میرے بھائی نوید وہاب بھٹی
خاکسار کے چھوٹے بھائی نوید وہاب بھٹی ابن عبدالرزاق بھٹی صاحب محلہ بشیر آباد ربوہ مورخہ یکم جون ۲۰۲۴ءکو صبح بعد نماز فجر سیر پر گئے، راستہ میں طبیعت خراب ہونے پر ان کو طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ لایا گیا۔ جہاں ڈاکٹرز نے بتایا کہ موصوف حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہسپتال لانے سے پہلے ہی اپنے خالق حقیقی سے جاملے ہیں۔انا للہ و انا الیہ راجعون
بلانے والا ہے سب سے پیارااسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
میرا بھائی نوید وہاب بھٹی ۳؍مارچ ۱۹۸۱ء کو پیدا ہوا۔ اپنی ابتدائی تعلیم ربوہ میں حاصل کی۔ بی سی ایس (بیچلر ان کمپیوٹر سائنس )کر کے بینک کی ملازمت کے لیےاپلائی کیااور بہت جلد اپنی محنت لگن اور قابلیت سے بہت اچھا مقام حاصل کیا۔ جنوری ۲۰۰۹ءمیں آپ کی شادی صباء الفتح صاحبہ بنت ودود احمد شرما صاحب کے ساتھ ہوئی۔خاکسار اُس وقت افریقہ کے ملک گھانا میں خدمات دینیہ بجا لا رہا تھا اس لیے شاد ی میں شامل نہ ہوسکا۔ شادی کے چند سال بعد آپ کے ہاں پہلی بیٹی کی پیدائش ہوئی۔ ہماری فیملی میں یہ پہلی خوشی تھی ہم سب بہت خوش تھے۔ میں افریقہ میں تھا مجھے یاد ہے جامعہ گھانا کے طلبہ کے ساتھ وقارعمل کروا رہا تھا جب نوید کا فون آیا خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ نویدنے بیٹی کا نام اقراء وہاب خود تجویز کیا۔ بیٹی کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد گھرو الوں کو محسوس ہوا کہ اقراء نارمل نہیں لگ رہی کوئی مسئلہ ہے۔ ڈاکٹرز کو دکھایا وہ تسلی دیتے کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن دل مطمئن نہ ہوا۔ ایک دن لاہور کسی سپیشلسٹ کو دکھایا جس نے بتایا کہ بچی کے سر میں پیدائش کے وقت سے پانی ہے جس کی وجہ سے بچی سر کو سنبھال نہ سکتی ہے انہوں نے فوری پراسس کرتے ہوئے جسم میں ایک نالی ڈالی جو اب تک بچی کے سر سے پانی نکال رہی ہے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ بیٹی اقراء اپنے پاؤں پر بغیر سہارا کے کھڑی نہیں ہو سکتی ہے اور نہ چل سکتی ہےلیکن باقی اس کی صحت اور دماغی صلاحیت بالکل ٹھیک ہے۔ نوید اکثر مجھے کہتا تھا کہ مربی صاحب اقرا ء کی وجہ سے میں خدا کے آگےبہت رویا ہوں۔نوید نے اس بچی کی صحت کے لیے بہت دعائیں کیں اور ہر ممکنہ طریقہ علاج اپنایا۔ ان دعاؤں کواللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت بخشا اورنویدکو دو صحت مند بیٹوں سےبھی نوازا جوبعمرسات اوردوسال ہیں۔ اوراللہ کے فضل سے صحت مند ہیں۔ بچوں کو وقت دینا ان کے ساتھ کھیلنا اور ان کو باہر لے کر جانا اس کا معمول تھا۔
