سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

مذہب مخالفین اسلام سے تعرض اس کتاب کااصلی مقصد نہیں ہے۔ اصل مقصد کتاب اثبات حقانیت قرآن و نبوت محمدیہ ہے چونکہ اس مقصد کا اثبات اعتقادات و اعتراضات مذاہب غیر کے ذکر و جواب پرموقوف ہے لہٰذا بحکم ضرورت ان مذاہب سے تعرض ہوا ہے

۳: مشہور اہل حدیث عالم ولیڈر
ابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب

تیسرے نمبر پر ایک اَور ریویو پیش کیاجاتاہے جو براہین احمدیہ کے محاسن وکمالات اورخوبیوں پر ایک مبسوط اور زوردار ریویوہے ۔اوریہ ریویو کرنے والے بھی اس وقت کے ہندوستان کے مشہور اہل حدیث عالم اورلیڈر ابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب ایڈیٹر رسالہ اشاعةالسنة تھے۔یہ تبصرہ صرف اس لیے ہی قابل قدر وتحسین نہ تھا کہ یہ صاحب اپنے علم وفضل میں ملک میں شہرت رکھتے تھے بلکہ اس لیے بھی یہ وقیع تھا کہ یہ ریویو لکھنے والا مصنف کتاب حضرت اقدس علیہ السلام کوجوانی سے جانتا تھا اورساتھ رہا تھا، ایک زمانے میں ہم مکتب بھی تھااورآپؑ کی سوانح کا چشم دید گواہ تھا۔

یہ ریویوا یک تفصیلی ریویو ہے جو کم وبیش دو صد صفحات پر مشتمل ہے ۔اس کا مکمل متن ہدیۂ قارئین کیاجاتاہے ۔

’’براہین احمدیہ پر ریویواس کتاب کے چار حصہ طبع ہو کر ہماری نظر سے گذرے ہیں ہم قبل اس کے کہ اس پر رائے زنی کریں اس کے اکثر مطالب کی تلخیص مناسب سمجھتے ہیں تا کہ بحکم مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید اس کتاب کی خوبی خود اسی سے ظاہر ہو اور جو کچھ ہم اس کی نسبت کہیں اس میں کسی کو مبالغہ کا گمان نہ ہو۔

اس کے حصہ اوّل میں تو صرف سبب تالیف بیان ہوا ہے اور اس کتاب کے جواب پر دس ہزار روپیہ انعام دینے کا اشتہار بقلم جلی درج کیا گیا ہے۔ اِس اشتہار کی نسبت ہم یہ رائے ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مؤلف کی کمال ثابت قدمی اور عالی ہمتی پر دلیل ہے اور مخالفینِ اسلام پر خدائے تعالیٰ کی جانب سے کامل حجت قائم ہوئی ہے اِس اشتہار پر بھی کسی نے اس کے جواب میں قلم نہ اُٹھایا تو اس سے کس و ناکس کو اس بات کا یقین حاصل ہونا لازم ہے کہ مخالفین اسلام سے کسی کو اپنے مذہب کی سچائی کا کامل یقین نہیں ہے جو ہے تقلیدی اعتقاد ہے جس پر ان کے علم و خیال میں ایسے دلائل قائم نہیں ہیں جیسے کہ اسلام کی سچائی پر دلائل قائم ہیں اس صورت میں ان کا اسلام سے انکار انصاف و فتوت کے خلاف ہے۔

تلخیص مطالب حصہ دوم

اس حصہ (دوم) میں ایک مقدمہ ہے جس میں امور ذیل کاا ظہار ہے۔

امر اوّل مذہب مخالفین اسلام سے تعرض اس کتاب کااصلی مقصد نہیں ہے۔اصل مقصد کتاب اثبات حقانیت قرآن و نبوت محمدیہؐ ہے چونکہ اس مقصد کا اثبات اعتقادات و اعتراضات مذاہب غیر کے ذکر و جواب پرموقوف ہے لہٰذا بحکم ضرورت ان مذاہب سے تعرض ہوا ہے۔

اس امر (اوّل )کے ذیل میں چار حاشیہ بیان ہوئے ہیں حاشیہ نمبر ۱ میں فرقہ آریہ کے غلط عقائد کا بیان ہے۔ حاشیہ نمبر۲ میں قرآن شریف کا سب کُتب الہامی سے افضل اور اکمل ہونا۔ حاشیہ نمبر ۳ میں عقائد خلاف عقل کا سچا نہ ہونا۔ حاشیہ نمبر ۴ میں صرف عقل کا ادراک عقائد حقہ کے لئے کافی نہ ہونا اور مدد الہام کا محتاج ہونا۔

