الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت سیدہ نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ امۃالمجید احمد لطیف صاحبہ کا ایک مضمون (ترجمہ:مکرمہ شگفتہ احمد صاحبہ) شامل اشاعت ہے جو یورپ کی تاریخ احمدیت کی ایک انمول جھلکی بھی پیش کررہا ہے۔

مکرمہ امۃالمجید احمد لطیف صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ مَیں جرمنی کے پہلے امیر و مبلغ انچارج محترم عبداللطیف صاحب (۱۹۱۵ء۱۹۹۷-ء) کی سب سے بڑی بیٹی ہوں۔ ساٹھ کی دہائی میں اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مَیںترجمانی میں مدد دینے کے لیے اپنے والد صاحب کے ساتھ کچھ عرصے کے لیے سوئٹزرلینڈ چلی گئی جہاں زیورچ میں پہلی احمدیہ مسجدمحمود کا سنگ بنیاد رکھے جانے کی تقریب ہونے والی تھی اور حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ نے یہ سنگ بنیاد اپنے دست مبارک سے رکھنا تھا۔ اخباری نمائندے مدعو تھے اور مَیںنے ان کے لیے ترجمانی کے فرائض سرانجام دینے تھے۔

سنگ بنیاد ۲۵؍ اگست۱۹۶۲ء کو حضرت سیّدہ نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ نے رکھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سوئٹزرلینڈ میں عورتوں کو ووٹ دینے کا حق بھی حاصل نہیںتھا۔

حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ اپنی بیٹیوں بی بی فوزیہ اور بی بی قدسیہ کے ساتھ یورپ آئی تھیں۔ ان کے دامادمکرم مرزا مجید احمد صاحب ( بی بی قدسیہ کے شوہر ) بھی ہمراہ آئے تھے جبکہ بی بی قدسیہ کے بیٹے (عزیزم مرزا غلام قادر شہید) بھی ساتھ تھے۔

مَیں زیورچ میں مکرم امام مشتاق احمد باجوہ صاحب اور ان کی بیگم کلثوم صاحبہ کے پاس ٹھہری تھی۔ مَیں حضرت سیّدہ بیگم صاحبہؓ اور پریس کے نمائندگان اور جماعت کے لوگوں کے درمیان رابطے کا کام کرتی رہی۔ زیورچ شہر کے لیے بھی یہ ایک بہت اہم موقع تھا کیونکہ یہ سوئٹزرلینڈ کی پہلی مسجد تھی۔

حضرت سیّدہ بیگم صاحبہؓ Blütenstraße میں اسی فلیٹ میں ٹھہری ہوئی تھیں جس میں ہم رہتے تھے۔ ہم اکٹھے کھانا کھاتے تھے اوراکٹھے سیر کے لیے بھی جاتے۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ آپؓ کیسے پردہ کیا کرتی تھیں،لمبا سیاہ کوٹ پہنتیں جو پائوں تک تھا اورسیاہ نقاب لیتیں۔

سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں آپؓ کو اینٹ پکڑانے کا شرف بھی مجھے حاصل ہوا۔ اس اہم تقریب میں میڈیا اور آپؓ کے درمیان ترجمانی کا فریضہ بھی ادا کرنے کی توفیق ملی۔ گھر پر بھی آپؓ کا انٹرویو لینے کے لیے خاتون رپورٹر آئیں ۔ آج بھی مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آپؓ نے کتنی فہم و فراست کے ساتھ رپورٹرز کے سوالات کے جواب دیے، حالانکہ آپ نے کسی یونیورسٹی میںکوئی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔

آپؓ بہت ہی مخلص اور بےتکلّف خاتون تھیں اور محبت کرنے کے لائق تھیں۔ چھوٹی عمر ہونے کی وجہ سے مجھے اس بات کا احساس نہ تھا کہ مجھے کتنی بڑی شخصیت سے ملاقات کا شرف حاصل ہواہے۔ آج مجھے اس بات پر بہت خوشی ہوتی ہے کہ مجھے حضرت مسیح موعودؑ کی بیٹی سے ملنے کا اعزاز ملا۔

