حضرت مصلح موعود ؓ

مصلح موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی(قسط دوم۔ آخری)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ فرمودہ ۴؍ فروری ۱۹۴۴ء سے ایک انتخاب)

۱۹۴۴ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے پیشگوئی مصلح موعود کی علامت کہ ’’وہ جلد جلد بڑھے گا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا ‘‘کی وضاحت بیان فرمائی ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے اس خطبہ میں سے ایک انتخاب شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)

خدا میرے ہاتھ سے اسلام کے اس نازک دَور میں تبلیغِ دین کی ایک عظیم الشان بنیاد رکھنا چاہتا تھا

اب مَیں واقعات کے لحاظ سے اس پیشگوئی کا تطابق دیکھتا ہوں۔ اس بارہ میں جماعت میں سالہاسال سے کثرت سے مضامین نکل چکے ہیں اور لوگوں نے اس رؤیا سے پہلے ہی پیشگوئی کی بہت سی باتیں مجھ پر چسپاں کی ہیں۔ اس لیے میں اِس وقت چند باتیں جو نہایت اہم ہیں بیان کرتا ہوں۔

اول یہ کہ جب لوگ میرے متعلق کہتے تھے کہ یہ بچہ ہے اُس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کے مقام پر مجھے کھڑا کیا۔ اس کی طرف بھی پیشگوئی کے ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا تھا کہ

’’وہ جلد جلد بڑھے گا‘‘

میرے لیے وہ حیرت کا زمانہ تھا۔ بلکہ اب تک مَیں اپنی اس حیرت کو نہیں بھولا۔حضرت خلیفہ اولؓ کا زمانہ تھا اور مجھے کچھ پتہ نہ تھا کہ جماعت میں کیا جھگڑا ہے۔ کس بات پر فساد اور ہنگامہ برپا ہے۔ جیسے ایک شفاف آئینہ ہر قسم کی میل کچیل اور داغوں سے منزّہ ہوتا ہے وہی میرے دل کی کیفیت تھی۔ ہر قسم کے بغض سے پاک ہر قسم کی سازش کے خیالات سے مبرّا بلکہ حالات کے علم سے بھی خالی تھا۔ صبح کی نماز کا وقت تھا۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے کچھ سوالات لوگوں کو جواب لکھنے کے لیے بھجوائے ہوئے تھے اور مَیں نے بھی ان کے جواب لکھے تھے۔مَیں اُس وقت حضرت اماں جان کے کمرہ میں، جو مسجد کے بالکل ساتھ ہے نماز کے انتظار میں ٹہل رہا تھا کہ مسجد سے مجھے لوگوں کی اونچی اونچی آوازیں آنی شروع ہو گئیں جیسے کسی بات پر وہ جھگڑ رہے ہوں۔ ان میں سے ایک آواز جسے میں نے پہچانا وہ شیخ رحمت اللہ صاحب کی تھی۔ مَیں نے سنا کہ وہ بڑے جوش سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک بچہ کو آگے کرکے جماعت کو تباہ کیا جا رہا ہے، ایک بچہ کو آگے کرنے کی خاطر یہ سب فساد برپا کیا جا رہا ہے، ایک بچہ کو خلیفہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ مجھے یاد ہے، مَیں اُس وقت ان باتوں سے اتنا غافل اور اس قدر ناواقف تھا کہ مجھے ان کی یہ بات سن کر حیرت ہوئی کہ وہ بچہ ہے کون، جس کے متعلق یہ الفاظ کہے جا رہے ہیں۔ چنانچہ میں نے باہر نکل کر دوسروں سے پوچھا کہ آج مسجد میں یہ کیسا شور تھا اور شیخ رحمت اللہ صاحب یہ کیا کہہ رہے تھے کہ ایک بچہ کو آگے کرنے کی خاطر جماعت کو تباہ کیا جا رہا ہے؟ وہ بچہ ہے کون جس کے متعلق یہ الفاظ کہے جا رہے تھے؟ اس پر ایک دوست نے ہنس کر کہا کہ وہ بچہ تم ہی تو ہو،اور کون ہے؟پس مَیں اُس وقت ان باتوں سے اس قدر ناواقف تھا کہ مَیں اتنا بھی نہ سمجھ سکا کہ اس بچہ سے مراد مَیں ہوں۔ لیکن دشمن کا یہ قول درحقیقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے انہی الفاظ کی تصدیق کررہا تھا کہ ’’وہ جلد جلد بڑھے گا‘‘۔

