یادِ رفتگاں

والدہ محترمہ سائرہ بی بی صاحبہ

(ناصر احمد وینس۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل کینیڈا)

زوجہ چودھری بشیراحمد وینس مرحوم آف ضلع سیالکوٹ

(ربع صدی قبل یاد رفتگاں پر لکھی اور کاغذات کے پلندوں میں دبی رہ جانے والی ایک بھولی بسری تحریر)

کاروان زندگی کی موجودہ ڈگر اور ہنگامہ ہائے روزو شب میں غم روزگار کی خاطر چونکہ گھر سے علی الصبح نکلنا پڑتا ہے۔ لیکن جمعرات ۲۸؍ مئی ۱۹۹۸ء کو جبکہ رات کم و بیش اپنا آدھا سفر طے کرچکی تھی اور نیند کے خمار میں لپٹی ہوئی کائنات، سکون آمیز سانسیں لے رہی تھی تو ایسے میں نہ جانے کیوں اپنی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔

نیم شب کے اس سکوت میں دل، انجانے وسوسوں میں گھرا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ الٰہی خیر ! اس نوعیت کی اضطراری کیفیات قلبی کا تجربہ کبھی پہلے تو نہیں ہوا تھا۔ اور پھر Long Distanceکالز والی اپنی مخصوص آواز کے ساتھ فون کی گھنٹی دفعۃً بج اٹھتی ہے۔ دھڑکتے دل کے ساتھ اتنی رات گئے آنے والی کال سننے کے لیے فون اٹھایا تو دوسری جانب سے راقم کا بھتیجا عزیزم ممتاز احمد ( ابن پروفیسر محمد اسلم صاحب صابر) ربوہ سے فون پر یہ غم انگیز اطلاع دیتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ’’رات اماں جی ( ہماری والدہ محترمہ) کا انتقال ہوگیا۔ شدید گرمی کی وجہ سے آج ہی نماز جنازہ کی ادائیگی کےفورا ً بعد بہشتی مقبرہ میں تدفین کر دی جائے گی۔‘‘

والدہ محترمہ جنہیں چھوٹے بڑے سب ’’اماں جی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے، ان کی رحلت کے الفاظ کانوں سے کیا ٹکرائے، آنکھوں سے بےاختیار پانی اور ہونٹوں پر بےساختہ یہ الفاظ امڈتے چلے آئے انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ساتھ ہی ایسا لگا جیسے رباعیات کے شاعر راغب مراد آبادی کے یہ منظوم حروف، اضطراب اور واردات قلبی کے خاموش ترجمان بن کر کچھ یوں مجسم سوال ہوں ؎

آج ماضی کو حال سے ملانے والی ایک ایسی زنجیر ٹوٹ گئی تھی، جس کا سفر حیات کم و بیش ۹۰ سالوں پر محیط تھا۔ آج وہ شفیق ہستی دنیائے فانی کو خیرآباد کہہ گئی، جس کا وجود بظاہر تین حرفوں کے اشتراک سے بننے والا ایک لفظ ’’ ماں ‘‘کہلاتا ہے۔ لیکن سوچا جائے تو کائنات کی دلفریبیاں اس پیارے نام ’’ماں ‘‘ کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اس کے فسوں، ماں کے مقدس تبسم کے آگے ہیچ ہیں۔ اس ذرۂ ناچیز کی طرح جو مہرعالمتاب کا مقابلہ کرنے سے معذور ہے۔