زیورچ میں سنگ بنیاد کی تقریب سے پہلے آپؓ ہمبرگ بھی آئی تھیں اور ہمارے ساتھ مسجد فضل عمر میں قیام فرمارہی تھیں۔ اس دوران میری نانی جان پاکستان میں فوت ہوگئیں اور میری امی کو گہرا صدمہ پہنچا تو اس وقت آپؓ کی صاحبزادیوں نے ہمارے لیے کھاناپکایا اور امی کی مدد کی۔ پاکستان واپس جا کر بی بی فوزیہ نے رسالہ مصباح میں لکھا کہ اس واقعہ کے بعد اُنہیںپہلی بار جماعت کے مربیان اور ان کے خاندانوں کی قربانیوں کا احساس ہوا جنہیں دین کی خاطر بیرون ملک رہنا پڑتا ہے۔

حضرت سیّدہؓ نے ہر جگہ میری تعریف کی۔ یہ آپؓ کی ایک خوبی تھی کہ ہر ایک کی قدر کرتیں اور اسے یاد بھی رکھتیں۔ جب میرے والد صاحب نے میری اسکول کی رپورٹ آپؓ کو دکھائی تو آپؓ نے لکھائی کی تعریف کی اور اپنی بیٹی سے فرمایا: دیکھو! تمہیں بھی بالکل اسی طرح لکھنا چاہیے۔

………٭………٭………٭………

یادوں کی برکھا رُت

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ مریم کنیز نوید صاحبہ کے قلم سے ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں وہ خاندانِ حضرت اقدسؑ کی چند بزرگ خواتین کا ذکرخیر کرتی ہیں۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ربوہ میں منعقد ہونے والے روحانی اجتماعات میں خاندان حضرت مسیح موعودؑ کی بزرگ خواتین سے ملنا بہت ہی روح پرور ہوتا۔ بعد میں یہ تعلق ذاتی طور پر یوں بنتا گیا کہ ۱۹۷۶ء میں جب خاکسار کا نکاح ہوا تو میری ساس صاحبہ اہلیہ شیخ محمد اکرم صاحب آف نوید جنرل سٹور ربوہ (جو کہ میری پھوپھو بھی ہیں) مجھے حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ سے ملوانے آپؓ کے گھر لے کرگئیں۔ سہ پہر کا وقت تھا اور آپؓ اپنے گھر کے صحن میں تخت پوش پر رونق افروز تھیں۔پھوپھو جان نے میرا تعارف کرواتے ہوئے کہا: یہ میری بہو ہے اور میری بھتیجی بھی۔ آپؓ نے فرمایا: ہاں نین نقش آپ سے ملتے ہیں۔ آپؓ کے دریافت فرمانے پرجب پھوپھو نے بتایا کہ دونوں ہم عمر (سترہ سال کے) ہیں تو آپؓ نے فرمایا: جنت میں بھی ہم عمر ساتھی ہوں گے۔پھر شربت سے ہماری تواضع کی اور نہایت شفقت سے میرے سر اور کمر پر اپنا دست مبارک پھیرا۔آپؓ کے ہاتھ کے لمس کا اثرآج تک میں اپنے وجود پر محسوس کرتی ہوں۔

