مکتوب مشرق بعید(دسمبر۲۰۲۴ء)
مشرق بعیدکےچند اہم واقعات و تازہ حالات کا خلاصہ
جنوبی کوریا میں مختصر وقت کے مارشل لا سے صدر کی گرفتاری کے اعلان تک کے حالات
جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے منگل ۳؍دسمبر کی شب مارشل لاء نافذ کرنے کا حکم دیا تھا تاہم اس اعلان کے بعد ہزاروں لوگ پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کے لیے جمع ہو گئے اور اپوزیشن کے اراکین اسمبلی مارشل لاء ختم کروانے کے لیے ایمرجنسی ووٹ دینے پہنچے۔چند ہی گھنٹوں کے اندر صدر نے پارلیمنٹ کے ووٹ کو تسلیم کرتے ہوئے مارشل لاء ختم کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ اس کے بعد ملک میں صدر اور آرمی چیف کے خلاف بھرپور مظاہرے ہوئے۔جس میں صدر کو گرفتار کرنے اور سزا دینے پرزور دیا گیا۔ تاہم مارشل لاء لگانے کی کوشش کے چند دن بعد ہی صدر یون نے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے اقدامات پر قانونی اور سیاسی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ ۱۴؍ دسمبر کو قانون سازوں نے صدر کے صدارتی اختیارات کو معطل کرتے ہوئے، فوجی حکمرانی نافذ کرنے کی ناکام کوشش پر صدر کے مواخذے کے حق میں بھی ووٹ کیا۔ ۳۰۰؍ رکنی پارلیمان میں سے ۱۹۲؍ قانون سازوں نے وزیراعظم اور قائم مقام صدر ہان ڈک کے مواخذے کی تحریک کے حق میں ووٹ دے کر انہیں گھر بھیج دیا ۔ بعد ازاں عدالت نے جنوبی کوریا کے معطل صدر کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔ لیکن اس پر کس حد تک عمل ہوتا ہے یہ ابھی واضح نہیں۔ وزیر اعظم ہان ڈک سو اس وقت قائم مقام صدر بنے تھے، جب ۱۴؍ دسمبر کو صدر یون سوک یول کا مواخذہ کیا گیا تھا کیونکہ یون سک نے ۳؍ دسمبر کو مارشل لا نافذ کیا تھا، جس کے بعد ان کے صدارتی اختیارات معطل کر دیے گئے تھے۔
جنوبی کوریا میں آخری بار مارشل لاء ۱۹۷۹ء میں نافذ کیا گیا تھا جب ملک کے فوجی آمر پارک چنگ ہی کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ۱۹۸۷ء میں پارلیمانی جمہوریت بن جانے کے بعد سے مارشل لاء نہیں لگا۔
آسٹریلیا میں یہود مخالف لہر اور عبادت گاہ پر حملہ
آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں نامعلوم افراد نے جمعہ ۶؍دسمبر ۲۰۲۴ء کی صبح یہودیوں کی عبادت گاہ کو آگ لگا دی۔ صبح چار بج کر دس منٹ پر اڈاس اسرائیل نامی سیناگوگ کو اُس وقت آگ لگائی گئی جب کچھ افراد اندر عبادت میں مصروف تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ سیناگوگ کا زیادہ تر حصہ نذر آتش ہو گیا ہے تاہم واقعے میں کسی شخص کو بھی سنگین زخم نہیں آئے۔
سڈنی کے مضافاتی علاقے میں بھی یہودیوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح آسٹریلیا کے علاقہ ’نیو ساؤتھ ویلز‘ کی پولیس نے کہا ہے کہ ایک گاڑی کو آگ لگا دی گئی اور ایک مکان کی دیوار پر اسرائیل مخالف نعرہ لکھا ہوا تھا۔ تاہم آسٹریلیا کے حکام کے لیے پریشانی کی زیادہ بات یہ ہے کہ یہ اسرائیل کے خلاف تین ہفتوں کے دوران دوسرا واقعہ ہے۔
نیوزی لینڈ میں حکومت اور ماوری قبیلے کے درمیان تنازعات اور احتجاج
