھا اور بَرَاء بن عَازِب نے عبداللہ بن عُتْبَہ کا اضافہ کیا جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے پس وہ چھ افراد ہو گئے اور ابن عقبہ اور سُہَیْلِی نے اَسْعَدبن حَرَام کا اضافہ کیا اس طرح یہ سات آدمی ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر حضرت عبداللہ بن عتیک کو امیر مقرر فرمایا اور ان کو بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ (سبل الھدیٰ والرشاد جلد6صفحہ102دار الکتب العلمیۃ بیروت)تو دیکھیں یہاں بھی بڑا واضح طور پر فرمایا عورت کو قتل نہیں کرنا۔

صحیح بخاری میں ابورافع کے قتل کی تفصیل

یوں بیان ہوئی ہے۔

حضرت براء بن عازبؓ نے بیان کیا ہے کہ ابورافع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ایذا دیا کرتا تھا اور آپ کے خلاف دشمنوں کی مدد کرتا تھا وہ اپنے قلعہ میں جو حجاز کی سرزمین میں تھا رہتا تھا۔ جب وہ لوگ اس کے قریب پہنچے تو سورج غروب ہو چکا تھا اور لوگ اپنے جانوروں کے ریوڑ لے کر واپس ہوچکے تھے۔ عبداللہ بن عتیک نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم اپنی جگہ پر بیٹھے رہو۔ میں جا تا ہوں اور دربان سے کوئی حیلہ کرتا ہوں تا کہ میں اندر چلا جاؤں۔ وہ گئے اور دروازے کے قریب پہنچ گئے۔ پھر اپنے آپ کو کپڑے میں لپیٹ لیا جیسا کہ وہ قضائے حاجت کر رہے ہیں اور سب لوگ اندر جا چکے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ عبداللہ بن عتیک نے بیان کیا میں حیلہ کرنے لگا کہ کوئی بہانہ تلاش کروں اور قلعہ میں داخل ہو جاؤں ۔ اسی اثنا میں قلعہ والوں نے اپنا ایک گدھا گم پایا۔ انہوں نے کہا کہ وہ روشنی لے کر اس کی تلاش میں نکلے۔ کہتے تھے کہ میں ڈرا کہ کہیں وہ مجھے پہچان نہ جائیں۔ انہوں نے کہا میں نے اپنا سر ڈھانک لیا۔ یہ صحابی جو تھے انہوں نے کہا کہ میں نے سر ڈھانک لیا گویا کہ میں قضائے حاجت کر رہا ہوں۔ بخاری کی روایت ہے۔ تو دربان نے ان کو آواز دی کہ اے اللہ کے بندے! اگر تم داخل ہونا چاہتے ہو تو داخل ہو جاؤ۔ میں دروازہ بند کرنا چاہتا ہوں۔ میں داخل ہو گیا اور اس کے بعد میں اندر جاکے چھپ گیا۔ ایک روایت میں ہے کہ میں بھی اندر چلا گیا۔ پھر میں گدھوں کے باڑے میں قلعے کے اندر دروازے کے پاس چھپ گیا۔ جب لوگ داخل ہو گئے تو اس نے دروازہ بند کیا۔ پھر کنجیاں ایک کیل پر لٹکا دیں۔ وہ کہتے تھے میں اٹھ کر کنجیوں کی طرف گیا ،چابیوں کی طرف گیا میں نے ان کو لیا اور دروازہ کھول دیا۔ ایک روایت میں ہے کہ جب آوازیں تھم گئیں اور میں نے کوئی حرکت نہ سنی تو میں باہر نکلا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے دربان کو دیکھ لیا تھا کہ جہاں اس نے ایک طاقچےمیں قلعہ کی چابی رکھی تھی یہ بھی بخاری کی روایت ہے اور لوگ ابورافع کے پاس رات کو باتیں کیا کرتے تھے۔ وہ مجلس لگایا کرتا تھا۔ وہ اپنے بالا خانے میں تھا۔ جب باتیں کرنے والے اس کے پاس سے چلے گئے۔ یہ کہتے ہیں میں دیکھتا رہا کہ مجلس لگی ہوئی ہے۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ لوگوں نے ابورافع کے پاس شام کا کھانا کھایا اور وہ باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ رات کی ایک گھڑی گزر گئی۔ پھر جب باتیں کرنے والے چلے گئے۔ وہ اپنی کوٹھڑیوں کو لوٹ گئے۔ یہ بھی صحیح بخاری کی روایت ہے تو میں اس کی طرف چڑھا اور ہر دروازہ جو میں کھولتا اس کو اندر سے بند کرتا جاتا تھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر لوگ میری آہٹ پا بھی لیں تو جب تک میں اسے مار نہ لوں مجھ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ میں اس کے پاس پہنچا۔ دوسری روایت میں ہے کہ پھر میں ان کی کوٹھڑیوں کے دروازے کی طرف گیا اور ان کو باہر سے بند کر دیا۔ اس کے بعد ایک سیڑھی پر سے چڑھ کر میں ابورافع کے پاس گیا۔ یہ بھی بخاری کی روایت ہے۔ تو کہتے ہیں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ایک اندھیرے کمرے میں اپنے کنبے کے درمیان لیٹا ہوا ہے۔ مجھے پتہ نہ چلا کہ وہ کمرے میں کہاں ہے۔ میں نے کہا اے ابورافع! کہنے لگا کون ہے؟ میں آواز کی طرف لپکا اندازہ کر کے۔ میں نے تلوار سے اس کو ایک ضرب لگائی اور میں دہشت زدہ تھا ،گھبرایا ہوا تھا۔ وہ وار کچھ کام نہ آیا۔ وہ چلّایا۔ صحیح طرح اس پر وار نہیں پڑا۔ اس نے شور مچایا تب میں کمرے سے باہر آ گیا۔ تھوڑی دیر ہی ٹھہرا تھا کہ پھر میں اس کے پاس گیا گویا کہ میں اس کی مدد کو پہنچا ہوں اور کہا ابو رافع یہ کیا آواز ہے؟ اور میں نے اپنی آواز بدلی۔ کہنے لگا تیری ماں ہلاک ہو! ابو رافع کہنے لگا کوئی آدمی کمرے میں ہے جس نے کچھ دیر پہلے مجھ پر اپنی تلوار سے وار کیا ہے تو حضرت عبداللہ بن عتیکؓ کہتے ہیں کہ پھر میں نے اسے ایک ضرب لگائی۔ آواز سن کے پھر میں نے ضرب لگائی جس نے اس کو لہولہان کر دیا۔ میں اس کو مار نہ سکا ۔پھر میںنے تلوار کی نوک اس کے پیٹ میں رکھی یہاں تک کہ وہ اس کی پشت تک پہنچ گئی۔ دوسری روایت میں دوبارہ حملہ کرنے کا ذکر یوں ہے کہ پھر میں دوبارہ اس کی طرف لپکا اور اسے ایک اَور ضرب لگائی مگر اس نے کچھ فائدہ نہ دیا۔ وہ چلّایا اور اس کے گھر والے اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے کہا پھر میں آیا اور میں نے اپنی آواز بدلی فریاد رسی کرنے والے کی طرح۔ یعنی دوسری دفعہ آواز بدل کر آئے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ اپنی پیٹھ کے بل چت لیٹا ہے۔ میں نے تلوار اس کے پیٹ میں رکھی اور اس پر جھک گیا یہاں تک کہ میں نے ہڈی کے ٹوٹنے کی آواز سنی۔ یہ بھی بخاری کی روایات ہیں۔ میں نے جان لیا کہ میں نے اس کو مار ڈالا ہے پھر میں نے ایک ایک کر کے دروازے کھولے یہاں تک کہ میں آخری سیڑھی تک پہنچ گیا۔ میں نے اپنا پاؤں رکھا اور سمجھا کہ زمین پر پہنچ گیا ہوں لیکن میں گر پڑا اور وہ آخری سیڑھی نہیں تھی بلکہ دو تین سیڑھیاں تھیں تو سیڑھی سے گر گئے۔ اور چاندنی رات میں میری پنڈلی ٹوٹ گئی ۔دوسری روایت میں ہے کہ میرے پاؤں کا جوڑ نکل گیا۔ میں نے اسے پگڑی سے باندھا۔پھر میں چل پڑا اور آ کر دروازے پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ آج رات باہر نہیں نکلوں گا جب تک یہ نہ جان لوں کہ کیا میں نے اسے مار ڈالا ہے۔ جب مرغ نے بانگ دی ۔صبح مرغوں نے اذانیں دینی شروع کیں جس طرح کی مرغے دیتے ہیں، بولنا شروع کیا تو موت کی خبر دینے والا فصیل پر کھڑا ہوا اور کہنے لگا حجاز والوں کے تاجر کی موت کی خبر دیتا ہوں۔ تو میں اپنے ساتھیوں کی طرف چلا۔ میں نے کہا نجات، اللہ نے ابورافع کو مار ڈالا ہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور آپ کو بتایا۔ آپ نے مجھے فرمایا اپنا پاؤں آگے کرو۔ میں نے اپنا پاؤں آگے کیا ۔آپؐ نے اس پر ہاتھ پھیرا گویا مجھے اس میں کبھی کوئی تکلیف ہی نہ ہوئی ۔آپؐ کے ہاتھ پھیرنے کے بعد۔ دوسری روایت میں ہے کہ عبداللہ بن عتیکؓ نے بیان کیا کہ میں اپنے ساتھیوں کے پاس لڑکھڑاتا ہوا آیا۔ میں نے کہا جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت دو۔ کیونکہ میں نہیں جا سکوں گا جب تک کہ موت کی خبر دینے والے کی آواز نہ سن لوں۔ جب صبح قریب ہوئی موت کی خبر دینے والا چڑھا تو اس نے کہا ابورافع کے مرنے کی خبر دیتا ہوں۔ عبداللہ بن عتیکؓ کہتے تھے کہ میں اٹھ کر چلنے لگا تو مجھے کوئی تکلیف نہ تھی۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو پا لیا قبل اس کے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچتے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ پہلے ہی ان کی تکلیف دور ہو گئی تھی، موچ تھی۔