سرزمین عرب ( لبنان ) کا مشہور قلمکار خلیل جبران، لفظ ’’ماں‘‘ میں پنہاں بےپناہ شیرینیوں اور لطافتوں کا موازنہ، دنیائے فردوس کی دیگر نعمتوں کے ساتھ کرتے ہوئے اپنی کلیات میں رقمطراز ہے:’’دنیائے فردوس کے پُرمسرت ترانوں میں وہ کشش نہیں اور نہ بربط شیریں سے نکلے ہوئے پُرفضا نغموں میں وہ شیرینی ہے۔ پہاڑی جھرنوں کی سہانی آوازایسی مسرورکن نہیں اور نہ ہی سمندری ہواؤں کے جلترنگ میں وہ لطافت ہے ماہ چہاردہم کی تابانی اس قدر پُرکیف نہیں اورنہ ہی حسین پھولوں کے حسن میں اس قدر دلکشی ہے۔ دنیا کی تمام مسرتیں اس ایک لفظ (ماں) میں مجمع ہیں۔اور تمام لطافتیں اسی میں پوشیدہ۔دہر کی تمام خوبیوں کا مجموعہ یہی مقدس ترین ہستی ہے اورمحفل حیات کی آرائش، جس کا وجوداس شیریں راگ سےکم نہیں، جوسنسان اورتاریک راتوں میں سب کومتوجہ کرلیتاہے۔ ازسرنوتازگیٔ حیات عطا کرتا ہے ! ماں۔ ایک نعمت ہے نایاب نعمت۔ اس کا نعم البدل ناممکن ہے، قطعی ناممکن !! زمین کی گہرائیاں، اس جواہرکو اگلنے کے ناقابل ہیں۔ اور آسمان ایسا فرشتۂ رحمت بھیجنے سے قاصر۔ خوش نصیب ہیں وہ ہستیاں جواس نعمت بےبہا سےمالا مال ہیں۔ جن کےسروں پر ماں کا مقدس سایہ ہے اوراس کےقدموں میں پوشیدہ جنت۔‘‘

ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے راقم الحروف، اما ں جی سے ملنے پاکستان گیا تو پیرانہ سالی کی وجہ سے بہت کمزور نظر آ رہی تھیں۔ مزید برآں دو سال قبل واش روم میں پاؤں پھسل جانے کے نتیجے میں سر پر لگ جانے والی گہری چوٹ نے جسمانی کمزوری میں اضافہ کرنےکے ساتھ ساتھ یادداشت کو بھی شدید متاثر کیا تھا۔ ملاقات پر مجھے پہچان نہیں پائیں۔ لیکن یاد کروانے پر جب پہچان لیا تو آنکھوں میں ممتا کی ایک عجیب ناقابل بیان سی چمک کوند آئی اور پھر میرا سر اپنی گود میں رکھ کر دیر تک بلائیں لیتی اور دعائیں دیتی رہیں۔

ایک ضعیف العمر ماں کا اپنے چھ بیٹے، بیٹیوں میں سے سب سے چھوٹے بیٹے سے ایک مدت کے بعد ملاقات کا یہ پرکیف اور جذباتی منظر اور اس کا لطیف تصور اماں جی کے داغ مفارقت کے بعد حزن و ملال کی گھڑیوں میں باعث تقویت اور وجۂ سکون قلب بن کر میری دنیائے تخیل میں کچھ اس طرح چھایا ہوا سا محسوس ہوتا ہے جیسے پہلی شعاع آفتاب سے جھیل کا پانی جگمگا اٹھے یا پھر افسردگیوں کے تاریک سائے میں سے نکالتا ہوا سطح آب پر رقصاں ستارۂ سحر

کسی شاعر نے یقیناً ماضی کی بعض اسی نوعیت کی نشاط انگیز گھڑیوں کے متعلق یہ شعر کہا ہوگا؎

یہ زندگی، زندگی نہ سمجھو کہ زندگی سے مراد ہیں بس
وہ عمر رفتہ کی چند گھڑیاں جو ان کی صحبت میں کٹ گئی ہیں

اوراق ماضی پلٹتے ہوئےعمررفتہ کی بہت سی گم گشتہ گھڑیاں اس وقت آنکھوں کے سامنے کسی سکرین پر چلتی ہوئی فلم کی طرح ایک ایک کرکے نمودار ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔ جو دل کے نہاں خانوں میں اتر کر، دل کو بھی مدعا بیان کرنے پر مجبور کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

ایک بیٹے کی بجائے اگر کسی اجنبی کی نظر سے بھی اماں جی کی حیات گذشته پر نظر ڈالتا ہوں تو ایک ایسی صابرہ و شاکرہ اور غریبانہ زندگی بسر کرنے کی عادی شخصیت کا خاکہ ابھرتا ہے جو عبادت گزاری، زہد و تقویٰ اور خشیت الٰهی سے معمور ہونے کے علاوہ خدمت خلق کے کاموں میں بھی پیش پیش اور سلسلہ عالیہ احمدیہ سے حد درجہ فدائیت رکھنے والا مجسم اخلاق وجود تھیں۔

