الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
محترم ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۱۴؍فروری۲۰۱۴ء میں مکرم ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب کے قلم سے محترم ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کی فضل عمر ہسپتال ربوہ کے لیے چند خدمات کا تذکرہ شامل اشاعت ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک فارسی شعر میں بیان فرمایا ہے کہ مخلوقِ خدا کی خدمت کرنا میرا مقصد ہے اور یہی میری خواہش ہے اور ذمہ داری ہے۔ یہی وہ رسم اور طریقہ ہے جس کا عملی راستہ مَیں خود دکھاتا ہوں۔ چنانچہ تاریخ میں ہمیں کئی واقعات ملتے ہیں جب گاؤں کی غریب اور جاہل عورتیں اپنے بیمار بچوں کے علاج کے سلسلے میں آتی تھیں اور حضورؑ بڑے انہماک سے گھنٹوں دوائیں تقسیم کرنے میں صرف کردیتے تھے۔ اگر کسی نے کہا بھی کہ یہ عورتیں حضورؑ کا وقت ضائع کررہی ہیں تو حضورؑ نے ارشاد فرمایا کہ جو کام اشاعتِ اسلام کا مَیں کررہا ہوں یہ کام بھی اتنا ہی ضروری ہے۔
حضورعلیہ السلام کے بعد خلفائے کرام نے بھی اس امر کو مقدّم رکھا۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے جب ربوہ کی بنیاد رکھی تو کچے مکانوں میں سب سے پہلے کارکنان اور غریبوں کے علاج معالجے کے لیے ایک ڈسپنسری بھی فوری طور پر شروع کردی جس کو حضورؓ کے صاحبزادے مکرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب چلاتے تھے۔ پھر انہی کی زیرنگرانی ایک جدید ہسپتال کی تعمیر ہوئی جس کی بنیادی اینٹ حضورؓ نے رکھی۔ مخیّر احباب کے تعاون سے ہسپتال کی عمارت کی تعمیر و توسیع اور اس میں بیماروں کا علاج تب سے جاری ہے۔
مَیں جب ربوہ میں آیا تو حضرت مسیح موعودؑ کے نمونہ کی جھلک مجھے فضل عمر ہسپتال میں نظر آئی۔ امراء اور معززین کے علاوہ غرباء اور گاؤں کے دیہاتیوں کا علاج بھی بہت غور اور توجہ سے کیا جاتا تھا۔ معالج یہ سوچ کر علاج کرتے کہ کس طرح کم سےکم خرچ پر مریض کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔ جو مریض بھی ایک بار محترم صاحبزادہ صاحب کے زیرعلاج رہتا وہ اُن کا گرویدہ ہوجاتا۔ آپ نے ایک اعلیٰ معیار کی لیبارٹری کا بھی انتظام کیا جس کے ٹیکنیشن مکرم لطف الرحمٰن صاحب واقف زندگی تھے۔اُن کی ٹریننگ حضرت میاں صاحب نے میوہسپتال لاہور میں کروائی تھی۔ وہ بہت محنت اور ایمانداری سے اپنے فرائض بجالاتے تھے۔ اگر کوئی چیز اُن کو سمجھ نہیں آتی تھی تو اندازے سے رپورٹ دینے کی بجائے وہ کہہ دیا کرتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب خود آکر سلائیڈ دیکھ لیں۔ ہسپتال میں حضرت میاں صاحب نے دواؤں کا سٹاک بھی رکھا ہوتا تھا اور ضرورت کی ہر دوائی دستیاب تھی۔ لاہور میں دوائیوں کی مشہور دکان فضل دین اینڈ سنز مناسب قیمت پر دوائیں فراہم کرتے تھے اورحضرت میاں صاحب کا بہت لحاظ کرتے تھے۔