نیوزی لینڈ میں حکومت اور ماوری قبائل کے درمیان شدید تنائو اور احتجاج کی کیفیت ہے۔ اس ضمن میں ماوری قبائل نے کنگ چارلس سے نیوزی لینڈ کی سیاست میں مداخلت کی درخواست کی ہے۔ نیشنل آئی وی چیئرز فورم ، جو کہ ۸۰ سے زائد قبائلی راہنماؤں پر مشتمل ہے ، نے بادشاہ کو ایک خط لکھا تھا۔ ماوری قبائل کے نمائندوں نے کنگ چارلس III سے نیوزی لینڈ کی سیاست میں مداخلت کی درخواست کرتے ہوئےکہا ہے کہ وہ ماوری قبیلہ کے حقوق کا تحفظ کرے اور برطانوی حکومت اور ماقروری قبائل کے درمیان تحفظ کا جو معاہدہ قائم ہے اس کی خلاف ورزی نہ کی جائے نیز بادشاہ اس بات کو یقینی بنائے کہ نیوزی لینڈ کی حکومت برطانوی ولی عہد کی عزت کو کم نہ کرے۔ اس خط پر ۵۰۰ سے زائد افراد کے دستخط ہیں۔
پچھلے سال اقتدار سنبھالنے کے بعد سے، نیوزی لینڈ کی دائیں بازو کی اتحادی حکومت کی ماوری قبائل کے لیے نئی پالیسی حکمت عملی نے اب تک کے سب سے بڑے احتجاج کو جنم دیا ہے۔ اس احتجاج میں ماوری کے حقوق، ماوری راہنماؤں کی اجتماعی میٹنگز اور ویتنگی ٹریبیونل کے خلاف پالیسیوں کو واپس لینے کی التجا کی جا رہی ہے۔
معاہدہ ویٹنگی یا Treaty of Waitangi ایک معاہدہ ہے جو ۱۸۴۰ء میں ۵۰۰ سے زیادہ ماوری سرداروں اور برطانوی ولی عہد کے درمیان ہوا تھا اور یہ ماوری حقوق کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ماوری نیوزی لینڈ کی آبادی کا ۲۰؍ فیصدہیں اور انہیں صحت، مکانات کی ملکیت، روزگار کی شرح، تعلیم اور جیلوں کی تعداد میں غیر متناسب منفی نتائج کا سامنا ہے۔
نیوزی لینڈ کی اپوزیشن جماعتوں نے کنگ چارلس سے ماوری قبائل کی درخواست کی حمایت کی۔ تاہم وزیراعظم کرسٹوفر لکسن نے کہا کہ فورم کنگ چارلس III کو خط لکھنے کے لیے آزاد ہے۔
نیوزی لینڈ میں مقامی ماوری قبائل سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں نے پارلیمنٹ کے اندر بھی حکومتی پالیسیوں کے بارے میں احتجاج ریکارڈ کروایا ہے اور اپنے مخصوص ماوری انداز میں اس احتجاج ریکارڈ کروانے پر ساری دنیا میں اس کی تشہیر بھی ہوئی ہے۔ نیز بطور احتجاج سینکڑوں ماوری مظاہرین نے نیوزی لینڈ کے شمال سے دارالحکومت ویلنگٹن تک مارچ بھی کیا۔
چین نے نئی قسم کا جنگی بحری جہاز لانچ کر دیا ہے
چین نے نئی طرز کا طیارہ بردار بحری جہاز’’سیچوان‘‘ لانچ کر دیا ہے۔ چین کے اس نئے ’’اسالٹ شپ‘‘ میں ایسی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جس کے تحت لڑاکا طیارے الیکٹرومیگنیٹک فورس کے ذریعے براہ راست ہی اس جہاز کے ڈیک پر اتر اور پرواز کر سکیں گے۔ یہ بحری جہاز سمندر اور خشکی دونوں پر یکساں صلاحیت سے جنگی حملے کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ یہ اسالٹ شپ جمعہ ۲۷؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کو لانچ کیا گیا اور اس کی لانچنگ کی تقریب شنگھائی کے ہوڈونگ ژونگ ہوا شپ یارڈ میں منعقد ہوئی۔ یہ چینی بحریہ کا اب تک کا سب سے بڑا جنگی جہاز ہے۔ اس وقت چین ایٹمی توانائی سے چلنے والے طیارہ بردار بحری جہازوں کی تیاری پر بھی کام کر رہا ہے، تاکہ بحری جہازوں کو دور دراز علاقوں میں بغیر ایندھن بھرے تعینات کیا جا سکے۔
جنوبی کوریا میں مسافر طیارے کے حادثہ میں ۱۷۹؍ افراد کی ہلاکت
