امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ لجنہ اماء اللہ ناروے کی مجلس Nordre Follo کےایک وفد کی ملاقات
اپنی حالتوں کو اس حد تک لے آئیں کہ لوگ آپ کا نمونہ دیکھ کے اور آپ کی باتیں سن کے اسلام کی طرف راغب ہوں،
اسلام کی طرف ان کی توجہ پیدا ہو اور پھر اللہ تعالیٰ ہمیں وہ دن دکھائے کہ جب احمدیت آپ کے ملک میں بھی اکثریت میں پھیل جائے
مورخہ۱۸؍جنوری ۲۰۲۵ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس Nordre Follo ناروے کی لجنہ اماء الله کے ایک وفد کو بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ لجنہ ممبرات نےخصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےناروےسے برطانیہ کا سفر کیا۔یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔

جب حضورِ انورمجلس میں رونق افروز ہوئےتو آپ نے تمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔
تعارف کے بعددورانِ ملاقات حضورِانور نے لجنہ کو دین اور مذہب کی گہرائی کو سمجھنے اور اپنے احمدی ہونے کی حقیقی اساس پر غور کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئےفرمایا کہ ہر ایک کو سوچنا چاہیے کہ ہم احمدی کیوں ہیں، احمدیت قبول کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ ماریں بھی کھائیں، لوگ ہمیں برا بھی سمجھتے ہیں، چاہے ناروے میں رہتے ہوں یا سویڈن میں یا کسی اور ملک میں۔ تو جب لوگ ہمیں برا کہتے ہیں، پھر ہمیں احمدی ہونے کا فائدہ کیا ہے؟
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ احمدی ہونے کا فائدہ تو تبھی ہے کہ جب ہمیں یہ پتا ہو کہ ہم کیوں احمدی ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیشگوئی فرمائی تھی، وہ پوری ہوئی اور ہم اس کو ماننے والے بنے، اس لیے ہم احمدی ہیں۔
حضورِانور نے بطورِ احمدی لجنہ پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کا ادراک حاصل کرنے کی بابت تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ اور اس کے بعد ہمارے عمل کیا ہونے چاہئیں، ہم نے کتنا اسلام کی تعلیم پر عمل کرنا ہے، ہم نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق کس طرح ادا کرنا ہے؟ پانچ نمازیں فرض ہیں، وہ کس طرح ادا کرنی ہیں، قرآنِ کریم میں حکم لکھے ہوئے ہیں، کس طرح ان پر عمل کرنا ہے اور ان کو تلاش کرنا ہے؟ تو تبھی ہمارے احمدی ہونے کا فائدہ ہے نہیں تو صرف احمدیت کا ایک لیبل لگا لینا تو کوئی فائدہ نہیں۔
حضورِانور نے توجہ دلائی کہ ہر بچی اور ہر عورت کو یہ سوچنا چاہیےکہ ہم احمدی کیوں ہیں؟ ہمارے کیا فرائض ہیں اور ان فرائض کو کس طرح پورا کرنا ہے؟ آپ نے اس ملک میں کس طرح اپنا نمونہ دکھانا ہے، جس سے احمدیت کی تبلیغ ہو اور احمدیت کا پیغام دوسروں تک پہنچے۔ اور پھر اس قوم میں سے ہم لوگوں کو کس طرح احمدیت میں شامل کریں تا کہ اسلام کی حقیقی تعلیم دنیا پر واضح ہو اور دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے آئے۔ یہ ہمارا مقصد ہے اس کو پورا کرنا ہے۔ چاہے وہ مرد ہے یا عورت ہے یا بچی ہے یابڑی ہے، اس کو ہر ایک کو سمجھنا چاہیے۔
حضورِانور نے اسی تناظر میں لجنہ اماء اللہ کے قیام کے بنیادی مقصد کی یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا کہ اس کے لیے لجنہ قائم کی گئی اور اسی کے لیے لجنہ کے مختلف شعبے بنائے گئے ہیں۔ اسی لیے تربیت، تبلیغ اور باقی شعبے ہیں۔ تو ان کی طرف توجہ دیں اور اپنی حالتوں کو اس حد تک لے آئیں کہ لوگ آپ کا نمونہ دیکھ کے اور آپ کی باتیں سن کے اسلام کی طرف راغب ہوں، اسلام کی طرف ان کی توجہ پیدا ہو اور پھر اللہ تعالیٰ ہمیں وہ دن دکھائے کہ جب احمدیت آپ کے ملک میں بھی اکثریت میں پھیل جائے۔
