آنحضرتﷺ سے پہلے بھی انبیاء برحق تھے
جیسا کہ مَیں پہلے ذکر کرچکا ہوں۔ ایک مومن کے لئے آنحضرتﷺ پر جو تعلیم اتری ہے اسے ماننا ضروری ہے۔ آپؐ کو خاتم الانبیاء ماننا ضروری ہے۔ اس یقین پر قائم ہوں اور یہ ایمان ہو کہ قرآن کریم آخری شرعی کتاب ہے اور اس کے تمام احکامات ہمارے لئے ہیں اور ہمیں اس پر ایمان لانا اور ماننا اور عمل کرنا ضروری ہے۔
پھر جس طرح قرآن کریم میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرتﷺ سے پہلے جو انبیاء آئے تھے وہ بھی برحق تھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے تھے، بعض کا ذکر قرآن کریم میں ہے اور بہت سوں کا نہیں ہے، ان سب پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اور یہ بھی ایک مومن کی خصوصیت ہے اور یہ صرف اسلام کی خصوصیت ہے کہ اس نے پہلے انبیاء کی صداقت پر بھی مہر لگا دی اور آنحضرتﷺ کو یہ مہر لگانے والا بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ بِالۡحَقِّ بَشِیۡرًا وَّنَذِیۡرًا(البقرۃ:۱۲۰)۔ وَاِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍاِلَّاخَلَافِیۡہَانَذِیۡرٌ (فاطر:۲۵)ہم نے تجھے حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ہو شیار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور کوئی ایسی قوم نہیں جس میں ہوشیار کرنے والا نہ آیا ہو تو ہر قوم میں جو انبیاء آئے ان کی بھی اطلاع دے دی۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے ذریعہ سے یہ اعلان کروا دیا کہ تمام قوموں میں رسول آئے ہیں اس لئے جس قوم کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ اس میں نبی آیا اور نبی کا نام لیتے ہیں ان کوماننا ضروری ہے۔ ایک مومن کو یہ حکم دیا کہ ان تمام رسولوں پر ایمان لانا بھی تمہارے مومن ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط ہے۔
(خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۲۰۰۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۷؍جولائی ۲۰۰۷ء)
آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اسلام وہ پاک اور صلح کار مذہب تھا جس نے کسی قوم کے پیشوا پر حملہ نہیں کیا۔ اور قرآن وہ قابل تعظیم کتاب ہے جس نے قوموں میں صلح کی بنیاد ڈالی اور ہر ایک قوم کے نبی کو مان لیا۔ اور تمام دنیا میں یہ فخر خاص قرآن شریف کو حاصل ہے جس نے دنیا کی نسبت ہمیں یہ تعلیم دی کہ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ (آل عمران: ۸۵) یعنی تم اے مسلمانو! یہ کہو کہ ہم دنیا کے تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان میں یہ تفرقہ نہیں ڈالتے کہ بعض کو مانیں اور بعض کو ردّ کردیں۔‘‘(پیغام صلح روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۴۵۹)
پس جب دوسروں کے بزرگوں کی اور بڑوں کی اور انبیاء کی عزت کی جائے توپیار اور محبت کی فضا قائم ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو خداتعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوتے ہیں اور مبعوث ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں یا جن کے ماننے والے ان کو خدا کا برگزیدہ سمجھتے ہیں اور ایک جماعت ان کے پیچھے چلنے والی ہے۔ ان کی عزت کریں۔ پس اس تعلیم کے ہوتے ہوئے اسلام کو شدت پسند اور دہشت گرد مذہب کہنا اور اس بنا پر ان لوگوں پر بدظنی بھی کرنا اور پھر بلاوجہ کے اعتراض بھی تلاش کرنا نہ صرف انصاف کے خلاف ہے بلکہ ظلم ہے۔
(خطبہ جمعہ ۲۴؍ جولائی ۲۰۰۹ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۴؍اگست ۲۰۰۹ء)
مزید پڑھیں: سونے کی انگوٹھی اور ریشم وغیرہ کا لباس پہننے کی ممانعت