اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
ماہ جون میں پیش آمدہ اہم واقعات
سعداللہ پور۔ضلع منڈی بہاؤالدین
۸؍جون کو دو احباب جماعت غلام سرور اور راحت احمد باجوہ کو مذہبی منافرت کی بنا پر گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ غلام سرور کو جن کی عمر باسٹھ سال تھی نماز ظہر کے بعد واپسی پر اپنے گھر کے قریب ہی گولی مار کر شہید کیاگیا۔ اس کے بیس منٹ بعد کیٹرنگ سروس کے مینیجر راحت احمد باجوہ کو بھی گاؤں کی مسجد کے قریب گولی مار کر شہید کردیا گیا جب کہ وہ واپس اپنے گھر آرہے تھے۔
غلام سرور کے اہل خانہ میں اہلیہ اور چھ بچے جبکہ راحت احمد کے اہل خانہ میں ان کی اہلیہ اور دو بچے سوگوار ہیں۔پولیس نے سید علی رضا نامی ایک نوعمر مدرسہ کے طالبعلم کو بعد ازاں حراست میں لےلیا۔ اس مدرسے کا قاری احمدیت مخالف مہمات کے لیے جانا جاتا ہے۔ علی رضا نے دوران حراست اپنا جرم قبول کر لیا اور مذہبی محرکات کو ان قتلوں کا سبب قرار دیا۔ پولیس نے دو مختلف ایف آئی آر درج کر لی ہیں جن میں قتل اور دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
جاہمن۔ضلع لاہور اورمحمودہ۔ضلع راولپنڈی
جون ۲۰۲۴ء میں جماعت احمدیہ کی مساجد کو ایک تسلسل کے ساتھ نشانہ بنایا گیا اور مساجد کے میناروں کو مسمار کیا گیا۔لاہور کے علاقے جاہمن میں مقامی انتظامیہ نے شدت پسند عناصر کے سامنے ہتھیار ڈال دیے جن کا مطالبہ تھا کہ احمدیہ مسجد سے میناروں کو ہٹایا جائے۔۱۲؍جون کو صبح کے اوقات میں یونیفارم اور سادہ لباس میں ملبوس پولیس کی نفری نے مسجد کے مینار مسمار کر دیے اور واقعے کے ثبوت مٹانے کی خاطر نگرانی کے لیے نصب آلات کو بھی ضبط کر لیا۔ یہ کارروائی لاہور ہائی کورٹ کے جاری کردہ حکم کے عین منافی کی گئی۔
محمودہ ضلع راولپنڈی میں پولیس نے احمدی احباب پر دباؤ ڈالا کہ نہ وہ عید کی نماز ادا کریں اور نہ ہی قربانی کریں۔جب احمدی احباب نے اس ظلم کے خلاف آواز بلند کی تو پولیس نے متشددانہ رویہ اختیار کر لیا اور مزید تشدد کی دھمکیاں بھی دیں۔اسی دباؤ کے زیر اثر احمدیوں کو اپنی مسجد کے مینار بھی ہٹانے پڑے جو کہ احمدیوں کے حقوق کی سنگین پامالی ہے۔
بلدیہ ٹاؤن کراچی
بلدیہ ٹاؤن کراچی کی صورتحال احمدیوں کےساتھ روا رکھے جانے والے شدت پسند رویے کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ جماعت احمدیہ کو اس جگہ شدت پسند گروہوں کی جانب سے مستقل دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔خاص طور پر تحریک لبیک کی جانب سےجو کہ ختم نبوت کی آڑ لے کر لوگوں کو احمدیوں کے خلاف تشدد پر اکساتے ہیں۔ ۲۶؍مئی کے دن اس وقت حالات سنگین صورتحال اختیار کرگئے جب ان لوگوں کا ایک بےہنگم ہجوم جمع ہو کر احمدیوں کو پریشان کرنے آگیا جب احمدی یوم خلافت منا رہے تھے۔ اور ان کوفوری طور پر اس تقریب کو روکنا پڑا۔احمدی شرکاء پولیس کی مداخلت کی وجہ سے ہی وہاں سے بخیر و عافیت نکل سکے۔
صورتحال تب مزید بگڑ گئی جب ۲؍جون کو تحریک لبیک نے بلدیہ ٹاؤن میں ایک بڑا احتجاجی مظاہر ہ کیا۔اس ریلی کو نام تو ختم نبوت کا دیا گیا تھالیکن اس میں احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں اور پمفلٹ تقسیم کیے گئے جن میں احمدیوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر بھی اس کو خوب پھیلایا گیا۔ جماعت احمدیہ نے اس معاملے کے متعلق مقامی انتظامیہ سے میٹنگ کی اور پولیس سپرنٹنڈنٹ کو مطلع کیا لیکن یہ معاملہ جوں کا توں ہے۔اس ریلی سے قبل تحریک لبیک کے لوگوں نے احباب جماعت بلدیہ ٹاؤن کے خلاف بلدیہ ٹاؤن تھانے میں تبلیغ کرنےکی جھوٹی رپورٹ بھی درج کروائی۔
