میجر مبشر احمد صاحب کا ذکر خیر
میجر مبشر احمد صاحب ۱۹۴۲ء میں چک نمبر ۱۶۶-۷ر(ضلع بہاولپور) میں پیدا ہوئے۔ آپ کےوالد صاحب کا نام امام علی صاحب نمبردار تھا جو کہ ایک مخلص احمدی تھے۔آپ نے بی اے کی تعلیم ٹی۔ آئی کالج ربوہ سے حاصل کی۔ آپ ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگوں میں شامل ہوئے اور اس سلسلہ میں وطن عزیز کی خاطر کچھ عرصہ بھارت میں قیدو بند کی صعوبتوں کو بھی برداشت کیا۔۱۹۸۰ء تا وفات بہاولپور میں رہے۔
میجر مبشر احمد صاحب کی شخصیت قسم ہا قسم کے رنگ و بو سے معطر واعات پر مشتمل تھی۔پندرہ، سولہ سال کی عمر سے نماز تہجد کی عادت پڑگئی تھی اور وہ ہمیشہ اس پر قائم رہے۔آپ صوم و صلوٰۃ کے پابند اور باقاعدگی کے ساتھ تلاوت قرآن کریم کرنے والے انسان تھے۔رمضان کے روزے آخری وقت تک رکھتے رہے، بلکہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تحریک کے مطابق جمعرات کا نفلی روزہ بھی باقاعدگی سے رکھتے تھے۔ آپ ملنسار،دلربا شخصیت کے مالک تھے۔ ایک اچھے انسان، وفادار دوست،محبت کرنے والے خاوند اور اچھےباپ ہونے کے ساتھ ساتھ محب وطن جاں نثارسپوت وطن تھے،کئی دفعہ ملک کی خاطر جان کی بازی لگائی اور دو جنگوں میں بھی شامل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ آپ آخری عمر تک جماعتی کاموں میں نہ صرف پیش پیش رہےبلکہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے جذبہ سے سرشار ہوکر کام کرتے اور درج ذیل شعر کی عملی تصویر تھے۔
خدمت دیں کو اک فضل الٰہی جانو
اس کے بدلے میں کبھی طالب انعام نہ ہو
آپ کو مختلف حیثیتوں میں جماعتی اور تنظیمی خدما ت کی توفیق ملی۔ایک عرصہ سیکرٹری امور عامہ ضلع بہاولپور بھی رہے۔ انہی جماعتی خدمات کے سلسلہ میں آپ کو میٹنگز کے لیے کئی دفعہ مرکز آنا پڑتا، آپ باقاعدگی اور بڑی بشاشت سے مرکز آتے اور اسے اپنا اعزاز سمجھتے۔ جماعتی عہدیداران کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے اور واقفین زندگی کا تو بے حد احترام کرتے۔ جب کبھی آپ کسی واقف زندگی یا جماعتی عہدیدار سے بات کرتے تو خاص قسم کا ادب آپ کی آنکھوں سے چھلکتا اور اپنی رائے کااظہار ادب و احترام سے کرتے۔ گو آ پ ایک اصول پسند شخصیت تھے لیکن اپنے سے سینئر عہدیداران کے سامنے رائے کا اظہار بڑی عاجزی انکساری سے کرتے اور پوری اطاعت کرتے ہوئے فیصلہ کو خندہ پیشانی سے تسلیم کرتے۔ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتےاور عفوو درگزر کا معاملہ کرتے۔
آپ کووطن کے لیے مثالی خدمات سرانجام دینے کی توفیق ملی۔ آپ کو اپنی کمانڈ میں۲۳؍اگست ۱۹۸۴ء کو لائن آف کنٹرول پر ایک پوسٹ پر قبضہ کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا جس پر آپ کا نام تمغہ بسالت کے لیے تجویز کیا گیااور اس پوسٹ کا نام آپ کے نام سے مبشر چیک پوسٹ رکھا گیا۔ اس چیک پوسٹ کی اہمیت یہ تھی کہ یہ پاکستان کے بارڈر پر موجود بلند ترین پوسٹ تھی اور دشمن کے قبضہ میں تھی اور دشمن اونچائی پر ہونے کی وجہ سے کسی بھی قسم کا نقصان بآسانی کرسکتا تھا۔ اس چوٹی کو سر کرنے اور فتح کرنے کا کام آپ کو سونپا گیا جو بفضلہ تعالیٰ آپ نے بخوبی سرانجام دیا۔ آپ نہ صرف اس چوٹی کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ اس حکمت عملی سے اس کام کو مکمل کیا کہ خون خرابہ بھی نہ ہوا اور دونوں اطراف سے کوئی جانی نقصان بھی نہ ہوا۔ آپ نے جب اپنے دشمنوں پر فتح پالی اور وہ آپ کے رحم و کرم پر تھے۔ آپ نے اسوہ رسول ﷺ کے مطابق سب کو معاف کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاہیں تو آج یہاں سے تمہاری لاشیں تمہارے گھر پہنچیں لیکن مجھے خیال آتا ہے کہ تمہارے بیوی بچے بھی تمہارے منتظر ہونگے، کئی گھر لاوارث ہوجائیں گے،عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوجائیں گے۔ اس لیے میں تمہیں وقت دیتا ہوں پُرامن طریق پر واپس لوٹ جاؤ تو ہم ایسی کوئی کارروائی نہیں کریں گے جس کے نتیجہ میں جانی نقصان ہو۔ چنانچہ دشمن نے موقع کو غنیمت جانا اور پر امن طریق پر واپس لوٹ گئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح و ظفر سے نوازا۔ آپ کوافواج پاکستان کی جانب سے خراج تحسین کے طورپر مختلف اعزازات سے بھی نوازاگیا۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے اسیری کے اعزاز سے بھی سرفراز فرمایا اور یہ اسیری بھی دونوں رنگوں سے رنگین تھی یعنی ایک دفعہ آپ کوملک کی خاطر اسیر ہونا پڑا۔ اس دوران آپ کا اپنے رشتہ داروں سے صرف خط و کتابت کے ذریعہ رابطہ تھا۔ آخرکار یہ دور بھی اپنے اختتام کو پہنچا اور آپ بخیر و عافیت گھر واپس آئے۔ دوسری اسیری جس کی آپ کو سعادت حاصل ہوئی وہ جماعتی اسیری ہے۔ آپ کو ایک جماعتی خدمت کے دوران معاندین کی طرف سے شکایت پر گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اس اجمال کی تفصیل اس طرح ہے کہ آپ اور کچھ اور احمدی احباب ایک میڈیکل کیمپ کے سلسلہ میں رحیم یار خان گئے ہوئے تھے۔ اس دوران معاندین نے آپ اور دیگر رفقاء کی شکایت کردی اور گرفتا ر کرلیا گیا۔ اس طرح آپ کو امام وقت کی خاطر بھی اسیری کا لطف اٹھانے کی توفیق ملی۔ شاید اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت تھی کہ بعد میں آپ کو بطور سیکرٹری امور عامہ بہاولپور خدمت کی توفیق ملی۔ اس دوران جو بھی اسیران راہ مولیٰ بہالپور ہوئے ان کے معاملات دیکھنے کا موقع ملا۔ آپ بہت بہادر اور نڈر تھے۔ جماعتی مخالفت کی وجہ سے کبھی خوف کو قریب نہیں آنے دیا۔ اسیران کے معاملات کے سلسلہ میں حکام سے ملتے، جیل جاتے لیکن کبھی نہ گھبراتے۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ آپ خوش شکل، خوش اخلاق و خوش گفتار انسان تھے۔ صحت آخری عمر تک بہترین تھی اور یہ کوئی حُسنِ اتفاق نہ تھا بلکہ آپ اپنی صحت کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اس کے لیے محنت کرتے۔ کئی کئی میل پیدل چلتے۔بوقت وفات آپ کی عمر بیاسی سال تھی لیکن آپ کو الحمد للہ کوئی مرض لاحق نہ تھا بلکہ مکمل صحت مندتھے۔ خود گاڑی چلاتے اور اپنے تمام کام خود سرانجام دیتے تھےبلکہ جماعتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ گھر کے امور بھی خود سرانجام دیتے۔
آپ کی زندگی عائلی معاملات میں قابل تقلید تھی۔ آپ نے اپنی اہلیہ کے ساتھ جس محبت اور وفا کا ثبوت دیاوہ دور حاضر میں احباب کے لیے نمونہ ہے۔ آپ اپنی اہلیہ اور ان کے اقارب سے ہمیشہ حسن ِسلوک اور رشتہ حسن و احسان استوار رکھتے تھے۔
آپ کی وفات مورخہ ۵؍اپریل۲۰۲۴ء کو روزہ کی حالت میں، رمضان کے آخری جمعہ کے روز بعد نماز جمعہ ایک کام کے سلسلہ میں جاتے ہوئے روڈ حادثہ کے نتیجہ میں ہوئی اور آپ موقع پر ہی اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے۔
(ابو زیرک)
مزید پڑھیں: ارشاد احمد شکيب صاحب کا ذکرِ خیر