مصلح موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی(قسط اول)
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ فرمودہ ۴؍ فروری ۱۹۴۴ء سے ایک انتخاب)
۱۹۴۴ء میں حضؓور نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے پیشگوئی مصلح موعود کے متعلق اپنے رئویا اور اس کی حضرت مسیح موعوؑ کی پیشگوئی سے مشابہت بیان فرمائی ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے اس خطبہ میں سے ایک انتخاب شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)
’’یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشانِ آسمانی ہے‘‘۔ جس کو خدا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لیے نازل کیا ہے
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’مَیں نے پچھلے جمعہ میں اپنی ایک رؤیا سنائی تھی جس میں مجھے بتایا گیا تھا کہ
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی وہ پیشگوئی جو ایک ایسے لڑکے کے متعلق تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی مقرر کردہ میعاد کے اندر پیدا ہونے والا تھا اور جو ۱۸۸۶ء کی پیشگوئی کا مصداق تھا وہ میرے ہی متعلق تھی۔
آج مَیں بتاتا ہوں کہ کس طرح اس رؤیا میں بہت سی باتیں اس پیشگوئی کی دہرائی گئی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمائی۔
جیسا کہ مَیں نے بتایا تھا مَیں نے اس پیشگوئی کو غور و فکر سے پڑھنے کی پہلے کبھی کوشش نہیں کی۔ بلکہ جب کبھی یہ پیشگوئی میرے سامنے آتی، مَیں اس کے مضمون پر سے جلدی سے گزر جاتا تھا تاکہ میرا نفس میرے دل میں اس کے متعلق کوئی جھوٹا شُبہ پیدا نہ کرے اور جبکہ جماعت کے دوستوں کا اصرار تھا کہ وہ اس پیشگوئی کو میرے متعلق سمجھتے ہیں میں ہمیشہ ہی اس مضمون سے کتراتا تھا۔ اس لیے پیشگوئی کی جو تشریحات تھیں وہ میرے ذہن میں نہ تھیں۔خصوصاً اس سال کے شروع میں جب یہ رؤیا ہؤا یعنی جنوری کے مہینہ میں، اُس وقت تو کوئی وجہ نہ تھی کہ یہ تشریحات میرے سامنے ہوتیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مضمون عرصہ دراز سے میرے سامنے نہ آیا تھا۔ بے شک بعض علامتیں جو اس پیشگوئی میں بیان کی گئی ہیں وہ میرے ذہن میں تھیں۔ لیکن باوجود اس کے یہ رؤیا مجھے ایسے رنگ میں آئی ہے جسے دماغی ترجمانی نہیں کہا جاسکتا۔ اور بعض علامتیں جو اس پیشگوئی میں تو تھیں مگر میرے علم میں نہ تھیں اور گو میں نے وہ علامتیں پڑھی ضرور تھیں مگر اُن علامتوں نے کبھی میرے ذہن میں معیّن جگہ نہیں پکڑی تھی اور مجھے یاد بھی نہیں تھیں اُن علامتوں کو اس رؤیا میں اللہ تعالیٰ نے عجیب طریق پر دُہرا دیا ہے۔ مگر پیشتر اس کے کہ میں اُن مشابہتوں کا ذکر کروں، مَیں اس امر کا ذکر کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ایک ظاہری مشابہت میری رؤیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی پیشگوئی کے درمیان پائی جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو یہ خبر ایک سفر کے موقع پر دی گئی تھی جبکہ آپ ہوشیارپور گئے ہوئے تھے اور ہوشیارپور میں ہی آپ نے وہ اشتہار لکھا جس میں اس پیشگوئی کا تفصیل کے ساتھ ذکر آتا ہے۔ چنانچہ اس اشتہار کے شائع کرتے وقت آپ نے اللہ تعالیٰ کے اس الہام کو درج کرتے ہوئے کہ
’’میں نے تیری تضرعات کو سُنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایۂ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو تیرے لیے مبارک کردیا‘‘۔
تحریر فرمایا ہے
’’جو ہوشیارپور اور لدھیانہ کا سفر ہے‘‘