بالعموم دیکھا گیا ہے کہ نت نئے زیورات و ملبوسات کا انتہائی شوق، ہرعمر کی خواتین کا فطری خاصہ ہوتاہے۔ لیکن یہ بات فقط زیب داستاں کی خاطر نہیں، اپنے مشاہدے اور مبنی برحقیقت ہونے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ میں نے جب سے شعور کی آنکھ کھولی، والدہ صاحبہ کو ان اشیاء کی خواہشات سے بےنیاز پایا۔

ہاں ! زندگی میں انہیں ایک خواہش کا اظہار کرتے ضرور سنا اور وہ تھی بہشتی مقبرہ میں بعد از وفات تدفین کی خواہش۔ خاکسار کو یاد ہے جب برسوں پہلے ان کی وصیت کروا دی گئی اور منظوری کا وصیت نمبر اخبار الفضل میں شائع ہوا تو پڑھ کر بےحد مسرور اور مطمئن ہوگئیں۔ جیسے کوئی بہت ہی قیمتی گمشدہ چیز مل گئی ہو۔

آپ نے اوائل عمری میں ہی اپنے ایک نیک فطرت واقف زندگی چچا ( ماسٹر محمد علی صاحب ) کے ذریعے احمدیت قبول کرنے کی توفیق پائی۔ اور پھر تمام عمر نہایت اخلاص اور ثابت قدمی سے اس پر قائم رہنے کے ساتھ ساتھ، جب تک گاؤں میں مقیم رہیں اپنے نیک نمونہ کے ذریعہ چمنستان احمدیت کی خوشبو ہر سو بکھیرتی رہیں۔ واضح رہے آپ کے میکہ ( ڈیرہ غازیخان ) میں آپ کا خاندان حتی کہ دونوں حقیقی بھائی جن کی آپ اکلوتی بہن تھیں، احمدی نہیں تھے۔ ماسوائے متذکرہ بالا چچا کے، جن کے ہاں رہ کر آپ نے اپنا بچپن گزارا۔ کیونکہ آپ کے ماں باپ بچپن میں ہی فوت ہوگئے۔ چنانچہ اس کے بعد آپ اپنے مذکورہ چچا کی کفالت میں آ گئیں۔ جو ان دنوں تعلیم الاسلام سکول گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ میں ٹیچر تھے۔

اسی طرح ضلع سیالکوٹ میں پاک بھارت سرحد پر واقع ہمارے آبائی گاؤں ’’ وینس نیواں‘‘ اور اس کے اردگرد کے قریبی دیہات میں، جہاں تمام زمیندار گھرانے ’’وینس ‘‘ نامی جاٹ برادری سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارے گھرانے کے سوا ایک بھی احمدی گھر نہیں تھا۔ خاکسار کے بچپن کے ابتدائی سال وہیں گزرے۔

مجھے یاد ہے علاقے میں ہمارے والد صاحب کے نام کی نسبت سے ہمارا گھرانہ ’’بشیرمرزائی ‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس ماحول میں بھی اماں جی کا معمول یہ ہوا کرتا کہ علی الصبح لسی وغیرہ رڑکنے اور دیگر گھریلو کاموں سے فارغ ہو کر، صحن میں اُگے ایک بڑے سے درخت کی چھاؤں میں چارپائیاں بچھا دیا کرتیں۔ جہاں گاؤں کی غیرازجماعت بچیاں قرآن حکیم لیے آبیٹھتیں۔ اور آپ ہر بچی کو باری باری قرآن پاک ناظرہ پڑھنا سکھایا کرتیں۔ آپ کی دنیاوی تعلیم اگرچہ پرائمری تک تھی۔ لیکن جماعت احمدیہ اور دیگر مسلم فرقوں کے بنیادی عقائد کا بھی بخوبی علم رکھتی تھیں۔

گھر میں جماعتی کتب و رسائل رکھنے کے علاوہ پنجابی شاعری میں لکھی گئی ایک کتاب ’’چمکارمحمدی ‘‘ نامی بہت سنبھال کر رکھا کرتی تھیں۔ یہ کتاب بھیرہ کے ایک احمدی پنجابی شاعرکی تصنیف ہے۔ جس میں مختلف انبیاء کرامؑ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت نبویؐ کے علاوہ آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات زندگی نیز وفات مسیح و ختم نبوت جیسے مسائل کو عام فہم پنجابی شاعری میں بیان کیا گیا ہے۔