امر دویم۔ اس کتاب کے جواب لکھنے کی اس شرط کابیان کہ دلائل کتاب کو بتمامہا نقل کر کے اس کا جواب دیں اوربرہم سماج اور مدعیان پیروی الہامی کتب کواس جواب کی طرز کی ہدایت۔

امر سویم۔ جو دلائل اس کتاب میں بیان ہوئے ہیں وہ قرآن سے ماخوذ ہیں۔ مخالفین بھی جو دلائل پیش کریں اپنی کتاب سے نکالیں اپنی طرف سے نکال کرپیش کریں گے تو وہ دلائل ان کے خیالی نکات بعد الوقوع قرار دیئے جاویں گے ان کی کتاب کے مصدّق نہ سمجھے جائیں گے۔ اس امر کے ذیل میں ایک حاشیہ نمبر ۵ مرقوم ہے جس میں اس امر (سوم)کا عقلی ثبوت دیا گیا ہے۔

امر چہارم اس کتاب میں کسی کے اکابر مذہب کی نسبت کوئی لفظ خلاف تہذیب نہیں لکھا گیا۔ مخالفین بھی اس امر کی رعایت کریں۔ پنڈت دیانند پیشوائے آریہ کی طرح انبیا کی جناب میں بے ادبی و گستاخی سے پیش نہ آویں۔

اس کے ضمن میں پنڈت دیانند کی زیادتیوں اور بدگوئیوں کا بیان ہے اور ان کی عقائد باطلہ کی تفصیل ۔

اس امر (چہارم)کے ذیل میں نمبر ۶ سے ۱۰ تک حواشی مرقوم ہیں۔ حاشیہ نمبر ۶ میں عیسائیوں کی زیادتیوں اور بےتہذیبیوں کا ذکر ہے اور حاشیہ نمبر ۷ میں آریہ کی سوءظنی کا ذکر اور حسن ظن کی ضرورت کا ثبوت اور حاشیہ نمبر ۸ میں چاروں وید کے بے اعتبار ہونے کا ثبوت اور حاشیہ نمبر۹ میں آنحضرتؓ کی خاتم الرسل ہونے کا بیان اور اس اعتراض کا جواب کہ وحی کا فیض بند کیوں ہو گیا اور حاشیہ نمبر ۱۰ میں نزول قرآن کی ضرورت کا ثبوت اور اس میں پادریوں کے شبہات کا جواب۔

اس حصہ کے اخیر میں اس کتاب کے فوائد حسب تفصیل ذیل بیان ہوئے ہیں۔

(۱) یہ کتاب جملہ مہمات دینیہ پر مشتمل ہے۔ (۲) اس میں تین سو دلائل حقانیت اسلام مذکور ہیں۔ (۳) اس میں یہودی، عیسائی، مجوسی ، آریہ، برہمو، بت پرست، دہریہ، عقلیہ اباحتی لامذہب سب کے شبہات کا جواب ہے۔ (۴) اس کتاب میں مخالفین کے اصول مذہب پر عقلی طور پر بحث و نکتہ چینی کی گئی ہے۔ (۵) اس کتاب میں اسرار و معارف قرآن شریف بیان کئے گئے ہیں جس کی نظر سے یہ کتاب بمنزلہ ایک تفسیر کے ہے۔ (۶) اس میں دلائل عقلیہ صحیحہ سے استدلال کیا گیا ہے جس سے ناظرین کی قوت فکریہ کو ترقی متصور ہے۔

تلخیص مطالب حصہ سوم

حصہ سوم میں پہلی فصل کتاب کا آغاز ہے جس میں قرآن شریف کی افضلیت اور حقانیت پر بیرونی اوراندرونی شہادتوں کا بیان مقصود ہے۔ اس مقصود سے پہلے چند تمہیدات کے ضمن میں چند ایسے مقدمات کا بیان ہے جن کا بیان مؤلف نے قبل مقصود ضروری سمجھا۔ تمہید اوّل میں شہادت بیرونی اور اندرونی کی تشریح ہے کہ بیرونی سے وہ واقعات خارجی مراد ہیں جن کی نظر سے اس کتاب کا منجانب اللہ ہونا ثابت ہوتا ہے اور اندرونی سے اس کتاب کے ذاتی کمالات اور عمدہ تعلیمات۔

