ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل(امراض نسواں کےمتعلق نمبر۱۲)(قسط۹۹)
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)
سیکیل کورنیٹیم
Secale cornutum
(ارگٹ)
ارگٹ جسم کے ریشوں اور خون کی نالیوں میں سکڑن پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے کئی قسم کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں جو ساری عمر پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ ایسی عورتیں جنہیں ارگٹ کافی مقدار میں دیا گیا ہو ان میں ہر وقت کالے رنگ کا خون رستا رہتا ہے۔ جسم سخت لاغر اور کمزور ہو جاتا ہے۔ جلد سکڑ کر سیاہی مائل ہو جاتی ہے۔ اعضاء مفلوج ہونے لگتے ہیں۔ مریض کو گرمی سخت تکلیف دیتی ہے اور وہ ہر وقت کھلی اور ٹھنڈی ہوا میں رہنا پسند کرتا ہے کپڑا اوڑھنا نہیں چاہتا۔(صفحہ۷۳۵)
سیکیل عورتوں کے اندرونی امراض میں بھی بہت مفید ہے۔ رحم میں زخم بن جاتے ہیں اور مسلسل خون جاری رہتا ہے جو سیاہ رنگ کا ہوتا ہے۔ مہینہ میں چند دن کے لیے خون رکے تو سیاہی مائل گندے پانی کا اخراج ہوتا ہے جس میں ناقابل برداشت بو ہوتی ہے۔ سیاہ بدبودار خون کے لوتھڑے نکلتے ہیں جن میں تعفن پایا جاتا ہے۔ سیکیل ان عوارض میں کام آنے والی ایک بہت اہم دوا ہے خصوصاً اگر رحم میں گینگرین بننے کا خطرہ ہو۔ سیکیل کی علامتوں والی عورتوں میں اگر حمل ضائع ہونے کا بھی رجحان ہو تو سیکیل اس رجحان کا قلع قمع کرنے کے لیے کافی ہے۔ ایک دو ماہ کے استعمال سے رحم کی کایا پلٹ جاتی ہے اور وہ مضبوط اور توانا ہوکر بچے کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اگر وضع حمل کے وقت رحم بچے کو باہر دھکیلنے کی کوشش کرے مگر فم رحم میں سخت اینٹھن کی وجہ سے بچہ پیدا نہ ہو سکے تو ایسی مریضہ کا سیکیل سے فوری علاج کرنا انتہائی ضروری ہے ورنہ اگر سرجن مہیا ہو تو فوری آپریشن کرنا پڑے گا یا پھر وہ مریضہ سخت اذیت سے تڑپ تڑپ کر جان دے دے گی۔ وضع حمل کے بعد درد اور تکلیف جاری رہے، نفاس کے خون میں زیادتی کی وجہ سے رحم میں درد ہو اور خون سیاہی مائل گندے رنگ کا ہو تو سیکیل باعث شفا بن سکتی ہے۔ حمل کے دوران چھاتیاں سکڑ جائیں اور دودھ نہ بنے اور ماں بچے کو دودھ نہ پلا سکے تو سیکیل دینے سے افاقہ ہوتا ہے۔(صفحہ ۷۳۷، ۷۳۸)
سینیشیو اورس
Senecio aureus
(Golden Ragwort)
سینیشیو عام طور پر نوجوان بچیوں کی اندرونی تکلیفوں کے لیے مفید ہے۔ اگر بلوغت کے آغاز میں سردی لگ جانے کی وجہ سے حیض کے ایام میں بے قاعد گی ہو جائے تو جب تک صحیح دوا سے علاج نہ کیا جائے ساری عمر یہ تکلیف رہتی ہے۔ اس تکلیف میں کلکیریا فاس کے علاوہ سینیشیو کو بھی شہرت حاصل ہے۔ عام طور پر بچیاں شرم کی وجہ سے اپنی تکلیفیں نہیں بتاتیں ۔ بے احتیاطی سے ان دنوں میں نہا لیا جائے، پاؤں بھیگے رہیں، نہا کر پوری احتیاط نہ کی جائے اور مرطوب موسم میں ننگے پاؤں پھرنے کی عادت ہو تو حیض پر جتنے بداثر پڑتے ہیں ان کا علاج سینیشیو سے ممکن ہے۔(صفحہ۷۴۱)
نوجوان بچیوں میں بعض دفعہ حیض کا خون جاری ہونے سے پہلے گلے، سینے اور مثانے میں سوزش محسوس ہوتی ہے۔ حیض کے ایام ختم ہونے کے بعد یہ تکلیفیں خود بخود دور ہو جاتی ہیں۔ اگر عورتوں میں کسی وجہ سے حیض رک جائے اور اس کی بجائے ناک سے خون جاری ہو جائے تو اس میں سینیشیو بھی مفید ہو سکتی ہے۔