اماں جی کا گاؤں میں ایک معمول یہ بھی ہوا کرتا کہ گائوں کی دیگر عورتیں فارغ وقت میں آپ کے پاس آکر بیٹھ جاتیں اور آپ سے ’’چمکارمحمدی‘‘ میں سے قصے ترنم سے سنا کرتیں۔ آواز بھی اچھی تھی۔ چنانچہ اس سادہ سے طریق کے ذریعے آپ دعوت الی اللہ کا کام بھی بخوبی انجام دیا کرتیں۔

ان باتوں کے علاوہ بےحد دریا دل اور غرباء کی خبرگیری جیسے اوصاف سے بھی متصف تھیں۔ اب تو زمانہ بہت بدل چکا ہے۔ تاہم دیہات کی زندگی سے واقف حال لوگ جانتے ہوں گے کہ ایک وقت تھا جب دیہات میں رہنے والے بعض غیر زراعت پیشہ افراد جیسے ترکھان، لوہار، نائی، موچی وغیرہ کی آمد اور گزربسرکا واحد ذریعہ ان کی فنی خدمات کے عوض زمینداروں سے ملنے والی سالانہ گندم کی چند بوریاں ہوا کرتا تھا۔ جبکہ پورا سال یہ ہنرمند لوگ بہت تنگی ترشی سے گزر بسر کیا کرتے تھے۔

راقم الحروف کو آج بچپن کی وہ باتیں یاد آرہی ہیں کہ کس طرح اماں جی اکثروبیشتر گھر کی کوئی نہ کوئی سوغات جیسے گڑ، شکر، پارچہ جات مثلاً کھیس، نیز دیگر اجناس وغیرہ، مذکورہ بالا گھرانوں میں باقاعدگی کے ساتھ بھجوایا کرتی تھیں۔ ان گھرانوں کی خوشی غمی میں بھی پوری طرح شریک ہوا کرتیں۔ خود ان گھروں کی غریب عورتوں کو اگراچانک کسی چیز کی ضرورت پڑ جاتی تو وہ اندھیرے سویرے بلا جھجک اماں جی کے پاس چلی آتیں۔ کیونکہ انہیں اس بات کا بھرپور تجربہ تھا کہ اماں جی کی لغت میں ’’ناں ‘‘ نام کا کوئی لفظ نہیں۔

آجکل دُور دراز کے دیہاتوں میں بھی بجلی پہنچ چکی ہے۔ تاہم جن دنوں گاؤں میں بجلی نہیں تھی تو دیہات کی مساجد میں شام کو چراغ ؍لالٹین وغیرہ روشن رکھنے کی خاطر مساجد میں رکھے گئے خصوصی ڈبوں یا کنستر میں ’’تیل ڈالنے‘‘ کو سعادت سمجھا جاتا تھا۔

ہمارے گاؤں ’’وینس نیواں ‘‘ کی واحد مشترکہ مسجد جہاں تمام لوگ بلا تفریق عقائد و فرقہ، نمازیں پڑھتے تھے، اس کے چراغوں کے لیے مسجد میں تیل ڈالنے میں بھی اماں جی ہمیشہ پیش پیش رہا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ راقم اپنے گاؤں گیا تو اس مسجد کے امام نے بتایا کہ جب تک تمہاری والدہ گاؤں میں مقیم رہیں، ہر ہفتے بلاناغہ مسجد میں تیل ڈالا کرتی تھیں۔

اب بظاہر یہ بہت ہی معمولی بات ہے۔ لیکن کون جانے یہی معمولی اور ادنیٰ نظر آنے والے اعمال، کسی انسان کو مقربین الٰہی میں شامل کروانے کا ذریعہ بن جائیں۔!

