غزوہ ذی قرد، سریہ حضرت اَبان بن سعید بطرف نجد اور غزوہ خیبر کے تناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۳۱؍جنوری ۲۰۲۵ء
٭…آپؐ نے فرمایا کہ مَلَكْتَ فَاسْجِحْ کہ تم نے اُن پر قابو پا لیا ہے تو نرمی اختیار کرو
٭… درحقیقت الله تعالیٰ نے اُسی وقت ہی فتح خیبر کا وعدہ فرما دیا تھا جب صلح حدیبیہ سے واپسی پر مکّہ اور مدینہ کے درمیان سورۃ الفتح نازل ہوئی
٭…آنحضرتؐ نے فرمایا کہ جو مالِ غنیمت کی غرض سے نکل رہے ہیں، وہ میرے ساتھ نہ نکلیں،
صرف وہ لوگ میرے ساتھ روانہ ہوں جو صرف جہاد میں رغبت رکھتے ہیں
٭… مکرم محمد اشرف صاحب آف منڈی بہاؤالدین، مکرم حبیب محمد شاتری صاحب نائب امیر دوم کینیا
اور مکرم انوبی مدینگو صاحب آف زمبابوے کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳۱؍جنوری۲۰۲۵ء بمطابق ۳۱؍ صلح ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۳۱؍جنوری ۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مکرم عبد الباری ملک صاحب آف کینیڈا کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعدحضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: گذشتہ جمعہ
غزوہ ذی قرد کا ذکر ہو رہا تھا۔
جیسا کہ بتایا تھا کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اِس غزوہ میں جانے سے پہلےچند صحابہ ؓکو دشمن کی طرف روانہ فرمایا تھا اور آپؐ پھر اِن کے پیچھے اپنا لشکر لے کر روانہ ہوئے۔
اِس ضمن میں مزید لکھا ہے کہ جب آنحضرتؐ اور صحابہؓ آئے تو دشمن کے لشکر نے اِنہیں دیکھا اور وہ بھاگ گئے۔ جب مسلمان دشمن کے پڑاؤ کی جگہ پر پہنچے تو حضرت ابو قتادہ رضی الله عنہ کا گھوڑا وہاں موجود تھا، جس کی کُونچیں کٹی ہو ئی تھیں، ایک صحابی نے کہا کہ یا رسول اللهؐ! ابو قتادہؓ کے گھوڑے کی کُونچیں تو کٹی ہوئی ہیں۔ آنحضورؐ اُس کے پاس کھڑے ہوئے اور دو مرتبہ فرمایا کہ تیرا بھلا ہو! جنگ میں تیرے کتنے دشمن ہیں۔ پھر رسول اللهؐ اور صحابہؓ آگے چل دیے اور یہاں تک کہ اُس جگہ پہنچے جہاں ابو قتادہؓ اور مسعدہ نے کشتی کی تھی (گذشتہ خطبہ میں اس کے بارہ میں بیان ہوا تھا) تو اُنہوں نے سمجھا کہ ابو قتادہؓ چادر میں لپٹے پڑے ہیں۔ایک صحابی نے عرض کی کہ یا رسول اللهؐ! لگتا ہے کہ ابو قتادہؓ شہید ہو گئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ
الله ابو قتادہ پر رحم کرے! اُس ذات کی قسم !جس نے مجھے عزت بخشی ہے، ابو قتادہ تو دشمن کے پیچھے ہے اور رِجز پڑھ رہا ہے۔