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب قتل ابی رافع حدیث4039، 4040)

یہ واقعہ امام بخاری نے حضرت براء بن عازب سے روایت کیا ہے اور اس میں یہ بیان ہے کہ عبداللہ بن عتیکؓ نے اکیلے ابورافع کا قتل کیا لیکن ابنِ عُقْبہ، ابن اسحاق، محمد بن عُمَر اور ابن سعد وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن عتیکؓ کے ساتھ تمام ساتھیوں نے مل کر قتل کیا تھا۔

(ماخوذازسبل الھدیٰ والرشاد جلد6صفحہ104-105دارالکتب العلمیۃ بیروت)

اس کا تجزیہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی کیا ہے اور اس کو بیان کیا ہے۔ اس کو آپؓ لکھتے ہیں کہ

’’جن یہودی رؤساء کی مفسدانہ انگیخت اور اشتعال انگیزی سے 5ھ کے آخر میں مسلمانوں کے خلاف جنگ احزاب کا خطرناک فتنہ برپا ہوا تھا ان میں سے حُیَیّ بن اَخْطَب تو بنو قریظہ کے ساتھ اپنے کیفرکردار کوپہنچ چکا تھا لیکن سَلَّامْ بن ابی الحُقَیق جس کی کنیت ابورافع تھی ابھی تک خیبر کے علاقہ میں اسی طرح آزاد اورا پنی فتنہ انگیزی میں مصروف تھا۔ بلکہ احزاب کی ذلت بھری ناکامی اور بنوقریظہ کے ہولناک انجام نے اس کی عداوت کو اور بھی زیادہ کردیا تھا۔ اور چونکہ قبائل غطفان کامسکن خیبر کے قریب تھا اورخیبر کے یہودی اورنجد کے قبائل آپس میں گویا ہمسائے تھے اس لیے اب ابورافع نے جو ایک بہت بڑا تاجر اور امیر کبیر انسان تھا دستور بنا لیا تھا کہ نجد کے وحشی اور جنگجوقبائل کو مسلمانوں کے خلاف اکساتا رہتا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت میں وہ کعب بن اشرف کا پورا پورا مثیل تھا۔ چنانچہ اس زمانہ میں جس کا ذکر کر رہے ہیں اس نے غطفانیوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حملہ آور ہونے کے لیے اموال کثیر سے امداد دی تھی۔‘‘بہت زیادہ مال دیا ان کو ’’اور تاریخ سے ثابت ہے کہ ماہ شعبان میں بنو سعد کی طرف سے جوخطرہ مسلمانوں کو پیدا ہوا تھا اور اس کے سدباب کے لیے حضرت علیؓ کی کمان میں ایک فوجی دستہ مدینہ سے روانہ کیا گیا تھا اس کی تہ میں بھی خیبر کے یہودیوں کاہاتھ تھا جو ابورافع کی قیادت میں یہ سب شرارتیں کررہے تھے۔ مگرابورافع نے اسی پر بس نہیں کی۔ اس کی عداوت کی آگ مسلمانوں کے خون کی پیاسی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود اس کی آنکھوں میں خار کی طرح کھٹکتا تھا۔ چنانچہ بالآخر اس نے یہ تدبیر اختیار کی کہ جنگ احزاب کی طرح نجد کے قبائل غطفان اور دوسرے قبیلوں کا پھر ایک دورہ کرنا شروع کیا اور انہیں مسلمانوں کے تباہ کرنے کے لیے ایک لشکر عظیم کی صورت میں جمع کرنا شروع کر دیا۔‘‘ جنگ احزاب کے بعد پھر اس نے دوبارہ حملہ کرنے کے لیے ایک اور گروہ بنانا شروع کیا۔

’’جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی اور مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے پھر وہی احزاب والے منظر پھرنے لگ گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ خزرج کے بعض انصاری حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اب اس فتنہ کا علاج سوائے اس کے کچھ نہیں کہ کسی طرح اس فتنہ کے بانی مبانی ابورافع کا خاتمہ کر دیا جائے۔‘‘ یہی ایک علاج ہے۔ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو سوچتے وقت کہ ملک میںوسیع کشت وخون کی بجائے ایک مفسد اور فتنہ انگیز آدمی کا مارا جانا بہت بہتر ہے ان صحابیوں کو اجازت مرحمت فرمائی

اور عبداللہ بن عتیک انصاری کی سرداری میں چار خزرجی صحابیوں کو ابورافع کی طرف روانہ فرمایا مگر چلتے ہوئے تاکید فرمائی کہ دیکھنا کسی عورت یا بچے کو ہرگز قتل نہ کرنا۔‘‘ دوبارہ تاکید فرمائی تو یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ وہاں عورت کو قتل کر دیا۔ ’’چنانچہ 6ھ کے ماہ رمضان میں یہ پارٹی روانہ ہوئی اورنہایت ہوشیاری کے ساتھ اپنا کام کرکے واپس آ گئی اور اس طرح اس مصیبت کے بادل مدینہ کی فضا سے ٹل گئے۔ اس واقعہ کی تفصیل بخاری میں جس کی روایت اس معاملہ میں صحیح ترین روایت ہے مندرجہ ذیل صورت میں بیان ہوئی ہے۔‘‘جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے انہوں نے اس کو یہاں اپنے انداز میں بیان کیا ہے کہ