خاکسارکی شادی ۱۹۸۱ء میں ہوئی تو مَیں بیاہ کر حضرت سیدہ نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کے گھر کے ساتھ والے محلّہ دارالصدرشمالی میںآگئی۔ اگرچہ آپؓ شادی کی تقریب میں شرکت تونہ کرسکی تھیں مگر پیغام بھیجاکہ دلہن کو ملانے کے لیے ضرور لائیں اور ساتھ سلامی کی رقم بھی ارسال کی۔پھر شادی کے چند روز بعد جب مَیں اپنی پھوپھو کے ساتھ ملنے کے لیے گئی تو آپؓ بڑے پُر تپاک طریق سے ملیں اور فرمایا کہ آج تو ہمارے گھر دلہن آئی ہے۔ میرے کپڑوں کی بہت تعریف کی اور ملازمہ کو چائے لانے کا کہا۔ چائے آئی تو اس کے ساتھ آئی ہوئی مٹھائی اور بسکٹ اپنے دست مبارک سے مجھے دیے اور بہت سی دعاؤں سے نوازا۔ آپؓ سے ملاقات کے لیے میری پھوپھو جب بھی جاتیںتو آپؓ میرے متعلق ضرور پوچھتیںاور مختلف مواقع پر اپنی فصلوں سے آنے والی اشیاء خاص طورپر آم ضرورارسال فرماتیں۔ جب خاکسارامید سے ہوئی تو آپؓ نے نیک اولاد عطا ہونے کے لیے خود بھی دعا کی اور ساتھ اس عرصہ میں مختلف احتیاطیں بھی بتاتی رہتیں اوراچھی خوراک لینے کے بارے میں بھی فرماتی رہتیں۔ پھر عزیزہ نوید سحرکی پیدائش کے بعدجب مَیں اسے لے کر آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپؓ نے بچی کو گود میں لے کر دعا دی اور نقدی کی صورت میں تحفہ بھی دیااورنصائح فرمائیں جن میں یہ بھی تھیں کہ ’’بچے کو دودھ وقت پر دینا،رات کو بار بار دودھ پلانے کی عادت نہ ڈالنا اور رات کو ہر وقت اپنے ساتھ نہ لگائے رکھنابلکہ بچے کا اپنا ٹھکانہ بنانااور اس کی صفائی ستھرائی کا بہت خیال رکھنا۔‘‘

حضرت سیدہ چھوٹی آپا صاحبہ کے ساتھ میرا تعارف اپنے حلقے کے مینا بازار میں ہوا جب آپ نے میرے بنائے ہوئے گڑیا کے غرارہ سیٹ کو مقابلے میں اوّل قرار دیا اور اپنے پاس بلا کر پیار کیا اور میرے کام کی تعریف فرمائی۔

ایک مرتبہ مَیں جمعہ پڑھنے گئی تو آپ مسجدمیں ایک ستون کے ساتھ تشریف فرما تھیں۔ خطبہ جب شروع ہوگیا تو بھی مَیںوہاں اون سلائیاںبُن رہی تھی۔ آپ نے یہ دیکھ کراشارتاً مجھے منع فرمایا۔ پھر جمعہ پڑھنے کے بعد آپ نے نصیحت فرمائی کہ جب خطبہ جمعہ شروع ہو جائے توہر قسم کی دوسری دنیوی مصروفیات کو ختم کر کے خطبہ جمعہ غور اور توجہ سے سنتے ہیں۔ جس پیار سے آپ نے میری راہنمائی فرمائی،یہ بات آج تک میرے دل پر نقش ہے۔

شادی کے بعد میںاپنی پھوپھو کے ساتھ گاہے بگاہے حضرت چھوٹی آپا صاحبہ سے ملاقات کے لیے جایا کرتی تو ہمیشہ جماعت کے لیے، حضرت خلیفۃ المسیح کے لیے اور اپنے لیے دعا کرنے کی طرف توجہ دلاتیں۔ ساتھ نماز کو سنوار کر پڑھنے کی تلقین کیاکرتیں۔ جب خاکسار کا اپنی فیملی کے ساتھ جرمنی آنے کا پروگرام بنا تو آپ سے خاص دعا کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا آپ خود بھی دعا کرو۔‘‘ پھر چند روز میں ہم نے جانے کے لیے کاغذات جمع کروادیے مگر چند مجبوریوں کی وجہ سے ہمارا جانا تقریباً ناممکن ہوگیا۔اس صورت حال میں افسردہ حالت میں آپ سے ملاقات کے لیے گئی تو آپ نے تسلی دی اور فرمایاکہ تم ضرور جرمنی جاؤگی۔واپسی پر گلے لگاکر پھر فرمایا:مایوس نہیںہوتے، اللہ تعالیٰ ضرور آپ کا بندوبست کرے گا۔ چنانچہ آپ کی قبولیتِ دعا کا یہ معجزہ دیکھا کہ صرف ایک ہفتے کے اندر ہی ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے معجزانہ طور پر جرمنی پہنچ گئے۔