مامور زمانہؑ نے اپنے منظوم شیریں کلام میں مقربین الہی کی ایک علامت یہ بھی تو بیان فرمائی ہے کہ

اسی فکرمیں رہتے ہیں روز و شب
کہ راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب

خلافت سلسلہ کے ساتھ بھی اماں جی کی ذات فدایت کا نمونہ تھی۔ اس ضمن میں دو دلچسپ واقعات یاد آرہے ہیں جن سے احمدیت اور خلافت کے ساتھ ان کے والہانہ لگاؤ کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

ایک دفعہ اماں جی کی ایک عزیزہ انہیں ملنے آئی۔ جس کے ہمراہ اس کی چھوٹی سی بچی بھی تھی۔ اماں جی نے اپنی عزیزہ سے پوچھا کہ بچی کا نام کیا رکھا ہے ؟ اس نے بتایا : ’’نمود سحر‘‘۔ اماں جی کہنے لگیں یہ تو بہت مشکل نام ہے۔ کوئی آسان سا نام رکھنا تھا۔ اماں جی کو جب بتایا گیا کہ یہ نام تو حضرت صاحب نے رکھا ہے۔ بس یہ سننا تھا کہ اماں جی کی پشیمانی اور گھبراہٹ دیکھنے والی تھی۔

کہنے لگیں : تم نے مجھے شروع میں ہی کیوں نہ بتا دیا کہ یہ ہمارے پیارے امام کا رکھا ہوا نام ہے۔ ذرا مشکل ہے تو کیا ہوا ؟ سوہنا ہے اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے۔

اماں جی کی یہ پشیمانی اور بےساختہ پن، درحقیقت اس روحانی ناطے کا نتیجہ تھا جو کسی بھی فدائیٔ سلسلہ کو امام جماعت احمدیہ کے بابرکت وجود کے ساتھ ہوتا ہے۔

دوسرا واقعہ بظاہر تو آپ کی سادہ مزاجی پر اطلاق پاتا نظر آتا ہے۔ تاہم اس سادہ مزاجی کے پیچھے بھی احمدیت کی نیک نامی کی تمنا یا بالفاظ دیگر احمدیوں سے اچھے کیریکٹر کی توقعات رکھنے کا جذبہ صاف پڑھا جا سکتا ہے۔

ایک دفعہ اپنے منجھلے بیٹے محمود احمد وینس کے پاس کراچی گئی ہوئی تھیں۔ وہاں جس ایریا میں رہائش تھی وہاں اکثریت اردو بولنے والوں کی تھی۔ تاہم چند گھر چھوڑ کر ایک پنجابی گھرانہ بھی تھا۔ اماں جی بعض اوقات ان کے ہاں چلی جایا کرتی تھیں۔ ایک روز اس گھرانے کی خاتون خانہ نے اماں جی سے ذکر کیا کہ کل ان کے گھر سے مرغی چوری کی واردات ہو گئی ہے۔ اور گھر والوں کو پورا شک ہے کہ یہ حرکت ’’شاہنواز‘‘ نامی ( محلے کا ایک آوارہ شخص) کی کارستانی ہے۔ اماں جی گھر آکر نہایت پریشانی کے عالم میں محمود بھائی سے کہنے لگیں کہ میں نے اس طرح کی بات سنی ہے۔ لیکن فقط جماعت کی بدنامی کے ڈر سے میں تو بالکل خاموش رہی۔ البتہ مجھے ’’چودھری شاہنواز‘‘ جیسے مخلص احمدی سے ایسی حرکت کی توقع نہیں تھی۔ محمود بھائی کی ہنسی چھوٹ گئی۔ کیونکہ اماں جی ’’شاہنواز‘‘ سے مراد چودھری شاہنواز( شیزان و شاہنواز لمیٹڈ والے ) سمجھ رہی تھیں۔ تب محمود بھائی نے بتایا کہ اماں جی ! یہ شاہنواز تو اس محلہ کا ایک آوارہ سا نوجوان ہے۔ جو ایسی حرکات پہلے بھی کر چکا ہے۔ یہ وضاحت سن کر اماں جی کی جان میں جان آئی۔

اماں جی اپنی ذاتی زندگی میں صوم و صلوٰۃ کی سختی سے پابندی کرتی تھیں۔ خاکسار کو یاد نہیں کہ کبھی انہوں نے نماز یا روزہ قضا کیا ہو۔ اگر کسی وجہ سے رمضان میں سحری کے وقت اٹھ نہ سکیں تو بغیر کچھ کھائے پیئے روزہ رکھ لیا۔ لیکن روزہ چھوڑنا کسی صورت گوارہ نہیں تھا۔ حتی کہ بڑھاپے میں شدید گرمیوں والے رمضان میں بھی۔رمضان المبارک میں اعتکاف بیٹھنا بھی ان کے معمولات میں شامل تھا۔