لدھیانہ کا سفر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے پہلے کیا اور ہوشیارپور کا سفر بعد میں اور یہ الہامات آپ کو ہوشیار پور میں ہی ہوئے۔ چنانچہ میاں بشیر احمد صاحبؓ نے اپنی کتاب ’’سیرۃ المہدی‘‘ میں مولوی عبداللہ صاحب سنوری کی یہ روایت شائع کی ہے کہ مَیں اس سفر میں آپ کے ہمراہ تھا۔ وہیں آپؑ پر یہ الہامات نازل ہوئے اور وہیں آپؑ نے یہ اشتہار شائع کیا۔ پس
یہ خبر آپ کو ہوشیارپور کے سفر میں ملی ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ مجھ کو بھی یہ رؤیا سفر میں ہی ہوئی ہے جبکہ میں لاہور میں تھا۔پس اس پیشگوئی اور رؤیا میں سفر کے لحاظ سے بھی آپس میں مشابہت پائی جاتی ہے
بلکہ جس وقت مَیں یہ بات بیان کرنے لگا ہوں، میرے ذہن میں ایک اَور مشابہت بھی آئی ہے مگر مجھے اس پر ابھی پورا یقین نہیں۔ اس کے متعلق اِنْشَاءَ اللّٰہ بعد میں تحقیقات کروں گا۔ اور وہ مشابہت یہ ہے کہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے شیخ بشیر احمد صاحب جس مکان میں رہتے ہیں اور جس میں رؤیا کے وقت میری سکونت تھی وہ ہوشیارپور کے رہنے والے ایک صاحب شیخ نیاز محمد صاحب پلیڈر مرحوم کا ہے۔ [حاشیہ] پس یہ عجیب بات ہے کہ یہ رؤیا مجھے سفر میں آئی اور اس مکان میں آئی جو ہوشیارپور کے رہنے والے ایک دوست کا مکان ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو یہ الہامات بھی ہوشیارپور میں ہی ہوئے اور ان کی برادری کے ایک آدمی کے گھر پر ہوئے۔ شیخ نیاز محمد صاحب کا بھی عجیب معاملہ معلوم ہوتا ہے۔ میری ان سے کوئی زیادہ واقفیت نہ تھی۔ ہاں یہ جانتا تھا کہ وہ ایک کامیاب وکیل ہیں اور یہ معلوم تھا کہ لوگوں میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ اچھے درجہ پر پہنچ جائیں گے۔ مگر مجھے وہ صرف ایک دفعہ ملے تھے۔ اس ملاقات کے مہینوں بلکہ سالوں بعد مَیں نے ایک رؤیا دیکھی کہ ایک بہت بڑا اژدہام ہے جس میں ان کو ایک ہاتھی پر چڑھا کر لوگ جلوس کی صورت میں شہر کی طرف لا رہے ہیں۔ بہت سے مسلمان جمع ہیں اور لوگوں کا بہت بڑا ہجوم ہے اور وہ بہت خوش ہیں کہ ان کو کوئی عزت ملی ہے یا ملنے والی ہے۔ مَیں رؤیا میں دیکھتا ہوں کہ جلوس مفتی محمد صادق صاحب کے گھر کی طرف آرہا ہے مَیں ان کے گھر کے قریب جو موڑ ہے وہاں کھڑا ہو گیا اور جلوس نے اس طرف بڑھنا شروع کردیا۔ جس وقت وہ عین منزلِ مقصود پر پہنچ گئے جہاں ان کا اعزاز ہونا تھا تو یکدم آسمان سے ایک ہاتھ آیا اور وہ انہیں اٹھا کر لے گیا۔ اس رؤیا کے مہینہ ڈیڑھ مہینہ کے بعد وہ فوت ہوگئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ہائی کورٹ کی ججی کے لیے ان کا نام گیا ہوا تھا اور منظوری آنے ہی والی تھی کہ وہ فوت ہو گئے۔ یہ رؤیا تھی جو مَیں نے ان کے متعلق دیکھی۔ حالانکہ میرا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ صرف ایک دفعہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب کے ساتھ وہ مجھ سے ملنے کے لیے آئے تھے۔ اس سے زیادہ میری ان سے کوئی واقفیت نہ تھی لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ وہ عنقریب فوت ہونے والے ہیں اور ایسے حالات میں فوت ہونے والے ہیں جبکہ مسلمانوں کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے ان کو عزت ملنے والی ہے۔ آج مَیں سمجھتا ہوں کہ باوجود کوئی ظاہری تعلق نہ ہونے کے ان کی وفات کی خبر کا مجھے دینا اسی نسبت کی وجہ سے تھا کہ ان کے گھر پر اللہ تعالیٰ نے مجھے مصلح موعود ہونے کی خبر دینی تھی۔ اب مَیں ان مشابہتوں کو بیان کرتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی پیشگوئی کے ساتھ میری رؤیا کو ہیں۔