’’براء بن عازب روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی ایک پارٹی ابورافع یہودی کی طرف روانہ فرمائی ان پر عبداللہ بن عتیک انصاری کوامیر مقرر فرمایا۔ ابورافع کایہ قصہ تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوسخت دکھ دیا کرتا تھا اور آپؐ کے خلاف لوگوں کو ابھارتا تھا اور ان کی مدد کیاکرتا تھا۔ جب عبداللہ بن عتیک اور ان کے ساتھی ابورافع کے قلعہ کے قریب پہنچے اور سورج غروب ہو گیا تو عبداللہ بن عتیک نے اپنے ساتھیوں کوپیچھے چھوڑا اور خود قلعہ کے دروازے کے پاس پہنچے اور اس کے قریب اس طرح چادر لپیٹ کر بیٹھ گئے جیسے کوئی شخص کسی حاجت کے لیے بیٹھا ہو۔ جب قلعہ کادروازہ بند کرنے والا شخص دروازہ پرآیا تواس نے عبداللہ کی طرف دیکھ کر آواز دی کہ اے شخص میں قلعہ کادروازہ بند کرنے لگا ہوں تم نے اندر آنا ہو تو جلدی آجاؤ۔ عبداللہ چادر میں لپٹے لپٹائے جلدی سے دروازہ کے اندر داخل ہوکر ایک طرف کوچھپ گئے۔ اور دروازہ بندکرنے والا شخص دروازہ بند کر کے اور اس کی کنجی ایک قریب کی کھونٹی سے لٹکا کر چلا گیا۔

اس کے بعد عبداللہ بن عتیک کااپنا بیان ہے کہ میں اپنی جگہ سے نکلا اور سب سے پہلے میں نے قلعہ کے دروازے کا قفل کھول دیا تاکہ ضرورت کے وقت جلدی اورآسانی کے ساتھ باہر نکلا جا سکے۔ اس وقت ابورافع ایک چوبارے میں تھا۔‘‘ اوپر اپنے گھر کے ٹیرس پر تھا، کمرے میں تھا ’’اور اس کے پاس بہت سے لوگ مجلس جمائے بیٹھے تھے اور آپس میں باتیں کررہے تھے۔ جب یہ لوگ اٹھ کر چلے گئے اور خاموشی ہو گئی تو میں ابورافع کے مکان کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلا گیا اور میں نے یہ احتیاط کی کہ جو دروازہ میرے راستے میں آتا تھا اسے میں آگے گزر کراندر سے بند کر لیتا تھا۔ جب میں ابورافع کے کمرے میں پہنچا تو اس وقت وہ چراغ بجھا کر سونے کی تیاری میں تھا اور کمرہ بالکل تاریک تھا۔ میں نے آواز دے کر ابورافع کو پکارا۔ جس کے جواب میں اس نے کہا۔ کون ہے؟ بس میں اس آواز کی سمت کا اندازہ کرکے اس کی طرف لپکا اور تلوار کا ایک زور دار وار کیا مگر اندھیرا بہت تھا اور میں اس وقت گھبرایا ہوا تھا اس لیے تلوار کا وار غلط پڑا اور ابورافع چیخ مار کر چلایا جس پر میں کمرہ سے باہر نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے پھر کمرہ کے اندر جاکر اپنی آواز کوبدلتے ہوئے پوچھا۔ ابورافع یہ شور کیسا ہوا تھا؟ اس نے میری بدلی ہوئی آواز کو نہ پہچانا اور کہا۔ تیری ماں تجھے کھوئے مجھ پر ابھی کسی شخص نے تلوار کاوار کیا ہے۔ میں یہ آواز سن کر پھر اس کی طرف لپکا اور تلوار کا وار کیا۔ اس دفعہ وار کاری پڑا مگر وہ مرا پھر بھی نہیں جس پر میں نے اس پر ایک تیسرا وار کرکے اسے قتل کردیا۔

