اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار جگہ مختلف حوالوں سے شیطان سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۸؍ مئی ۲۰۰۹ء)
سورۃالبقرہ میں شیطان کے بندوں کو ورغلانے کے ضمن میں اللہ تعالیٰ آیت ۲۶۹ میں فرماتا ہے کہ اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآءِ۔ وَاللّٰہُ یَعِدُکُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَفَضْلًا۔ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (البقرۃ: ۲۶۹) شیطان تمہیں غربت سے ڈراتا ہے، تمہیں فحشاء کا حکم دیتا ہے۔ جبکہ اللہ تمہارے ساتھ اپنی جناب سے بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اور اللہ وسعتیں حاصل کرنے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔
اس آیت میں خداتعالیٰ نے دو چیزیں بیان فرمائی ہیں جو شیطان اللہ تعالیٰ سے بندوں کو دُور کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ ایک فَقْر یعنی غربت کا خوف پیدا کرنا اور دوسرے فَحْشَآء کا حکم دینا۔ یہ جو فَقْر سے ڈرانا ہے اس کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ شیطان نے خداتعالیٰ سے یہ کہا تھا کہ مَیں ہر راستے پر بیٹھ کر انسانوں کو سیدھے راستے سے ہٹانے کی کوشش کروں گا تو اس نے اس بات کو پورا کرنے کے لئے کبھی بھی کوئی راستہ نہیں چھوڑا جہاں وہ نہ بیٹھا ہو۔ ہر راستے پر اس کایہ بیٹھنا اس کی اپنی طاقت کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ خداتعالیٰ نے اس کو اجازت دی تھی کہ ٹھیک ہے تم یہ کرنا چاہتے ہو تو کرو لیکن مَیں تمہارے پیچھے چلنے والوں کو جہنم سے بھردوں گا اور یہ بات خداتعالیٰ نے کھول کر ہمیں قرآن کریم میں بھی بتا دی کہ ہوشیار ہو جاؤ۔ اگر تم میرے بندے بننا چاہتے ہو تو شیطان سے بچ کے رہنا۔ شیطان کے ورغلانے کے طریقے بظاہرتمہیں بہت اچھے نظر آئیں گے لیکن اس کا نتیجہ تمہارے حق میں اچھا نہیں ہو گا۔
اس بارہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار جگہ مختلف حوالوں سے شیطان سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اس کے نقصانات بیان فرمائے ہیں۔ ایک جگہ فرمایا کہ وَیُرِیۡدُ الشَّیۡطٰنُ اَنۡ یُّضِلَّہُمۡ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا (النساء:۶۱) یعنی اور شیطان یہ چاہتا ہے کہ تمہیں خطرناک گمراہی میں ڈال دے۔
پھر فرمایا شیطان تمہیں بہت بڑے خسارے میں ڈالے گا اور تمہارا دوست بن کر تمہیں خسارے میں ڈالے گا۔
پھر ایک جگہ فرمایا اِنَّ الشَّیۡطٰنَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ (الاعراف: ۲۳) یعنی یقیناً شیطان جو ہے وہ تم دونوں کا کھلا کھلا دشمن ہے۔ آدم اور حوّا کے حوالے سے یہ بات بیان کی گئی ہے لیکن یہ بات آدم اور حوّا پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ مرد اور عورتوں دونوں کو ہوشیار کیا گیاہے کہ شیطان تم دونوں کا کھلا کھلا دشمن ہے۔ اس لئے اس کے بہکاوے میں آنے سے ہوشیار رہنا۔ نیک اعمال بجا لاؤ۔ عبادات کی طرف توجہ کرو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ قرآن کریم نے جو واقعات اور قصے بیان فرمائے ہیں یہ پرانی باتیں صرف ہمارے علم کے لئے ہی نہیں دوہرائی گئیں بلکہ آئندہ کے لئے پیشگوئیاں ہیں کہ آئندہ اِس اِس طرح ہو گا۔ (ماخوذ از چشمۂ معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۱۵۶) اس لئے اگر مومن ہواور حقیقی مومن ہو تو ان باتوں سے ہوشیار رہو کہ یہ اب بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ شیطان کے حملے کے طریقے بھی بدلتے رہے ہیں۔ ہر نئی ایجاد اور ترقی کی طرف اٹھنے والاانسان کا جو قدم ہے جہاں اپنی خوبی سے ہمیں فائدہ پہنچا رہا ہے وہاں شیطان بھی اس کو استعمال کر رہا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان تمہیں نقصان پہنچائے گا اور اس کے پیچھے چلو گے تو گمراہی کے گڑھے میں گرتے چلے جاؤ گے۔ سورۃ بقرہ کی جو آیت مَیں نے پڑھی ہے اس میں فرمایا کہ شیطان تمہیں فَقْر سے ڈراتا ہے۔ فَقْر کا معنی غربت کے بھی ہیں اور فَقْر کے معنی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے کے بھی ہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ شیطان تمہیں فَقْر سے ڈراتا ہے کہ اگر یہ کام کرو گے توتم کھڑے ہونے کے قابل بھی نہیں رہوگے۔ یہ کام کرنے سے یا فلاں کام کرنے سے تم پر غربت حاوی ہو جائے گی اور اس دنیا میں جو دنیاوی ترقی کی دنیا ہے تم بہت پیچھے رہ جاؤ گے اور اگر قربانیاں کرو گے توکبھی اپنا مقام پیدا نہیں کر سکو گے۔ پس شیطان کا قربانیوں کے حوالے سے اس طریقے پر ڈرانا بھی مختلف طور پر ہے۔ کبھی وہ اس بات سے ڈرائے گا کہ یہ کام کا وقت ہے اور یہ وقت تمہیں اپنی عبادت کے لئے قربان نہیں کرنا چاہئے۔ کبھی مالی قربانی سے روکنے کے لئے فَقْر سے ڈرائے گا کہ تمہارا کام اور پیسہ اگر اس وقت نکلا تو تمہارے کاروبار میں نقصان ہو گا۔ کبھی اس بات سے ڈرائے گا کہ اگر یہ رقم آج یہاں خرچ کر لی تو تمہارے بچے بھوکے رہ جائیں گے۔ لیکن جو اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں وہ اس کے ڈراوے میں نہیں آتے۔
گزشتہ دنوں مَیں الفضل میں ایک مضمون دیکھ رہا تھا۔ مالی قربانی پہ کسی لکھنے والے نے لکھا۔ ربوہ میں کسی احمدی کا واقعہ تھا کہ وہ صاحب گوشت کی دکان پر کھڑے گوشت خرید رہے تھے۔ وہاں سے سیکرٹری مال کا سائیکل پرگزر ہوا تو اس شخص کو دیکھ کر جو سودا خرید رہا تھا، سیکرٹری مال صاحب وہاں رک گئے اور صرف یاد دہانی کے لئے بتایا کہ آپ کا فلاں چندہ بقایا ہے۔ تو اس شخص نے پوچھا کہ کتنا بقایا ہے؟ جب سیکرٹری مال نے بتایا تو وہ کافی رقم تھی۔ تو انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے وہ سیکرٹری مال کو ادا کر دی اور رسید لے لی۔ اور قصائی سے جو گوشت خریدا تھا وہ اس کو واپس کر دیا کہ آج ہم گوشت نہیں کھا سکتے۔ سادہ کھانا کھائیں گے۔ تو یہ ایسے بندے ہیں جو شیطان کے بہکاوے میں نہیں آتے جب وہ کہتا ہے کہ یہ کیا کر رہے ہو، تمہارے بچے ہیں ان کا آج گوشت کھانے کو دل چاہ رہا ہے اور تم اس سے اُن کو محروم رکھ رہے ہو؟ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں ایسے لوگوں کی یہ ایک نہیں سینکڑوں مثالیں ہیں جو صرف گوشت ہی نہیں چھوڑتے بلکہ بعض دفعہ مالی قربانی کی خاطر فاقے بھی کرلیتے ہیں لیکن مالی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹتے۔
