حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ میری لینڈ ریجن کےایک وفد کی ملاقات

لوگ کہتے ہیں کہ یہ اسرائیلwar کو ختم کر دے گا۔سیز فائر(جنگ بندی) permanent(مستقل) ہو جائے گی، ویسے تو نہیں ہوگی، یہ temporary(عارضی)ہے اور اس کے بعد ہو سکتا ہے کہ اس نے اندر(پسِ پردہ) اِن کے ساتھ کوئی underhand deal(خفیہ سازباز) بھی کی ہوئی ہو کہ یہاں سے لے کر یہاں تک علاقہ بعد میں لے لینا

مورخہ۲۰؍جنوری ۲۰۲۵ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ میری لینڈ(Maryland) ریجن کے اکتیس(۳۱) رکنی وفد کو بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ خدام نےخصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےامریکہ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ)میں منعقد ہوئی۔

جب حضورِانور مجلس میں رونق افروز ہوئےتو آپ نے تمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔

دورانِ ملاقات حضورِانور نے ہر خادم سے انفرادی گفتگو فرمائی اور ان سے ان کے پیشہ جات اور خاندانی پس ِمنظر وغیرہ کے بارے میں دریافت فرمایا۔

بعدازاں خدام کو حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں سوالات پیش کرنے اور ان کی روشنی میں بیش قیمت راہنمائی حاصل کرنے کا موقع بھی ملا۔

ایک خادم نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ مَیں ایک ایسے علاقے میں رہتا ہوں، جہاں دفاعی کمپنیز موجود ہیں، جو اسرائیل کو بہت سے ہتھیار دیتے ہیں۔ جماعت کے افراد اور میرے بعض جاننے والے بھی ان کمپنیز میں کام کرتے ہیں، کیا ہمارے لیے ان کمپنیز میں کام کرنا جائز ہے کہ نہیں؟

حضورِانور نے اس پر سمجھایا کہ اگر مجبوری میں سؤر کھانا جائز ہے، قرآنِ شریف میں لکھا ہوا ہے کہ اگر تم بھوکے مر رہے ہو تو تم سؤر کا گوشت بھی کھا سکتے ہو۔تو یہ بھی کھایا جا سکتا ہے، مجبوری ہے تو اور بات ہے۔

حضورِانور نے مزید وضاحت فرمائی کہ otherwise (بصورتِ دیگر) آپ اس نیّت سے تو نہیں بناتے کہ ہم نے اسرائیل کو سپلائی کرنا ہے۔ وہاں تو یہی ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے ملک کے لیے کام کرنا ہے، ہم اس کےdefenceکے لیے اپنی تیاری کر رہے ہیں، تو یہ اَور بات ہے۔

حضورانور نے استفہامیہ انداز میں دریافت فرمایا کہ اگر اسرائیل کو سپلائی کرتے ہیں تو ساری دنیا کو بھی سپلائی کرتے ہیں، اس کے علاوہ آپ لوگ سوڈان میں فوج کو سپلائی بھی کرتے ہیں اور عراق میں بھی دیتے رہے ہیں اور افغانستان میں بھی دیتے رہے ہیں، وہاں جائز تھا؟

سائل کے نفی میں جواب عرض کرنے پر حضورِانور نے فرمایا کہ وہاں جائز نہیں تھا تو پھریہاں بھی جائز نہیں ہے۔ لیکن آپ لوگ اس کےemploy (ملازم) ہیں اس لیے doesn’t matter (کوئی فرق نہیں پڑتا)۔

اسی طرح جواب کے آخر میں فرمایا کہ اپنی فیکٹری یا کمپنی کھول لیں۔ نیز اگر مستقبل میں ایسا ممکن ہو تو اس تناظر میں اظہارِ خیال فرمایا کہ احمدی تو پھر کہہ دے گا کہ امن قائم کرو، اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بس! law enforcement agencies (قانون نافذ کرنے والے اداروں) کو دے دو گے۔

ایک خادم نے حضورِانور سے امریکہ کےنَو منتخب صدرڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے بارے میں سوال کیا۔

اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ اس کی پالیسیز پتا ہی ہیں کہ اس نے کیاکرنا ہے اور کیا نہیں۔وہ جب آتا ہے تو امریکنوں کے لیےپتا نہیں مشکل ڈالتا ہے کہ نہیں؟ باہر والوں کے لیےعموماً، پچھلی جو اس کی tenure(مدّت)گزری ہے، اس میں تو اس نے آسانیاں ہی پیدا کی تھیں، اتنی زیادہ لڑائی نہیں کی تھی۔

امریکی صدر کی پالیسی کے حوالے سےاسرائیل جنگ کے خاتمے، ممکنہ جنگ بندی اور خفیہ سازباز کے امکانات پر روشنی ڈالتے ہوئے حضورِانور نے تبصرہ فرمایا کہ ابھی تک جو نظر آ رہا ہے، لوگ کہتے ہیں کہ یہ اسرائیلwar کو ختم کر دے گا۔سیز فائر(جنگ بندی) permanent(مستقل) ہو جائے گی، ویسے تو نہیں ہوگی، یہ temporary(عارضی)ہے اور اس کے بعد ہو سکتا ہے کہ اس نے اندر(پسِ پردہ) اِن کے ساتھ کوئی underhand deal(خفیہ سازباز) بھی کی ہوئی ہو کہ یہاں سے لے کر یہاں تک علاقہ بعد میں لے لینا۔

حضورِانور نے مزید بیان فرمایا کہ باقی دنیا میں جو اَب فساد ہے وہ کچھ حدّ تک تو وہ رکے گا۔ یہاں سے بھی لوگوں نے کہہ دیا کہ tiktok(ٹِک ٹاک)ban کر دیا اور بڑے خوش ہو گئے کہ چائنا سے یہ کر دیا، وہ کر دیا۔ اب اس کو پیسے چاہئیں۔ اس نے کہا کہ ہمارا ففٹی پرسنٹ شیئر ہمیں دے دو تو بے شک ٹِک ٹاک امریکہ میں دوبارہ چلا دو۔تو اس کو وہ پیسے ملتے رہیں گے تو ٹھیک رہے گا۔ جہاں سے اس کو پیسوں کا نقصان ہو گا تو وہاں پھر وہ اپنی مرضی کرے گا۔

آخر میں حضورِانور نے امریکہ میں تبدیلی پیدا کرنے کے حوالے سے احمدیوں کے کردار کو اُجاگر کرتے ہوئے توجہ مبذول کرائی کہ جو بھی آئے گا اسی طرح کاآئے گا، تمہیں امریکہ میں کوئی ولی اللہ تو نہیں ملنا، سوائے اس کے کہ ساروں کو احمدی کر لو یا کم از کم احمدی اس پوزیشن میں آ جائیں کہ پولیٹکس میں یا بیوروکریسی میں یا بزنس میں کہیں توآ رہے ہوں، تو پھر ٹھیک ہے، پھرتم کچھ کر سکتےہو۔

ایک خادم نے دریافت کیا کہ مقامی اور دوسری مجالس میں کیا فرق ہے اور مہتمم مقامی یا قائد مقامی کے بغیر انتخاب کے چناؤ میں کیا مصلحت ہے؟

اس سوال کے جواب میں حضورِانور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ کوئی فرق نہیں۔ دونوں مجالس ہیں۔ مقامی مجلس کیونکہ ہیڈ کوارٹر کے قریب رہتی ہے، اس لیے اس کو آپ مقامی کہہ دیتے ہیں۔

حضورِانور نے وضاحت فرمائی کہ اب یہاں امریکہ میں جماعت کا جو سسٹم ہے، وہ اس طرح ہے ہی نہیں، ہیڈ کوارٹر گو وہاں ہے لیکن آپ کا امیر چار ہزار میل کے فاصلے پر رہتا ہے اور سیکرٹری تحریکِ جدید پانچ ہزار میل کے فاصلے پر رہتا ہے یا دوسرے ویسٹ کوسٹ میں چلا جاتا ہے اور ایک دوسرا سیکرٹری اس سے بھی ویسٹ کوسٹ کے پرلے کنارے پر چلا جاتاہے۔تو اس طرح آپ کی ساری نیشنل عاملہ بڑی scattered (پھیلی ہوئی)ہے، لیکن اس کے باوجود کیونکہ ایک سسٹم رکھنا تھا، اس لیے انہوں نے کہہ دیا کہ وہاں کی جو لوکل جماعت ہے جہاں آپ کا ہیڈ کوارٹر ہے، بہرحال آنا تو پڑتا ہے امیر کو چاہے دو ہفتے بعد آئے نہ آئیں، تو اس لیے اس کو ہیڈ کوارٹر کا نام دے دیا ہے۔ وہاں کی جو مجلس ہے اس کو مقامی کہتے ہیں اور یہ کیونکہ constitution(دستورِ اساسی)میں لکھا ہواہے کہ اس کا قائد مہتمم کہلائے گا، اس لیےاس کو مہتمم مقامی کہہ دیتے ہیں۔