ہم چار بھائی اور ایک بہن ہیں۔ نوید مجھ سے چھوٹا اور باقی تین سے بڑا تھا۔دیگربہن بھائی بیرون ملک ہوتے ہیں نویدہی والدین کے ساتھ تھا۔ جب ۲۰۱۴ء میں والدہ کی وفات ہوئی تو یہ اکیلاادھر تھا اس نےو الدہ کی خوب خدمت کی۔وفات سے چند منٹ پہلے یہ والدہ کے پاس ہسپتال میں تھا والدہ نے اس سے کہا کہ جاکرآرام کر لو میں ٹھیک ہوں۔ نویدہسپتال کے پاس اپنے بینک میں ابھی آیاہی تھا کہ والدہ کی وفات ہو گئی۔ اس نے بڑے حوصلے اور ہمت کے ساتھ اس اچانک صدمہ کو نہ صرف برداشت کیا بلکہ اکیلے ہوتے ہوئے سارے انتظامات سنبھالے۔ خاکسار ۲۰۱۵ءمیں حضور انور کے ارشادکی تعمیل میں بغرض علاج واپس پاکستان آگیا۔ چند سال ہم اکٹھےاپنے والدصاحب کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہے۔بعدازاں خاکسار کو صدرانجمن احمدیہ کے کوارٹرمیں شفٹ ہونا پڑا۔تووالد صاحب کا جودل کے عارضہ کی وجہ سے علیل رہتے نوید بہت خیال رکھتا ان کی دوائیوں، خوراک اور چیک اپ کا خیال رکھتا۔ مجھے بعض دفعہ کہتا کہ مربی صاحب ابو میری نہیں سنتے بے احتیاطی کر جاتے ہے آکر سمجھا جائیں۔وفات سے دو دن پہلے میری نویدسے آخری ملاقات بینک کے پاس ہوئی۔ میں نماز مغرب کے لیے جا رہا تھا۔دیکھ کر رکا سلام ودعا کے بعد کہاکہ یار آکر ابو کو سمجھانا احتیاط نہیں کرتے۔ میں نے کہا اچھابات کرتا ہوں۔نوید دوسروں کی تکلیف اور درد کا خیال رکھتے ہوئے خود اپنے درد کو سینے میں دبائے ہمیشہ کے لیے ہم سے جداہوگیا۔
نویدبچپن سے ہی ذہین شرارتی اور اچھی حسِ مزاح رکھنے والا تھا۔خاندان میں اپنی حس مزاح کی خوبی کی وجہ سے مشہور تھا محفلوں میں اپنی خوبصورت باتوں سے سب کا دل مو ہ لیتا۔ کوئی بھی اس کی محفل میں بور نہیں ہوتا تھا۔ مذاق کے ساتھ ادب، احترام اورشائستگی کا خوب خیال رکھتا تھا۔نوید بہت بااخلاق،نیک،ہنس مکھ،دوسروں کے درد کو محسوس کر کے ان کو دور کرنے کی حتی الوسع کوشش کرنے والا،نمازاورروزہ کی سختی سے پابندی کرنے والاتھا۔ مجھے اکثر کہتا کہ مربی صاحب بعض واقف زندگی اورمربیان کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ پتا نہیں کیسے یہ ایک محدودالاؤنس میں گزارہ کرپاتے ہیں۔نویدکی ایک یہ بھی خوبی تھی کہ بغیر جتائے مستحقین اور سفید پوشوں کی باعزت طریقے سے مدد کرتا رہتا۔
میرا اور نوید کا صرف ڈیڑھ سال کا فرق ہے مگر اس نے کبھی یہ معمولی فرق نہیں سمجھا۔پہلے بڑےبھائی ہونے کی حیثیت سے پھر مربی سلسلہ بننے کے بعدسے اس کی محبت اور احترام میں بےحد اضافہ ہوا۔کبھی میرے سامنے بدتمیزی اور اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ خود سے خیال رکھتا۔ گھر میں عیدوغیرہ یاکسی اہم موقع پر بار بی کیو کا اہتمام کرتاتوسب سے پہلے مجھے بلاتا اور ہر ضرورت کا خیال رکھتا اور اپنے بچوں کے دلوں میں بھی میری عزت اور پیار پیدا کرنے کی کوشش کرتا۔
