الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

محترمہ صاحبزادی امۃالباسط بیگم صاحبہ

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں محترمہ امۃالودود ندرت صاحبہ نے اپنی والدہ محترمہ صاحبزادی امۃالباسط بیگم صاحبہ کا ذکرخیر کیا ہے۔

محترمہ صاحبزادی امۃالقیوم بیگم صاحبہ نے حضرت اماں جانؓ کی سیرت کے حوالے سے لکھے ہوئے اپنے ایک مضمون میں دہلی کے سفر کے دوران کا ایک واقعہ یوں لکھاہے کہ ’’جب ہم گڑگاؤں پہنچے تو گیسٹ ہاؤس اوپر کی منزل میں تھا۔ سیڑھیوں پر حضرت اماں جانؓ کو سہارا دے کر صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اوپر لے جارہے تھے اور پیچھے مَیں اور میری بہن امۃالباسط تھے۔ مکرم غلام محمد اختر صاحب کا کچھ دنوں بعد صاحبزادہ صاحب کو خط آیا کہ میں نے عجیب خواب دیکھا ہے کہ اس طرح کی سیڑھیاں ہیں اور آپ اماں جانؓ کو سہارا دے کر اوپر لے جارہے ہیں۔ آپ کی بیوی اور امۃالباسط پیچھے سیڑھیاں چڑھ رہی ہیں۔ اتنے میں کوئی کہتا ہے یا غیب سے آواز آتی ہے: یہ ابراہیم کا خاندان ہے۔‘‘

میری امی محترمہ امۃالباسط صاحبہ میں خدا کے فضل سے خاندانِ ابراہیمؑ والی صفات پائی جاتی تھیں۔ امی کی زندگی کو اگر مختصر ترین الفاظ میں بیان کرناہو تو وہ ہیں: ’’محبت کا پیکر۔‘‘ خداتعالیٰ اور اس کے رسولوں، بنی نوع انسان اور اس کی مخلوق سے محبت۔ یہ محبت اس وقت بھی چہرے سے ٹپکتی تھی جب صبح صبح پرندوں کو کھانا ڈال رہی ہوتی تھیں۔ سب سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی محبت اُن کی ساری زندگی پر محیط تھی۔ نہ صرف خوشیوں میں شکرگزاری کی صورت میں بلکہ غم کی حالت میں تو اَور بھی مضبوطی سے اپنے ربّ کا دامن پکڑ لیتی تھیں۔ زندگی میں انہوں نے بڑے بڑے صدمے دیکھے۔ ہر رشتے کا صدمہ جب اس کی بظاہربہت ضرورت ہوتی ہے۔ سولہ سال کی عمر میں اپنی امی کی وفات کا صدمہ۔ پھر تقریباً جوانی کی عمر میں ہی اباکی وفات۔ پھر نصرت(میری چھوٹی بہن)کے خاوند مرزا غلام قادر صاحب کی شہادت۔ ان کے علاوہ بھی کئی آزمائشیں اپنے ربّ کے ساتھ مکمل راضی رہ کر برداشت کیں۔ بظاہر ہنستی مسکراتی لیکن راتوں کو اٹھ کر نمازوں میں اپنے اللہ کے حضور اس کا رحم، مدد اور پیار مانگتی تھیں۔ یہ سلسلہ آخری وقت تک جاری رہا۔ رمضان میں حقیقتاً کمر کس لیتی تھیں۔ روزے تو معدے میں السر کی وجہ سے نہیں رکھ سکتی تھیں مگر نمازوں اور قرآن کی تلاوت میں دن اور رات کا اکثر حصہ گزرتا تھا، اشراق اور چاشت کے نوافل بھی ادا کرتی تھیں۔ روزے رکھوانے اور کھلوانے کا اہتمام ضرور کرتی تھیں۔ رمضان میں اللہ کے فضل سے قرآن شریف کے تین دَور مکمل کرتی تھیں۔ قرآن شریف کے علاوہ جو کتاب مَیں نے زیادہ پڑھتے دیکھا وہ ’’تذکرہ‘‘ تھا۔ جب ابا (محترم سیّد میر داؤد احمد صاحب)نے حضرت مسیح موعود ؑکے اقتباسات مختلف موضوعات کے تحت اکٹھے کیے اور وہ ’’مرزا غلام احمد قادیانی اپنی تحریروں کی رُو سے‘‘ کے نام سے طبع ہوئے تو امی نے ابّا کا بہت ہاتھ بٹایا۔