اس کے بعد میں جلدی جلدی دروازے کھولتا ہوا مکان سے باہر نکل آیا، لیکن جب میں سیڑھیوں سے نیچے اتررہا تھا تو ابھی چند قدم باقی تھے کہ میں سمجھا کہ میں سب قدم اتر آیا ہوں جس پرمیں اندھیرے میں گر گیا۔‘‘ غلط پاؤں پڑا ’’اور میری پنڈلی ٹوٹ گئی (اور ایک روایت میں یوں ہے کہ پنڈلی کاجوڑ اتر گیا) مگرمیں اسے اپنی پگڑی سے باندھ کر گھسٹتا ہوا باہر نکل گیا، لیکن میں نے اپنے جی میں کہا کہ جب تک ابورافع کے مرنے کا اطمینان نہ ہوجائے میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ چنانچہ میں قلعہ کے پاس ہی ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گیا۔ جب صبح ہوئی توقلعہ کے اندر سے کسی کی آواز میرے کان میں آئی کہ ابورافع تاجر حجاز وفات پا گیا ہے۔

اس کے بعد میں اٹھا اور آہستہ آہستہ اپنے ساتھیوں میں آملا اور پھر ہم نے مدینہ میں آ کر آنحضرتؐ کو ابورافع کے قتل کی اطلاع دی۔ آپؐ نے ساراواقعہ سن کر مجھے ارشاد فرمایا کہ اپناپاؤں آگے کرو۔ میں نے پاؤں آگے کیا تو آپ نے دعا مانگتے ہوئے اس پر اپنا دست مبارک پھیرا جس کے بعد میں نے یوں محسوس کیا کہ گویا مجھے کوئی تکلیف پہنچی ہی نہیں تھی۔‘‘

ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب عبداللہ بن عتیک نے ابورافع پرحملہ کیا تو اس کی بیوی نے نہایت زور سے چلانا شروع کیا جس پر مجھے فکر ہوا کہ اس کی چیخ وپکار سن کر کہیں دوسرے لوگ نہ ہوشیار ہوجائیں۔ اس پر میں نے اس کی بیوی پر تلوار اٹھائی مگر پھر یہ یاد کرکے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے قتل کرنے سے منع فرمایا ہے میں اس ارادہ سے باز آگیا۔‘‘ یہاں پھر وہی بات کہ عورتوں کو قتل کرنا منع تھا اس لیے میں نے تلوار نہیں اٹھائی حالانکہ بڑی خطرناک حالت میں تھے۔

’’ابورافع کے قتل کے جواز کے متعلق ہمیں اس جگہ کسی بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔

ابورافع کی خون آشام کارروائیاں تاریخ کاایک کھلاہوا ورق ہیں …

اصولاً اس قدر یاد رکھنا چاہیے کہ:۔

1۔ اس وقت مسلمان نہایت کمزوری کی حالت میں چاروں طرف سے مصیبت میں مبتلا تھے اور ہر طرف مخالفت کی آگ شعلہ زن تھی۔ اور گویا ساراملک مسلمانوں کو مٹانے کے لیے متحد ہورہا تھا۔

2۔ ایسے نازک وقت میں ابورافع اس آگ پرتیل ڈال رہاتھا جومسلمانوں کے خلاف مشتعل تھی اور اپنے اثر اور رسوخ اور دولت سے عرب کے مختلف قبائل کو اسلام کے خلاف ابھار رہا تھا اور اس بات کی تیاری کررہا تھاکہ غزوہ احزاب کی طرح عرب کے وحشی قبائل پھر متحد ہو کر مدینہ پردھاوا بول دیں۔

3۔ عرب میں اس وقت کوئی حکومت نہیں تھی کہ جس کے ذریعہ دادرسی چاہی جاتی بلکہ ہر قبیلہ اپنی جگہ آزاد اور خود مختار تھا۔ پس سوائے اس کے کہ اپنی حفاظت کے لیے خود کوئی تدبیر کی جاتی اور کوئی صورت نہیں تھی۔

4۔ یہودی لوگ پہلے سے اسلام کے خلاف برسرپیکار تھے اور مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان جنگ کی حالت قائم تھی۔

