متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب(دورہ امریکہ اور گوئٹے مالا۔ اکتوبر نومبر ۲۰۱۸ء کے چند واقعات۔ حصہ ہفتم)

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز

قبولیتِ دعا کا نشان

میں ۱۹؍ سالہ عبد اللطیف سے اُن کی حضورِانور سے پہلی ملاقات کے ایک گھنٹہ بعد، ملا جو کہ نائیجیریا میں پیدا ہوئے تھے لیکن پلے بڑھے امریکہ میں تھے۔

انہوں نے بتایا کہ کیسے اُنہوں نے حضورِانور سے ملاقات کے بابرکت اثرات فوراً محسوس کیے۔ عبد اللطیف نے بتایا کہ اپنی ملاقات کے دوران حضورِانور نے مجھ سے پوچھا کہ میں کیا کر رہا ہوں، میں نے انہیں بتایا کہ میں کمپیوٹر سائنس میں تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔ اس وقت میرے والد نے حضور سے میرے لیے ملازمت کے حصول کے لیے دعا کی درخواست کی اور حضور نے دعا کی۔بہرحال، ملاقات کے چند منٹ بعد میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک احمدی بھائی میرے پاس آئے اور ہم نے گفتگو شروع کی۔ میرا (تعلیمی ) پس منظر جاننے کے بعد انہوں نے مجھے San diago میں گوگل کے لیے انٹرن شپ کی پیشکش کی! یہ ناقابل یقین تھا کہ چند منٹ کے اندرہی اللہ تعالیٰ نے حضورِانور کی دعا کو میرے حق میں قبول فرما لیا۔

اس کے بعد، حضورِانور سے ملاقات کے مجموعی تجربے کو بیان کرتے ہوئے عبد اللطیف نے بتایا کہ ملاقات سے پہلےباہر سردی تھی جس کی وجہ سے میں کانپ رہا تھا، لیکن جیسے ہی میں حضور سے ملا، مجھے ایک ایسی روحانی حدّت کا احساس ہوا جو حضورِانور سے میری طرف آتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ صرف حضور کے ساتھ مصافحہ کرنا ہی ایک غیرمعمولی احساس ہےاور مجھے حیرت ہوتی ہے کہ حضورِانور کتنے عاجز ہیں اور ہم سب کے ساتھ کس قدر محبت سے پیش آتے ہیں۔ملاقات کے بعد دس یا پندرہ منٹ تک مجھ پر ایک کیفیت طاری رہی کیونکہ یہ ایسا ہی اثر انگیز روحانی تجربہ تھا۔

اذان دینا

اگلی صبح مورخہ ۲۷؍اکتوبر ۲۰۱۸ء کو میری ملاقات ۳۱؍ سالہ جڑواں بھائیوں سید اویس احمد اور سید نواز احمد سے ہوئی۔ دونوں ڈاکٹر تھے اور وقف نو سکیم کے ممبر تھے۔ ان کا تعلق ربوہ سے تھااور ایک دہائی قبل امریکہ منتقل ہو گئے تھے۔ گذشتہ شام، نواز کو حضورِانور کے سامنے مغرب اور عشاء کی نماز کی اذان دینے کا موقع ملا۔ اذان کے بعدحضورِانور نے انہیں محراب کی طرف بلایا جہاں وہ کھڑے تھے اور چند لمحے ان سے بات کی۔ نواز نے اس کے بارے میں بتایا کہ اذان دیتے وقت میں مسلسل کانپ رہا تھا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ حضورِانور موجود ہیں اور جب میں نے ’حَیَّ عَلَی الْفَلَاح‘ کہا تو میں نے دیکھا کہ حضورِانور سیدھے میری طرف دیکھ رہے ہیں! مجھے نہیں معلوم کہ میں نے اذان کیسے مکمل کی کیونکہ میں بہت گھبرایا ہوا تھا۔ جب اذان مکمل ہوئی تو میں اقامت پڑھنے کی تیاری کر رہا تھا کہ اچانک حضورِانور نے مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں سے ہوں؟ سب کے سامنے حضورِانور نے محبت سے میرا بازو تھاما اور میرے خاندان کے بارے میں دریافت فرمایا۔ اس وقت میں مسلسل کانپ رہا تھا۔ ان لمحات کو بیان کرنا مشکل ہے۔ جب حضورِانور نے مجھ سے بات کی تو ایسا محسوس ہوا جیسے اذان دیتے وقت جو میری عام گھبراہٹ تھی وہ اب ایک مکمل shock میں تبدیل ہو گئی ہے! یہ ناقابل یقین تھا۔ مسجد سینکڑوں لوگوں سے بھری ہوئی تھی لیکن حضورِانور مجھ سے ہی بات کر رہے تھے۔ اسے میری زندگی کا بہترین لمحہ کہنا بھی اس کا حق ادا نہیں کرتا۔

نواز کے جڑواں بھائی اویس نے مجھے بتایا کہ ان کے بھائی کے اس غیر متوقع انداز میں حضور سے ملنے کے موقع پر انہیں کیسا محسوس ہوا؟