اُس زمانے میں فنڈز کی بہت قلّت تھی۔ بہت تھوڑے بجٹ میں سارا سال گزارہ کرنا پڑتا تھا۔ حضرت میاں صاحب نے روزانہ کا بجٹ مقرر کیا ہوتا تھا جس کی پابندی ہر شخص کرتا تھا لیکن اس کی وجہ سے ضروری علاج متاثر نہیں ہوتا تھا اور ایسے علاج کے لیے بجٹ کی کوئی تخصیص نہیں ہوتی تھی۔ آپ مریضوں کو گھروں پر جاکر بھی دیکھ لیا کرتے تھے اور بعض دفعہ گھنٹوں مریض کے پاس بیٹھ کر علاج میں مصروف رہتے تھے۔ چھٹی کے دن کسی قریبی گاؤں میں جاکر میڈیکل کیمپ لگاکر غرباء کا علاج کرتے اور اُن کو دوائیں بھی دیا کرتے۔ حضرت خلیفۃالمسیح کے علاج اور صحت کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی آپ کی ہی تھی۔ صبح شام اس ذمہ داری کو پوری تندہی سے ادا کرتے۔ آپ نے یہ مشکل ذمہ داری حضرت مصلح موعودؓ کی بیماری کے دوران اور پھر حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے لیے سالہاسال تک نبھائی اور کسی کو پتا بھی نہ چلنے دیا۔ چند دن کے لیے جب یہ ذمہ داری مجھ پر پڑی تب مجھے احساس ہوا کہ یہ کام کتنا مشکل ہے۔
ایک دفعہ جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ گھوڑے سے گِرگئے تو وہ بھی بہت نازک وقت تھا۔ اصل علاج تو حضرت میاں صاحب ہی کررہے تھے جبکہ مشورے میں یہ عاجز بھی شامل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی فضل فرمایا اور حضورؒ بغیر کسی پیچیدگی کے مکمل طور پر صحت یاب ہوگئے۔
مذکورہ کاموں کے علاوہ حضرت میاں صاحب ہمیشہ ذیلی تنظیموں کے کاموں میں بھی بہت سرگرمی سے حصہ لیتے رہے۔ ایک زمانے میں ٹاؤن کمیٹی ربوہ کے سیکرٹری بھی رہے۔ ربوہ میں اور ہسپتال میں پروان چڑھنے والے سینکڑوں درخت آپ کی کوششوں کے مرہون منت ہیں۔ ان تمام کاموں میں اپنے کارکنان کو بھی ساتھ رکھا کرتے اور اُن کی تربیت کرتے۔ روزانہ گیارہ بجے مجھے فون کرتے کہ آجائیں چائے پی لیں۔ چنانچہ کام کے دوران دس پندرہ منٹ کا وقفہ بہت مفید ہوتا جس میں ہسپتال اور مریضوں کے معاملات بھی زیرغور آجاتے۔ ایکسرے کے شعبہ کا آپ خود خیال رکھتے اور روزانہ بارہ بجے اُس دن کی رپورٹ تحریر فرماتے جو بہت ہی عمدہ ہوتی تھی۔ یونانی طب میں بھی بہت دسترس تھی۔ یہ علم آپ نے حضرت مصلح موعودؓ اور دیگر بزرگوں سے سیکھا تھا۔ بعض مفید دوائیں مجھے بھی بتاتے جو مَیں اپنے مریضوں کو استعمال کرواتا تھا۔ میری زیادہ ٹریننگ چونکہ انگلستان میں ہوئی تھی اس لیے پاکستان آنے کے بعد مَیں وہاں کی بیماریوں اور طریق علاج سے قطعی ناواقف تھا، حضرت میاں صاحب نے ان معاملات میں میری بڑی راہنمائی فرمائی۔
