متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب(دورہ امریکہ اور گوئٹے مالا۔ اکتوبر نومبر ۲۰۱۸ء کے چند واقعات۔ حصہ نہم)

اے چھاؤں چھاؤں شخص!تری عمر ہو دراز

خدا تعالیٰ ہمیشہ ساتھ ہے

شام ڈھلےحضور انور نے ہیوسٹن میں درجنوں افرادِ جماعت سے انفرادی اور فیملی ملاقاتیں کیں۔ جیسے ہی ایک فیملی باہر آئی منیر جاوید صاحب، پرائیویٹ سیکرٹری نے مجھے بلایا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پچھلی ملاقات کے آخر پر حضور کے دفتر میں گئے تھے، تاکہ تصویر لے سکیں اور اس دوران ملاقات کرنے والے ایک احمدی نے حضور سے ان کی خلافت کے ابتدائی دنوں کے بارے میں سوال کیا تھا۔اس شخص نے حضور سےدریافت کیا تھا کہ آپ کی اپنی زندگی میں جو بہت بڑی تبدیلی آئی، یعنی ایک لمحے میں آپ ایک عام شخص تھے اور اگلے لمحے میں آپ خلیفۃالمسیح بن گئے تو اس تبدیلی کو آپ نے کیسے سنبھالا؟ اور کیا اس وقت کوئی شخص ایسا تھا جو آپ کو راہنمائی یا مدد فراہم کر رہا تھا؟

اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایاکہ انتخاب سے پہلےمیں نے کبھی خلافت کا سوچا نہیں تھامگر کسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ بوجھ میرے کندھوں پر ڈال دیا۔ انتخاب کے بعد میرے ساتھ مدد کے لیے کوئی شخص نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ ہی مستقلاً میرا ہمراہی تھا اور ہمیشہ میری مدد اور حمایت کے لیے موجود رہا۔

حضور نے بہت خوبصورت انداز میں مزید فرمایاکہ پہلے لمحے سےہی اللہ تعالیٰ ہمیشہ میرے ساتھ رہا ہے، میری مدد کی ہے، حمایت کی ہے اور راہنمائی فراہم کی ہے۔اگر مجھے کبھی کچھ چاہیے ہوتا ہے تو میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہوں اور وہ مجھے کبھی مایوس نہیں کرتا۔ اس لیے جب کسی شخص کو خلیفۃالمسیح منتخب کیا جاتا ہے تو وہ کسی فرد سے مدد نہیں مانگتا، وہ صرف اپنے خالق کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کوئی کام دے دیتا ہے تو وہ خود اس کی مدد کرتا ہے تاکہ وہ اسے مکمل کر سکے۔

یہ ایک خوبصورت اور دل کو چھو لینے والا جواب تھا، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ حضور کو اللہ تعالیٰ پرکامل بھروسہ اور توکل ہے۔

جب میں اس ڈائری کو لکھ رہا ہوں تو مجھے یاد آ رہا ہے کہ امریکہ کے دورے کے چند ماہ بعد مسجد فضل لندن میں ایک برطانوی صحافی نے حضورِانور کا انٹرویو لیا تھا، جس میں اُس نے حضور سے سوال کیا تھا کہ کیا آپ کبھی تنہا محسوس کرتے ہیں؟

حضور کا جواب، ڈیلی ٹیلی گراف میں شائع ہوااور بہت زیادہ پڑھا گیا وہ کچھ یوں تھا۔حضور انور نے فرمایاکہ نہیں! اللہ میرے ساتھ ہے۔ میں تنہا نہیں ہوں۔

جس بات کاصحافی نے ذکر نہیں کیا وہ ایک ایسا پہلو ہے جسے میں کبھی نہیں بھولوں گا۔ جب حضور نے یہ جواب دیا تو آپ نے ایک انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور حضور کی آنکھوں میں دکھائی دیتی ہوئی محبت ان کے خالق سے مکمل عقیدت اور توکل کو ظاہر کرتی تھی۔ یہ ایک نظر اورحضور کا یہ جواب ہی تھا جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے خلیفہ کو یہ یقین ہے کہ ان کا خالق غم اور مشکل میں ہمیشہ ان کا بوجھ اٹھانے کے لیے موجود ہے۔