حضورِانور نےمزید بیان فرمایا کہ ذمہ داریاں تو وہی ہیں، جو باقیوں کی ہیں، وہ مہتمم مقامی کی بھی ذمہ داری ہے۔ اس کوصرف ایک ذرا تھوڑا سا higher statusاس لیے مل گیا کہ قائد کی بجائےمہتمم کہلاتا ہے، لیکن responsibilities وہی ہیں، جو قائد کی ہیں۔

مہتمم مقامی کے بغیر انتخاب کے چناؤ میں مصلحت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضورِانور نے فرمایا کہ چناؤ میں کیا فرق پڑتا ہے؟ باقی قائدین جو ہیں، وہ آپ elect بھی کر سکتے ہیں، selectبھی کر سکتے ہیں، لیکن مہتمم مقامی کا الیکشن نہیں ہوتا کیونکہ وہ صدر کی عاملہ کا ممبر ہے، اس لیےصدر اس کو خود ہیnominate (نامزد) کرتا ہے یا خلیفۂ وقت کوrecommend (تجویز) کرتا ہے کہ اس کو بنا دیا جائے۔ بس اتنا ہی فرق ہے، لیکن ذمہ داریوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

ایک خادم نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ بعض اوقات سرجری یا پروسیجر کے دوران کوئی ایسی پیچیدگی ہو جاتی ہے جس سے مریض کو بہت نقصان پہنچنے یا وفات کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال ڈاکٹر کے لیے بھی stressful ہوتی ہے اور دل میں ایسی سرجریز سے متعلق خوف بیٹھ جاتا ہے جس سے دوسرے مریضوں کا علاج اثر انداز ہو سکتا ہے۔ نیز اس کی بابت حضورِانور سے راہنمائی طلب کی۔

حضورِانور نے اس پر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ چھوٹے اعصاب والا ڈاکٹر بننا ہی نہیں چاہیے۔ جس پر تمام شاملینِ مجلس بھی مسکرا دیے اور انہوں نے اس سے خوب حظّ اُٹھایا۔

اسی طرح حضورِانور نےسمجھایا کہ ڈاکٹر کے اعصاب مضبوط ہونے چاہئیں۔nerves(اعصاب)کو سنبھال کے رکھو اور ہمت ہونی چاہیے۔ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں، یہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ سو فی صد لوگ آپ کے علاج سے ٹھیک ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے شفا مانگنی چاہیے۔ ھُوَالشَّافِی جب دعا کرتے ہو اور علاج کرتے ہوئے ھُوَالشَّافِی دماغ میں رکھو تو پھر یہی ہو گا کہ اللہ شافی ہے۔ ہم نے جو اپنے اسباب ہیں، جو کوشش ہے، وہ کرنی ہے، باقی اس کو شفا دینا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے، ڈاکٹر کا کام نہیں ہے۔یہ دماغ میں رہے گا تو دعا بھی نکلے گی۔ ھُوَالشَّافِیکر کے اپناprocedureکریں گے، آپریشن کریں گے یا علاج کریں گے یا جو بھی کرنا ہے تو جب اللہ تعالیٰ دماغ میں رہے گا تو پریشانی خود ہی دُور ہو جائے گی۔ یا تو آپ کو ہو کہ مَیں اس کو اپنی قابلیت سے ٹھیک کر رہا ہوں۔