خدا نے مجھے اتنی جلدی بڑھایا کہ دشمن حیران رہ گیا۔ چند ماہ پہلے مجھے بچہ قرار دے کر وہ ناقابل قرار دے رہا تھا اور چند ماہ بعد وہ مجھے ایک شاطر، تجربہ کار قرار دے کر میری برائی کررہا تھا۔ گویا

بچپن کی عمر میں ہی اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں سے سلسلہ میں رخنہ ڈالنے والوں کو شکست دلوا دی۔ یہ ویسے ہی ہوا جیسے حضرت مسیح ناصریؑ سے ہوا۔

ان کے دشمنوں نے بھی کہا تھا کہ ہم ایک بچے سے کس طرح باتیں کریں۔ جب حضرت مسیح ناصری اپنی والدہ کے ساتھ شہر میں آئے اور حضرت مریم نے لوگوں سے کہا کہ ان سے باتیں کرو۔ تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم ایک بچے سے کس طرح باتیں کریں۔ یہی وہ بات تھی جس کی طرف قرآن کریم میں ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے کہ کَیۡفَ نُکَلِّمُ مَنۡ کَانَ فِی الۡمَہۡدِ صَبِیًّا۔(مریم:۳۰) پس اُس وقت میرے متعلق دشمنوں کی طرف سے یہی کہا جاتا تھا کہ یہ ایک بچہ ہے مگر باوجود اس کے کہ یہ لوگ مجھے بچہ سمجھتے تھے اور باوجود اس کے کہ مَیں واقع میں بچہ تھا، میری عمر اُس وقت پچیس سال تھی،

اللہ تعالیٰ نے مجھے پچیس سال کی عمر میں ایک حکومت پر قائم کردیا، اور حکومت بھی ایسی جو روحانی حکومت تھی۔

جسمانی حکومت میں تو بادشاہ کے پاس تلوار ہوتی ہے، طاقت ہوتی ہے، جتھا ہوتا ہے، فوجیں ہوتی ہیں، جرنیل ہوتے ہیں، جیل خانے ہوتے ہیں، خزانے ہوتے ہیں۔ وہ جس کو چاہتا ہے پکڑ کر سزا دیتا ہے لیکن

حکومتِ روحانی میں جس کا جی چاہتا ہے مانتا ہے اور جس کا جی چاہتا ہے انکار کر دیتا ہے۔زور اور طاقت کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔

پھر خدا تعالیٰ نے مجھے اس حکومتِ روحانی پر ایسی حالت میں کھڑا کیا جب خزانہ میں صرف چند آنے تھے اور ہزارہا روپیہ قرض تھا اور پھر خدا تعالیٰ نے یہ کام ایسی حالت میں سپرد کیا جب جماعت کے ذمہ دار افراد قریباً سارے کے سارے مخالف تھے اور یہاں تک مخالف تھے کہ

ان میں سے ایک شخص نے مدرسہ ہائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم تو جاتے ہیں لیکن عنقریب تم دیکھ لو گے کہ ان عمارتوں پر عیسائیوں کا قبضہ ہوجائے گا۔

ایک پچیس برس کا لڑکا تھا جس کو ایک ایسی حکومت سپرد کی گئی جس میں طاقت و قوت کا نام و نشان تک نہ تھا، جس کو ایک ایسی قوم کی حکومت سپرد کی گئی جس کا خزانہ خالی تھا، جس کو ایک ایسی قوم کی حکومت سپرد کی گئی جس کے اپنے سردار اور تجربہ کار لیڈر اسے چھوڑ کر جار ہے تھے۔ میدان دشمن کے قبضہ میں تھا اور وہ اس بات پر خوشیاں منا رہا تھا کہ ہمارے جاتے ہی اس قوم کی عمارتوں پر عیسائی قابض ہو جائیں گے اور اس کی ترقی کے ایام تنزل اور ادبار سے بدل جائیں گے۔ تم سمجھ سکتے ہو، ایسے نازک حالات میں اس قوم کا کیا حال ہوسکتا ہے۔ مگر وہ دن گیا اور آج کا دن آیا۔

دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ جماعت کی جو تعداد اُس وقت تھی جب وہ میرے سپرد کی گئی آج خدا تعالیٰ کے فضل سے اس سے سینکڑوں گُنے زیادہ ہے۔جن ملکوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا نام پہنچ چکا تھا آج اس سے بیسیوں گُنے زیادہ ممالک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام پہنچ چکا ہے۔ جس خزانے میں صرف اٹھارہ آنے تھے آج اس میں لاکھوں روپیہ پایا جاتا ہے۔ جس جماعت کے افراد نہایت کمزور حالت میں تھے آج اس جماعت کے افراد ہر لحاظ سے ترقی کر چکے ہیں۔ اگر مَیں آج بھی مر جاؤں تب بھی مَیں خزانہ میں اُس سے بہت زیادہ روپیہ چھوڑ کر جاؤں گا جو مجھے ملا۔ مَیں اس سے بہت زیادہ جماعت چھوڑ کر جاؤں گا جو مجھے ملی۔ میں ان سے بہت زیادہ علماء چھوڑ کر جاؤں گا جو مجھے ملے تھے۔ مَیں سلسلہ کی تائید میں اس سے بہت زیادہ کتابیں چھوڑ کر جاؤں گا جو مجھے ملیں اور مَیں سلسلہ کی خدمت کے لیے ان سے بہت زیادہ علوم چھوڑ کر جاؤں گا جو مجھے اس وقت ملے تھے جب خدا نے مجھے خلافت کے مقام پر کھڑا کیا۔

پس وہ جو خدا نے کہا تھا کہ ’’وہ جلد جلد بڑھے گا‘‘ اور ’’خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا‘‘ وہ پیشگوئی ایسے عظیم الشان رنگ میں پوری ہوئی ہے کہ دشمن سے دشمن بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اس پیشگوئی کو اتنا اہم قرار دیا ہے کہ آپؑ فرماتے ہیں

’’یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشانِ آسمانی ہے‘‘۔ (تذکرہ صفحہ۳۹، حاشیہ طبع چہارم) جس کو خدا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لیے نازل کیا ہے۔

پس وہ شخص جو اس پیشگوئی کو سمجھ کر اس پر ایمان لاتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا عظیم الشان نشان دیکھتا ہے جس کی مثال اَور نشانوں میں بہت کم ملتی ہے۔

جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے تحریر فرمایا کہ

’’نو برس کے عرصہ تک تو خود اپنے زندہ رہنے کا ہی حال معلوم نہیں اور نہ یہ معلوم کہ اس عرصہ تک کسی قسم کی اولاد خواہ مخواہ پیدا ہوگی۔ چہ جائیکہ لڑکا پیدا ہونے پر کسی اٹکل سے قطع اور یقین کیا جائے‘‘۔ (تبلیغ رسالت جلداوّل صفحہ۸۹)

پھر آپ نے لکھا کہ اس پیشگوئی میں صرف یہی نہیں کہ نوبرس میں ایک لڑکا پیدا ہونے کی خبر دی گئی ہے بلکہ ساتھ ہی ایسی شرطیں لگا دی گئی ہیں کہ وہ لڑکا اسلام کی شان وشوکت کا موجب ہوگا۔ اور ایسی شرائط کے ساتھ کسی لڑکے کا پیدا ہونا

’’انسانی طاقتوں سے بالاتر‘‘ اور ’’بڑا بھاری آسمانی نشان‘‘ ہے۔ (تبلیغ رسالت جلداوّل صفحہ۷۶، اشتہار ۸؍اپریل۱۸۸۶ء) کسی انسان کے اختیار میں یہ بات نہیں کہ وہ ایسا کرسکے۔

وہ بھی کیا زمانہ تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام پر چاروں طرف سے دشمنوں کے حملے ہو رہے تھے۔ محض اس بناء پر کہ آپؑ نے الہام کا دعویٰ کیا ہے۔ آپ نے مجددیت کا دعویٰ اُس وقت نہیں کیا تھا۔ ماموریت کا دعویٰ اُس وقت نہیں تھا۔صرف الہام نازل ہونے کا دعویٰ کیا اور دنیا آپ کی مخالف ہو گئی۔ صرف چند افراد آپ کے ساتھ تھے۔اُس وقت اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو بتایا کہ تمہیں ایک ایسا لڑکا ملے گا جو صاحبِ شکوہ اور عظمت ہوگا جو تمہارے رنگ میں رنگین ہو کر اصلاح کے لیے کھڑا کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوگا۔ وہ سلسلہ اور اسلام کی بہتری کے سامان مہیا کرے گا اور دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا۔