بعد ازاں حضورِانور نے لجنہ کو اپنی حالتوں کا جائزہ لینے اور ان مقاصد کے حصول کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے ضمن میں تاکید فرمائی کہ لجنہ کا یہی مقصد ہے اور اس مقصد کو لے کے آپ لوگوں نے آگے بڑھنا ہے۔ اگر آپ یہ مقصد پورا کر سکتی ہیں تو بڑی اچھی بات ہے، نہیں کرتیں تو اپنی حالتوں کا دوبارہ اندازہ لگائیں، assess (تجزیہ) کریں کہ ہم کیا ہیں اور ہمیں کیا ہونا چاہیے؟
مزید برآں حضورِانور نےلجنہ اماء اللہ کی ممبرات کو اسلام آباد آنے کے اصل مقصد اور اس دوران انجام دیے جانے والے اہم امور کے بارے میں قیمتی نصائح سے نوازتے ہوئےتلقین فرمائی کہ یہاں رہیں، لجنہ کے نمائندوں سے بھی ملاقات کریں، نمازیں پڑھیں، دعائیں کریں اور اپنی حالتوں کو بہتر کرنے کا عہد کریں اور واپس جائیں تو اس سے بہتر ہوں جو حالت آپ کی آپ کے آنے کے وقت میں تھی۔ جب یہ ہو گا تو تبھی فائدہ ہو گا۔
اسی دوران حضورِانور اپنے سامنے دائیں جانب بیٹھی ہو ئی شرکاء میں سے ایک بچی کی جانب متوجہ ہوئے اور انتہائی شفقت سے استفسار فرمایا کہ بچی! تمہیں میری باتوں کی سمجھ آئی ہے؟ بچی کے اثبات میں جواب عرض کرنے پر حضورِانور نےتلقین فرمائی کہ تم نے اچھی احمدی بچی بننا ہے تا کہ تم دوسروں کو بتاؤ کہ احمدیت کیا چیز ہے اور صحیح اسلام یہ ہے۔پھر لوگوں کو اسلام کی طرف توجہ پیدا ہو گی، یونہی نہیں کہ میرے امّاں ابّا احمدی ہیں تو مَیں احمدی ہو گئی۔
ایک لجنہ ممبر نے حضورِانور سے دعا کی درخواست کی کہ وہ خلافتِ احمدیہ کے مقاصدِ عالیہ کی خدمت کے لیے ہمیشہ سرگرم رہ سکیں۔
اس پر حضورِانور نے توجہ دلائی کہ اصل چیز یہ ہے کہ احمدیت کے پیغام کو پھیلائیں اور اسلام کے پیغام کو پھیلائیں اور اپنے نمونے قائم کریں، یہ مقصد ہے۔ نیز تاکید فرمائی کہ صرف دنیا داری میں نہ پڑیں، ناروے میں آ کے تو دنیا کے پیچھے پڑگئے، دنیا تو مل ہی جائے گی۔ اصل چیز دین کی تلاش ہے، اللہ تعالیٰ کی تلاش ہے، وہ تلاش کریں۔
[حضورِانور کے اس مختصر مگر پُر حکمت ارشاد میں یقیناً ہر احمدی کے لیے ایک گہرا سبق پنہاں ہے کہ خدمتِ دین اور خدا کی تلاش وہ اعلیٰ و ارفع مقاصد ہیں کہ جن کی تکمیل کے لیے ہر احمدی کو اپنی زندگی وقف کرنی چاہیے اور یقیناً یہی وہ مثالی کردار اور عملی نمونہ ہے کہ جس کے ذریعے اسلام کا حقیقی پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا جا سکتا ہے۔یہ بابرکت نصائح اس امر کی جانب بھی توجہ دلاتی ہیں کہ دنیاوی ترقی کی دَوڑ میں روحانی ترقی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ نیز خلافتِ احمدیہ کے مقاصدِ عالیہ کی خدمت کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ ہر احمدی اپنے کردار اور عمل سے اسلام کی حقیقی اور پاکیزہ تصویر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے رضائے باری تعالیٰ کا طالب رہے۔]بعدازاں لجنہ کو حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں سوالات پیش کرنے اور ان کی روشنی میں بیش قیمت راہنمائی حاصل کرنے کا موقع بھی حاصل ہوا۔
ایک لجنہ ممبر نے حضورِانور سے ان باپوں کے متعلق راہنمائی طلب کی جو پنجگانہ نماز نہیں ادا کرتے اورجس سے ان کے بچوں پر بُرا اَثر مرتّب ہو تا ہے؟