حضورِانور نے استفسار فرمایا کہ آپریشن سے پہلے آپ مریض یا اس کے عزیز اور رشتہ داروں کی consent(اقرارنامہ) کیوں لیتے ہیں؟ اس لیے لیتے ہیں کہ اگر کچھ ہو جائے تو ہم ذمہ دار نہیں ہیں، تو پہلے ہی آپ نےجب کہہ دیا کہ ہم ذمہ دار نہیں ہیں تو پھر پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟

حضورِانور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آپ آپریشن روم لے جانے سے پہلے ہی مریض کو کہتے ہیں کہ sign(دستخط)کرو، اس وقت تو مریض کی جان نکلنی چاہیے کہ پتا نہیں کہ ڈاکٹر میرے ساتھ کیا کرے گا، مجھ سے کہہ رہےہیں کہ مر گئے تو کچھ نہیں ہوگا۔ اس برجستہ تبصرےپر تمام شاملینِ مجلس بھی کھل کرمسکرا دیے اور خوب محظوظ ہوئے۔

حضورِانور نے بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ تو stressکیسا؟ باقی یہ ہے کہ اسی لیے آپ ڈاکٹر امریکہ میں انشورنس کروا لیتے ہیں کہ اگرمریض مر گیا تو ہمیں کچھ دینا نہ پڑے، قصور ہو بھی تو انشورنس کمپنی مریض کو دے دے، یہی کراتے ہیں۔ یہاں تو اس طرح انشورنس بھی نہیں ہوتی۔ اب تو ڈاکٹر امریکہ میں بڑی موج کرتے ہیں۔

حضورِانور نے اس تناظر میں استفسار فرمایا کہ سڑیس کیسا؟تو سائل نے عرض کیا کہ اپنی ذمہ داری کے احساس کے حوالے سے سٹریس ہوتا ہے۔

اس پر حضورِانور نے توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ ہاں! ذمہ داری ہے، تبھی ھُوَالشَّافِی جب پڑھیں گے، تو ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر ڈال دیں گے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ ایک دفعہ مَیں نے ایک خطبہ میں ہی ڈاکٹروں کو لمبی چوڑی نصیحت کی تھی کہ احمدی ڈاکٹروں کو ھُوَالشَّافِیلکھنا چاہیے۔ قرآنِ شریف میں بھی یہی لکھا ہوا ہے، یہی دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی کی تھی کہ مَیں جب بیمار ہوتا ہوں تو اللہ میاں مجھے شفا دیتا ہے۔

[قارئین کی دلچسپی کے لیے حضورِانور کے اس خطبہ کا ایک اقتباس بھی آپ کی خدمت میں بطور تحدیثِ نعمت پیش کیا جاتا ہے، جس کا حوالہ حضورِانور نے مؤخر الذکر ارشاد میں فرمایا ہے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ ’’پس ہر احمدی ڈاکٹر اور ریسرچ کرنے والے کو اپنے مریضوں کے لیےاس انسانی ہمدردی کے جذبہ سے کام کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے ڈاکٹرز (ربوہ کے ہسپتالوں میں بھی، افریقہ میں بھی) اپنے نسخوں کے اوپر ھُوَالشَّافِی لکھتے ہیں۔ اگر ہر ڈاکٹر دنیا میں ہر جگہ اس طرح لکھتا ہو اور ساتھ اس کا ترجمہ بھی لکھ دے تو یہ بھی دوسروں پر ایک نیک اثر ڈالنے والی بات ہو گی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو بھی جذب کرنے والی ہو گی اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ میں شفاء بھی بڑھا دے گا۔ اکثر پرانے ڈاکٹرز تو مجھے امید ہے کہ یہ کرتے ہوں گے لیکن بہت سے نوجوان ڈاکٹرز شاید اس طرف توجہ نہ دیتے ہوں۔ تو ان کو بھی مَیں اس لحاظ سے توجہ دلا رہا ہوں۔ ہر احمدی جو معالج ہے، ہمیشہ سب سے پہلے یہ ذہن میں رکھے کہ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی عقل اور علم سے مَیں علاج تو کر رہا ہوں، لیکن شافی خداتعالیٰ کی ذات ہے۔ اگر اس کا اِذن ہو گا تو میرے علاج میں برکت پڑے گی اور ظاہر ہے جب یہ سوچ ہو گی تو پھر ڈاکٹر کی دعا کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی اور جب دعا کی طرف توجہ پیدا ہوگی اور اس کے نتیجے میں اس کے ہاتھ میں شفاء بھی بڑھے گی تو خداتعالیٰ کی ذات پریقین بھی بڑھے گا اور اس طرح روحانیت میں بھی ترقی ہو گی۔‘‘

