متفرق مضامین

بیوہ کے نکاح کا حکم (حصہ اول)

آج کی دنیا کے بعض حصوں کی ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی عورت بیوہ یا مطلقہ ہو جاتی ہے تو سمجھا جاتا ہے کہ اسے اپنے شوہر کے نام پر زندگی گزارنی چاہیے۔ چاہے وہ کم عمری کی بیوہ ہو یا بڑھاپے کی۔ مگر کیا ایسی باتیں کر کے ہم خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو ردّ تو نہیں کر رہے ؟

اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں واضح حکم دیتا ہے کہ وَالَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَیَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا یَّتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ اَرۡبَعَۃَ اَشۡہُرٍ وَّعَشۡرًا ۚ فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡمَا فَعَلۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ وَاللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ(البقرہ:۲۳۵) ترجمہ:اور تم میں سے جو لوگ وفات دیئے جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں۔ تو وہ (بیویاں) چار مہینے اور دس دن تک اپنے آپ کو روکے رکھیں۔ پس جب وہ اپنی (مقررہ) مدت کو پہنچ جائیں تو پھر وہ (عورتیں) اپنے متعلق معروف کے مطابق جو بھی کریں اس بارہ میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔

دراصل اس آیت میں فِیۡمَا فَعَلۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ یعنی ’’اپنے متعلق معروف کے مطابق جو بھی کریں اس بارہ میں تم پر کوئی گناہ نہیں‘‘سے مراد نکاح ثانی ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں کہ ’’بیوہ کے نکاح ثانی کے متعلق اکثر مسلمان تامل کرتے ہیں۔یہ رسم بہت ہی بری رسم اور اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کے خلاف ہے۔سادات میں سے وہ عورت جس پر کل سادات کو فخر ہے جس سے سیّدوں کی اولاد چلی بیوہ تھی۔مغول کی عظمت کا سلسلہ بھی جہاں سے شروع ہوتا ہے ان کے مؤرثِ اعلیٰ کی بیوی بھی بیوہ تھی۔جیسا کہ نسل بڑھانے کا عضو مرد کے ساتھ ہے عورت کے ساتھ بھی ہے۔کھانے پینے پہننے کی خواہش اگر مرد میں ہے تو عورت میں بھی ہے۔اگر عورت کسی کی سخت بیمار ہوتو مرد کو دوسرے نکاح کی فکر پڑ جاتی ہے اورعورت کے مرنے پر تو کوئی مرد نہیں جو عزم کرے مَیں نکاح نہیں کروں گا۔اگر کوئی ایسا ہو تو مَیں اسے سلیم الفطرت مرد نہیں سمجھتا۔غرض نکاح ثانی سے مرد کی ناک نہیں کٹتی تو عورت کی کیوں کٹنےلگی۔اس بدرسم کا اثر مَیں نےاپنے طبی پیشہ میں بہت دیکھا جہاں کئی شریف زادیاں اسقاط حمل کی دوائیاں پوچھتی پھرتی ہیں۔ (ضمیمہ اخباربدر قادیان ۲۹؍اپریل ۱۹۰۹ء، بحوالہ حقائق الفرقان جلد۱ صفحہ۳۷۲)

اسی آیت کی تفسیر میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’درحقیقت یہ آیت ان لوگوں کے لئے زجر ہے جو بیوہ عورتوں کو نکاح ثانی سے روکتے ہیں۔ فرماتا ہے۔ اگر وہ نکاح کرلیں تو کیا تم پر کوئی گناہ ہے۔ یعنی ہرگز کوئی گناہ نہیں۔ پھر تم انہیں نکاح سے کیوں روکتے ہو؟ وہ اپنے نفوس کے متعلق جو کچھ فیصلہ کریں اس کا وہ حق رکھتی ہیں۔‘‘(تفسیر کبیر جلد۳ صفحہ۳۷۱، ۳۷۲۔ ایڈیشن۲۰۲۳ء)

بیوہ کے نکاح کا حکم

ایک شخص کا سوال حضرت اقدس [مسیح موعود]علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوا کہ بیوہ عورتوں کا نکاح کن صورتوں میں فرض ہے۔ اس کے نکاح کے وقت عمر، اولاد، موجودہ اسباب، نان و نفقہ کا لحاظ رکھنا چاہیئے یا کہ نہیں؟ یعنی کیا بیوہ باوجود عمرزیادہ ہونے کے یا اولاد بہت ہونے کے یا کافی دولت پاس ہونے کے ہر حالت میں مجبور ہے کہ اس کا نکاح کیا جائے؟