یہ صاف بات ہے کہ جو شخص کسی کا نائب ہونے کی حیثیت سے کھڑا کیا جائے گا وہ جب دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا تو جو اُس کا آقا اور مطاع ہے اُس کا نام بھی دنیا کے کناروں تک ضرور پہنچے گا۔ پس جب خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ وہ

’’زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا‘‘ تواس کے معنے یہ تھے کہ اس کے ذریعہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا نام بھی دنیا کے کناروں تک پہنچے گا۔

اب دیکھ لو! یہ پیشگوئی کتنی واضح ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانہ میں بیرونی ممالک میں سے صرف افغانستان ہی ایک ایسا ملک تھا جہاں کسی اہمیت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا نام پہنچا تھا۔ اَور ممالک میں صرف اُڑتی ہوئی خبریں پہنچی تھیں اور وہ بھی یا تو مخالفوں کی پھیلائی ہوئی تھیں اور یا ایسا ہوا کہ کسی شخص کے پاس سلسلہ کی کوئی کتاب پہنچی اور اس نے آگے کسی کو دِکھادی۔ باقاعدہ جماعت کسی ملک میں قائم نہیں تھی۔ حضرت خلیفہ اولؓ کے زمانہ میں خواجہ کمال الدین صاحب انگلستان گئے مگر وہاں انہوں نے احمدیت کا ذکر سمِّ قاتل قرار دے دیا۔ اِس وجہ سے انگلستان میں جو مشن قائم ہوا اس کے ذریعہ احمدیت کا نام نہیں پھیلا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا نام نہیں پھیلا۔ اگر پھیلا تو خواجہ صاحب کا نام پھیلا۔ اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھ میں سلسلہ احمدیہ کی باگ دی تو میرے زمانہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے سماٹرا میں احمدیت پھیلی، جاوا میں احمدیت پھیلی،سٹریٹ سیٹلمنٹ میں احمدیت پھیلی،چین میں احمدیت پھیلی،ماریشس میں احمدیت پھیلی، افریقہ کے چاروں کناروں تک احمدیت پہنچی اور پھیلی،مصر میں احمدیت پھیلی،شام میں احمدیت پھیلی،فلسطین میں احمدیت پھیلی، ایران میں احمدیت پہنچی، عراق میں احمدیت پہنچی،یورپ کے کئی ممالک میں احمدیت پہنچی، چنانچہ اٹلی میں احمدیت پہنچی، سپین میں احمدیت پہنچی، ہنگری میں احمدیت پہنچی،زیکوسلویکیا میں احمدیت پہنچی،جرمنی میں احمدیت پہنچی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعتوں کے لحاظ سے انگلستان اور امریکہ میں بڑی بڑی احمدی جماعتیں قائم ہوئیں۔ اب ساؤتھ امریکہ میں آہستہ آہستہ احمدیت کا نام پھیل رہا ہے۔گویا

دنیا کے چاروں کناروں تک میرے زمانۂ خلافت میں ہی احمدیت کا نام پہنچا اور مختلف مقامات پر جماعتیں قائم ہوئیں۔