اسی خطبہ میں حضورِانور نے مذکورہ بالا تناظر میں مریضوں کو بھی توجہ دلائی تھی کہ ’’اسی طرح مریض ہیں، ان کو یہ نہیں سوچنا چاہیےکہ فلاں ڈاکٹر میرا علاج کرے گا تو ٹھیک ہو جاؤں گا یا فلاں ہسپتال سب سے اچھا ہے وہاں جاؤں گا تو ٹھیک ہوں گا۔ ٹھیک ہے، سہولتوں سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے، لیکن مکمل انحصار ان پر نہیں ہو سکتا۔ بلکہ ہمیشہ یہ سوچنا چاہیے کہ شافی خداتعالیٰ کی ذات ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا اِذن ہوگا تو مَیں شفا پاؤں گا۔ اس لیے جس ڈاکٹر سے بھی ایک مریض علاج کروا رہا ہے، دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا رکھ دے اور اسے صحیح راستہ سمجھائے۔ ہر احمدی کویہ دعا کرنی چاہیے…پس اصل چیز اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین ہے کہ وہ شافی خدا ہے۔ علاج بھی اس وقت فائدہ دیتا ہے جب اللہ تعالیٰ کا اِذن ہو۔ حدیث میں آیا ہے کہ دوا تو اندازہ ہے اور وہ اللہ کے اِذن سے ہی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی جب اپنے ربّ کی خصوصیات بیان کیں۔ اس کے فضل اور اس کی قدرت کا ذکر کیا تو فرمایا وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ کہ جب مَیں بیمار ہوتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ مجھے شفا دیتا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ۱۹؍دسمبر ۲۰۰۸ء بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن؍لندن)]

ایک خادم نے عرض کیا کہ میری دو سال کی ایک بیٹی ہے اور مَیں حضور سے راہنمائی لیناچاہتا ہوں کہ آیا اس کا پبلک سکول میں داخلہ کروانا بہتر ہو گا یا گھر پر تعلیم دینا زیادہ مناسب رہے گا؟

حضورِانور نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ بعض دفعہ یہ ہوتاہے کہ وہ بچوں کو شروع میں ہی سیکس یا جینڈر ایجوکیشن یا دیگر پڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے بچنے کے لیے اگر ہوم سکولنگ کرنی ہے تو اَور بات ہے۔

حضورِانور نے مزید راہنمائی فرمائی کہ یا شروع میں اس کو سکول میں پڑھاؤ، پھر علیحدہ کر لو، گریڈفور یا فائیو میں جب سیکس کی ایجوکیشن شروع کرتے ہیں تو اس وقت وہاں سے نکال کے ہوم سکولنگ کر لو۔ شروع کاسال اس کوسکول میں بھیج دو، اس سے ذرا فائدہ ہو جاتا ہے اور بچیاں socialize (سوشلائز)بھی ہو جاتی ہیں۔

حضورِانور نے توجہ دلائی کہ اگرہوم سکولنگ کرنی ہے تو پھر ان کےtrips( ٹرپس ) وغیرہ خود لے کر جانے پڑیں گے، اگر سکول کے ساتھ نہیں جا سکتے تو پھر ایسا کرنا چاہیے کہ کبھی hiking (ہائیکنگ) پر، کبھیouting (آؤٹنگ) پر، کبھی سیروں پر، کبھی boating (بوٹنگ)پر، کبھی اور جگہ لے گئے۔ یہ سب کچھ کر سکتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔ گریڈ twelve تک تو وہ سیکس یا جینڈر ایجوکیشن یا اس قسم کی باتیں نہیں پڑھاتے رہتے۔ گریڈ فور، فائیو تک ہی وہ زیادہ تر سیکس ایجوکیشن دیتے ہیں۔اسی وقت بچوں کا دماغ polute(آلودہ)کرنا ہوتا ہے، اس وقت ہوم سکولنگ کر لو، اس کے بعد تو ٹھیک ہے۔ پھر اس کے بعد دیکھ لیں کہ حالات کیا ہیں، پھر سکول میں داخل کرا دیں، یہ تو dependکرتا ہے کہ آپ بچوں کو کتنا سنبھال سکتے ہیں۔

حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا جانے والا ایک سوال یہ تھا کہ خوابوں کی اہمیت کیا ہے اور ہم یہ کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خوابوں میں ہماری کیا راہنمائی فرما رہا ہے؟

حضورِانور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ خوابوں کی جو تعبیر ہے وہ تو ہر ایک کو سمجھ نہیں آ سکتی۔ نیزسمجھایا کہ اس لیے اگر کوئی خواب دیکھو تو کسی شخص سے، جس کو خوابوں کی تعبیر آتی ہو، وہ پوچھ لیا کرو کہ اچھی خواب ہے یا بری خواب ہے۔ اگر خود سمجھ نہ آئے، نہ بتانی ہو، کسی سے پوچھتے ہوئے شرم آتی ہو تو پھر یہی ہے کہ اچھی خواب ہو یا بری خواب ہوتو صدقہ دے دیا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس کے نیک نتیجے نکالے۔

حضورِانور نے وضاحت فرمائی کہ اور بعض خوابیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہیں، سچی بھی ہوتی ہیں، بعض شیطانی بھی ہوتی ہیں۔ بعض ویسے ہی خیال میں آ جاتی ہیں، دن میں جو کچھ ہوتاہے، وہ خوابوں میں آ گیا۔ عام طور پر Psychiatrist (ماہرِ نفسیات)کہتے ہیں کہ ایک آدمی کو ہر رات میں چار پانچ خوابیں آتی ہیں۔ بعض یاد رہتی ہیں، بعض نہیں یاد رہتیں، صبح اُٹھ کے وہ سمجھتے ہیں کہ مجھے کوئی خواب نہیں آئی لیکن نیند میں خوابیں آئی ہوتی ہیں۔ کہیں کی کہیں سیریں کر رہے ہوتےہیں۔

حضورِانور نے تلقین فرمائی کہ جو خواب یاد رہ جائے، اس کو پھر دیکھو، اس کا analysis (تجزیہ)کرو کہ اس میں کیا میسج تھا۔ اگر سمجھ آ جائے تو ٹھیک ہے نہیں تو کسی سے پوچھ لو۔

اسی حوالے سےحضورِانور نے حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے کا واقعہ بھی ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اب وہ حضرت یوسفؑ کے زمانے میں بادشاہ کو بھی تو ایک خواب آئی تھی، اس کو سمجھ نہیں آئی تھی، جو اس کی interpretation(تعبیر)کرنے والے تھے انہوں نے کہا کہ یہ تو خیالی خوابیں ہیں، دماغ کا خیال ہے، لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کی تعبیر کر دی۔ ان کو سمجھ آ گئی کہ سات بالیاں اور سات گائیاں اور ان کا کھانا اور نقصان ہونا اور زرخیز زمین ہونا اور drought(خشک سالی یا قحط)آنا اور یہ سارا کچھ، اس میں باتیں ہیں۔

حضورِانور نے توجہ دلائی کہ بعضوں کو خوابوں کی سمجھ نہیں آتی، اس لیے تمہیں بھی سمجھ نہ آئے تو صدقہ دے دو، بس simple(سادہ) علاج یہی ہے۔اور اگر تو ایسی خواب ہے، جس میں کوئی صاف طور پرمیسج ہے، نیکی کی تلقین جس میں کی جا رہی ہے، نیکی کی باتیں بتائی جا رہی ہیں تو وہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم یہ کرو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خواب ہے اور اگر کوئی ایسی بات ہے کہ جس میں تم کو کہا جائے کہ برائی کر لو، کچھ نہیں ہوتا، تو وہ سمجھو کہ یہ شیطانی خواب ہے۔