مولویوں نے اشتعال انگیز تقاریر کیں اور دھمکی دی کہ اگر انتظامیہ نے کارروائی نہ کی تو وہ احمدیہ مسجد کو مسمار کردیں گے۔ انہوں نے انتظامیہ کو مزید کہا کہ وہ اس جگہ کو سیل کریں اوریہ کہ وہ اس جگہ پر قبضہ کر کے اسے اپنی مسجد بنائیں گے۔
حالات میں مزید بگاڑ ۷؍جون کو آیا جب پولیس کی نفری نے عین جمعہ کی نماز سےکچھ پہلے احمدی احباب کو مسجد میں داخل ہونے سے روک دیا۔ باوجود تمام حقوق رکھنے کے جماعت احمدیہ کے مقامی قائدین بشمول صدر جماعت محمود،وحید احمد اور ذوالفقار احمد کو گرفتار کر لیا گیا اور باقی احباب کو وہاں سے جانے کے لیےکہا گیا۔اور نہ جانے کی صورت میں مزید کارروائی کی دھمکی دی گئی۔پولیس نے کہاکہ وہ اس جگہ کو سیل کرنے آئے ہیں جو انہوں نے بعدازاں کردی اور اس کا حکم کیماڑی کے ڈپٹی کمشنر نے سندھ ہائی کورٹ کےایما پر دیا تھا۔ تاہم احمدی احباب کو کوئی بھی ایسا حکم نامہ نہ دکھایا گیا اور جب احمدیوں نے اس معاملے کے متعلق وضاحت طلب کی تو جواب خاموشی تھا۔
اس مسجد کو سیل کرنا جماعت احمدیہ کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے کیونکہ احمدیوں کو ان کی عبادت کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ باوجود اصلی کاغذات موجود ہونے کے مالک پر الزام لگایا گیا کہ اس نے غیرقانونی طور پر یہ جگہ جماعت احمدیہ کو لیز پر دے رکھی ہے اور مالک کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔
خوشاب
ضلع خوشاب میں مخالفین احمدیت جارحانہ انداز میں احمدیوں کا تعاقب کررہے ہیں۔ روڈہ ضلع خوشاب میں موجود شاد اکیڈمی جو کہ احمدی دوست چلارہے ہیں ان کی اکیڈمی کی رجسٹریشن منسوخ کروانے کے درپے ہیں۔انتہاپسند عناصر نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ احمدیہ قبرستان سے تمام اسلامی اصطلاحات کو ہٹایا جائے اور انہوں نے اس کے لیے ۱۲؍ربیع الاول (آنحضور ﷺ کی پیدائش کا دن)تک کی مہلت دے رکھی ہے۔ انہوں نے انتظامیہ کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے کارروائی نہ کی تو وہ معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیں گے۔ساتھ ہی انہوں نے عید الاضحی کی قربانی کے متعلق احمدیوں کو دھمکی بھی دی اوراپنے کارندوں کوضلع بھر میں پھیلادیا تا کہ وہ احمدیوں پر نظر رکھیں۔
جوہرآباد میں ایک بڑی کریانے کی دکان کے احمدی مالک تصور اقبال کے خلاف مخالفین نے مقاطعہ کی مہم چلائی۔ ایک مقامی سیاستدان ڈاکٹر ناصر خان نے سوشل میڈیا پر اس مہم کے خلاف بات کی۔ لیکن معاملات ان کے ہی خلاف ہو گئے۔ لہٰذا ان کو بھی عوام سے معافی مانگنی پڑی اور بیان دینا پڑا کہ وہ احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ معاملات کرنا گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ضلع خوشاب میں احمدیوں کو کس طرح مستقل اور مسلسل بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور کیسے مقامی اداکار تحقیر آمیز رویے اورامتیازی سلوک کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔
جولائی۔لالہ موسیٰ۔ضلع گجرات
