اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
جون تا ستمبر۲۰۲۴ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
مبارک ثانی کا مقدمہ:سپریم کورٹ کے فیصلے نے احمدیوں کی آزادی اور حقوق کو مزید عدم تحفظ کا شکار کر دیا
تقریباًگذشتہ دس سال سے پنجاب حکومت نے جماعت احمدیہ کی تصنیف واشاعت پر پابندی عائد کر رکھی ہے جس میں جماعتی خبریں،کتابیں،ماہنامے،سالانہ رسالے اور قرآن کریم شامل ہے۔فروری ۲۰۲۴ء میں ایک معروف معلم قرآن مبارک احمدثانی کو پنجاب کے ۲۰۱۱ءکے قرآن ایکٹ کے تحت گرفتار کرلیا گیا تھا اور ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ قرآن کریم کاایک ممنوعہ ترجمہ تقسیم کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ ملزم پر جو یہ الزام عائد کیا گیا ہے وہ ۲۰۱۱ء کے ایکٹ میں کی گئی ایک اَور ترمیم سے پہلے کا ہے۔ لہٰذا قانون بننے سے پہلے کیے گئے جرم پر سزا نہیں دی جا سکتی۔ سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ ایمان کے مسائل میں بہت احتیاط برتنی چاہیے اور قرآن کے مطابق دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ نیز آئین پاکستان کا ا ٓرٹیکل ۲۰ تمام شہریوں کو ان کے مذہب کا اظہار کرنے، عمل کرنے اوراس کی اشاعت کی اجازت دیتا ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے کہا کہ ملزم کو کسی اور مقدمے میں نامزد کر نا بھی نامناسب ہے کیونکہ وہ پہلے ہی مجوزہ سزا سے بھی زائد سزا کاٹ چکا ہے اور اس کو مزید قید میں رکھنا نہ صرف آئینِ پاکستان کے خلاف ہے بلکہ یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور منصفانہ عدالتی کارروائی کے بھی برعکس ہے۔
لیکن اس فیصلے کے بعد چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے خلاف مذہبی جماعتوں کی جانب سے ایک ایسا طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا کہ الامان والحفیظ۔ ۲۲؍فروری کو سپریم کورٹ کو ایک اعلامیہ جاری کرنا پڑا کہ عدالتوں کے خلاف ایسی مہم جوئی انتہائی افسوسنا ک اور آرٹیکل ۱۹ میں دیے گئے آزادی اظہار رائے کے عین منافی ہے۔ لیکن پنجاب حکومت نے بھی اس مقدمے کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کر دی اور موقف اپنایا کہ آرٹیکل ۲۰ میں دی گئی آزادی کلیۃً آزادی نہیں بلکہ وہ قانون،امن عامہ اور اخلاقیات کی پابند ہے۔
اس کے بعد سپریم کورٹ کو بہت دباؤ کا سامنا کرنا پڑا اور سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ نے ۲۶؍ فروری کو فیصلہ کیا کہ مقدمے میں شامل فریقین کو اگر ۶؍ فروری کے فیصلے پر کوئی اعتراض ہے تو اس کی نظر ثانی کی جائے گی۔ نیز جماعت اسلامی اگر بطور فریق مقدمے میں شامل ہونا چاہتی ہے تو وہ تحریری طور پر اپنا موقف پیش کر سکتی ہے۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے مختلف اسلامی اداروں کو مناہیات کے متعلق وضاحت پیش کرنے کی بھی درخواست کر دی۔
سپریم کورٹ نے نظر ثانی کی استدعا منظور کر لی اور جولائی میں فیصلہ کیا کہ چونکہ احمدی آئینی لحاظ سے غیر مسلم ہیں لہٰذا وہ اپنی عبادات تو بجا لا سکتے ہیں لیکن وہ کوئی اسلامی شعائر استعمال نہیں کر سکتے اور نہ ہی خود کو مسلمان کہہ سکتے ہیں۔ نیز احمدی اپنی چاردیواری میں اپنے مذہب پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں لیکن انہیں حاصل آزادی کلیۃً آزادی نہیں بلکہ وہ قانون،امنِ عامہ اور اخلاقیات کی پابند ہے۔