میں مسجد کے پیچھے سے دیکھ رہا تھا اور مجھے بے حد جذباتی اور پُراثر لگا کہ میرے جڑواں بھائی کو براہِ راست خلافت کی محبت کا فیض مل رہا ہے۔ جب حضورِانور موجود ہوتے ہیں تو آپ باقی دنیا کو بالکل بھول جاتے ہیں۔ جب بھی ہم حضورِانور کو مسجد یا دفتر کی طرف جاتے دیکھتے ہیں تو یہ ناقابل یقین محسوس ہوتا ہے اور یہ جذبات ایسے ہیں جن کا مجھے پہلے کبھی تجربہ نہیں ہوا تھا۔ حضورِانور کی موجودگی آپ کی توجہ دین کی طرف مرکوز کر دیتی ہے اور آپ کو یہ احساس دلاتی ہے کہ آپ کا حقیقی مقصد کیا ہے۔

دنیا کے مختلف کونوں سے لوگ خلیفہ وقت سے ملاقات کے لیے سفر کرتے ہیں۔ انگلینڈ میں تقریباً ہر روز ہی لوگ بیرون ملک سے حضور سے ملاقات کے لیے آتے ہیں۔کچھ لوگوں کے لیے سفر کرنا آسان ہوتا ہے کیونکہ ان کے پاس صحت اور وسائل ہوتے ہیں لیکن کچھ کے لیے یہ بے حد مشکل (challenging) ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود میں نے آج تک کسی احمدی کو ایسا نہیں پایا جس کے دل میں حضورِانور سے زیادہ سے زیادہ ملاقات کی شدید خواہش نہ ہو۔

ہیوسٹن میں، مَیں ایک ایسی فیملی سے ملا جن کے لیے یہاں آنا تقریباً ناممکن تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں اور دل کی تڑپ کو شرف قبولیت بخشا اور اس دن انہیں حضور سے ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔میں نے اس فیملی کے دو افراد سے ملاقات کی: حفیظ احمد (عمر۴۰؍سال) اور ان کے چار سالہ بیٹے رشید احمد سےجو پہلی بار حضور سے ملے تھے۔ یہ فیملی ۱۴۰۰؍ میل کا سفر کر کے یوٹا(Utah) سے اپنے خلیفہ سے ملنے آئی تھی۔یہ واضح طور پر نظر آ رہا تھا کہ چھوٹے رشید کو شدید معذوری کا سامنا تھا۔ یہ معصوم بچہ وہیل چیئر پر تھا اور اس کے جسم کے مختلف حصوں میں ٹیوبز لگی ہوئی تھیں۔ان کے والد نے بتایا کہ ان کا بیٹا مکمل طور پر مفلوج ہے اور اسے سیکھنے سے متعلق بھی شدید معذوری (severe learning disability) ہے، اور وہ پہلے ہی کئی خطرناک سرجریوں سے گزر چکا ہے، جن میں دماغ کا آپریشن، ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن، اور دیگر شامل ہیں۔

وہ کھانے پینے کے قابل نہیں تھا اور اس کی حالت بہتر ہونے کی بجائے مسلسل بگڑ رہی تھی۔

حفیظ احمد نے کہاکہ میرا بیٹا زیادہ سمجھ نہیں سکتا بلکہ شاید کچھ بھی نہیں۔ لیکن جب بھی وہ MTA پر حضور کو دیکھتا ہے، وہ ہمیشہ محبت اور خوشی کے ساتھ حضور کہتا ہے۔ اس لیے جب ہمیں معلوم ہوا کہ حضور ہیوسٹن تشریف لا رہے ہیں، تو ہماری گہری دلی تمنا تھی کہ رشید حضور سے ملے تاکہ حضور اس کے لیے دعا کریں اور وہ حضور کی برکت سے مستفیض ہو۔

حفیظ احمد نے مزید کہا کہ رشید کے ساتھ ہوائی جہاز کا سفر کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب میں نے اس کے ڈاکٹر کو بتایا کہ ہم ہیوسٹن جانا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ خطرناک ہو سکتا ہے اور آسان نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ ہمیں ہر وقت آکسیجن سپلائی اپنے ساتھ رکھنی ہوگی۔ حفیظ صاحب نے بتایا کہ سفر کے انتظامات سے پہلے انہیں ہوائی سفر کے اخراجات اور آکسیجن سپلائی کے اخراجات کے لیے رقم کا بندوبست کرنا تھا۔ جیساکہ وہ کام نہیں کر رہے تھے اس لیے ان کے پاس اس وقت رقم موجود نہیں تھی۔لیکن ہر قدم پر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے افضال اور جماعت کے دوسرے افراد کی محبت مشاہدہ کی۔ حفیظ احمد نے کہا کہ میرے پاس یہاں آنے کے لیے رقم نہیں تھی، اس لیے میں مسلسل دعا کرتا رہا کہ کوئی معجزہ ہو جائے۔ پھر کچھ دن پہلے، میرا ایک کار حادثہ ہوا اور دوسرے شخص نے اپنی غلطی تسلیم کی۔ انہوں نے مجھے ایک ہزار ڈالربطور معاوضہ(compensation) ادا کیے، اور جب میں نے یہ رقم دیکھی تو مجھے بے حد خوشی ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ہمارے لیے راستہ کھول دیا۔ گاڑی کی مرمت کروانے کی بجائے میں نے ہیوسٹن آنے کے لیے ہوائی جہاز کے ٹکٹ خرید لیے۔