رؤیا میں مَیں نے دیکھا کہ میری زبان پر یہ فقرہ جاری ہوا اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِیْلُہٗ وَخَلِیْفَتُہٗ
ان الفاظ کا میری زبان پر جاری ہونا میرے لیے اس قدر عجوبہ تھا (ظاہر میں تو ہو ہی سکتا ہے لیکن خواب میں ہی میری ایسی کیفیت ہو گئی) کہ قریب تھا اس تہلکہ سے مَیں جاگ اٹھتا کہ میرے مُنہ سے یہ کیا الفاظ نکل گئے ہیں۔ بعد میں بعض دوستوں نے توجہ دلائی کہ مسیحی نفس ہونے کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے اشتہار مورخہ ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء میں بھی آتا ہے۔ گو اس روز مَیں یہ اشتہار پڑھ کر آیا تھا لیکن جب مَیں خطبہ پڑھ رہا تھا اُس وقت اشتہار کے یہ الفاظ میرے ذہن میں نہ تھے۔خطبہ کے بعد غالباً دوسرے دن مولوی سید سرور شاہ صاحب نے توجہ دلائی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے اشتہار میں بھی لکھا ہے کہ
’’وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا‘‘۔
اس پیشگوئی میں بھی مسیح کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
دوسرے مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ
مَیں نے بُت تڑوائے ہیں۔
اس کا اشارہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی اس پیشگوئی کے دوسرے حصہ میں پایا جاتا ہے کہ وہ
’’روح الحق کی برکت سے بُہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔‘‘
روح الحق توحید کی روح کو کہا جاتا ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ
اصل چیز خدا تعالیٰ کا وجود ہی ہے،باقی سب چیزیں اظلال اور سائے ہیں۔ پس روح الحق سے مراد توحید کی روح ہے
جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ اس کی برکت سے بُہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔
تیسرے مَیں نے دیکھا کہ مَیں بھاگ رہا ہوں۔
چنانچہ خطبہ میں مَیں نے ذکر کیا تھا کہ رؤیا میں یہی نہیں کہ مَیں تیزی سے چلتا ہوں بلکہ دوڑتا ہوں اور زمین میرے قدموں تلے سمٹتی چلی جاتی ہے۔ پسرِموعود کی پیشگوئی میں بھی یہ الفاظ ہیں کہ
وہ جلد جلد بڑھے گا۔
اسی طرح رؤیا میں مَیں نے دیکھا کہ
مَیں بعض غیر ملکوں کی طرف گیا ہوں اور پھر وہاں بھی مَیں نے اپنے کام کو ختم نہیں کیا بلکہ مَیں اور آگے جانے کا ارادہ کررہا ہوں۔ جیسے مَیں نے کہا اے عبدالشکور! اب مَیں آگے جاؤں گا اور جب اس سفر سے واپس آؤں گا تو دیکھوں گا کہ اس عرصہ میں تُو نے توحید کو قائم کردیا ہے،شرک کو مٹا دیا ہے اور اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تعلیم کو لوگوں کے دلوں میں راسخ کردیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام پر اللہ تعالیٰ نے جو کلام نازل فرمایا اس میں بھی اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے وہ
’’زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا‘‘۔
یہ الفاظ بھی اس کے دُور دور جانے اور چلتے چلے جانے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
پھر یہ جو پیشگوئی میں ذکر آتا ہے کہ وہ :
’’علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘۔
اس کی طرف بھی میری رؤیا میں اشارہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ خواب میں مَیں بڑے زور سے کہہ رہا ہوں کہ