ہمارے گھر میں سب سے پہلے نظام وصیت میں نویدنے ہی شمولیت اختیارکی۔ چندہ جات باقاعدگی سے ادا کرتا۔ محلہ کے سیکرٹری صاحب مال سے جب نوید کے بقایا جات کے بارہ میں پوچھا تو آپ نے بتایا کہ نوید کا کوئی بقایا نہ ہے بلکہ اس ماہ تو اس نے وصیت کی زائد ادائیگی کی تھی کہ اس دفعہ پرائز بانڈ نکلا ہے اس آمد پر بھی رسید کاٹ دیں۔ نوید کو محلہ میں بطور زعیم مجلس خدام الاحمدیہ اور صدر صاحب محلہ کی عاملہ میں خدمات دینیہ کی توفیق ملتی رہی۔
خلافت سے عشق تھا۔ حضور انور کے خطبات کو اہتمام سے سنتا۔ قرآن پاک کی تلاوت باقاعدگی سے کرتا۔ رمضان میں ایک بار قرآن کا دور ضرور مکمل کرتا۔
اس کی وفات پر کثیر تعداد میں احمدی اور غیر از جماعت تعزیت کے لیے آئے۔ سب کے دل دکھی اور آنکھیں اشکبار تھیں اور سب کے یہی الفاظ تھے کہ نویدبہت اچھا خو ش اخلاق اور نیک انسان تھا۔ محلہ کے ایک بزرگ جو ٹانگ میں کمزوری کی وجہ سے ٹھیک طرح سے نہ چل سکتے تھے،نے بتایا جب بھی میں بینک میں بل جمع کروانےجاتا تو مجھے لائن میں نہ لگنے دیتا۔ اپنے پاس سامنے بٹھا کر میرا کام کروا دیتا۔ ہائے !اس کی وفات کے بعد کون میرا درد سمجھے گا۔ ایک غیر از جماعت دوست جوکافی دُور سے تعزیت کے لیے آئے تھے نے بتایا کہ دس بارہ سال پہلے میں بینک میں سیکیورٹی گارڈ تھا نوید صاحب بہت خیال رکھتے تعاون کرتے تھے جب کل مجھے ان کی وفات کا پتا چلا تو میں رہ نہ سکا اور گھر ڈھونڈتےآ گیا۔ نوید کےگھر کام کرنے والی غیرازجماعت خاتون بتاتی ہے کہ نوید بھائی بہت خیال رکھتے میری مالی معاونت کرتے رہتے۔ میں نے پرانی فریج لی اُن کو پتا چلا تو بہت ناراض ہوئے کہ مجھے کیوں نہیں بتایا میں کوئی بہتر دیکھ کے تمہیں لے دیتا۔ اچھا یہ پانچ ہزار رکھومیری طرف سے فریج کی ادائیگی میں ڈال لینا۔
نوید اتنی جلدچلاجائے گا ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ ابھی تک اس کی موت کا یقین نہیں ہوتا ہر روز اس کی یاد یں اورباتیں دل اور دماغ میں گونجتی ہیں۔ اس کا مسکراتا چہرہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا۔یہ زخم جو لگا ہے اس کو بھرنے میں پتا نہیں کتنا عرصہ لگ جائے۔ اس صدمہ کو برداشت کرنا ہم سب کے لیے بہت مشکل ہے۔ اللہ سے خاص دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے اس بھائی سے خاص مغفرت کا سلوک فرماتے ہوئے اس کے درجات بلند سے بلند کرتا چلا جائے اس کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے اس کی اہلیہ اور بچوں کا خود متکفل ہو ان کو کسی بھی قسم کی محرومی اور آزمائش میں نہ ڈالے۔ہمارے والد صاحب کو صحت و سلامتی والی زندگی عطا فرما ئےاور ہم سب بہن بھائیوں کو اس صدمہ کو برداشت کرنے اور خدا کی رضا پر راضی رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
ہو فضل تیرا یا رب یا کوئی ابتلا ہو
راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو
(’ابن عبد الرزاق‘)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: والدہ محترمہ سائرہ بی بی صاحبہ