دوسری رائے کی ضرورت نہیں

ہیوسٹن میں حضور سے ملاقات کرنے والی ایک اور شخصیت ہیلی (Hailey) احمدتھیں، جو mid-twenties کی عمر کی ایک نوجوان خاتون تھیں۔ جنہوں نے نومبر ۲۰۱۵ء میں احمدیت کو قبول کیا تھا اور اب ایک احمدی دوست حارث احمد سے شادی کے بعد ایریزونا میں رہتی تھیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے اسلام کو کس طرح اور کیوں قبول کیا؟ جواب میں ہیلی نے کہاکہ جب میں ہائی سکول میں تھی تو میں چرچ جاتی تھی لیکن کچھ مسائل پر میرے مسیحی عقیدےمیں نقائص تھے اور جو سوالات میرے ذہن میں تھے ان کے تسلی بخش جواب مجھے نہیں ملے۔ پھر جب میں کالج گئی تو میری ملاقات ایک سنی مسلمان لڑکی سے ہوئی جو حجاب پہنتی تھی اور مجھے یہ جاننے میں دلچسپی پیدا ہوئی کہ وہ حجاب کیوں پہنتی ہے۔ میں اس سے سوالات کرتی تھی اور پھر میں نے اس سے پوچھا کہ کیا میں اس کی مسجد دیکھ سکتی ہوں۔ جتنا زیادہ میں اسلام کے بارے میں سیکھتی اتنا ہی مجھے وہ پسند آتامگر کچھ چیزیں ایسی تھیں جن سے مجھے اچھا محسوس نہیں ہوتا تھا ۔ مثال کے طور پرسنی مسجد میں ایک شخص نے خطبہ دیا جوکہ بہت حد تک انتہا پسندانہ تھا۔

ان کی زندگی میں حقیقی تبدیلی اس وقت آئی جب انہوں نے کیلیفورنیا میں احمدیہ مسلم وومنز اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (AMWSA) کے ذریعے احمدیت سے تعارف حاصل کیا۔ اپنے احمدیوں کے ساتھ تجربات مجھے بتاتے ہوئے ہیلی جذباتی ہو گئیں۔ اپنے آنسو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ جب میرا احمدیوں سے رابطہ ہوا تو مجھ پر جیسے محبت اور شفقت کی بارش ہو گئی ۔ میں اپنے آپ کو بہت خوش نصیب سمجھتی ہوں کہ میں نے حقیقی اسلام کو قبول کر لیا اور اگرچہ کچھ چیلنجز کا مجھے سامنا رہا ہے لیکن خدا ہمیشہ میری مدد کے لیے موجود رہا ہے۔ مثال کے طور پر میرے والد اور ان کے خاندان کے افراد بہت قدامت پسند ہیں اس لیے انہوں نے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ میں مسلمان ہوں۔ لیکن کم از کم پچھلے سال میرے والد نے اسے قبول کر لیا ہے، چاہے ان کا خاندان ابھی تک میرے اس فیصلے کے خلاف ہولیکن دباؤ کے باوجود اس چیز نے کبھی میرے ایمان کو کمزور نہیں کیا اور نہ ہی مجھے کبھی یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ میں نے کوئی غلطی کر دی ہے۔

ہیلی نے مزید کہا: جو اصل فرق مَیں نے محسوس کیا ہے وہ یہ ہے کہ سنّی مسجد کے مقابلے میں جہاں میں جاتی تھی، ان (غیر احمدی مسلمانوں) کے پاس نہ کوئی قیادت ہے اور نہ کوئی اتحادجبکہ خلافت کی وجہ سے ہم احمدی ایک ہیں۔ اگر کوئی سوال ہوتا ہےتو (خلیفہ وقت) اس کا جواب دے دیتے ہیں اورپھر کسی دوسری رائے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