امّی جب آنحضرت ﷺ کی سنت پر یا حضرت مسیح موعودؑ کی کسی بات پر عمل کرتیں تو چہرے پر خوشی سے بھرپور مسکراہٹ ہوتی۔ خلفاء سے گو کہ جسمانی رشتہ بھی ضرورتھا مگر روحانی تعلق ہی اَور تھا۔ ہم نے اپنے گھر میں خلفاء کی محبت اور اطاعت کے وہ نمونے دیکھے ہیں جو ناقابلِ بیان ہیں۔ امی نے زندگی کے ہر مرحلہ پرخلفاء سے راہنمائی حاصل کی۔اگر کبھی یہ وہم بھی ہوجاتا کہ کہیں خلیفۂ وقت ناراض تو نہیں تو پھر بےچینی اور بےقراری انتہاکو پہنچ جاتی۔ جب تک ان کو خلیفۂ وقت کی طرف سے تسلی نہیں ہوجاتی تھی کسی کَل قرار نہ آتاتھا۔

جماعتی کاموں کی بھی امّی کو توفیق ملتی رہی۔ 42سال آپ سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ ربوہ رہیں۔

امّی کی سیرت کا ایک بہت اہم پہلو مہمان نوازی تھی۔ اگر کھانے کا وقت ہے اور اچانک کچھ لوگ آگئے ہیں تو ان کو بھی پھر کھانا کھلائے بغیر نہیں جانے دیتی تھیںخواہ گھر میں صرف دال بنی ہو۔ ہم لوگوں کے رنگ اُڑجاتے تھے کہ بالکل معمولی کھانا ہے اور مقدار میں بھی اتنا نہیں کہ مہمانوں کو پیش کیا جائے مگرامی زور دیتی تھیں کہ کوئی بات نہیں چٹنی اور اچار ساتھ لگالو گزارہ کرلیں گے اور مہمانوں کو بھی بڑی بےتکلّفی سے ساری بات بتاکر کھانے کی میز پر لے جاتی تھیں۔ لوگ بھی بہت ہی پیار اور دعوے سے ہمارے ہاں آتے تھے کہ اس گھر کا دروازہ، دسترخوان اور دل ہمیشہ کھلے ملتے ہیں ۔

جلسہ سالانہ کے دنوں میں تو گھر کے ہر کمرے میں دس سے بیس تک مہمان ہوتے اور پھر دوپہر کے کھانے کے لیے تو اَور جگہوں پر ٹھہرے ہوئے مہمانوں کو بھی کہا ہوتا تھا تو بعض وقت ڈیڑھ دو سو تک لوگ کھانے پر ہوتے تھے۔ یہ سارے انتظامات اکیلے ہی کرتی تھیں۔ ابّا تو افسر جلسہ سالانہ ہونے کی وجہ سے اتنے مصروف ہوتے تھے کہ کئی دن تو تقریباً گھر ہی نہیں آتے تھے۔ خود امی کی بھی ڈیوٹی ہوتی تھی۔ اس کے باوجود مہمانوں کی ہر ضرورت کا خیال رکھتیں۔ ناشتہ سب کے کمروں میں بھیجتی تھیں،کھانے کا مردوں عورتوں کے لیے علیحدہ علیحدہ انتظام، اگر کوئی بیمارہوتا تو اس کے لیے ڈاکٹرکو بلانا ،پرہیزی کھانے وغیرہ کا خیال، چھوٹے بچوں کی ضرورتوں کا خیال، غرض انتھک محنت تھی جو کئی دن پہلے سے شروع ہو جاتی تھی اور بعد میں سمیٹنے میں بھی کئی دن لگ جاتے تھے۔ انتہائی خوشی اور بشاشت سے سب کام کرتی تھیں بلکہ اگر کسی جلسہ پر مہمان کسی وجہ سے کچھ کم ہو جاتے تو اداس ہوجاتی تھیں۔

حیدرآبا ددکن کی معزز فیملی جو قادیان میں حضرت سیدہ اُمِّ طاہر صاحبہؓ کے گھر مہمان ٹھہرتی تھی اُن کی وفات کے بعد حضرت مصلح موعودؓ امی کے پاس لے کر آئے اور فرمایا: باچھی یہ تمہاری امی کے مہمان ہیں آئندہ تم نے ان کو سنبھالنا ہے۔ اس دن کے بعد وہ فیملی نسل درنسل امی کی مہمان رہی۔ جلسہ سالانہ کے علاوہ بھی ربوہ آنا ہوتا تو امی کے ہی مہمان رہے۔