تمہید دوم میں بیرونی شہادتوں کے چار ماخذوں کی تشریح ہے۔

(۱) وہ امور خارجی جو محتاج اصلاح تھے۔ (جیسے کفر وغیرہ اعمال بد)

(۲) وہ امور خارجی جو تکمیل کے محتاج تھے۔ (جیسے تعلیمات کتب الہامیہ سابقہ جو زمانہ ما بعد (حاشیہ: زمانہ ما بعد کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ اپنے زمانہ میں وہ تعلیمات بھی مکمل تھیں گو زمانہ ما بعد میں وہ ناقص معلوم ہونے لگیں یہ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کی تعلیمات کو فی نفسہا ناقص فرض کرنے سے اس کے معلّم پر نقصان کا الزام عائد ہوتا ہے تعالی اللہ عن ذالک علوا کبیرا اس کی تفصیل اور اس پر دلیل کا کوئی طالب ہو تو وہ اشاعۃ السّنہ نمبر ۱ جلد ۶ کا صفحہ ۲۳ ملاحظہ کرے مؤلف کی کلام میں گو یہ قید اس مقام میں پائی نہیں گئی مگر ان کا حاشیہ نمبر ۲ اس قید کی طرف مشعر ہے۔) کی نسبت ناقص و غیر مکمل نظر آتی تھیں۔

(۳) امور قدرتیہ جو بغیر وسیلہ انسانی تدبیروں کے خدا کی طرف سے پیدا ہوئے ہوں۔

(۴) امور غیبیہ جو ایسے شخص سے ظاہر ہوں جس کی طاقت سے ان کا ظاہر ہونا عادۃً محال ہو۔ (جیسے کسی اَن پڑھ کا اشارات حکمیہ و دقائق فلسفیہ کو بیان کرنا)

تمہید سوم میں اس امر کا بیان ہے کہ جو چیز محض خدا کی قدرت سے بلا وساطت انسانی تدبیر کے ہوئی ہو اس کا بے مثل اور ایجادات مخلوق سے بالاتر ہونا ضروری ہے اس کی تمثیل میں مؤلف نے کتب الہامی کو پیش کیا ہے اور اچھی تفصیل سے ثابت کر دیا ہے کہ کتاب الہامی کا بے مثل ہونا ضروری ہے اور اس کے بے مثل ہونے سے اس کا منجانب اللہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔اس تفصیل کے ضمن میں مخالفوں کے اعتراضات ذیل کا کافی جواب دیا ہے۔

(۱) بہت سے کلام انسانی ایسے موجود ہیں جن کی مثل آج تک دوسرا کلام نہیں ہوا (جیسے گلستان سعدی و تفسیر بےنقط فیضی) پھر کسی کلام کے بے مثل ہونے سے اس کا منجانب اللہ ہونا کہاں سے ثابت ہوتا ہے۔

(۲) عربی نہ جاننے والوں کو قرآن مجید کا بے مثل ہونا کہاں ثابت ہوتا ہے۔

اس تمہید (سوم) کی تائید میں حاشیہ نمبر ۱۱ مرقوم ہے جو حصہ سوم اور حصہ چہارم کتاب کے چار سو سترہ ۴۱۷ صفحہ میں لکھا گیا ہے اور ہنوز پورا نہیں ہوا۔ اس حاشیہ کے چار حاشیہ درحاشیہ ہیں جو منجملہ ۴۱۷ صفحہ ۳۴۶ صفحہ میں اس حاشیہ کے شریک ہیں اس حاشیہ اور اس کے حواشی کے سبھی مطالب کی تلخیص کے ہماری رسالہ میں گنجائش نہیں مگر ہم بحکم ما لا یدرک کلّہ لا یترک کلّہ بعض مطالب کی تلخیص ناظرین کی تشویش کے لئے بقید صفحہ کتاب قلم میں لاتے ہیں۔

تلخیص مطالب حاشیہ نمبر ۱۱ مندرجہ صفحہ سوم کتاب

صفحہ نمبر۱۴۶: اس شبہ کاجواب کہ حروف اور کلمات مفردہ میں کلام خدا اور کلام بشر میں مشارکت ہے پھر وہ بےمثل کیونکر ہوا۔

صفحہ نمبر۱۴۸:الہامی کتاب کی خاصیت (جو قانون قدرت میں پائی نہیں جاتی) یقین وجود خالق و جزا و سزا۔