حضورِانور نے ایک لطیفہ بھی بیان فرمایا کہ ہمارے ہاں ایک بزرگ ہوا کرتے تھے، وہ بڑی اثر و رسوخ والی سرگودھا کی نون فیملی تھی، جو politics(سیاست) میں بھی آئی اور بڑے landlord(جاگیردار) تھے۔ ان کے ایک بزرگ خلیفہ ثانی رضی الله کے زمانے میں احمدی ہو گئے، ان کی اولاد نہیں تھی، بڑھاپے میں جا کے ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔ حضرت خلیفہ ثانی رضی الله عنہ کی دعا سے کہتےتھے کہ بیٹا پیدا ہوا، اس لیے اس کو ربوہ میں وہ لے آئے، شروع شروع کی بات ہے، ربوہ میں ابھی سڑکیں بھی نہیں بنی تھیں، کہیں کہیں گھر تھے اور وہاں سکول میں اس کو داخل کروا دیا۔ امیر لوگ تھے، ان کو مائیکرو بس لے کے دی ہوئی تھی کہ وہ گھر سے کار پر آیا کرتا تھا، جبکہ ربوہ میں باقیوں کے پاس ٹوٹا ہوا سائیکل بھی نہیں ہوتا تھا، سارے غریب لوگ تھے، سارے شہر میں ایک یا دو، تین کاریں تھیں۔ تو بہرحال ان کی یہ خواہش تھی کہ لڑکاکچھ پڑھ جائے اور کسی قابل بن جائے، بڑھاپے میں پیدا ہو اہے اور نیک ہو۔ میرے خاندان کے لوگوں کی طرح پولیٹکس یا برائیوں میں نہ چلا جائے۔ تو اس کو وہ ہمیشہ کہتے کہ نماز پڑھو اور جب تک ان کی زندگی رہی، مسجد مبارک بھی لے کرآیا کرتے تھے، جلد ہی فوت ہو گئے تھے اور ان کی بیوی بھی فوت ہو گئی تھیں۔ یہ بزرگ اور ان کا بیٹا، گھر بڑا تھا، لیکن اس کے باوجود دونوں ایک کمرے میں ہی سوتے تھے۔ ایک دن ان کا بیٹا نمازیں پڑھ پڑھ کے تنگ آیا ہوا تھا کہ ابّا جی روز کہتے ہیں کہ نمازیں پڑھو، نمازیں پڑھو، کیامشکل ہے؟

[قارئین کی معلومات کے لیے تحریر کیا جاتا ہے کہ ربوہ سے قریبا پینتالیس کلومیٹر کے فاصلے پر موجود سرگودھا پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک مشہور زرعی اور تاریخی شہر ہے، جو اپنے اعلیٰ معیار کے کینو کی پیداوار کے لیے عالمی شہرت رکھتا ہے۔ یہ وسطی پنجاب میں واقع ہے اور اہم تعلیمی، دفاعی اور تجارتی مرکز ہے۔ یہاں یونیورسٹی آف سرگودھا سمیت کئی تعلیمی ادارے موجود ہیں، جبکہ پاکستان ایئرفورس کی اہم ’مصحف ایئر بیس‘ بھی اسی شہر میں واقع ہے۔ سرگودھا کے لوگ اپنی مہمان نوازی کے لیے مشہور ہیں اور یہ شہر اپنی زرخیز زمین اور قدرتی حسن کی وجہ سے منفرد مقام رکھتا ہے۔]

حضورِانور نے اس دوران حاضرینِ مجلس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم بھی بعض دفعہ کہتے ہو کہ کیا مشکل ہے کہ نمازیں پڑھو، قائد صاحب کہہ دیتے ہیں کہ نمازیں پڑھو، صدر صاحب، ابّا امّاں کہہ دیتے ہیں کہ نمازیں پڑھو۔

