تعارف کتاب

خطبات کریمیہ( حصہ اول)(حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب رضی اللہ عنہ)(قسط ۶۳)

(اواب سعد حیات)

تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی موجودگی میں پڑھے گئے ان خطبات جمعہ کا مطالعہ کرنا جہاں علمی لحاظ سے ترقی دینے والا ہے وہاں انسان چشم تصور میں اس پاکیزہ مجلس کے خاص روحانی ماحول کو بھی محسوس کرسکتا ہے

امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک فدائی صحابی حضرت مخدوم الملہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ کو اپنی مسجد میں باجماعت نمازوں کی امامت کے لیے امام الصلوٰۃ چنا اور مولوی صاحب موصوف کو ہی پنج وقتہ فرض نماز یں پڑھانے کے ساتھ ساتھ جمعۃالمبارک کے مواقع پر خطبہ جمعہ پڑھنے اور جمعہ کی نماز پڑھانے کا خاص اعزاز ملا کرتا تھا۔

ایڈیٹر الحکم حضرت شیخ یعقوب علی تراب احمدی نےحضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ کے ان خطبات کوسن کر لکھنا اور مرتب کرنا شروع کیا، کیونکہ یہ خطبات ان امور اور نکات سے پُر ہوتے تھے جن کی امت کے افراد کو ضرورت ہے۔ ان خطبات میں قرآن کریم کی عظمت، آنحضرت ﷺ کی جلیل القدر شان اور خدا تعالیٰ کے مسیح و مہدی کی ضرورت و صداقت کو ذہن نشین کرنا ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی ان خطبات میں ایسے امور کا بیان ہے جو احمدی قوم کے شیرازہ قوم کو درست رکھنے کےلیے ضروری ہیں۔ اوران ضروری مطالب کو نہایت فصیح و بلیغ زبان میں ادا کیا گیا ہے۔

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے ’’ملفوظات کریم‘‘ کے سلسلہ کےپہلے نمبر کے طور پر۱۲؍خطبات جمعہ پر مشتمل حصہ اول یعنی ۷۰؍صفحات کا یہ کتابچہ قادیان دارالامان میں ۲۴؍جنوری۱۹۰۵ء کو تیار کیا تھا۔ اورمطبع انوار احمدیہ قادیان سے بار اول میں ۵۰۰؍کی تعداد میں چھپوایا۔

ان ۱۲؍خطبات کے متن سے قبل دو صفحات پر پھیلے ہوئے عرض حال میں بتایا کہ میری اس تالیف سمیت ہر کتاب شائع کرنے کی کیا وجہ اور نیت ہوتی ہے۔ لکھا:’’میں محض خداتعالیٰ کے فضل و کرم پر بھروسہ کرکے جرات سے کہہ سکتا ہوں کہ آج تک کوئی رسالہ یا کتاب میرے ہاتھوں سے ترتیب پاکر ایسی نہیں نکلی جو قوم کے لیے مفید اور ضروری نہ ہواور معاً قرآن کریم کی خدمت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا کے برگزیدہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جلالت شان اس سے مقصود نہ ہو۔ جن لوگوں نے سالانہ جلسہ کی رپورٹ، الانذار، اصلاح النذر وغیرہ چھوٹے بڑے رسالے اور تفسیرالقرآن جس کی ترتیب پر مجھے بجائے خود ناز ہے پڑھی ہیں، وہ کہہ سکتا ہے کہ اس سلسلہ تالیف و تصنیف میں میراکیا مسلک رہا ہے۔ میں جہاں تک اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھ دی ہے ہمیشہ اس بات کی ٹوہ میں لگا رہتا ہوں کہ ان ضروریات کو محسوس کروں جو آج مسلمانوں اور خصوصیت سے احمدیوں کو ہیں۔ اور ساتھ ہی جب میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی مساعی جمیلہ کو جو انہوں نے کتاب و سنت کی خدمت کے لیے (باوجودیکہ پریس کی برکت اس وقت نہ تھی) کی ہیں، دیکھتا ہوں تواس زمانہ میں جبکہ ہر قسم کی سہولتیں اور اسباب میسر ہیں میرا دل چاہتا ہے کہ مجھ سے بھی اسی قسم کی خدمات ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جو آئے دن میں کسی نہ کسی جدید لیکن مفیدِ قوم تالیف کی فکر میں رہتا ہوں۔ اسی خواہش اور مقصد کے نتائج میں سے یہ رسالہ بھی ہے۔ ‘‘

عرض حال میں اس کے بعد خطبات کی اصل غرض پر بحث کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت امت کے علماء خطبہ دینے کی اصل روح سے محروم ہوچکے ہیں کیونکہ صحابہؓ کے زمانہ میں جب کوئی بولتا، خطبہ دیتا تھا تو وہ اپنے مضمون کے موضوع کو سمجھتا اور قوم کو سمجھاتا اور اس پر اثر ڈالنا اپنے مدنظر رکھا کرتا تھا۔