صفحہ نمبر ۱۴۹:قانون قدرت سے خدا کے موجود ہونے کا ثبوت نہیں ملتا گو اس کی ضرورت ثابت ہوتی ہے اور جزا سزا کا بھی اس میں ثبوت پایا نہیں جاتا۔

صفحہ نمبر ۱۵۵: الہام کی نسبت برہم سماج کے پہلے اعتراض کا کہ’’الہام کی ضرورت نہیں‘‘جواب۔

صفحہ نمبر ۱۶۶:ان کے اعتراض دوم کا کہ ’’الہام کے ضروری ہونے سے اس کا موجود ہونا ثابت نہیں ہوتا۔‘‘جواب۔

صفحہ نمبر ۱۶۷: ان کے اعتراض سوم کا کہ’’عقل جس قدر مفید معرفت ہے نجات کے لئے کافی ہے۔‘‘ جواب۔

صفحہ نمبر ۱۶۹: ان کے اعتراض چہارم کا کہ ’’الہام ضروری اور عقل ناکافی ہے تو ہر ایک بشر کو الہام کیوں نہیں ہوتا‘‘ جواب۔

صفحہ نمبر ۱۷۶: عیسائیوں کے اس اعتقاد پر کہ’’انبیاء کے لئے تقدس اور عصمت اور محبت الہٰی حاصل نہیں۔‘‘ اعتراض۔

صفحہ نمبر ۱۸۳: برہم سماج کے اعتراض پنجم کا کہ ’’مدارنجات قرآن ہے تو یہ تمام معمورات میں شائع کیوں نہیں ہوا۔‘‘

صفحہ نمبر ۱۸۸: مورد الہام ہونے میں تفاوت مراتب اشخاص کی حکمتوں کا بیان۔

صفحہ نمبر ۱۹۱: برہم سماج کے اعتراض ششم کا کہ’’قانون قدرت جو کبھی بند نہیں ہوتا رہنما ہے نہ الہام جس کا دروازہ کبھی کبھی کھلتا ہے۔‘‘ جواب۔

صفحہ نمبر ۱۹۹: ناظر ین صرف قانون قدرت کا شرک سے نہ بچنا۔

صفحہ نمبر ۲۰۳: ان کے اعتراض ہفتم کا کہ ’’کسی کتاب کی تمام صداقتیں ختم نہیں ہو سکتیں۔‘‘ جواب۔

صفحہ نمبر ۲۰۸: ان کے اعتراض ہشتم کا کہ’’انسان کا خدا سے ہمکلام ہونا بے ادبی ہے۔‘‘جواب۔

صفحہ نمبر ۲۱۰: ان کے اعتراض نہم (جس میں نیچری بھی ان کے شریک ہیں) کہ’’آسمان سے کلام خدا کا نازل ہونا نامتصور ہے اور الہام ان خیالات سے بڑھ کر نہیں جو عقلمندوں کے دل سے اٹھتے ہیں۔‘‘ جواب۔

صفحہ نمبر ۲۱۱و۲۱۵، ۲۱۸،۲۱۷ و ۲۱۹: اس جواب کے ضمن میں کئی اور مطالب بیان ہوئے ہیں اور کئی اعتراضوں کے جوابات ادا ہوئے ہیں۔

(۱) صاحب الہام پر امور غیبیہ منکشف ہوتے ہیں۔ (۲) مؤلف کا دعویٰ کہ جس کو الہام میں شک ہو ہم اس کو مشاہدہ کر دیتے ہیں بشرط صدق۔ (۳) بجز پے روان قران کسی عیسائی یہودی آریہ برہمو کو یہ الہام نہیں ہوتا۔ (۴) اس اعتراض کا کہ ’’بعض امور غیبیہ نجومی رمال مسمریزم بھی بتاتے ہیں۔‘‘ جواب۔ (۵)قرآن شریف کی چند پیشین گوئیاں متضمن امور غیبیہ (۶)اس اعتراض کا کہ ’’انبیاء تکلیف میں کیوں رہے۔‘‘ جواب

صفحہ نمبر ۲۶۳: برہم سماج کے اعتراض دہم کا کہ ’’اعتقاد الہام ترقی فکر و عقل سے مانع ہے۔ ‘‘جواب

(باقی آئندہ)

مزید پڑھیں: آنحضرتﷺ بطور سفیرِ امن

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button