باوجود ہر قسم کے قانونی ہتھکنڈے استعمال کرنے کے جب پنجاب حکومت کا بس نہ چلا تو پنجاب حکومت نے متفرق درخواست دیوانی دائر کر دی۔ اور سپریم کورٹ کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ اپنے فیصلے سے کچھ عبارتیں حذف کریں۔ چنانچہ احمدیوں کو چاردیواری میں اپنے مذہب پر عمل کی آزادی والا حصہ بھی فوراًحذف کر دیا گیا۔ ساتھ ہی کئی مولویوں کو بھی عدالت میں بلایا گیا جنہوں نے اپنی رائے دی اور احمدیوں کی مذہبی آزادی کو مزیدمحدود کر دیا۔ ساتھ ہی اپنے حتمی فیصلے میں سپریم کورٹ نے احمدیوں کے مذہبی حقوق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے احمدیوں کے مذہبی عقائد کو تحقیر آمیز انداز سے دیکھا جن میں وفات مسیح اور عقیدہ ختم نبوت کی تشریح شامل ہیں۔ سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ بانی جماعت احمدیہ نے حضرت عیسیٰ اور مریم ؑکا ذکر ایسے رنگ میں کیا ہے جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ مسیحیوں کےلیے بھی تکلیف دہ ہے۔ نیز ختم نبوت کا مطلب ہے کہ اب کوئی نبی نہیں آسکتا۔ چنانچہ جو بھی ان عقائد کے برخلاف ہے وہ خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتا۔اسی لیے قادیانی یا احمدی خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ ان عقائد کو نہیں مانتے۔
کورٹ نے کہا کہ ختم نبوت پر ایمان کا مطلب ہے کہ آنحضورﷺ آخری نبی ہیں۔ نیز آئین پاکستان کے مطابق ہر مسلمان کے لیے ختم نبوت پر ایمان لازمی ہے۔ اور ہر شخص کو اس کی پاسداری کرنا لازمی ہے۔ احمدیوں کو بھی اپنی آئینی حیثیت کو ماننا ہو گا تا کہ اس آئینی حد تک ان کو حقوق دیے جا سکیں۔
احمدیوں کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی بجائے عدالت نے خود کو ایسی مذہبی تشریحات میں الجھا لیا جو اس کے بس سے ہی باہر ہیں۔عدالت نے ایک بار پھر سے آئینی طور پر مسلمان کی شناخت کی تشریح کرتے ہوئے ایک ایسی تشریح لاگو کی ہے جو بنیادی طور پر مذہبی آزادی کی روح کو پامال کرتی ہے اور جس میں متفرق مذہبی عقائد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دوسرے عدالت نے احمدیوں کی مذہبی شناخت کا انکار کر دیا ہے۔ جو کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کا اہم جزو ہے۔ عدالت نے اپنی پرانی روش پر عمل کرتے ہوئے احمدیوں کے آئینی حقوق کو مذہبی شدت پسندی کی نظر کر دیا۔ ایسا کرنے سے عدالت نے ریاستی سرپرستی میں احمدیوں کو معاشرتی لحاظ سے تنہا کرنے کے عمل کوقانونی طور پر سہارا دیا ہے۔اور ایک نئی تکلیف دہ مثال قائم کر دی ہے۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل ۲۰ میں احمدیوں کو ا پنے مذہب کا اظہار کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی جو محدود آزادی دی گئی ہے وہ اس فیصلے سے دفعۃًچھین لی گئی۔ یہ آئینی بحران انتہا پسند قوتوں کو ایسا راستہ فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے وہ سزا سے بچتے ہوئے احمدیوں کو سرعام اور ان کے گھروں میں نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایک محقق کا کہنا ہے کہ عدالت کے بیرونی قوتوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے اس قدم نے مذہبی گروہوں کو مزید بےباک بنا دیا ہے۔ اور اس بات پر مہر ثبت کردی ہے کہ یہ لوگ ایسے ہتھکنڈوں اور طاقت کے استعمال سے ریاستی پالیسی کو بھی تشکیل دے سکتے ہیں۔
ربیع الاوّل ۲۰۲۴ء میں ملک بھر میں احمدیت مخالف جارحانہ رویے میں اضافہ
۱۷؍ستمبر ۲۰۲۴ء کو یوم میلاد النبیﷺ کے حوالے سے ملک کے بیشتر اضلاع میں احمدیوں کے خلاف تکلیف دہ واقعات کا ایک نیا باب رقم ہوا۔ انتہاپسند گروہوں نے اس مذہبی موقع کو احمدیوں کے خلاف دھمکیوں،ریلیوں اور اشتعال انگیز تقریروں کے ذریعے نفرت اور تشدد پر ابھارنے کے لیے استعمال کیا۔
فیصل آباد میں گھنٹہ گھر چوک پر احمدیت مخالف کارکنوں نے احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کیں۔ انہوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف تشدد کو بہت عظیم کام قرار دیا اور ساتھ ہی ڈھکے چھپے انداز میں دھمکیاں بھی دیں۔مقررین نے مطالبہ کیا کہ احمدیہ مساجد سے سارے اسلامی شعائر اتارے جائیں اور اگر انتظامیہ نے یہ کام نہ کیا تو انہیں معاملات خود اپنے ہاتھ میں لینے پڑیں گے۔