پھر جان کی قربانی ہے۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ ان قربانیوں سے بھی بھری پڑی ہے۔ پاکستان میں تو آج کل عام آدمی کی بھی سینکڑوں موتیں ہوتی ہیں اور کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کون اچانک گولی کا نشانہ بن جائے۔ لیکن احمدی جو قربانیاں دیتے ہیں انہیں علم ہوتا ہے کہ اس فعل سے، یہ کام کرنے سے، اس علاقہ میں رہنے سے یا ان رستوں پر گزرنے سے قوی امکانات ہیں کہ کسی وقت بھی موت واقعہ ہو جائے اور احمدی ہونے کی وجہ سے ہو جائے لیکن خدا کی خاطر یہ قربانیاں دیتے چلے جاتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں سید الشّہداء حضرت سید عبداللطیف شہیدؓ کی قربانی ہے، مولوی عبدالرحمنؓ کی قربانی ہے جو کابل میں ہوئی اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں تھی۔ ان قربانیوں نے دنیا کو دکھایا کہ یہ عبدالرحمٰن ہوتے ہیں جو ایک مقصد کی خاطر خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور اس قسم کی قربانیوں کے بھی احمدیوں کی زندگیوں میں درجنوں واقعات ہیں کہ اچانک حملوں کے نتیجہ میں انہوں نے قربانیاں نہیں کیں اور شہادتیں حاصل نہیں کیں بلکہ سینہ تان کر اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے ان قربانیوں کے نظارے پیش کئے اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔
بہرحال شیطان کے بارہ میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تمہیں قربانی کرنے سے ڈراتا ہے۔ کبھی یہ کہہ کر کہ غربت کا شکار ہوجاؤ گے۔ کبھی یہ کہہ کر کہ تمہاری اس قربانی سے تمہاری اولادیں بھی کسی قابل نہیں رہیں گی۔ جب جان کی قربانی سے ڈراتا ہے تو پیچھے اولادوں کا خوف دلاتا ہے کہ ان کا کیا حال ہو گا؟ آج اس زمانہ میں معیشت کو بھی ریڑھ کی ہڈی کا نام دیا جاتا ہے۔ تو قربانی کرنے والوں کو جو جان، مال اور وقت کی قربانی کرتے ہیں، اپنے اور اپنے بچوں کے معاش کے ختم ہونے سے ڈرایا جاتا ہے، لیکن وہ قربانیاں کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ کبھی اس بہکاوے میں نہیں آتے۔ اسی طرح اور کئی قسم کی قربانیاں ہیں جو انسان کی زندگی میں آتی ہیں جن سے شیطان ڈراتا ہے۔
پھر وقت کی قربانی کی مثال ہے۔ یہ تو ہر احمدی جانتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو احمدی بھی نظام جماعت سے منسلک ہیں وہ کچھ نہ کچھ وقت جماعت کے لئے دیتے ہیں اَور کچھ نہیں تو اجلاسوں پہ، اجتماعوں پہ اور جلسوں پر ہی کچھ وقت دے رہے ہوتے ہیں اور ہر ہفتے بہت بڑی اکثریت ہے جو اپنے وقت کی قربانی کرکے جمعہ پڑھنے آتی ہے اور شیطان جو روکتا ہے اس کے وسوسوں کی پرواہ نہیں کرتی۔ لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو جمعوں میں اور بعض اوقات عیدوں پر بھی نہیں آ رہے ہوتے اور اپنے کاروبار پر یہ عبادتیں قربان کر رہے ہوتے ہیں اور جو نمازوں کی حالت ہے وہ تو قابل فکر حالت ہے، احمدیوں میں بھی بہت بڑی تعداد ہے جو وقت کی اس قربانی کی طرف توجہ نہیں دیتی۔ عبادت کی سستی کی وجوہات ہیں اور اس میں سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اپنے کاموں میں، اپنے کاروبار وں میں مشغول ہیں اور اس دوران میں نمازیں پڑھنے کے لئے وقت قربان نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم قربانیاں کر رہے ہوتے ہو تو شیطان تمہیں مختلف طریقوں سے ڈراتا ہے۔ کبھی غربت سے ڈرا کر نماز کے لئے وقت کو قربان کرنے سے روکتا ہے۔ کبھی کسی طریقے سے قربانی سے روکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک حقیقی مومن ہونے کی حیثیت سے اس سے ہوشیار رہو۔ بہرحال اللہ تعالیٰ سے دُور لے جانے کے لئے شیطان کے مختلف طریقے ہیں جو وہ بندوں پر استعمال کرتا رہتاہے۔
مزید پڑھیں: نماز کے چند فقہی مسائل