پہلا خطبہ ’’سفینۃ النوح یا کشتی بیعت‘‘ کے عنوان سے ہے، جس میں سورہ ہود کی آیت ۳۸ وَاصۡنَعِ الۡفُلۡکَ بِاَعۡیُنِنَا وَوَحۡیِنَا…کی روشنی میں حضرت نوح علیہ السلام کے واقعہ سے نصیحت پکڑنے پر زور دیا ہے۔ قصص القرآن کی عظمت اور ضرورت بتاتے ہوئے ان کو اساطیر الاولین کہنے سے روکا ہے۔

خطبہ دوم کتاب کے صفحہ ۵ تا ۱۶ پر درج ہے۔ کتاب میں متعدد جگہ حاشیہ لگاکر مرتب کتاب نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کے بعض نکات کی مزید وضاحت بھی کی ہے۔ صفحہ ۲۶ تک خطبہ سوم کا متن ہے۔

خطبہ نمبر چہارم میں اطاعت رسول کے طریق بتائے گئے ہیں۔ خطبہ نمبر پنجم میں حقیقی مسلمان کے اوصاف بتائے گئے ہیں۔ خطبہ نمبر ششم میں اللہ کے انبیاء کی عزت و تکریم کا درس دیا گیا ہے۔

کتاب کے صفحہ ۳۹ سے شروع ہونے والے خطبہ ہفتم میں دنیاوی زندگی کو مختلف مثالوں سے سمجھایاگیا ہے۔ خطبہ نمبر نہم میں وفات مسیح کا بیان ہے اور بتایا کہ ’’ایک انگریز پادری آہ مارکر کہتا ہے کہ اگر قرآن نہ ہوتا تو ساری دنیا عیسائی ہوجاتی۔ ہم فخر اور خوشی سے ہاں مبارکبادی سے کہتے ہیں کہ بالکل سچ ہے اور یہ قرآن کریم ہی کا احسان عمیم ہے کہ اس نے دنیا کو ابدی لعنت اور عیسیٰ پرستی اور اس کے پرخطر نتائج کے جہنم سے بچالیا۔‘‘

خطبہ دہم مامورین اور ان کے ماننے والوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے موضوع پر ہے۔ جبکہ خطبہ نمبر یازدہم حضرت یوسف علیہ السلام اوران کے بھائیوں کے حوالہ سے گہرے مضامین پر مشتمل ہے۔

خطبہ نمبر ۱۲ میں متقیوں اور ان کی نشانیوں کا بیان ہے۔ اور بتایا کہ ’’یاد رکھو، کبھی یہ بات نہیں ہوسکتی کہ قدوس کے متبع اور بھلے مانس ذلیل ہوں۔ نہیں! وہ دنیا میں، قبر میں، حشر میں، جنت میں عیش اور سچا آرام پاتے ہیں۔ وہ اُن لوگوں سے جو آگ میں جل رہے ہیں برابر نہیں اور ہرگز نہیں۔ وہ لوگ جو سچے راستباز اور متقی ہیں وہ ہمیشہ سُکھ پاتے ہیں یہ لوگ ہی آخر کار کامیاب ہونے والے ہیں۔

میں پھر آخرمیں کہتا ہوں کہ کامل ایمان کے بدوں انسان اس درجہ پر نہیں پہنچتا، کامل ایمان یہی ہے کہ اسمائے الٰہی پر ایمان لاؤ کہ اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہے کہ ایک ناپاک اور گندے کو ایک پاک اور مومن سے ملاو ے اور گندے کو عزت دیوے۔ پھر کامل ایمان میں سے یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وسائط پر ایمان لاؤ۔ یعنی ملائکہ پر۔ اللہ تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لاؤ۔ وفادار ہو، عسر و یسر میں قدم آگے ہی بڑھاؤ اور جزا و سزا پر ایمان لاؤ۔ نمازوں کو مضبوط کرو۔ اور زکوٰتیں دو۔ غرض یہ لوگ ہوتے ہیں جو متقی کہلاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ آپ کو اورمجھے توفیق دے کہ ہم متقی بن جاویں۔ یاد رکھو کہ دنیا سے وہی تعلق ہو جو خدا چاہتا ہے۔ آخر جیت راستبازوں ہی کی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ مخفی در مخفی حالات کا واقف ہے۔ ہمیشہ اس کے پاک قانون کے متبع بنو۔ اور ہر حالت میں رضائے الٰہی کے طالب رہو اور اس کے پاک چشمہ سے دُور نہ ہو۔ آمین‘‘

الغرض حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی موجودگی میں پڑھے گئے ان خطبات جمعہ کا مطالعہ کرنا جہاں علمی لحاظ سے ترقی دینے والا ہے وہاں انسان چشم تصور میں اس پاکیزہ مجلس کے خاص روحانی ماحول کو بھی محسوس کرسکتا ہے۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: احمدیت کا پیغام (حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان رضی اللہ عنہ )(قسط ۶۲)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button