حضرت میاں صاحب بہت ہی دعائیں کرنے والے انسان تھے۔ نمازیں بہت انہماک اور دلجمعی سے ادا کرتے تھے اور اپنے عملے کی دعا اور عبادت کے طریقوں کی طرف راہنمائی بھی کرتے تھے۔شروع شروع میں مسجد یادگار میں نمازوں کی امامت بھی کرواتے رہے۔
شروع شروع میں ہسپتال میں کوئی سرجن نہیں تھا۔ اس وجہ سے مجبوراً بعض آپریشن مجھے بھی کرنے پڑے۔ بعد میں محترم ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب انگلستان سے سرجری کی تربیت حاصل کرنے کے بعد آگئے تو یہ کمی پوری ہوگئی۔ اسی طرح نرسوں کا بھی بہت مسئلہ تھا۔ تربیت یافتہ نرسیں کچھ دنوں کے لیے آتی تھیں لیکن کسی بہترجگہ ملازمت ملنے پر چلی جاتی تھیں۔ یہ مسئلہ اس طرح حل کیا گیا کہ ہسپتال نے نرسوں کو خود ہی تربیت دینی شروع کردی۔ اس وقت تو خداتعالیٰ کے فضل سے یہ ہسپتال ایک جدید ہسپتال کی طرح خدمت کررہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اس کے کارکن ہمیشہ حضرت مسیح موعودؑ کی راہنمائی کے مطابق غریبوں، بےکسوں، کمزوروں اور لاچار انسانوں کی خدمت کرتے رہیں۔
………٭………٭………٭………
دو عظیم المرتبت وجود
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ امۃالنصیر نُور صاحبہ نےحضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ اور حضرت بی بی امۃالباسط بیگم صاحبہ کے بارے میں اپنی والدہ محترمہ امۃالحفیظ صاحبہ (بیگم مکرم ڈاکٹر انعام الرحمٰن صاحب شہید سکھر)کی بیان کردہ چند خوبصورت یادیں تحریر کی ہیں۔
مکرمہ امۃالحفیظ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ ہمدرد، دعاگو، مہربان اور مہمان نواز تھیں۔ مَیںجب بھی آپ سے ملنے جاتی توآپ ہمیشہ میرے حالات کے بارے میں پوچھتیں اور تسلی دیتیں کہ غم نہ کیا کرو،تم شہید کی بیو ی ہو،شہید کا مقام بہت بڑ اہوتا ہے اور یہ کہ شہید زندہ ہوتے ہیں۔ ہر موسم کا پھل مجھے بھجوایا کرتی تھیں خاص کر سندھ کے آم۔ جب میرے بیٹے عزیزم محمود الرحمٰن انور کی شادی تھی تو مَیںآپ کو شادی کا کارڈ دینے گئی اور ساتھ میں درخواست کی کہ بارات کے لیے بس مَیں نے بُک کروا لی ہے لیکن کار کا انتظام نہیں ہوسکا۔ اسی دوران حضرت مرزا منصور احمد صاحب برآمدہ میں آگئے تو آپا جان نے کہا کہ یہ انعام الرحمٰن شہید کی بیگم ہیں، ان کے بیٹے کی شادی ہے ان کو کار چاہیے۔ حضرت میاں صاحب نے کہا کہ ان کی درخواست پہلے ہی دفتر میںآئی ہوئی ہے۔ پھر تھوڑی دیر کچھ سوچ کر کہنے لگے کہ دو کاریں ورکشاپ میں اور ایک اسلام آباد جماعتی کام کے لیے گئی ہوئی ہے، چلو مَیں کچھ کرتا ہوں ۔ مَیں نے پریشانی کا اظہار کیا تو فرمایا کہ آپ فکر نہ کریںآپ کو بارات لے جانے کے لیے کار مل جائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ پھر حضرت آپاجان شادی پر بھی تشریف لائیں اور تحفہ بھی دیا۔