۲۹؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کے روز جنوبی کوریاکے موان انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر جیجو ایئر کے طیارہ حادثے میں ۱۷۹؍ افراد ہلاک ہوگئے تھے تاہم خوش قسمتی سے دو مسافروں کو بچا لیا گیا تھا ۔ حکام کے مطابق یہ حادثہ موان شہر کے ہوائی اڈے پر اس وقت پیش آیا جب ایک نجی ایئرلائن جیجو ایئر کا مسافر طیارہ رن وے سے پھسل کر کنکریٹ کی باڑ سے ٹکرا کر آگ کی لپیٹ میں آگیا۔ اطلاعات کے مطابق جیجو ایئر کا طیارہ تھائی لینڈ کے شہر بنکاک سے واپس جا رہا تھا اور لینڈنگ کے دوران حادثے کا شکار ہو گیا۔ طیارے کی تباہی کی ویڈیو سامنے آگئی ہے۔ جس میں طیارے کو رن وے پر پھسلنے کے بعد ایئرپورٹ کی دیوار سے ٹکراتے اور آگ کے گولے میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ حادثہ کی وجہ جہاز کے انجن میں پرندہ پھنسنا بتائی جا رہی ہے ۔ نیز حادثہ سے قبل طیارہ میں موجود ایک مسافر نے بھی اپنے ایک رشتہ دار کو پیغام بھیجا کہ پرندہ ونگ میں پھنس گیا ہے۔
جنوبی کوریا کی وزارت ٹرانسپورٹیشن کے اعداد و شمار کے مطابق یہ حادثہ ۱۹۹۷ء میں گوام میں کورین ایئر کے حادثے کے بعد جنوبی کوریاکی کسی بھی ایئرلائن کا بدترین حادثہ ہے جس میں ۲۰۰؍ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جنوبی کوریا کی حکومت نے سات روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا ہے۔
نئے سال کا آغاز دنیا میں سب سے پہلے مشرق بعید سے ہوا ۔ وہاں ہونے والی بعض تقریبات
دنیا میں سب سے پہلے نئے سال کا آغاز وسطی بحر الکاہل میں واقع جزائر پر مشتمل ملک کیریباتی سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے مختلف علاقوں میں نئے سال کا آغاز ہوتا ہے۔ نئے سال کے آغاز کے موقع پر مشرق بعید کے مختلف علاقوں میں تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر آکلینڈ اور سڈنی میں ۲۰۲۵ء کے نئے سال کے آغاز پر رات ۱۲؍ بجے رنگا رنگ آتشبازی کا مظاہرہ کیا گیا۔ خاص طور پر سڈنی آسٹریلیا میں ہاربر برج پر شاندار آتشبازی کے ساتھ سال نو کا استقبال کیا گیا۔ دس لاکھ سے زائد افراد نے اس مظاہرہ کو دیکھا۔ سڈنی کی آتشبازی کا منظر عالمی سطح پر مشہور ہے اور ہر سال سیاحوں کی بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ۲۰۲۵ءکے آغاز پر سڈنی کا آسمان تقریباً بیس منٹ تک رنگ و روشنی سے جگمگاتا رہا۔
چین میں نئے سال کا منفرد انداز میں شاندار استقبال کیا گیا۔ اس موقع پر ڈرون شو کا اہتمام کیا گیا۔ بیجنگ میں دس ہزار سے زائد ڈرونز کی مدد سے آسمان پر ایک ڈریگن کی شبیہ بنائی گئی، جو روشنیوں کے جھرمٹ میں فضا میں تیرتا دکھائی دیا۔ اس شاہکار میں آسمان پر ایک جادوئی پورٹل کھلتا دکھایا گیا، جس سے ڈریگن نہایت خوبصورتی سے گزرتا ہوا نظر آیا۔ اس شو میں ٹیکنالوجی کے استعمال کا جدید ترین نظارہ پیش کیا گیا جسے ساری دنیا میں سراہا گیا۔
جاپان میں بھی نئے سال کو اپنے انداز میں خوش آمدید کہا گیا ۔ نگااو کا میں دنیا کا سب سے بڑا آتشبازی بم روشن کیا گیا۔ یہ فیسٹیول نگااوکا شہر کی دوسری جنگ عظیم کے بعد بحالی اور ۲۰۰۴ء کے نیگاتا زلزلے کے بعد اس کی دوبارہ آبادی کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ ہر سال ایک ملین سے زیادہ لوگ اس فیسٹیول کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں اس فیسٹیول کے دوران آتش بازی کا خاص مظاہرہ کیا جا تاہے۔ اور لوگ آتشبازی کے جادو سے لطف اندوز ہوتے ہیں، ماضی کو یاد کرتے ہیں اوراس فیسٹیول کو مناتے ہیں۔ جاپان میں سال ۲۰۲۵ء کو سانپ کے سال کے طور پر منایا جا رہا ہے۔
ہانگ کانگ، سنگا پور،ملائیشیا اور فلپائن سمیت دیگر مشرق بعید کے ممالک میں بھی سال ۲۰۲۵ء کو خوش آمدیدکہنے کے لیے آتشبازی اور تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔
(محمد فاتح ملک)
مزید پڑھیں: مکتوب افریقہ (دسمبر۲۰۲۴ء)