ایک عہد حضرت سیدہ اُمّ طاہر صاحبہؓ نے وفات کے وقت امی سے لیا کہ تم نے اپنی بہنوں اور بھائی کا خیال رکھنا ہے کیونکہ حکمی (صاحبزادی امۃالحکیم صاحبہ) بیمار رہتی ہے، جمیل (صاحبزادی امۃالجمیل صاحبہ) بہت چھوٹی ہے اور طاری (حضرت مرزاطاہر احمدؒ ) لڑکا ہے۔ یہ عہد بھی امی نے تادم وفات نبھایا۔ گو کہ محبت امی نے سارے ہی بہن بھائیوںسے بے انتہا کی مگر ان تینوں کو تو اپنی ذمہ داری سمجھتی تھیں۔ خالہ جمیل کی بعض وقت طبیعت خراب ہو جاتی تھی تو اطلاع ملنے پر رات کو دو تین بجے اٹھ کر اُن کے گھر چل پڑتی تھیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی وفات کے بعد ان کی بیٹیوں سے بہت تعلق رکھا اور کہتی تھیںکہ اب تو میری سات بیٹیاں ہیں۔

اباحضورؓ (حضرت مصلح موعودؓ)کے ماشاءاللہ ۱۳بیٹے اور ۹ بیٹیاں تھیں۔ سب سے ہی امی کا ایک خاص تعلق تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی تو بہت ہی لاڈلی تھیں۔ صرف اپنے بہن بھائیوں سے نہیں بلکہ بہنوئیوں اور بھابھیوں سے بھی محبت کا تعلق تھا۔ آگے ان کے بچوں سے اتنا پیار کرتی تھیں کہ بہت سے لوگ اپنی باتیں امی سے شیئر کرتے تھے۔ ان کو انتہائی دیانتداری سے مشورے دیتی تھیں اور ان کی بات کو ہر طرح راز میں رکھتی تھیں ۔ پھر جن بچوں کے والدین یا کسی ایک کی وفات ہو جاتی تو ان کے لیے تو امی کے پیار کا دامن اتنا وسیع ہوجاتا تھا کہ جیسے ایک حقیقی ماں کا۔

ابا کی وفات کے وقت ہم بچے کافی چھوٹے تھے۔ ہمارے لیے تو امی دعائوں کا خزانہ بن گئیں اور خدا کی مدد اور توکّل سے تعلیم اور شادیوں کی ذمہ داریاں ادا کیں۔ اخلاقی لحاظ سے ہر بات پر نظر رکھتی تھیں۔ ہر وقت یہ بےقراری رہتی تھی کہ کہیں نماز وں میں تو کمزوری نہیں آرہی۔ ابا کے بعد ۳۳؍سال کا عرصہ امی نے انتہائی صبر اور ہمت کے ساتھ گزارا۔ ہمارے لیے کبھی دنیا نہیں چاہی بلکہ ہمیشہ اللہ کا پیار اور اس کے دین کا راستہ ہی مانگا۔ جب بھائی نے اور پھر میرے بیٹے نے وقف کیا تو بہت ہی خوش تھیں۔ بھائی کے بیٹے ارسلان نے جب قرآن شریف حفظ کیا تو اُمّی کی خوشی دیکھنے والی تھی۔

ابا کی زندگی میں بھی اور بعد میں بھی ہمارے گھر میں کئی یتیم بچوں کی پرورش ہوئی۔ امی اُن کے بچوں کو کہتی تھیں کہ مَیں تمہاری نانی یا دادی ہوں۔ امّی نے کچھ پرائزبانڈز اس نیت سے لے کر رکھے تھے کہ ان سے غریب اور یتیم بچیوں کے جہیز تیار کراؤں گی۔ ان میں ایسی برکت پڑی کہ تقریباً ہر دفعہ ہی انعام نکل آتا تھا۔ اس طرح کئی بچیوں کے جہیز اس رقم سے تیار ہوئے۔ آپ صدقہ اور خیرات بھی کثرت سے کرتی تھیں ۔

