ثبات و ذکرِالٰہی ذریعہ فلاح ہیں(قسط دوم۔آخری)
۱۹۲۲ء میں حضؓور نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے ثبات اور ذکر الٰہی کے مضمون پر روشنی ڈالی ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۱؍جولائی ۱۹۲۲ء)
جب تمہاری مدد پر خدا آ گیا تو پھر تمہاری فتح میں کسے شک ہو سکتا ہے۔ اور جس کی مدد کے لیے خدا آ جائے اُس کا کون مقابلہ کر سکتا ہے۔ دنیا بےشک مقابلہ کرے گی اور نسلاً بعد نسلٍ لڑتی جائے گی مگر کب تک لڑے گی۔ آخر شکست پائے گی
پھرفرمایا وَاَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَرَسُوۡلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَتَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ وَاصۡبِرُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ۔ (الانفال:۴۷)فرماتا ہے۔ دنیا ایسے موقع جنگ پر کیا کرتی ہے۔ وہ یہ کہ قاعدہ ہے کہ ایک افسر بناتے ہیں اور اُس کے کام کی پیروی کرتے ہیں۔ کیونکہ کوئی فوج بغیر افسر کے جنگ میں کام نہیں کرسکتی۔
تمہاری بھی ایک جنگ ہے جو روحانی جنگ ہے یا ظاہر میں دین کی حفاظت کے لیے جنگ ہے۔ اس وقت تمہارے لیے حکم ہے اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَرَسُوۡلَہٗ اﷲ کی اطاعت کرو۔ اپنا کمانڈر اﷲ اور اُس کے رسول کو سمجھو۔ اُن کی بتائی ہوئی ترکیبوں پر عمل کرو اور اپنی ہر ایک حالت پر اُن کو حاکم بناؤ۔
دوسرے وَلَا تَنَازَعُوۡا آپس میں مت لڑو کہ یہ میری رائے ہے اور اُن کی یہ رائے ہے۔
یاد رکھو خدا علیم ہے اور رسول اُسی سے سیکھ کر کہتا ہے۔ اس لیے ان کے احکام کے آگے چون و چرا کرنا غلطی ہے۔
اور پھر آپس میں نہ لڑو جبکہ دشمن کا مقابلہ درپیش ہے۔ اور تم دشمن سے مقابلہ نہیں کر سکو گے۔ لیکن مومن کے لیے ایسا موقع کوئی نہیں۔ جب اس کے دشمن نہ رہیں کیونکہ تبلیغ کے راستہ میں جو روکیں ہوں۔ اُن کو دُور کرنا۔ وہ نہ ہوں تو شیطان سے جنگ، نفس کی اصلاح وغیرہ جنگیں ہیں اور
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیحؑ کے منکر قیامت تک رہیں گے۔ اور مسیحؑ کے منکر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے بھی منکر ہیں۔
اس سے کیا ثابت ہوا۔ یہی کہ دشمن کے مقابلہ کے لیے کبھی سُستی نہ کی جائے بلکہ اُس کے مقابلہ میں ہمیشہ ڈٹے رہنا چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مکانوں، جائیدادوں کی حفاظت کے لیے لوگ جنگ کرتے ہیں۔ لیکن دین کی حفاظت ان چیزوں سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ مگر اس کی حفاظت نہیں کی جا سکتی جب تک آپس کے تنازعات کو نہ چھوڑ دیا جائے۔ کیونکہ دو طرف کے توپ خانہ سے سلامتی مشکل ہوتی ہے کہ ایک طرف گھر میں سے حملہ آور ہوں اور مقابلہ میں دشمن ہو۔ پس اگر دشمن کے مقابلہ میں کامیابی کی توقّع ہے تو آپس کے تنازعات کو چھوڑ دو۔
ورنہ فرماتا ہے۔ فَتَفۡشَلُوۡا
’’فشل‘‘ کے تین معنی ہیں۔ (۱) سست ہو جانا (۲)کمزور ہو جانا (۳)بُزدل ہو جانا۔
اس لیے اس کے معنی ہوئے کہ
اگر تم آپس میں تنازع کرو گے تو تم میں کسل اور سستی آ جائے گی اور دوسرے تم میں بُزدلی پیدا ہو جائے گی۔ اور تیسرے تم میں ضعف ہو جائے گا۔
قاعدہ ہے کہ
جب آپس میں تنازع ہو تو دین کے کام میں لوگ سُست ہو جاتے ہیں اور پھر دشمن کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔
دوسرے مقابلہ جوش سے ہوتا ہے۔ جب جوش آپس کے جھگڑوں میں نکل گیا تو غیروں کے مقابلہ کے لیے جوش کہاں سے آئے گا۔ اور آپس کی لڑائی سے ضعف اس طرح آ جاتا ہے کہ جب پانچ شخصوں میں جنگ ہو گی تو دو ایک طرف ہوں گے اور تین ایک طرف۔ پھر دشمن کے مقابلہ میں ضعف پیدا ہونا ضروری تھا اوربزدلی خون کے جلد جوش میں آ جانے سے بھی ہوتی ہے۔ جس شخص کو فوراً غصہ آ جائے اور جھگڑے کی اُس کو عادت ہو جائے جیسا کہ بعض لوگوں کو سر کھجلانے یا انگلیوں سے پٹاخے نکالنے کی عادت ہوتی ہے تو اس میں بزدلی پیدا ہو جاتی ہے۔جو لوگ زبانی لڑائی کے زیادہ عادی ہوتے ہیں اُن میں شجاعت نہیں رہتی۔ مثل مشہور ہے کہ شیر لیٹا ہوا تھا اُس پر چوہے کھیل رہے تھے۔ شیر نے کہا کہ لڑوں کس سے کیا چوہوں سے؟ اِسی طرح