ہیلی نے ایک بار پھر اپنے آنسو پونچھتے ہوئے مجھے حضور انور سے چند لمحے پہلے ہونے والی ملاقات کے بارے میں بتایاکہ آج مجھے پہلی بار حضور انور سے ملاقات کا موقع ملا ہےاور وہ میرے ساتھ بہت مہربانی سےپیش آئے ۔ میں نے خود کو پُرسکون اور مطمئن محسوس کیا اور مجھے حضور انور کی مشفقانہ طبیعت اور سادگی نے حیران کر دیا۔

ایک افسوس ناک غلطی

بہت ہی شاذ ایسا ہوتاہے کہ حضور انور کو غصے میں دیکھا جائے۔ حضور صبر اور برداشت کا بہترین نمونہ ہیں۔ کئی مواقع پر میں نے سوچا کہ شاید حضور انور ناراض ہوں گے چاہے وہ مجھ سے ہوں یا دوسروں سے لیکن تقریباً ہمیشہ ہی حضور انور محبت اور شفقت سے راہنمائی فرماتے ہیں۔سالہا سال میں اگر مَیں نے کبھی حضور انور کو غصے میں دیکھا ہے تو وہ کبھی ذاتی مسئلے یا اپنی ذات سے متعلق کسی معاملے کی وجہ سے نہیں دیکھا بلکہ اس کی وجہ تبھی بنتی ہے جب کچھ ایسا ہو جائے یا کہا جائے جو اسلام کی تعلیمات یا جماعت احمدیہ کی روایات کے خلاف ہو ۔امریکہ کے دورے کے دوران دو مواقع پر ایسا ہوا کہ واضح طور پریہ پتا چل رہا تھا کہ حضور انور ناراض ہیں اور دونوں مواقع پر وجہ ایک ہی تھی۔پہلا موقع ہیوسٹن میں حضور انور کی آخری رات کا تھا جب حضور انور مسجد کی طرف جا رہے تھے اور دوسرا موقع دورہ امریکہ کے آخری لمحات میں مسجد بیت الرحمان ، میری لینڈ میں احمدیوں کو الوداع کہتے وقت پیش آیا۔

دونوں مواقع پر احمدیوں نے خلافت سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے نعرے بلند کیے۔تاہم، دونوں مرتبہ ہی ایک شخص نے یہ نعرہ بلند کیا:’’مرزا مسرور احمد کی جے‘‘دونوں مواقع پر حضور انور نے اس کو تنبیہ کی جس نے یہ نعرہ بلند کیا تھا۔حضور انور نے سختی سے فرمایاکہ یہ نعرہ مت لگائیں کہ ’مرزا مسرور احمد کی جے‘۔ ایسا کوئی نعرہ نہیں ہے! صرف ایک نعرہ ہے ’غلام احمد کی جے‘ اور یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہونے والا الہامی نعرہ ہے۔

لہٰذا حضور انور کی ناراضگی کی وجہ یہ تھی اور وہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی بات کہی جائے جو خلیفۂ وقت کے مقام کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کے برابر ظاہر کرے۔

تم نے آج میری آمین کروادی ہے

ملاقاتوں کے بعد حضور انور مسجد تشریف لے گئے جہاں نماز سے پہلے تقریباً تیس بچوں کی آمین کی تقریب ہوئی۔ایک بچے سے شاید گھبراہٹ یا کسی اور وجہ سےحضور کے پاس بیٹھ کر قرآن کریم کی تلاوت نہیں ہو پا رہی تھی۔اس بچے اور اس کی فیملی کو شرمندگی سے بچانے کے لیے حضور انور نے بہت محبت اور صبر کے ساتھ خود ہر لفظ پڑھا اور بچہ حضور کے بعد ہر لفظ کو دہراتا رہا۔آخر میں حضور انور بچے کی طرف مڑے اور ازراہ تفنّن فرمایا:تم نے آج میری آمین کروادی ہے!

مسجد میں موجود تمام افراد اس جملے پر مسکرائےاور حضور انور کے اس تبصرے سے بہت لطف اندوز ہوئے۔

(مترجم:طاہر احمد۔انتخاب:مظفرہ ثروت)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مصروفیات

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button