حضورِانور نے اس پر یاد دلایا کہ اس بارے میں کئی دفعہ مَیں تقریروں میں، لجنہ میں اور جماعت کے مَردوں میں کہہ چکا ہوں کہ مرد اپنا نمونہ دکھائیں، صرف عورتوں پر نہ رہیں۔ لیکن عورتیں بھی بچوں کو بتائیں کہ ہم نے اللہ کی بات ماننی ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے، اس لیے ہمیں نماز پڑھنی چاہیے۔ اور باپ کو کہیں کہ بچوں کے سامنے تم کیوں اپنا غلط نمونہ پیش کر رہے ہو؟
حضورِانور نے دعا اور حکمت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ ہم تو پھر سمجھا ہی سکتے ہیں، موقع تلاش کر کے ان کو سمجھاؤ اور دعا کرو۔ باپوں سے لڑائی کرنے کی ضرورت نہیں کہ کل وہ کہیں کہ تم اپنے گھر جاؤ، میرےگھر سے باہر نکلو۔ حکمت سے بچوں کو بھی سمجھاؤ اور باپوں کو بھی سمجھائیں۔
حضورِانور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کا حوالہ دیتے ہوئے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ جس دین میں عبادت نہیں، وہ دین ہی نہیں۔حضورِانور نے اس ضمن میں تاکید فرمائی کہ اس لیے یہ باتیں بچوں کو بھی پڑھائیں، بڑوں کو بھی پڑھائیں کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا ضروری ہے۔
ایک لجنہ ممبر نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ شہادت کا ایک بہت بڑا مقام ہے، مرد حضرات یہ مقام جنگوں میں یا مختلف ممالک میں احمدی شہید ہو کر حاصل کر لیتے ہیں۔ نیز راہنمائی طلب کی کہ کیا نفس کا جہاد شہادت کے جہاد جیسا رتبہ پائے گا اور ہم عورتیں کس طرح یہ مقام حاصل کر سکتی ہیں؟
حضورِانور نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے واضح فرمایا کہ عورتیں بھی شہید ہوئی ہیں، پاکستان میں تین چار عورتیں شہید ہوئی ہیں، اس لیے عورتوں نے شہادت کا مقام اس طرح بھی پا لیا۔
حضورِانور نے ایک حدیث کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بڑی دفعہ مَیں بیان بھی کر چکا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ ایک عورت آئی اور عرض کیا کہ مرد کماتے ہیں، پھر مالی قربانیاں بھی بہت زیادہ کرتے ہیں، پھر جنگوں میں جاتے ہیں، وہاں جہاد کرتے ہیں اور پھر شہید بھی ہو جاتے ہیں، ان کو مقام مل جاتا ہے۔ لیکن ہم عورتیں گھروں میں بیٹھی ہوئی ہیں، ہم کس طرح یہ مقام حاصل کریں؟
حضورِانور نے وضاحت فرمائی کہ گو کہ اُس وقت بعض عورتیں ایسی تھیں حضرت اُمّ عمّارہ رضی الله عنہا وغیرہ جیسی جو جنگوں میں شامل بھی ہو جاتی تھیں، بعض اَور بھی عورتیں تھیں، اور انہوں نے بڑے اچھے جنگی جوہر بھی دکھائے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! جب تم گھر میں ہو، اپنے گھر کی حفاظت کر رہی ہو، اپنے بچوں کی تربیت کر رہی ہواَور گھروں کو تم نے سنبھال کر رکھا ہے اور گھر میں دینی ماحول پیدا کیا ہواہے اور تمہارے بچے اسلام کی تعلیم میں اُٹھ (پرورش پا) رہے ہیں، تو تمہارا مقام وہی ہے جو ان شہیدوں کا مقام ہو گا، اتنا ہی ثواب تمہیں مل رہا ہو گا۔
بایں ہمہ حضورِانور نے اس بات کی اہمیت پر زور دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے توآپ لوگوں کے بارے میں فرما دیا کہ بغیر جنگ کیے ہی آپ لوگوں کا جہاد بھی شمار ہو گیا اورآپ کا مقام بھی بڑا ہو گیا۔ اس لیے عورت کے قدموں کے نیچے جنّت بھی اللہ میاں نے رکھ دی، مَردوں کے کیوں نہیں رکھی اور آپ کو کیا چاہیے؟ شہادت کا مقام بڑا ہے تو اس کا مقام اور بھی بڑا ہے جوجنّت میں لے جانے والی ہے۔ شہید تو خود جنّت میں جائے گا، عورت صحیح تربیت کر کےلوگوں کو جنّت میں لے کر جائے گی۔