۱۹۷۱ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے لجنہ اماءاللہ ربوہ کو سائیکل چلانے اور صدریاں بنانے کی تحریک فرمائی تو ہرمحلّے میں اس پر عمل ہوا۔ ہمارے حلقے میں جب صدریاں جمع کی گئیں تو اپنے حلقے کی صدر صاحبہ کے کہنے پر ہم چند بچیاں وہ صدریاں لے کر لجنہ ہال پہنچانے آئیں ۔ وہاں حضرت سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ بھی موجود تھیں۔ صدریاں رکھ کر ہم لڑکیاں سائیکل چلانے کے لیے نکل پڑیں تو مَیں سائیکل پر سوار ہو تے ہی گر گئی جس سے مجھے چوٹ لگ گئی۔ حضرت سیدہ نے فوری طورپر میرے لیے دوائی منگواکراپنے دست مبارک سے لگائی۔ ا س کے بعد وہاں موجود سب لجنہ ممبرات نے صدریوں کے کاج بنائے۔ مَیں کاج بنانے والی خواتین کو سوئی میںدھاگہ ڈال کر دیتی رہی اور خاکسارنے بھی تین چار صدریوں کے کاج بنائے تو حضرت سیّدہ نے میرے اس چھوٹے سے کام کی حوصلہ افزائی فرمائی۔

شادی کے بعد جب مَیں محلّہ دارالصدر شمالی میں منتقل ہوئی تو صاحبزادی امۃالنصیر بیگم صاحبہ صدرلجنہ حلقہ تھیں۔مَیں نے آپ ہی کے ساتھ لجنہ اماءاللہ کا کام کرنا شروع کیا تو آپ نے مجھے سیکرٹری صنعت وحرفت مقرر کیا اور کام کرنے کا طریقہ کارخود سمجھایا۔ کبھی دوپہر کے وقت آپ مجھے گھر پر بلالیتیں اور فرماتیں کہ مجھے تو نیند نہیں آتی چلو جماعت کا ہی کچھ کام کرلیں۔ایک دفعہ آپ نے مجھے گرانٹ سے پانچ روپے دیے اور فرمایا کہ اس سے کپڑا اور دھاگہ خرید کر لے آنا اور پیسوں کا حساب ایک کاغذ پرلکھ کراور نیچے دستخط کر کے دینا۔ مَیں بہت دیکھ بھال کر ساڑھے تین روپے کی چیزیں لے کر آئی اور ڈیڑھ روپیہ آپ کو واپس کیا۔ آپ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور مجھے نصیحت فرمائی کہ جماعت کا پیسہ بہت دھیان سے رکھنا چاہیے اور صرفے سے خرچ کرنا چاہیے۔ مَیں نے دیکھا کہ آپ ہمیشہ اس چیز کا بہت خیال رکھتی تھیں۔چنیوٹ سے تولیے کا سستاکپڑا منگواتیں اور نمائش کا کام آرڈر پر بھی تیار کرواتیں تولیے کے کپڑے کو مغزی لگوا کر چھوٹے چھوٹے خوبصورت بےبی تولیے اور Mat بنواتیں۔

آپ بہت صلہ رحمی کرنے والی خاتون تھیں۔غریب عورتیں گرمی کے موسم میں دُور کے محلوں سے نمائش کی چیزیں آرڈر پر بنا کرلاتیں تو بعض اوقات ان کو تانگے کے پیسے بھی دے دیتیں۔ شعبہ صنعت وحرفت کے تحت آپ نے بےکار اشیاء سے بہت سی کارآمد چیزیں بھی بنانا سکھائیں مثلاً ڈالڈا گھی کے ڈبےجوڑ کر اوپر گدی رکھ کر کس دو، پھر کوئی اچھا سا کپڑا چڑھا دو توخوبصورت موڑھا تیار ہے۔ آپ نے ہمیں ہاتھ کے پنکھے بنانے بھی سکھائے۔ جب بھی کوئی چیز تیار کرتا تو آپ اس کی بہت حوصلہ افزائی فرماتیں۔ آپ اکثرہمیں اپنے قادیان کے زمانے کے اور حضرت اماں جانؓ کے واقعات بھی سناتیں اور بتایا کرتیں کہ حضرت اماں جانؓ کیسے صرفہ کیا کرتی تھیں۔ نیز آپ ہمیشہ فرماتیں کہ پہلے نماز اور بعد میں کام۔ اور آپ خود اس کا عملی نمونہ بھی دکھاتیں۔

………٭………٭………٭………

مزید پڑھیں: مکتوب ایشیا (دسمبر۲۰۲۴ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button