ننکانہ صاحب میں بھی ایسی ہی باتیں دہرائی گئیں اور کارکنوں نے چیف جسٹس پر الزام لگایا کہ وہ مذہبی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں اور خاص طور پر جماعت احمدیہ کے معاملات کے متعلق اور ساتھ ہی انہوں نے مطالبہ کیا کہ احمدیہ مساجد سے سارے اسلامی شعائر اتارے جائیں۔انہوں نے دھمکی دی کہ اگر ۱۲؍ربیع الاول تک یہ کام نہ ہوا تو خون خرابہ ہوگا۔ تاہم ان کی دھمکیوں کے باوجود سانگلہ ہل کی ایک احمدیہ مسجد کے میناروں کے متعلق جاری قانونی کارروائی کے باعث مسمار ہونے سے بچا لیا گیا۔
بیٹ دریائی ضلع مظفر گڑھ میں مخالفین احمدیت نے دوبارہ احمدیہ مساجد کے میناروں کے متعلق مسئلہ کھڑا کر دیا۔ انہوں نے مقامی انتظامیہ پر احمدیہ مسجد کے میناروں کو ڈھانپنے پر کڑی تنقید کی جن کے متعلق ان کا خیال تھاکہ انہیں مسمار کیا جائے۔مقامی احمدی عہدیدار کے گھر کو بھی نشانہ بنایا گیا جہاں انہوں نے جماعت کے خلاف تقاریر کیں۔
ماڈل ٹاؤن کراچی میں ایک جلوس احمدیہ مسجد کے قریب رک گیا جہاں جماعت کے خلاف پر تشدد کارروائیوں پر اکسانے والی تقاریر کی گئیں۔ شرکاء نے کھلےعام علاقے کو احمدیوں سے پاک کرنے کی دھمکی دی اورمذہبی شخصیات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی نفرت کو جائز قرار دیا۔
اسی طرح کے جلسے جلوس اور تشدد پر اکسانے والے واقعات کاسرا ضلع اٹک،ڈیرہ ساندا ضلع سیالکوٹ،روڈہ ضلع خوشاب،سرگودھا،علی پور،جہلم اور کوٹلی آزاد کشمیر میں بھی سننے کو ملے۔
مخالفین احمدیت نے سب سے زیادہ احمدی آبادی والے شہر اور پاکستان میں احمدیت کے مرکز ربوہ میں بھی متعدد ریلیاں اور بڑی کانفرنسیں منعقد کیں۔
ربوہ میں پہلا جلوس صبح کے وقت دارالیمن سے نکلا۔ اس جلوس میں چار سو کے قریب شرکاء تھے جو اہم مقامات بشمول مسجد بخاری اور اقصیٰ چوک پر رکے اور شہر بھر میں نعرے لگاتے ہوئے گئے۔مولوی توصیف نے احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کیں اور احمدیوں کو غدار اور کافر قرار دیا۔ مقررین نے ختم نبوت کے ساتھ وفاداری نبھانے کا عہد دہرایا اور شہر سے سیکیورٹی کیمرے ہٹانے کا کہا۔ ساتھ ہی انہوں نے دھمکی دی کہ اگر کسی مسلمان کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کے نتائج سنگین ہوں گے۔
احمد نگر سے بھی مختلف جلوس نکلے جو ربوہ بس سٹیشن پر جمع ہو گئے۔ ان میں شرکاء کی تعدا د ساڑھے تین سو کے لگ بھگ تھی۔ اسی دوران موٹر سائیکلوں پر ایک بڑا جلوس عاصم آباد سے نکالا گیا جو ربوہ کے قریبی علاقے کوٹ وساوا میں آیا جہاں پر دو روزہ ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا تھا۔
کانفرنس کے دوران تقاریر میں مولوی سید کفیل شاہ بخاری اور مولوی عبد المومن شاہ بخاری نے احمدیوں پر الزام لگایا کے وہ بیرونی قوتوں کے ایجنٹ ہیں اور احمدیوں کو اپنے عقیدے سے توبہ کرنے کی دعوت دی۔ ان ملاؤں نے بانی جماعت احمدیہ کے خلاف انتہائی توہین آمیز زبان استعمال کی اور احمدیوں کو دھمکی دی کہ اگر وہ اسلام کے دائرے میں داخل نہ ہوئے تو وہ ابدی لعنت کے شکار ہوں گے۔
اس کانفرنس کے شرکا دو ہزار تک جاپہنچے اور یہ سب لوگ اقصیٰ چوک تک آگئے جہاں مقامی مولویوں اور مقامی سیاستدانوں نے احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کیں۔ مقامی ایم این اے تیمور لالی نے احمدیوں کو آئین کے غدار قرار دیا اور دعوت دی کہ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو جائیں ورنہ وہ اسی طرح معاشرے سے کٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے۔
تحریک لبیک کا تین سو شرکا پر مبنی ایک جلوس بھی احمد نگر سے ربوہ کی طرف انتظامیہ کی اجازت کے بغیر چل پڑا۔مقامی انتظامیہ کو پُرتشدد واقعات رونما ہونے کے خطرے کے باعث اس ہجوم کو ربوہ سے باہر ہی روکنا پڑا۔ انتظامیہ سے مذاکرات کے بعد یہ ہجوم واپس چلا گیا۔
٭…٭…٭