اگر رحم اپنی جگہ سے ٹل جائے، پیشاب درد کے ساتھ آئے یا بالکل بند ہو جائے، گردوں میں شدید سوزش ہو اور سردی لگ کر بخار چڑھے تو یہ ساری علامتیں سینیشیو کا تقاضا کرتی ہیں۔سینیشیو میں تکلیفیں دوپہر اور رات کو بڑھ جاتی ہیں۔ کھلی ہوا میں نزلہ زکام ہو جاتا ہے ۔ عورتوں کی تکلیفیں حیض جاری ہو جانے سے کم ہو جاتی ہیں۔ مریض کی توجہ کسی اور طرف پھیر دی جائے تو تکلیف کا احساس کم ہو جاتا ہے۔(صفحہ۷۴۲)
سیپیا
Sepia
(Inky juice of Cuttle Fish)
•عموماً ایسی خواتین کی دوا سمجھی جاتی ہے جو دبلی پتلی ہوں اور ان کے کولہے تنگ اور جسم کی ساخت میں قدرے سختی پائی جاتی ہو لیکن یہ لازم نہیں ہے کہ عورت کی یہی جسمانی تصویر ہو تو وہ سیپیا کی مریضہ ہو گی۔ سیپیا بنیادی طور پر جگر اور رحم کی خرابیوں سے تعلق رکھنے والی دوا ہے۔ جب ان بیماریوں کی علامات ظاہر ہونے لگیں تو خواہ مریضہ کے جسم کی ساخت مذکورہ بالا نہ بھی ہو اسے پھر بھی سیپیادی جا سکتی ہے۔ دوا تجویز کرتے ہوئے جسمانی علامات پر زور دینے کی بجائے گہری اندرونی مزاجی علامتوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ سیپیا دراصل اپنے خاص مزاج سے پہچانی جاتی ہے جس میں یہ بات شامل ہے کہ عورتوں میں طبعی جنسی رجحان مٹ جاتا ہے اور پیار اور محبت کے جذبات ختم ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک پیار کرنے والی ماں اچانک مامتا کے جذبات سے عاری دکھائی دیتی ہے۔ اپنے خاوند سے قطعاً بے نیاز اور بے تعلق ہو جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ اس کے تعلقات کے دائرے محدود ہونے لگتے ہیں اور اس میں خود کشی کا رجحان بھی پیدا ہو جاتا ہے اور عورت نیم پاگل سی ہو جاتی ہے۔ یہ کیفیات دراصل لمبے عرصہ تک اندر ہی اندر تکلیفیں برداشت کرتے رہنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس عرصہ میں دیکھنے والوں کو کچھ معلوم نہیں ہوتا لیکن یہ دباؤ بڑھتا چلا جاتا ہے اور اچانک لاوے کی طرح پھوٹتا ہے اور وہ سیپیا کی مریضہ بن جاتی ہے۔ خاوند اور بچوں کی طرف توجہ نہ کرنا اس بڑھتے ہوئے دباؤ کا طبعی نتیجہ ہے۔ گویا مریضہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکی ہے یہاں تک کہ ہر چیز سے بیزار ہو جاتی ہے۔ سیپیا کے مریض کا جگر سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ رحم میں کوئی نقص پیدا ہو جائے تو دوران حمل اور وضع حمل کے بعد کئی قسم کی بیماریاں ظاہر ہوتی ہیں جن کے ساتھ جگر کی خرابی بھی ضرور پائی جاتی ہے۔ ایسی عورت پاگل بھی ہو جاتی ہے اور ہر اس چیز سے جو اچھی لگنی چاہیے نفرت کرنے لگتی ہے۔ اس نفرت اور بے تعلقی کی وجہ سے وہ خوفزدہ بھی ہوتی ہے اور اس خوف کے نتیجہ میں بیماری مزید بڑھتی جاتی ہے۔(صفحہ۷۴۵، ۷۴۶)
سیپیا میں قبض کا بھی رجحان ہے جو حمل کے دوران بڑھ جاتا ہے۔ فضلہ خارج کرنے کی طاقت کم ہو جاتی ہے۔ ایسی عورت وضع حمل کے وقت بھی دقت محسوس کرتی ہے کیونکہ عضلات کی بالارادہ حرکت میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے اور پوری طاقت کے ساتھ بچہ کو باہر دھکیلنے کی صلاحیت نہیں رہتی۔ سیپیا کی علامتیں ہوں تو اس کے دینے سےبچہ کی پیدائش سہولت سے ہو جاتی ہے۔ اگر یہ مدد نہ کرے تو کولو فائیلم یا جلسیمیم بھی کام آسکتی ہیں۔ سیپیا میں پیٹ خالی ہونے کا احساس رہتا ہے اور بہت بھوک محسوس ہوتی ہے۔ سیپیا میں بھوک اور کمزوری کھانے کے بعد بھی اسی طرح محسوس ہوتے رہتے ہیں۔ کھانے کے باوجود آرام نہیں ملتا۔ اگر ایسی عورت کا رحم نیچے گر جائے یا ریڑھ کی ہڈی کے عضلات ڈھیلے ہو جائیں تو سیپیا فوراً اثر دکھاتی ہے۔ یہ حمل کی قے میں بہت مفید ثابت ہوتی ہے۔ مزاجی علامتیں ملتی ہوں تو اس کا امتیازی نشان یہ ہے کہ کھانا کھانے کے بعد قے میں سفید دودھیا مادہ خارج ہوتا ہے۔ اس کے لیکوریا میں بھی سفید مادہ نکلتا ہے۔ اس کی بیماریوں میں منہ کا مزہ اور قوت شامہ متاثر ہوتے ہیں۔ اگر مریض میں سیپیا کی دوسری علامتیں بھی موجود ہوں تو سیپیا ہر پیز (Herpes) میں بھی مفید ہو سکتی ہے۔(صفحہ۷۴۶ ،۷۴۷)
بچے کی پیدائش کے بعد اگر پلیسنٹا (Placenta) یعنی بچہ دانی کی جھلی اندر ہی رہ جائے تو بہت گہری تکلیفیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اگر اس میں پلسٹیلا کام نہ کرے تو سیپیا دوا ہو سکتی ہے لیکن پلسٹیلا اور سیپیا اس وقت تک مفید ہیں جب تک نظام خون کے اندر زہر داخل نہ ہو گیا ہو۔ جب خون میں زہر داخل ہو جائے تو سلفر اور پائرو جینم کا آزموده نسخہ بہترین ثابت ہوتا ہے۔ یہ دونوں 200 کی طاقت میں ملا کر فوراً دینی چاہئیں۔ دودھ پلانے کے زمانے میں سیپیا کا مزاج رکھنے والی عورت کا حیض عموماً بند ہو جاتا ہے لیکن کلکیریا کارب کے مریض میں حیض کا خون بےمحل جاری ہو جاتا ہے۔ سیپیا کے مریض کے خون میں تیزابی مادے پائے جاتے ہیں جن سے اعصابی درد ہوتے ہیں۔ اگر درمیانے درجہ کی ورزش کی جائے تو سیپیا کی تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں لیکن بہت زیادہ ورزش کرنے سے آرام محسوس ہوتا ہے۔(صفحہ۷۴۸)
سیلیشیا
Silicea
(Silica-Pure Flint)
اگر عورتوں کے جسم میں غدود بڑھ جائیں تو ان کے خلاف بھی سلیشیا بہت مفیدہے۔(صفحہ۷۵۸)
بعض عورتوں خصوصاً بچیوں کے حیض اچانک رک جائیں تو سلیشیا بشرطیکہ دیگر علامتیں موجود ہوں بہت موثر ثابت ہو گی۔ حتی کہ اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی مرگی کا بھی مؤثر علاج ہے۔ (صفحہ۷۵۶)
بعض عورتوں کے رحم میں پانی کے تھیلے سے بن جاتے ہیں جو رستے رہتے ہیں یا پھٹ جاتے ہیں اور ان سے لیس دار مواد بننے لگتا ہے۔ یہ کافی تکلیف دہ اور بے چین کرنے والی بیماری ہے۔ بیضتہ الرحم میں سوزش کے نتیجہ میں پیپ بھی بنتی ہے۔ رحم میں چھوٹی چھوٹی گلٹیاں بن جاتی ہیں۔ ان سب تکلیفوں کے ازالہ کے لیے اگر سلیشیا مزاجی دوا ہو تو بہت مؤثر ثابت ہوتی ہے(صفحہ۷۵۹)
سپونجیا ٹوسٹا
Spongia tosta
(Roasted Sponge)
سپونجیا میں رحم کے غدود بھی بڑھ جاتے ہیں ۔ وہ بھی اسفنج کی طرح پھلپھلے ہوتے ہیں۔(صفحہ۷۶۷)
عورتوں میں حیض کے خون کی مقدار کم ہوتی ہے اورحیض سے قبل کمر میں درد ، شدید بھوک اور دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے ۔ دوران حیض مریضہ رات کو دم گھٹنے کی وجہ سے اٹھ جاتی ہے۔ مسلسل کھانسی دمہ کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔(صفحہ۷۶۸)
(نوٹ: ان مضامین میں ہو میو پیتھی کے حوالے سے عمومی معلومات دی جاتی ہیں۔قارئین اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر کوئی دوائی لینے سے قبل اپنے معالج سے ضرورمشورہ کرلیں۔)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: بیہہ کے فوائد اور استعمال