حضرت ابو قتادہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ کے لشکر نے جب میرے گھوڑے کو دیکھا کہ اِس کی کُونچیں کٹی ہوئی ہیں اور مقتول کو میری چادر میں لپٹے ہوئے دیکھا تو اُنہوں نے سمجھا کہ شاید مَیں شہید ہو گیا ہوں۔حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ جلدی سے آگے بڑھے اور چادر ہٹائی تو مسعدہ کا چہرہ دیکھا۔ اِن دونوں نے کہا کہ الله اکبر! الله اور اُس کے رسولؐ نے سچ کہا۔ یا رسول اللهؐ یہ مسعدہ ہے، اِس پر صحابہؓ نے بھی تکبیر کہی اور پھر تھوڑی دیر بعد ہی حضرت ابو قتادہ ؓاونٹنیاں ہانکتے ہوئے آنحضرتؐ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو گئے۔
آپؐ نے فرمایا کہ اَے ابو قتادہ !تمہارا چہرہ کامیاب ہو گیا ۔ابو قتادہ گُھڑ سواروں کے سردار ہیں۔ اَے ابو قتادہ! الله تم میں برکت رکھ دے۔ دوسری روایت میں ہے کہ تمہاری اولاد اور اولاد کی اولاد میں برکت رکھ دے۔
پھر آپؐ نے فرمایاکہ اَے ابو قتادہ یہ تمہارے چہرہ پر کیا ہوا ہے؟ وہ کہنے لگے کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں! مجھے ایک تیر لگا تھا، اُس ذات کی قسم! جس نے آپؐ کو عزت بخشی، میرا خیال تھا کہ مَیں نے تیر نکال دیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ ابو قتادہ میرے قریب آؤ۔ مَیں قریب ہوا تو آپؐ نے نرمی سے تیر نکال دیا اور اپنا لُعابِ دہن لگایا اور اپنا ہاتھ اُس پر رکھا۔وہ کہتے ہیں کہ
اُس ذات کی قسم! جس نے آپؐ کو نبوت عطا کی، مجھے یوں لگتا تھا کہ جیسے مجھے کوئی چوٹ ہی نہ لگی ہو اور نہ زخم آیا ہو۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللهؐ نے جب حضرت ابو قتادہ ؓ کو دیکھا تو فرمایا کہ اے الله! اِس کے بالوں اور اِس کی جِلد میں برکت رکھ دے۔ اور فرمایا کہ تمہارا چہرہ کامیاب ہو گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے عرض کیا کہ یا رسول اللهؐ! آپؐ کا چہرہ کامیاب ہو گیا۔ پھر جب ستّر سال کی عمر میں آپؓ کی وفات ہوئی ، تب بھی کہتے ہیں کہ وہ چہرے سے پندرہ سال کے لگتے تھے۔
رسول اللهؐ کے ذو القرد پہنچنے کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ حضرت سلمہؓ کہتے ہیں کہ آپؐ عشاء کے وقت پہنچے اور چشمہ پر پڑاؤ ڈالا، جہاں مَیں نے دشمن کو روکا تھا، آپؐ اونٹنیاں اور وہ ہر چیز جو مَیں نے دشمن سے چھینی تھی، قبضہ میں کر چکے تھے۔ حضرت بلالؓ نے اُن اونٹوں میں سے ایک اونٹ ذبح کیا، جو دشمن سے چھینے گئے اور آنحضرتؐ کے لیے اُس کا کلیجہ اور کوہان بھونی۔ حضرت سَعْد بن عُبَادہؓ نے کھجوروں سے لدے ہوئے دس اونٹ بھیجے جو آپؐ کو ذو القرد مقام پر ملے۔
حضرت سلمہؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے عرض کیا کہ مَیں نے دشمن کو پانی سے روکا ہوا تھا اور وہ پیاسے تھے، آپؐ مجھے ایک سَو مجاہدین کے ساتھ روانہ کریں، مَیں اِن کا پیچھا کر کے اِن کے ہر مخبر کو بھی قتل کر دوں گا۔آپؐ مسکرانے لگے یہاں تک کہ آگ کی روشنی میں آپؐ کے دندانِ مبارک نظر آنے لگے اور فرمایا کہ سلمہ! کیا تم ایسا کر سکتے ہو؟ مَیں نے کہا کہ آپؐ کو عزت دینے والے کی قسم! جی ہاں۔