5۔ اس وقت ایسے حالات تھے کہ اگر کھلے طورپر یہود کے خلاف فوج کشی کی جاتی تو اس سے جان اور مال کا بہت نقصان ہوتا اور اس بات کااندیشہ تھا کہ جنگ کی آگ وسیع ہوکر ملک میں عالمگیر تباہی کا رنگ نہ پیدا کر دے۔

ان حالات میں صحابہؓ نے جو کچھ کیا وہ بالکل درست اور بجا تھا اور حالت جنگ میں جبکہ ایک قوم موت وحیات کے ماحول میں سے گزر رہی ہواس قسم کی تدابیر بالکل جائز سمجھی جاتی ہیں اور ہر قوم اورہر ملت انہیں حسبِ ضرورت ہرزمانہ میں اختیار کرتی رہی ہے

مگر افسوس ہے کہ موجودہ اخلاقی پستی کے زمانے میں مجرم کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ اس ناجائز حد تک پہنچ گیا ہے کہ ایک ظالم بھی ہیرو بن جاتا ہے۔‘‘ آج کل بھی ہم دیکھتے ہیں ظالم بھی ہیرو بنا ہوا ہے ’’اور وہ سزا جو وہ اپنے جرموں کی وجہ سے پاتا ہے عوام کی ہمدردی کی جاذب ہونے لگتی ہے۔‘‘ظالم کو بھی اگر سزا دی جائے یا سزا کے لیے کہا جائے تو اس سے عوام کی ہمدردی اس کے ساتھ ہو جاتی ہے یا خود غرض لوگوں کی ہمدردی اس کے ساتھ ہو جاتی ہے۔ ’’اور اس کے جرم لوگوں کو بھول جاتے ہیں مگر

اسلام کے متعلق ہمیں اعتراف ہے کہ وہ ان جھوٹے جذبات کا مذہب نہیں ہے۔ وہ مجرم کومجرم قرار دیتا ہے اور اس کی سزا کو ملک اور سوسائٹی کے لیے رحمت سمجھتا ہے۔ وہ ایک سڑے ہوئے عضو کوجسم سے کاٹ دینے کی تعلیم دیتاہےاور اس بات کا اظہار نہیں کرتا کہ ایک متعفن عضو اچھے اور تندرست اعضا کو خراب کر دے۔

باقی رہا طریق سزا کا سوال سو اس کے متعلق بتایا جا چکا ہے کہ عرب کے اس وقت کے حالات کے ماتحت اور اس حالتِ جنگ کے پیش نظر جو اس وقت مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان قائم تھی جو طریق اختیار کیا گیا امن عامہ کے لحاظ سے وہی بہتر اور مناسب تھا …

عبداللہ بن عتیک کی پنڈلی کے شفاپانے کے متعلق بخاری کی روایت میں یہ تصریح نہیں ہے کہ آیا یہ شفا خارق عادت رنگ میں فوری طور پر وقوع میں آگئی تھی یا یہ کہ آہستہ آہستہ اپنے طبعی کورس کو پورا کر کے ظاہر ہوئی۔ مؤخرالذکر صورت میں یہ ایک عام واقعہ سمجھا جائے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا اثر صرف اس قدر متصور ہوگا کہ آپؐ کی دعا کی برکت سے اس چوٹ نے کوئی مستقل اثر نہیں چھوڑا اور کوئی خراب نتیجہ نہیں نکلا بلکہ عبداللہ کی پنڈلی نے بالآخر اپنی اصلی اور پوری طاقت حاصل کر لی اور چوٹ کا اثر کلیۃً زائل ہو گیا لیکن اگر یہ شفا خارق عادت رنگ میں فوری طور پر وقوع میں آئی تھی تویقیناًیہ واقعہ خداتعالیٰ کی تقدیر خاص کاکرشمہ تھا جواس نے اپنے رسولؐ کی دعا اور برکت کے نتیجہ میں ظاہر فرمایا۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 721تا725)

بہرحال یہ اس کے واقعات تھے۔ اس کے اَور واقعات بھی ہیں جو ان شاء اللہ آئندہ۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 3؍ جنوری 2025ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button