جو شخص معمولی باتوں پر لڑتے ہیں وہ بڑے دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
پس فرمایا آپس میں تنازع نہ کرو۔ تم میں کسل آ جائے گی۔ دین کے کام سے غافل ہو جاؤ گے اور ضعف پیدا ہو جائے گا۔
پھر فرمایا۔ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُم
ریح کے بھی تین معنی ہیں
(۱)قوت (۲)نُصرت (۳)رحمت۔
پس تَذۡہَبَ رِیۡحُکُم کے معنی ہوئے تمہاری قوت چلی جائے گی۔ اب جو دشمن تمہاری طاقت کو محسوس کرتا ہے یہ بات نہ رہے گی۔ (۲) تمہاری محبت کم ہو جائے گی تو تم پر جو رحمت ہوتی ہے وہ کم ہو جائے گی یا تم جو کسی پر رحمت کرتے ہو وہ نہیں رہے گی۔(۳) تیسرے نُصرت نہیں ہو گی۔ کیونکہ مدد اُس کی ہوتی ہے جو اپنی مدد بھی کرے۔ جو شخص اپنی مدد نہیں کرتا اُس کی کوئی کیا مدد کرے۔ جو شخص بزدلی دکھاتا ہے اُس کا مددگار اُس کے لیے کیا کر سکتا ہے۔ فرمایا آپس کے تنازع کے یہ تین نتیجہ ہوں گے۔
پھر فرمایا۔َوَاصۡبِرُوۡا۔ اور صبر کرو۔ اگر کسی شخص نے کوئی ایسی بات کہی ہے جس سے تمہیں رنج پہنچا ہے یا تمہارا کوئی حق دبا لیا ہے تو تم صبر کرو اور جھگڑا نہ کرو۔ یہ کہنا کہ ایسے موقع پر صبر کیسے کر سکتے ہیں ،غلطی ہے۔ کیونکہ یہی تو موقع ہوتا ہے کہ صبر کیا جائے۔ ورنہ کیا صبر کا یہ موقع ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنے مکان کے قَبالے لا کر تمہارے سپرد کر دے یا تمہاری کوئی تعریف کرے اور تم کہو کہ ہم نے صبر کیا۔
صبر کا موقع تو یہی ہے کہ دوسرے سے دکھ پہنچنے پر صبر کرے ورنہ تعریف سن کر یا فائدہ پہنچنے پر صبر کا کون سا موقع ہے۔
اس کی مثال تو وہی ہو گی جو حضرت مسیح موعودؑ لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ کسی شخص نے کسی کی دعوت کی۔ کھانے کے بعد قاعدہ کے مطابق میزبان نے کہا کہ گھر میں بیمار ہیں اس لیے میں آپ کی کچھ خدمت نہیں کر سکا۔ مہمان کوئی بڑا ہی بدفطرت انسان تھا۔ کہنے لگا مجھ پر احسان جتاتے ہو۔ میں تو خود تم پر بڑا احسان کیا ہے۔ میزبان نے کہا کہ آپ کا احسان ہو گا اگر آپ بتائیں تا کہ مجھے زیادہ شکر گزاری کا موقع ملے۔ کہنے لگا تم جب اندر کھانا لینے گئے تھے اگر میں تمہارے گھر کو پھونک دیتا۔ میزبان نے کہا کہ واقعی یہ آپ کا احسان ہے۔ پس
اگر کہو کہ آپس کی لڑائی میں صبر کیسے کریں تو یہ غلطی ہے۔
کیونکہ اُسی وقت صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو صبر کرو۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ یہ کہاِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ۔ صبر کرنے والا ہلاک نہیں ہوتا کیونکہ اﷲ جس کے ساتھ ہو اُس کو کیسے ہلاکت آئے۔ اﷲ تعالیٰ غیرفانی ہے۔ وہ جس کے ساتھ ہو وہ بھی فنا نہیں ہو سکتا۔ اگر تم گالی کے مقابلہ میں صبر کرتے ہو تو صبر ہے۔ اگر کوئی نقصان پہنچاتا ہے اور تم اُس کے مقابلہ میں زبانی نہیں بولتے تو یہ صبر ہے۔ اگر عدالت سے چارہ جوئی کرتے ہو تو یہ صبر کے خلاف نہیں۔
پس یاد رکھو کہ صابر کے لیے ہلاکت نہیں۔
یہ احکام ہیں جن پر عمل کرنا تمہارے لیے بہتری کا موجب ہوگا۔ تمہارا ساری دنیا سے مقابلہ ہے۔ تمہارے لیے ثبات کی ضرورت ہے، دعاؤں کی ضرورت ہے، آپس میں تنازعات سے بچنے کی ضرورت ہے۔ اگر رنج پہنچے تو صبر کی عادت کرو کہ تم کو اﷲ تعالیٰ کی نُصرت ملے۔ جو آپس میں جھگڑا نہ کریں اُن کی خدا مدد کرتا ہے۔ اﷲتعالیٰ آپ لوگوں کو عمل کرنے کی توفیق دے۔
(الفضل۲۷؍جولائی۱۹۲۲ء)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: اپنے وعدوں کو بڑھا کر پیش کرنا دنیا میں اسلام کی ترقی اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کا موجب ہے