آپؐ نے فرمایا کہ مَلَكْتَ فَاسْجِحْ کہ تم نے اُن پر قابو پا لیا ہے تو نرمی اختیار کرو۔ یہ عرب کے محاوروں میں سے ایک محاورہ ہے کہ بہترین معافی یہی ہے کہ نرمی اختیار کرو اور سختی سے کام نہ لو۔
اِس غزوہ کے لیے رسول اللهؐ بدھ کی صبح روانہ ہوئے اور آپؐ نے ایک رات اور ایک دن ذو القرد میں قیام فرمایا تاکہ دشمن کی کوئی خبر مل سکے، پھر سوموار کے دن مدینہ واپس تشریف لائے، یوں آپؐ پانچ راتیں مدینہ سے باہر رہے۔
اب ایک سریہ کا ذکر کروں گا، یہ
سریہ حضرت اَبان بن سعید بطرف نجد
کہلاتا ہے۔
یہ سریہ محرم ۷؍ہجری میں ہوا، جبکہ ایک روایت میں اِس کی تاریخ جمادی الثّانی ۷؍ہجری بیان ہوئی ہے، حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی اِس کو محرم ۷؍ہجری میں لکھا ہےجو زیادہ قرینِ قیاس ہے کیونکہ روایات میں ذکر ہے کہ خیبر کی طرف روانگی سے قبل مدینہ سے نجد کی طرف حضرت اَبان بن سعید ؓکو بھیجا اور خیبر کی طرف روانگی محرم سات ہجری میں ہوئی تھی۔
حضرت اَبانؓ کے والد اکابر قریش میں سے تھے، اُن کے بھائی عَمرو اور خالد پہلے مسلمان ہو گئے تھے اور حبشہ ہجرت کرنے والوں میں شامل تھے۔اَبان جنگِ بدر میں مشرکین کی طرف سے شامل ہوئے تھے۔ اُنہوں نے صلح حدیبیہ کے دوران حضرت عثمانؓ کو پناہ دی تھی۔ عَمرو اور خالد حبشہ سے واپس آئے تو اُنہوں نے اَبان کو پیغام بھیجا، یہاں تک کہ تینوں اکٹھے خیبر کے ایام میں رسول اللهؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اَبان نے اسلام قبول کیا۔ رسول اللهؐ کی وفات کے وقت اَبان بحرین پر عامل تھے، اِس کے بعد وہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے اور شام چلے گئے۔ آپؓ تیرہ ہجری میں شہید ہوئے، جبکہ ایک روایت کے مطابق ستائیس ہجری میں حضرت عثمانؓ کی خلافت میں وفات پائی۔
اِس سریہ کا ذکر صحیح بخاری میں اِس طرح آیا ہے کہ رسول اللهؐ نے حضرت اَبانؓ کو ایک سریہ میں مقرر کر کے مدینہ سے نجد کی طرف بھیجا۔ حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ پھر اَبان اور اِن کے ساتھ نبیؐ کے پاس خیبر میں آئے بعد اِس کے کہ آپؓ نے اِس کو فتح کر لیا تھا۔
پھر ایک بڑے مشہور غزوے کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے، جو
غزوۂ خیبر
کہلاتا ہے۔ خیبر ایک وسیع سبزہ زار ہے جوچشموں اور بکثرت پانیوں سے سیراب ہے اور جزیرۂ عرب میں کھجوروں کے سب سے بڑے نخلستان میں شمار کیا جاتا ہے۔ اِس کی زرخیزی کا اندازہ اِسی سے کیا جا سکتا ہے کہ خیبر کی صرف ایک وادی جو کتیبہ کے نام سے موسوم ہے، اُس میں چالیس ہزار کھجوروں کے درخت تھے۔ تاریخی روایت کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے یہاں بنی اسرائیل کے یہود آباد تھے، بعض مؤرخین کے مطابق بخت نصر کے زمانے میں یہود یہاں آباد ہوئے، کچھ اور روایات بھی ہیں، جن سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ خیبر میں قدیم سے اور بڑے بڑے قلعے بنا کر یہود آباد تھے ۔ عبرانی زبان میں خیبر کے معنی بھی قلعے کے ہیں۔ یہود کے کچھ قبائل مدینہ میں بھی آباد تھے، لیکن خیبر کے یہود کو ایک بات ممتاز کرتی تھی کہ یہاں کے یہود باقی تمام یہود سے شجاعت اور جنگ میں استقلال دکھانے میں بڑھ کر تھے اور اُن میں باہم اتحاد بھی دوسروں کی نسبت زیادہ تھا، جس کی وجہ سے یہ خطۂ عرب میں قوت و طاقت کی ایک اکائی سمجھی جانے والی قوم تھی۔
مدینہ کے یہود ہوں یا خیبر کے یہود ، آنحضرتؐ اور اسلام کے متعلق اُن کی سازشیں اور ریشہ دوانیاں باغیانہ حدّ تک بڑھی ہوئی تھیں، بُغض و عداوت میں بڑھتی ہی چلی جانے والی اِس قوم نے اسلام اور نبیٔ اکرمؐ کی ذاتِ مبارک کو بھی ختم کرنے میں اپنی تمام تر قوتوں کو بروئے کار لانے میں کوئی کمی نہیں کی۔جبکہ اِس کے برعکس
آنحضرتؐ نے مدینہ کے یہود کے ساتھ ہمیشہ نرمی کا برتاؤ کیا، اُن کے ساتھ صلح کے معاہدے کیے اور جب کبھی بھی معاہدے کو توڑ دیتے یا خلاف ورزی کرتے تو آپؐ کی پہلی کوشش درگزر اور عفو کی ہوتی تھی ،
یہاں تک کہ اِن لوگوں نے نبیٔ اکرمؐ کو قتل کرنے کی متعدد مرتبہ کوشش کی۔ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بیرونی طاقتوں کو مدینہ پر حملہ کرنے میں تعاون کیا، جس کے بدلہ میں سزا کے طور پر اُن تمام یہود کو سخت سے سخت سزا بھی دی جاتی، تو وہ عدل و انصاف کے عین مطابق ہوتی۔ لیکن
آنحضرتؐ کا ہر درجہ کا عفو اور رحمت کا یہ عالَم تھا کہ پھر بھی اُن کے جان و مال کو یوں امان دی کہ مدینہ سے جلا وطن کر دیا کہ جو کچھ ساتھ لے کر جا سکتے ہو لے جاؤ۔
اور جو حُسن و احسان اور عفو و درگزر کا سلوک آنحضرتؐ نے اِن یہودِ مدینہ کے ساتھ کیا تھا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خیبر میں آباد ہو جانے کے بعدیہ لوگ اسلام اور بانیٔ اسلام کے حق میں صلح جوئی اور امن و سلامتی کے ماحول میں رہتے۔
مدینہ سے جلا وطنی کے بعد مدینہ کے یہود کی ایک تعداد خیبر میں آباد ہو گئی تھی، لیکن خیبر جو کہ پہلے ہی ایک بہت بڑی حربی طاقت تھی، اب مسلمانوں کے خلاف خطرناک منصوبہ سازیوں کا مرکز بن گیا۔ تو یہ وہ خاص پسِ منظر تھا کہ نبیٔ کریمؐ نے خدائی اشاروں کے تحت یہ فیصلہ کیا کہ خیبر کی طرف پیش قدمی کی جائے۔
حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللهؐ نےحدیبیہ سے واپس آنے کے قریباً پانچ ماہ بعد یہ فیصلہ کیا کہ یہودی خیبر سے، جو مدینہ سے چند منزل کے فاصلہ پر تھا اور جہاں سے مدینہ کے خلاف آسانی سے سازش کی جا سکتی تھی، نکال دیے جائیں۔ چنانچہ آپؐ نے سولہ سَو اصحاب کے ساتھ اگست ۶۲۸ء میں خیبر کی طرف کُوچ فرمایا۔