’’مَیں وہ ہوں جسے علوم اسلام اور علوم عربی اور اس زبان کا فلسفہ ماں کی گود میں اس کی دونوں چھاتیوں سے دودھ کے ساتھ پلائے گئے تھے‘‘۔
پھر لکھا تھا وہ
’’جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا‘‘۔
اس کے متعلق بھی رؤیا میں وضاحت پائی جاتی ہے جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ
رؤیا میں میری زبان پر تصرف کیا گیا اور میری زبان سے خدا تعالیٰ نے بولنا شروع کردیا۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لائے اور آپ نے میری زبان سے کلام فرمایا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام آئے اور آپ نے میری زبان سے بولنا شروع کردیا۔
یہ جلالِ الٰہی کا ایک عجیب ظہور تھا جس کا پیشگوئی میں بھی ذکر پایا جاتا تھا۔ پس یہ بھی ان دونوں میں ایک مشابہت پائی جاتی ہے۔
پھر لکھا تھا۔
’’وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا‘‘۔
اور رؤیا میں بھی یہ دکھایا گیا کہ
ایک قوم ہے جس کا مَیں ایک شخص کو لیڈر مقرر کرتا ہوں اور ان الفاظ میں جیسے ایک طاقتور بادشاہ اپنے ماتحت کو کہہ رہا ہو،اسے کہتا ہوں اے عبدالشکور! تم میرے سامنے اس بات کے ذمہ دار ہوگے کہ تمہارا ملک قریب ترین عرصہ میں توحید پر ایمان لے آئے، شرک کو ترک کردے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعلیم پر عمل کرے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ارشادات کو اپنے مدنظر رکھے۔
یہ ’’صاحبِ شکوہ اور عظمت‘‘ کے ہی کلمات ہوسکتے ہیں جو رؤیا میں میری زبان پر جاری کیے گئے۔
اور یہ جو پیشگوئی میں ذکر آتا ہے کہ
’’ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے‘‘۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس پر کلامِ الٰہی نازل ہوگا اور رؤیا میں اس کا بھی ذکر آتا ہے۔ چنانچہ
الٰہی تصرف کے ماتحت رؤیا میں مَیں سمجھتا ہوں کہ اب مَیں نہیں بول رہا بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الہامی طور پر میری زبان پر باتیں جاری کی جا رہی ہیں۔
پس اس حصہ میں پیشگوئی کے انہی الفاظ کے پورا ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ ’’ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے‘‘۔
پھر رؤیا کا یہ حصہ بھی پیشگوئی کے ان الفاظ کی تصدیق کرتا ہے کہ رؤیا میں مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر قدم جو مَیں اٹھا رہا ہوں وہ کسی پہلی وحی کے مطابق اٹھا رہا ہوں۔ اب مَیں خیال کرتا ہوں کہ یہ جو مَیں سمجھتا ہوں کہ
آئندہ مَیں جو سفر کروں گا وہ ایک سابق وحی کے مطابق ہوگا
اس سے اشارہ مصلح موعود والی پیشگوئی ہی کی طرف تھا۔ اور یہ بتایا گیا تھا کہ
میری زندگی اس پیشگوئی کا نقشہ ہے اور الٰہی تصرف کے ماتحت ہے۔
اب مَیں سمجھتا ہوں کہ پہلی پیشگوئی کے متعلق جو یہ ابہام رکھا گیا کہ یہ کس کی پیشگوئی ہے، اس میں یہ حکمت تھی تا مصلح موعود کی پیشگوئی کی طرف توجہ دلا کر اس ذہنی علم کا رؤیا میں دخل نہ ہو جائے جو مجھے اس پیشگوئی کی نسبت حاصل تھا۔ اس قسم کی تدابیر رؤیا اور الہام میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ اختیار کی جاتی ہیں اور اسرارِ سماویہ میں سے ایک سرّ میں یہ وہ مشابہتیں ہیں جو میری رؤیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی میں پائی جاتی ہیں۔
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: اپنے وعدوں کو بڑھا کر پیش کرنا دنیا میں اسلام کی ترقی اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کا موجب ہے