پھر اصل واقعہ کو جاری رکھتے ہوئے حضورِانور نے مسکراتے ہوئےبفرمایا کہ خیر وہ بھی اسی طرح تھا، تو ایک دن وہ صبح اُٹھ کے کہنے لگا کہ ابّا جی مجھے رات خواب آئی ہے، حضرت مصلح موعودؓ خواب میں آئے، انہوں نے کہا ہے کہ بیٹے تم نمازیں نہ پڑھا کرو۔ تواس کے ابّا بڑے ہوشیار تھے، انہوں نے کہا کہ دیکھو ! ہم یہاں کمرے میں رہتے ہیں، میرا بیڈ دروازے کے قریب ہے اور تمہارا بیڈ دروازے کے پرلی طرف دیوار کے ساتھ دوسری طرف ہے۔ تو مصلح موعودؓ جو دروازے سے گزر کے میری چارپائی کو جمپ(پھلانگ) کر کے تمہارے پاس یہ کہنے کے لیے گئےکہ نمازیں نہ پڑھا کرو تومجھے کیوں نہ کہہ دیا۔ مجھے بھی کہہ سکتے تھے کہ نمازیں نہ پڑھا کرو، میری بھی چھٹی ہو جاتی۔ تم جھوٹی خوابیں نہ بناؤ۔ تو اس طرح بھی لوگ بعض خوابیں بنا لیتے ہیں۔یہ لطیفہ سننے کےدوران تمام شاملینِ مجلس کھل کر مسکراتے رہے اور خوب لطف اندوز ہوئے۔

حضورِانور نے متنبّہ فرمایا کہ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جھوٹی خوابیں نہیں گھڑنی چاہئیں اور خاص طور پر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں منسوب کر کے کوئی جھوٹی خواب بناتا ہے تو وہ اپنے اوپر لعنت لیتا ہے۔

حضورِانور نے بایں ہمہ خوابوں کی حقیقت جاننے کے لیے حضرت مسیح موعودؑ کی معرکہ آرا تصنیف حقیقة الوحی کے ابتدائی صفحات پڑھنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب حقیقة الوحی کتاب کے پہلے پچاس، ساٹھ صفحے پڑھو۔ میرا خیال ہے کہ اگر وہ انگلش میں translation ہو گئی ہے تو اس میں خواب کیا ہوتی ہے اور خوابوں کی حقیقت کیا ہوتی ہے، وہ ساری باتیں پتا لگ جاتی ہیں۔ تم بڑے ہو، اب تم کالج، یونیورسٹی میں جانے والے ہو، وہ پڑھو، تمہارا اِتنانالج (knowledge) ہونا چاہیے۔

مزید برآں حضورِانور نے اپنی اوّل الذکر نصیحت کا اعادہ فرمایا کہ پہلے شروع کےپچاس، ساٹھ صفحات پڑھ لو تو ٹھیک ہو جائے گا اورتمہیں پتا لگ جائے گا کہ خوابوں کا concept کیا ہے، کیا سچی خواب ہے اورکیا جھوٹی خواب ہے۔

ایک خادم نے حضورِانور سے دریافت کیا کہ ۲۰۰۵ء میں جب آپ قادیان تشریف لے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبر ِمبارک پر دعا کی تو اس وقت آپ کے کیا جذبات تھے؟

حضورِانور نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بیان فرمایا کہ جو جذبات ہر احمدی کے ہوتے ہیں، جذبات یہی تھے کہ ہم آئے ہیں تو دعا کریں۔ جب مَیں پہلی دفعہ۱۹۹۱ء میں گیا ہوں، جو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبر پر جا کے جذبات تھے، وہی جذبات ۲۰۰۵ءمیں بھی تھے اور یہی دعا تھی کہ اللہ تعالیٰ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درجات بلند کرے، وہاں آپؑ کی بنائی ہوئی جماعت کو ترقی بھی دے اور ہم صحیح طرح کام کرنے والے ہوں۔ تو جذبات کا اظہار تو انسان دعاؤں میں کرتا ہے، ہر ایک کی اپنی feelingہوتی ہے، بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں، جو بیان نہیں کی جا سکتیں، لیکن جذبات میں ہوتی ہیں اور اب تو ویسے بھی اس کو بیس سال گزرنے والے ہیں۔

ملاقات کے اختتام پر تمام حاضرینِ مجلس کو از راہِ شفقت حضورِانور کے ہمراہ گروپ تصویربنوانے اور بطورِ تبرک قلم حاصل کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ آخر پرحضور انور نے الوداعی دعائیہ کلمات ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ چلو، پھر اللہ حافظ!

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے ساؤتھ ویسٹ ریجن کےایک وفد کی ملاقات

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button