ایک لجنہ ممبر نے حضورِانور سے دریافت کیا کہ آجکل ایسے حالات ہیں اور جنگیں ہو رہی ہیں تو لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر خدا ہے تو یہ ظلم کیوں ہو رہا ہے؟
حضورِانور نے اس سوال کے جواب میں استفہامیہ انداز میں دریافت فرمایا کہ پہلےجنگیں نہیں ہوتی تھیں؟ اللہ تعالیٰ نے یہ کب کہا تھا کہ سارے مجھے مانیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے تو قرآنِ شریف میں لکھا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو پیدا کیا تو شیطان نے کہا تھا کہ مَیں ان کی اولاد کو بھڑکاؤں گا اور بہت سارے لوگ میرے پیچھے چلیں گے اور اللہ تعالیٰ کی بات نہیں مانیں گے تو اللہ میاں نے کہا کہ ٹھیک ہے، یہ نہیں کہا تھا کہ تمہارے پیچھے نہیں چلیں گے، اللہ میاں نے کہا تھا کہ تمہیں بھی اور تمہارے پیچھے چلنے والوں،سب کو، مَیں جہنّم میں ڈالوں گا۔
حضورِانور نے جنگوں کے اصل محرّک کی جانب روشنی ڈالتے ہوئے بیان فرمایا کہ جنگیں تو شیطان کے پیچھے چلنے کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ لوگ شیطان کے پیچھے چل رہے ہیں، اس لیے وہ ظلم کر رہے ہیں۔ اور ظالم کو پھر اللہ تعالیٰ اس جہان میں بھی سزا دے دیتا ہے، یہ دنیا تو اسّی نوّے سال کی عارضی زندگی ہے، اگلے جہان کی جو مستقل زندگی ہے اس میں پھر اللہ تعالیٰ ان کو جہنّم میں ڈالے گا، بعضوں کو یہاں بھی سزا دے دیتا ہے اور بعضوں کو اگلے جہان میں جہنّم میں ڈالے گا کہ جوظلم کر رہے ہیں، معصوموں اور عورتوں کو قتل کر رہے ہیں۔
حضورِانور نے اس حقیقت کو بھی واضح فرمایاکہ ہو سکتا ہے کہ بعضوں کے اپنےایسے عمل ہوں کہ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کسی قوم کو سزا دینے کے لیے ایسی باتیں کر رہا ہو، لیکن بہرحال جو ظلم کرنے والے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں ان کو اگلے جہان میں بہت زیادہ سزا دوں گا۔
حضورِانور نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو پہلے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ لوگ شیطان کے پیچھے زیادہ چلیں گے۔ اور کہہ دیا تھا کہ مَیں تمہیں بتا رہا ہوں کہ یہ اچھی باتیں ہیں، یہ بری باتیں ہیں، میری بات مانو گے تو ظلم سے بچو گے اور اس دنیا میں بھی آرام سے رہو گے اور جنّت میں بھی جاؤ گے۔ شیطان کے پیچھے چلوگے، تو گو تم یہاں اس دنیا میں سمجھتے ہو گے کہ مَیں نے بہت کچھ کما لیا، بہت عیاشیاں کر لیں اور بڑے اچھے حالات ہیں، لیکن اگلے جہان میں تمہیں جہنّم میں ڈالوں گا۔
حضورِانور نے اس بات کا اعادہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہے اور اللہ تعالیٰ نے توپہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مَیں نے تمہیں کھلی چھٹی دی ہوئی ہے، انسان کو عقل دی ہے، میری باتیں مان لو تو اس دنیا میں امن میں ہو گے اور ظلم ختم ہو جائے گا۔ نہیں مانو گے، شیطان کے پیچھے چلنے والے ہو گے، تو پھر ظلم ہو گا اور ظلم کی اس دنیا میں بھی تمہیں سزا مل جائے گی اور اگلے جہان میں بھی ملے گی۔یہاں تو ایسی کوئی بات ہی نہیں، یہ اس میں خدا نہ ہونےکا کیا سوال ہے، خدا ہے اور خدا نے کہیں نہیں کہا کہ زبردستی ہے۔ خدا نے تمہیں دماغ دیا ہے، استعمال کرو اور چھٹی دی ہے۔
٭…٭…٭