حفیظ احمد نے مزید کہا کہ علاوہ ازیں آکسیجن سپلائی کی قیمت مزید ۴۹۵ڈالرز تھی جو کہ میرے پاس نہیں تھے، لیکن احمدی بہت مہربان اور محبت کرنے والے ہیں۔ مقامی جماعت کے افراد نے مل کر یہ رقم ادا کر دی۔ اس کے بعدکچھ احمدیوں نے جو کہ ہیوسٹن ہی آ رہے تھے اسی فلائیٹ پر بکنگ کروالی تاکہ وہ رشید کی وہیل چیئر، مشینیں اور سامان لے جانے میں ہماری مدد کر سکیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی یہ محبت اور جذبہ کتنا خوبصورت ہے۔

فیملی جہاز میں سوار ہو گئی لیکن پرواز کے دوران جب ان کی آکسیجن سپلائی کی بیٹری خطرناک حد تک کم ہو گئی تو انہیں شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

حفیظ احمد نے بتایا کہ ہمیں دو فلائیٹس لینی تھیں اور دونوں کے درمیان کوئی وقفہ نہیں تھا۔ پہلی فلائیٹ کے دوران جلد ہی یہ ظاہر ہو گیا کہ بیٹری دوسری فلائیٹ تک نہیں چل پائے گی۔ ہم دل شکستہ ہو گئے اور سوچا کہ ہمیں ایئرپورٹ پر رکنا پڑے گا تاکہ آکسیجن سپلائی کو چارج کریں جس کی وجہ سے ہم اگلی فلائیٹ اور حضور سے ملاقات سے محروم رہ جائیں گے۔ یہ حقیقۃًہمارے لیے ایک دل توڑ دینے والا لمحہ تھا۔ لیکن عین اسی وقت اللہ تعالیٰ دوبارہ ہماری مدد کو آیا۔ جیسے ہی ہم پہلی فلائیٹ سے اترےہمیں معلوم ہوا کہ ہماری اگلی فلائیٹ میں تاخیر ہو گئی ہے جسے سن کر ہم بہت خوش اور مطمئن ہو ئے۔ ہم نے آکسیجن سپلائی کی بیٹری چارج کی اور وقت پر دوسری فلائیٹ میں سوار ہو گئے۔ الحمدللہ

حفیظ احمد نے جو کچھ بتایا وہ بتانے کے بعد ایک ویڈیو دکھائی جو انہوں نے جہاز میں بنائی تھی۔ اس ویڈیو میں رشید اپنی والدہ کی گود میں تھا جبکہ کئی مشینیں اور تاریں اس سے منسلک تھیں۔ اپنے سفر کی داستان سنانے کے بعدحفیظ احمد اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور انہوں نے بتایا کہ ان کے خواب پورے ہو گئے اور چند لمحے پہلے وہ حضور سے ملاقات کی سعادت حاصل کر چکےہیں۔ رشید کی طرف دیکھتے ہوئے، ان کے والد حفیظ احمد نے کہا کہ میں وہ لمحہ کبھی نہیں بھول سکتا جب میرا بیٹا حضور سے ملا اور ان کی محبت اور شفقت حاصل کی۔ حضور نے اسے اتنی شفقت اور توجہ دی کہ میں اسے کبھی نہیں بھول سکوں گا اور ہمیشہ شکر گزار رہوں گا۔ آپ کو رشید کا چہرہ دیکھنا چاہیے تھا جب اس نے حضور کو روبرو دیکھا! اس کا پورا چہرہ خوشی سے جگمگا اٹھا تھا اور اس نے اپنے ہی ہاتھ کو چوم لیا تھا جو یقینی طور پر اس کا ہمیں بتانے کا طریقہ تھا کہ وہ بھی حضور کے ہاتھ کوویسے چومنا چاہتا تھا جیسا کہ میں نے چوما تھا۔

یہ چند لمحے انتہائی جذباتی تھے۔ میں نے سوچا کہ مخلص احمدی مسلمانوں کو اپنے خلیفہ سے ملنے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔ بالکل وہی بات جو میرے ذہن میں آئی، اسے بیان کرتے ہوئے حفیظ احمد نے کہا کہ یہاں آنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا، لیکن خلیفۃ المسیح سے ملاقات اور ان کی دعائیں اور برکتیں حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی چیلنج بڑا نہیں ہوتا۔

(مترجم:طاہر احمد۔ انتخاب:مظفرہ ثروت)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مصروفیات

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button