ایک بار حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے امی کو خط میں لکھا:’’احمدی مستورات کو ربوہ میں ایک نسوانی مرکز کی ضرورت ہے۔ عورت طبعاً اپنی ساری باتیں مرد امام سے نہیں کر سکتی۔ آنحضرت ﷺ کے ساتھ صحابیاتؓ کافی بےتکلّف تھیںمگر پھر بھی اپنے بہت سے ایسے امور کے لیے حضرت عائشہؓ کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا۔ تم لوگوں کا فرض ہے کہ ان باتوں کو سوچو،غور کرو اور احمدی مستورات کے لیے کوئی نسوانی مرکز پیدا کرو …۔‘‘ اس خط نے امی کی زندگی میں بہت اہم رول ادا کیا اور ہم نے تو ہوش سنبھالتے ہی امی کے اردگرد خواتین کا جمگھٹا ہی دیکھا۔ خاص طور پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد پاکستان کی خواتین کے لیے امی ایک سہارا بن کے رہیں۔ آپ کا دل محبت کا ایک سمندر تھا جو افراد جماعت کے ہر طبقے کے لیے ٹھاٹھیں مارتا تھا۔ واقفین زندگی کا اپنا ایک خاص مقام تھا۔ جامعہ کے بعض طلبہ سے تو بالکل اپنے بچوں جیسا تعلق تھا۔ لوگوں کو ان کے ناموں کے ساتھ یاد رکھتیں،کوئی کتنی ہی دیر بعد ملتا اس کو اس کے نام سے بلاتیں۔ اگر کوئی تکلیف میں ہوتا تو بڑی بےقرار ہو کر دعائیں کرتیں۔

امی کے گھر ایک لڑکی رہتی تھی جو ذ ہنی طور پر کمزور تھی اس کی بیٹی تو بالکل معذور تھی۔ وہ اچانک آکر امی سے چمٹ جایا کرتی تھی۔ اُس کے کپڑے اور ہاتھ وغیرہ اتنے گندے ہوتے تھے کہ حقیقتاً جھرجھری آجاتی تھی مگر امی اس کو پیار سے ساتھ لگا لیتی تھیں، حالانکہ خود بہت ہی صاف اور نفیس تھیں۔

وفات سے کچھ عرصہ پہلے امی نے خواب دیکھا کہ ’’مَیں سڑک پر چلتے چلتے تھک کر کنارے پر بنی ہوئی چھوٹی دیوار پر بیٹھ گئی ہوں۔ اتنے میں ایک کار آکر رکی ہے جس میں سے حضرت مصلح موعودؓ اترے ہیں اور مجھے کہتے ہیں: باچھی تھک گئی ہو؟ آؤ میرے ساتھ کار میں چلو۔‘‘

ساری محبتیں جو امی نے بانٹیں ان کے نظارے ہم نے ان کی وفات پر دیکھے۔ سارے پاکستان سے لوگ سخت گرمی کے باوجود ربوہ پہنچے۔ ہزاروں خواتین آئیں اور اکثر اپنا ذاتی دکھ محسوس کرتے ہوئے رو رہی تھیں۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لندن میں نماز جنازہ غائب پڑھائی اور دنیا کے کئی مقامات پر بھی نماز جنازہ غائب ادا کی گئی۔

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے صاحبزادے محترم نواب محمد احمد خان صاحب ایک صبح ہمارے گھر آئے۔ مٹھائی کا ڈبہ ان کے ہاتھ میں تھا جس میں تین گلاب جامن اور دو بالوشاہیاں تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ رات انہوں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک آدمی ان کے پاس مٹھائی لا یا ہے جس میں تین گلاب جامن اور دو بالوشاہیاں ہیں اور کہتا ہے کہ یہ امۃالباسط کو دے دو، یہ آنحضرتﷺ،حضرت فاطمہؓ، حضرت علیؓ ،حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی طرف سے ہے۔ چنانچہ صبح انہوں نے بازار جا کربالکل ویسی ہی مٹھائی خریدی اور امی کو دینے ہمارے گھر آئے۔ ان کی نظر امی کے پاؤں پر پڑی جس پر سفید رومال بندھا ہوا تھا تو پوچھنے لگے کہ تمہارے پاؤں کو کیا ہوا ہے؟ امی نے بتایا کہ رات پاؤں میں درد تھا تو مَیں نے اس لیے باندھا ہوا ہے ۔ ا س پر وہ فرمانے لگے کہ انہوں نے خواب میں یہ بھی دیکھا تھا کہ آپ کے پاؤں پر سفید پٹی بندھی ہے۔ پھر امّی نے اس مٹھائی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے ہم سب کو کھلائے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کا پیغام آیا کہ مجھے بھی اس میں سے کھلاؤ تو اُن کے لیے بھی بھجوائی۔ ماموں طاری (حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ) آئے اور کہا کہ مجھے بھی اس میں سے کھلاؤ تو ان کو بھی کھلائی۔

………٭………٭………٭………

مزید پڑھیں: حاصل مطالعہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button