اگر مسجد میں اعتکاف کے لیےجگہ نہ ملتی تو گھر میں ہی ایک کونے میں پردہ لگا کر بیٹھ جاتیں۔ سچی خوابوں سے بھی مشرف ہوتی تھیں۔ اپنی ایک خواب کا ذکر اکثر کیا کرتی تھیں۔ جو آپ نے اپنے بڑے بیٹے پروفیسر محمد اسلم صاحب صابر ( آف ٹی آئی کالج ربوہ ) کی ولادت سے چند دن پہلے دیکھی تھی۔ جس میں آپ نے دیکھا کہ گاؤں کے قریب سے گزرنے والے پلکھو نامی نالے کے کنارے کھڑی ہیں کہ پانی میں بہنے والے قرآن پاک کے نسخے پر نظر پڑتی ہے۔ جسے آپ اٹھا کر اپنی جھولی میں رکھ لیتی ہیں۔

اس خواب کی بین تعبیر یوں نظر آتی ہے کہ سیالکوٹ کے اس دور افتادہ سرحدی گاؤں میں، جہاں ابتدائی تعلیم کے لیے پرائمری سکول تک نہیں تھا اور نوے/ پچانوے فی صد آبادی ناخواندہ تھی، اللہ تعالیٰ آپ کو ایک ایسا بچہ عطا فرماتا ہے جو ناسازگار ماحول و حالات کا سامنا کرنے کے باوجود، مختلف سکولز و کالجز میں نمایاں تعلیمی پوزیشنوں و تعلیمی وظائف کے ساتھ تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی سے ام الا لسنہ اور قرآن پاک کی زبان عربی میں ماسٹر کرنے کے بعد، ساٹھ کی دہائی کے آغاز میں جماعت احمدیہ کے مرکز ربوہ میں تعلیم الاسلام کالج جیسی نامور تعلیمی درسگاہ کے ساتھ بحیثیت پروفیسر منسلک ہو جاتا ہے۔

بھائی جان پروفیسر محمد اسلم صاحب صابر (حال استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا ) نے تقریباً چار دہائیوں تک بطور پروفیسر، ٹی آئی کالج ربوہ میں علم کی روشنی پھیلائی۔ ٹی آئی کالج ربوہ کی ایم اے عربی کلاسز میں محترم بھائی جان اسلم صابر کے شاگرد طلبہ و طالبات نے پنجاب یونیورسٹی کے امتحانات میں نمایاں پوزیشنیں اور گولڈ میڈل تک حاصل کیے۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک؎

شاگرد نے جو پایا استاد کی دولت ہے!

ستمبر ۱۹۹۶ء میں مسجد بیت المہدی گولبازار ربوہ میں ہونے والے بم دھماکے میں بھائی جان اسلم صابر شدید زخمی ہوگئے تھے۔ جب اماں جی کو آپ کی تشویشناک حالت سے آگاہ کیا گیا تو کمال صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے فقط اتنا کہا :’’اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا ‘‘ چنانچہ خون کی کئی بوتلیں لگنے کے علاوہ حضرت صاحب اور احباب جماعت کی دعاؤں کے ساتھ یہ ہماری متوکل علی اللہ والدہ کی زبان سے نکلے دعائیہ الفاظ کی تاثیر تھی کہ اگرچہ بھائی جان کی ایک آنکھ رہ مولیٰ میں ضائع ہوگئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں آپ کو دوبارہ زندگی دے دی۔ اور پھر خدا تعالیٰ کی عنایت کردہ اس حیات نو کو۱۹۹۶ء میں ہی گورنمنٹ ٹی آئی کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے پیارے امام کی خدمت میں پیش کر دیا۔

حالانکہ بظاہر دیکھا جائے تو سروس میں ہوتے ہوئے بھی آپ عملا ہمیشہ خدمت سلسلہ کے لیے ہی وقف رہے ہیں اور اہم ترین جماعتی عہدوں پر فائز رہ کر خدمت سلسلہ کی توفیق پاتے چلے آئے ہیں۔ آجکل بحیثیت نائب صدر عموی ربوہ و نائب ناظر بیت المال صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ( نوٹ :- یہ تقریبا ربع صدی پہلے کی بات ہے۔ آجکل آپ جامعہ احمدیہ کینیڈا کے طلبہ کو پڑھا رہے ہیں ! )۔

راقم کا وجدان یہ کہتا ہے کہ بھائی جان اسلم صابر کے حصے میں خدمت دین کی بدولت یہ سعادت، ہماری والدہ محترمہ کی متذکرہ بالا خواب مبشرہ کی تعبیرمسلسل ہی تو ہے۔!