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:بیوہ کے نکاح کا حکم اسی طرح ہےجس طرح کہ باکرہ کے نکاح کا حکم ہے۔ چونکہ بعض قومیں بیوہ عورت کا نکاح خلاف ِعزت خیال کرتے ہیں اور یہ بد رسم بہت پھیلی ہوئی ہے۔ اس واسطے بیوہ کے نکاح کے واسطے حکم ہوا ہے۔ لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ہربیوہ کا نکاح کیا جائے۔ نکاح تو اسی کا ہو گا جو نکاح کے لائق ہے۔ اور جس کے واسطے نکاح ضروری ہے۔ بعض عورتیں بوڑھی ہو کر بیوہ ہوتی ہیں بعض کے متعلق دوسرے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نکاح کے لائق نہیں ہوتیں مثلاً کسی کو ایسا مرض لاحق ہے کہ وہ قابل نکاح ہی نہیں یا ایک کافی اولاد اور تعلقات کی وجہ سے ایسی حالت میں ہے کہ اس کا دل پسند ہی نہیں کر سکتا کہ وہ اب دوسرا خاوند کرے۔ ایسی صورتوں میں مجبوری نہیں کہ عورت کو خواہ مخواہ جکڑ کر خاوند کرایا جائے۔ ہاں اس بد رسم کو مٹادینا چاہیے کہ بیوہ عورت کو ساری عمر بغیر خاوند کے جبراً رکھا جاتا ہے۔(ملفوظات جلد پنجم صفحہ۳۲۰، ایڈیشن۱۹۸۸ء)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر کرتے ہیں کہ مغلانی نورجان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماءاللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ بیواؤں کے نکاح ثانی کے متعلق جب پشاور سے چار عورتیں آئی تھیں۔ دو ان میں سے بیوہ، جوان اور مال دار تھیں۔ میں ان کو حضرت علیہ السلام کے پاس لے گئی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’جوان عورتوں کو نکاح کر لینا چاہیے۔‘‘ میں نے کہا جن کا دل نہ چاہے وہ کیا کریں۔ یا بچوں والی ہوں ان کی پرورش کا کون ذمہ دار ہو؟ آپ نے فرمایا:’’اگرعورت کو یقین ہو کہ وہ ایمانداری اور تقویٰ سے گذار سکتی ہے اس کو اجازت ہے کہ وہ نکاح نہ کرے مگر بہتر یہی ہے کہ وہ نکاح کرلے۔‘‘(سیرت المہدی جلد ۲ صفحہ ۲۳۱)

بیوہ ہونے کی حالت میں خاوند کر لینا
نہایت ثواب کی بات ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’اگر کسی عورت کا خاوند مر جائے تو گو وہ عورت جوان ہی ہو دوسرا خاوند کرنا ایسا برا جانتی ہے جیسا کہ کوئی بڑا بھاری گناہ ہوتا ہے اور تمام عمر بیوہ اور رانڈ رہ کر یہ خیال کرتی ہے کہ میں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے اور پاکدامن بیوی ہو گئی ہوں۔ حالانکہ اس کے لئے بیوہ رہنا سخت گناہ کی بات ہے۔ عورتوں کے لئے بیوہ ہونے کی حالت میں خاوند کر لینا نہایت ثواب کی بات ہے۔ ایسی عورت حقیقت میں بڑی نیک بخت اور ولی ہے جو بیوہ ہونے کی حالت میں برے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کرلے اور نابکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے۔ ایسی عورتیں جو خدا اور رسول (ﷺ) کے حکم سے روکتی ہیں خود لعنتی اور شیطان کی چیلیاں ہیں۔ جن کے ذریعہ سے شیطان اپنا کام چلاتا ہے۔ جس عورت کو رسول اللہ (ﷺ) پیارا ہے اس کو چاہیئے کہ بیوہ ہونے کے بعد کوئی ایماندار اور نیک بخت خاوند تلاش کرلے اور یادرکھے کہ خاوند کی خدمت میں مشغول رہنا بیوہ ہونے کی حالت کے وظائف سے صد ہا درجہ بہتر ہے۔‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ۴۷)

(باقی آئندہ)

(بنت کوثر پروین ۔ جرمنی )

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: ۲۰۲۳-۲۴ء کے دوران نئی طبع ہونے والی کتب کا تعارف

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button