بنیادی طور پر صلح حدیبیہ ایک بہت بڑی فتح تھی۔ قرآنِ کریم نے اِسے ایک فتحِ عظیم سے تعبیر کیا ہے جیسا کہ فرمایا کہ اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا کہ یقیناً ہم نے تجھے ایک کھلی کھلی فتح عطا کی ہے اور فتح مبین کا یہ وہ دروازہ تھا کہ جس سے گزرتے ہوئے خیبر اور مکّہ جیسی عظیم الشّان فتوحات نصیب ہوئیں۔
درحقیقت الله تعالیٰ نے اُسی وقت ہی فتح خیبر کا وعدہ فرما دیا تھا جب صلح حدیبیہ سے واپسی پر مکّہ اور مدینہ کے درمیان سورۃ الفتح نازل ہوئی۔
رسول اللهؐ نے خیبر کی طرف جانے کے لیے جب منادی کروائی تو یہ اعلان کروایا کہ صرف وہی ساتھ چلیں گےجو صلح حدیبیہ میں شریک تھے۔ ایک روایت کے مطابق آنحضرتؐ نے فرمایا کہ
جو مالِ غنیمت کی غرض سے نکل رہے ہیں، وہ میرے ساتھ نہ نکلیں،
صرف وہ لوگ میرے ساتھ روانہ ہوں جو صرف جہاد میں رغبت رکھتے ہیں۔
علّامہ ابنِ اسحٰق اور ابنِ سَعْد نے بیان کیا ہے کہ
سب سے پہلی مرتبہ غزوۂ خیبر میں پرچم کا ذکر ملتا ہے، اِس سے پہلے صرف چھوٹے جھنڈے ہوتے تھے۔
آپؐ کا پرچم سیاہ رنگ کا تھا، جو حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی چادر سے بنایا گیا تھا، اِس کا نام عُقَاب تھا۔روایت میں حضرت علیؓ کو بھی ایک جھنڈا دیا جانے کا ذکر ملتا ہے لیکن وہ جھنڈا خیبر میں دیا گیا تھا۔
اِس سفر میں اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہؓ آپؐ کے ہمراہ تھیں۔ ایک روایت کے مطابق چھ، سات صحابیات بھی اِس مہم میں آپؐ کے ساتھ ہو لیں جبکہ ایک اَور روایت کے مطابق بیس صحابیات اِس غزوہ میں شامل ہوئیں۔
خیبر کے یہود کو جب مسلمانوں کے لشکر کا علم ہوا تو اُنہوں نے ایک میٹنگ کی، جس میں اسلامی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے مشاورت ہوئی۔ جس میں یہود کے راہنماؤں کی طرف سے مختلف قسم کی تجاویز پیش ہوئیں البتہ سب راہنماؤں کا اِس بات پر اتفاق ہوا کہ ایک وفد تیار کر کے ارد گرد کے جنگجو قبائل کی طرف بھیجا جائے تاکہ اِن سے فوجی مدد کی درخواست کی جائے۔ چنانچہ چودہ افراد پر مشتمل ایک وفد تیار ہو ا ، جس کی قیادت بعض روایات کے مطابق خیبر کا رئیسِ اعظم کنانہ خود کر رہا تھا۔ یہ وفد قبیلہ بنو اسد، غطفان اور دیگر قبائل کی طرف گیا اور خیبر کی ایک سال کی پیداوار کا نصف دینے کی پیشکش پر فوجی امداد کی درخواست کی۔قبیلہ مُرّہ نے دُور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اِس طرح کی مدد کرنے سے انکار کر دیا البتہ بنو اسد اور بنو غطفان جیسے جنگجو قبائل نے ایک ہزار مسلّح فوجیوں پر مشتمل لشکر فوری روانہ کر دیا اور چار ہزار کے لشکر کی مزید امداد کا وعدہ کر تے ہوئے اِس کی تیاری بھی شروع کر دی۔