ترپن سالہ ایک مخلص احمدی اور مقامی جماعت کے صدر ڈاکٹر ذکاءالرحمان کو سفاکانہ طور پر جی ٹی روڈ لالہ موسیٰ پر واقع ان کے کلینک پر شہید کر دیا گیا۔واقعہ تب پیش آیا جب دو نامعلوم حملہ آور ان کے ڈینٹل کلینک پر آئے اور ان میں سے ایک نے اندر آکر ان پر گولیاں برسا دیں جس سے وہ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ اس کے معاً بعد حملہ آور وہاں سے فرار ہوگئے۔ ڈاکٹر ذکاء الرحمان ایک معروف شخصیت تھے اور ان کی کسی کے ساتھ کوئی بھی ذاتی دشمنی نہ تھی۔ غالب امکان ہے کہ ان کی شہادت کا باعث ان کا احمدی ہونا تھا۔ ان کے سوگواروں میں ان کی اہلیہ،ا یک بیٹا اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔یہ اس سال پاکستان میں چوتھے احمدی مسلمان کی شہادت ہے۔ اس طرح کے حملوں کے باوجود پاکستان میں موجود احمدیوں کےلیے کسی بھی مناسب حفاظتی انتظام اور عدالتی انصاف کا صریح فقدان ہے جو مستقل طور پر اس طرح کے جان لیوا تشدد سے دوچار ہیں۔
تھارو۔ضلع فیصل آباد
اس جگہ پر حالات تب کشیدہ ہوگئے جب ایک احمدی دوست عبدالرزاق کی تدفین مقامی مشترکہ قبرستان میں کرنے کا وقت آیا اور مقامی مولویوں نے اس بات پر اعتراض کیا کہ قبرستان میں احمدیوں کی قبریں غیر احمدیوں کی قبروں سے تعداد میں زیادہ ہو رہی ہیں۔ پولیس نے اس کا حل دو ایکڑ زمین احمدیوں کو قبرستان کے لیے الگ سے دینے کی تجویز کی شکل میں پیش کیا جو کہ مقامی مولویوں کی رضامندی سے ہوا۔ بعدازاں دیگر مذہبی گروہوں نے بھی اعتراضات اٹھانے شروع کر دیے اور مطالبہ کیا کہ اس قبرستان کی بجائے احمدیوں کو الگ سے خالی زمین مہیا کی جائے۔چنانچہ احمدیوں کو الگ سے خالی زمین پر دوبارہ قبر کھودنا پڑی۔ لیکن اس پر بھی ان لوگوں نے اس جگہ تدفین کی مخالفت شروع کر دی جس کی وجہ سے تدفین میں تاخیر ہو گئی۔ چنانچہ عبدالرزاق کی تدفین کسی دوست کے ذاتی فارم پر کی گئی۔
بعد ازاں شام کے وقت جب احمدیوں نے اپنی مختص کی گئی زمین کے گرد چار دیواری بنانے کی کوشش کی تو دوبارہ انتہاپسند گروہ وہاں جمع ہوگئے اور پولیس کی موجودگی میں نہ صرف تعمیر کو روکا بلکہ تعمیر کا سامان اینٹیں اور سیمنٹ وغیرہ بھی وہاں سے لے گئے۔ باوجود پولیس کے ۴۹؍نامزد اور؍۳۵ کے قریب نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ احمدی کس طرح اپنی روزمرہ زندگی میں دباؤ اور ہراسانی کاسامنا کرتے ہیں۔
کوئٹہ۔ بلوچستان
کوئٹہ ہائر اور سیکنڈری سکول کے ایک احمدی استاد انیس احمد کی اٹھارھویں گریڈ میں ترقی کے بعد ان کے خلاف مخالفت میں شدید اضافہ ہوگیا ہے۔ چوبیس جون کو ختم نبوت تحریک سے تعلق رکھنے والے مولویوں نے انیس احمد کو دفتر میں گھیر لیا اور کہا کہ ان کی یہاں موجودگی حالات کو کشیدہ کر رہی ہے اور واپس سکول آنے پر انہیں سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی۔ انہوں نے انیس احمد کو جان سے مارنےکی دھمکی دی اور کہا کہ اگر انہیں کوئی بھی نقصان پہنچا تو وہ لوگ اس کے ذمہ دار نہ ہوں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اپنی جان کی حفاظت کےلیے انہیں اس سکول سے اپنا تبادلہ کروا لینا چاہیے۔ انیس احمد نے بات چیت کرنےکی کوشش کی تو مولویوں نے صاف منع کر دیا کہ وہ یہاں کوئی گفتگو کرنے نہیں آئے۔ اپنے محکمہ سے کسی بھی قسم کی کوئی مدد نہ ملنے پر اپنی جان کی حفاظت اور اپنے کام کی جگہ پر شدت پسندانہ مخالفت سے بچنے کےلیے انیس احمد نے جلد ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
مزید پڑھیں: ۲۰؍دسمبر ۱۹۲۴ء: قادیان میں پہلی بار میجک لینٹرن سے لیکچر