مَیں آپ سے بلا جھجک ہر بات کرلیتی تھی۔ ایک بار تبرک مانگا تو پوچھا:کیا لینا ہے؟ مَیں نے کہا کہ آپ جو بھی دے دیں۔ اس پر سبز رنگ کاچوڑی دار پاجامہ، قمیض اور دوپٹہ مجھے لا کر دیا۔ بنارسی پٹی والا خوبصورت سوٹ تھا۔
آپاجان امۃالباسط صاحبہ بھی ہمیشہ بےحد پیار سے ملتیں اور میرا بہت خیال رکھتی تھیں۔ ان کے ساتھ بھی میرا پیار کا تعلق بن گیا۔ ایک عید پرآپ عید کی نماز کے لیے تشریف لے جا رہی تھیں۔ راستے میں میرا گھر تھا۔ آپ خود گاڑی سے باہر آئیں اور دروازے کی گھنٹی بجائی۔ جب مَیں نے دروازہ کھولا تو پوچھا کہ کیاتم عید کی نماز کے لیے تیار ہو اورجانا کیسے ہے؟ مَیں نے کہا کہ مَیں نے تو تانگے پر جانا ہے۔کہنے لگیں: میرے سا تھ ہی چلو۔ اس طرح مَیں ان کے ساتھ نماز پڑھنے چلی گئی، واپسی پر مجھ سے پوچھاکہ میرے ساتھ بہشتی مقبرہ چلوگی؟ مَیں نے اثبات میں جواب دیا۔ پھرمَیں آپ کے ساتھ بہشتی مقبرہ گئی، وہاں دعا کے بعد آپ مجھے گھر چھوڑ گئیں۔
سوئٹزرلینڈ آنے سے پہلے مَیں مصروفیت کی وجہ سے آپ سے ملاقات نہ کر سکی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد لندن کے جلسہ سالانہ پر آپ کی ملاقات جب میری بیٹی (مضمون نگار) سے ہوئی تو آپ نے اُس سے پوچھا کہ آپ کی امی کہاں ہیں؟ اس نے بتایا کہ وہ تو سوئٹزرلینڈ آگئی ہیں۔ اس پر فرمایا کہ اپنی امی سے کہنا کہ ’’مَیں ان سے ناراض ہوں۔ مجھے ملے بغیرسوئٹزرلینڈ چلی گئیں۔‘‘بےشک یہ ان کی محبت کا سلوک اور پیار کا اظہارتھا۔
………٭………٭………٭………
محترمہ صاحبزادی امۃالقدوس بیگم صاحبہ کی ایک نظم روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۴؍اکتوبر ۲۰۱۴ء میں شامل اشاعت ہے۔ اس پُرلطف طویل دعائیہ نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
ماحول ہے ہراساں یہ دَور نکتہ چیں ہے
ہر دل میں ہے تکدّر ، آلودہ ہر جبیں ہے
ناپختہ ہر عمل ہے ، لرزیدہ ہر یقیں ہے
وصل صنم کی اُن کو خواہش کوئی نہیں ہے
فکروں سے دل حزیں ہے جاں درد سے قریں ہے
’’جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے‘‘
آنکھوں میں سیلِ گریہ ، سینہ دھواں دھواں ہے
ہر نفس مضطرب ہے ہر آنکھ خونچکاں ہے
ہونٹوں پہ مسکراہٹ ، دل مہبطِ فُغاں ہے
فرقت میں یاں تڑپتا انبوہِ عاشقاں ہے
غربت میں واں پریشاں اِک دلرُبا حسیں ہے
’’جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے‘‘
انسانی لغزشوں میں ماورا نہیں ہوں
ماحول سے علیحدہ ربّ الوریٰ نہیں ہوں
لیکن مَیں تجھ سے غافل میرے خدا نہیں ہوں
مَیں بےعمل ہوں بےشک پر بےوفا نہیں ہوں
نظریں بھٹک رہی ہیں پر دل میں تُو مکیں ہے
’’جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے‘‘
مزید پڑھیں: زندہ اور کام کرنے والی جماعت