حضورِ انور نے ارشاد فرمایا کہ مزید اِس کی تفصیل ہے جو ان شاء الله تعالیٰ آئندہ بیان کر دوں گا۔
خطبہ ثانیہ سے قبل حضورِ انور نے درج ذیل تین مرحومین کا ذکرِ خیر فرماتے ہوئے اِن کی نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان بھی فرمایا۔
۱۔ مکرم محمد اشرف صاحب ابن مکرم محمد بخش صاحب آف منڈی بہاؤالدین: گذشتہ دنوں بقضائے الٰہی وفات پائی۔ مرحوم کی تین بیٹیاں اور چھ بیٹے ہیں، اِن کے ایک بیٹے کاشف جاوید صاحب آجکل سینیگال میں قائمقام مشنری انچارج اور امیر جماعت بھی ہیں اور اِس وجہ سے اپنے والد کے جنازے میں شامل بھی نہیں ہو سکے۔ یہی مربی لکھتے ہیں کہ خاکسار کے والد انتہائی سادہ لوح، نیک طبع اور خدا ترس وجود تھے۔ احمدیت اور خلافت سے انتہائی محبّت کرنے والے تھے۔ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے اور اکثر یہی کہا کرتے تھے کہ ہم نے جو کچھ پایا ، وہ احمدیت کی وجہ سے پایا۔
۲۔ مکرم حبیب محمد شاتری صاحب نائب امیر دوم کینیا ابن مکرم محمد حبیب شاتری صاحب: گذشتہ دنوں چھپن سال کی عمر میں وفات پانے والے مرحوم عرب نژاد اور موصی تھے۔ پسماندگان میں والدین کے علاوہ اہلیہ اور تین بچے شامل ہیں۔مختلف رنگ میں خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ وفات کے وقت بھی نیشنل سیکرٹری تعلیم اور نائب امیر دوم کینیا کی خدمت بجا لا رہے تھے۔
۳۔ مکرم انوبی مدینگو صاحب: گذشتہ دنوں وفات پانے والے مرحوم زمبابوے کی ایک جماعت کے صدر تھے۔ آغاز میں یہ سُنّی مسلمان تھے اور جماعت کی مخالفت کیا کرتے تھے، لیکن اسلام کی محبّت اِن کے دل میں تھی، پہلے یہ ملاوی میں تھے پھر زمبابوے شفٹ ہو گئے۔ یہاں آ کے اسلام کی محبّت کی وجہ سے اِنہوں نے اپنے ارد گرد کے لوگوں کو اکٹھا کیا اور جس علاقہ میں تھے وہاں باجماعت نماز کا انتظام کیا اور اِن کے دل میں ایک تڑپ تھی کہ مَیں حقیقی مسلمان بنوں۔ بہرحال بعد میں پھر اِن کا جماعت سے رابطہ ہوا، ہمارے مربی سمیع الله صاحب سے تفصیلی بحث و مباحثہ ہوتا رہا اور پھر آخر اِنہوں نے احمدیت قبول کر لی اور اُس علاقہ میں آپ پہلے احمدی تھے۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد اِن کی مخالفت بھی ہوئی۔ لیکن اِنہوں نے ہمت نہیں ہاری ، تبلیغ کرتے رہے اور بہت سے لوگوں نے اِن کے ذریعہ جماعت کا پیغام سنا اور جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ بااثر شخصیت تھے، بہت سے لوگ آپ کو دیکھ کر جماعت میں شامل ہوئے، خود مالی قربانی کر کے اِنہوں نے زمین بھی خریدی، جس پر جماعتِ احمدیہ زمبابوے کی آجکل پہلی مسجد بھی تعمیر ہو رہی ہے۔ بہت وفادار، صاف گو اور دیانتدار انسان تھے۔
حضور انور نے تمام مرحومین کے لیے مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لیے دعا کی۔
٭…٭…٭