یہاں یہ امر بھی واضح کرنا ضروری محسوس کرتا ہوں کہ والدہ مرحومہ کے اس ذکرخیر میں بھائی جان اسلم صابر کی ذات کے تذکرے کو شامل کرنے کا مقصد و مدعا فقط اس حقیقت کا اظہار ہے کہ نیک طبعوں کی اس دنیا سے جسمانی رخصتی کے بعد، دراصل ان کی نیکیاں کسی نہ کسی رنگ میں ان کے نام کو زندہ رکھنے کا ذریعہ بنتی چلی جاتی ہیں۔ کبھی خادم دین اولاد کی شکل میں اور کبھی کسی اور صورت میں۔

جناب احمد ندیم قاسمی نے اسی حقیقت کو اپنے مخصوص شاعرانہ انداز تخیل کے ساتھ کچھ یوں واضح کیا ہے؎

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

سلسلہ عالیہ احمدیہ کے جرائد و رسائل میں احمدیت کے وسیع روحانی خاندان سے وابستہ افراد کی رحلت پر ان کا جو ذکرخیر ہوتا رہتا ہے، اس کا ایک مقصد جہاں وفات یافتگان کے قابل تقلید اخلاق و اطوار اور نیکیوں کو اجاگر کرنا پیش نظر ہوتا ہے۔ وہیں یہ ترغیب دینی بھی مقصود نظر ہوتی ہے کہ ان واقعات کو پڑھنے والے، جانے والوں کے قابل رشک اعلیٰ کردار کی روشنی میں اپنی دنیا و آخرت سنوارنے اور حقیقی روحانی مسرتیں و اطمنانیت پانے کے ڈھنگ بھی سیکھ اور اپنا سکیں۔

آج کے نفسا نفسی کے دور میں سلسلہ احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کی یہ خاص الخاص نظر عنایت ہے کہ شجراحمدیت سے وابستہ ہوجانے والا ہر فرد، گویا ایک عدیم النظیر روحانی خاندان کا فرد بن کر رشتۂ اخوت میں بندھ جاتا ہے۔

جی ہاں ! ایک ایسے رشتۂ اخوت میں، جہاں کسی فرد کی انفرادی خوشی وغمی، فقط فرد واحد کے محسوسات تک محدود نہیں رہتی۔ بلکہ پورے ’’خاندان احمدیت ‘‘ میں ایک اجتماعیت اورعالمگیریت کا رنگ اختیار کرتے ہوئے، ہر جگہ یکساں طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔

چنانچہ اماں جی کی وفات پر بہت سے احباب یہاں ٹورانٹو میں راقم کے غریب خانہ پر بغرض تعزیت تشریف لاتے رہے۔ اسی طرح پاکستان سے بھی متعدد تعزیت نامے موصول ہوئے۔ اللہ تعالیٰ وابستگان شجراحمدیت کو جزائے خیرعطا فرمائے۔ آمین

بوجوہ ماں کے جنازے کو آخری بار کندھا دینے کی حسرت کو کرچیوں کی شکل میں اپنےقلب و روح کی گہرائیوں میں دفن کردینے پرمجبورہوتے ہیں جہاں سے یہ کرچیاں، چبھتی ہوئی یادیں بن کر محسوسات دل کو گھائل کرتی رہتی ہیں۔استاد محترم ماسٹر احمد علی صاحب کے مکتوب گرامی میں درج شدہ ان مناسب حال اشعار اور ان میں پوشیدہ احساس کرب اور کسک کی مانند کہ؎

کس کو اب ہوگا وطن میں آہ میرا انتظار
کون میرا خط نہ آنے سے رہےگا بےقرار
خاک مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آؤں گا
اب دعائےنیم شب میں کس کومیں یاد آؤں گا

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: ہمارے پیارے والد محترم غلام احمد صاحب

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button