ان میں سے بعض جماعتیں بہت ہی اہم ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ان جماعتوں کے افراد ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ چنانچہ سماٹرا اور جاوا میں ہمارے جو مشن قائم ہیں ان کے ماتحت خدا تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں احمدی ہیں۔ آجکل وہاں دشمن کا قبضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے لوگوں کے ساتھ ہو اور ان کا حافظ و ناصر ہو۔ اس کے بعد افریقہ کی جماعتیں ہیں۔ ان میں سے بھی ایک ایک جماعت میں ہزاروں افراد پائے جاتے ہیں اور یہ اپنے اخراجات آپ برداشت کرتی ہیں۔ سیرالیون کی جماعت بالکل نئی ہے۔ مگر پھر بھی اس جماعت نے وہاں مدرسے قائم کر لیے ہیں، مبلغ رکھے ہیں اور ان تمام اخراجات کو وہاں کے افراد خود برداشت کرتے ہیں۔ لیگوس میں بھی احمدیہ مدارس قائم ہیں اور جماعتیں ارد گرد کے علاقوں میں کثرت سے پھیلی ہوئی ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے ذاتی اخراجات پر مبلغ اور مدرّس رکھے ہوئے ہیں۔ ہم انہیں کوئی خرچ نہیں دیتے۔ نائیجیریا میں بھی ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی تعداد میں پائی جاتی ہے اور وہاں کے افراد بھی اخراجات کا بیشتر حصہ خود ادا کرتے ہیں۔ یہ وہ مقامات ہیں جن میں سےبعض بعض جگہ پچیس پچیس، تیس تیس ہزار احمدی پائے جاتے ہیں۔ اور ان کے سالانہ جلسوں کے موقع پر ہی تین تین چار چار ہزار آدمی اکٹھے ہوجاتے ہیں اور یہ ساری جماعتیں ایسی ہیں جن میں سے ایک فرد بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانہ میں احمدی نہیں تھا، جن میں سے ایک فرد بھی حضرت خلیفہ اولؓ کے زمانہ میں احمدی نہیں تھا، جن میں سے ایک فرد بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے نام سے آشنا نہ تھا اور جن میں سے ہزاروں ایسے تھے کہ گو وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نام سے آشنا تھے مگر درحقیقت آپ کے دشمن اور عیسائی مذہب کے پَیرو تھے یا بُت پرست تھے۔ پھر خدا تعالیٰ نے ان کو میرے زمانہ میں ہی کلمہ توحید سکھایا اور ان کو مسلمان ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔

پھر اسلام کی تبلیغ کی ایک اہم ترین بنیاد اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے سے تحریک جدید کے ماتحت رکھ دی۔ تحریک جدید ایک ایسی تحریک ہے کہ اس کا سارا سلسلہ ہی الہامی ہے۔

اس لیے کہ تحریک جدید شروع ہوئی احرار اور گورنمنٹ کے ایک فعل سے۔اب کیا گورنمنٹ میرے اختیار میں تھی اور کیا مَیں نے اُسے کہا تھا کہ وہ مجھے نوٹس دیتی؟ پھر گورنمنٹ نے جو نوٹس دیا وہ درحقیقت غلطی سے دیا۔ گورنمنٹ چاہتی تھی کہ احرار کے اجتماع کے موقع پر باہر سے احمدیوں کو نہ بلوایا جائے اور ہم نے اُس کی اس خواہش کو تسلیم کر لیا اور اُسے لکھ دیا کہ اس اجتماع کے موقع پر باہر سے احمدیوں کو نہیں بلایا جائے گا۔ آگے اختلاف ہو جاتا ہے۔ سی آئی ڈی کے جو افسر تھے وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے گورنمنٹ سے کہہ دیا تھا کہ انہوں نے احرار کے اجتماع پر احمدیوں کو قادیان آنے سے منع کردیا ہے۔ لیکن باوجود اس کے گورنمنٹ نے نوٹس جاری کردیا اور بالا افسر یہ کہتے ہیں کہ سی آئی ڈی کے سپرنٹنڈنٹ نے ہمیں آکر یہ کہا کہ وہ احمدیوں کو اس موقع پر قادیان آنے سے روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔چنانچہ انسپکٹر جنرل پولیس نے درد صاحب سے یہی کہا کہ سی۔آئی۔ڈی کے سپرنٹنڈنٹ صاحب ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کے ساتھ آئے۔ ان کے ہاتھ میں اُس وقت ایک خط تھا جس کی طرف اشارہ کرکے انہوں نے کہا کہ قادیان سے جواب آگیا ہے کہ ہم احمدیوں کو اس اجتماع کے موقع پر باہر سے آنے سے روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انسپکٹر جنرل پولیس نے کہا کہ چونکہ ایک اہم عہدیدار یہ خط لایا تھا اور ڈی۔آئی۔جی اُس کے ساتھ تھا اس لیے اُن کے کہنے پر اعتبار کر لیا گیا اور چونکہ گورنر صاحب بار بار فون کر رہے تھے کہ قادیان سے کیا جواب آیا ہے اس لیے انہیں فوری طور پر جواب دے دیا گیا کہ قادیان سے جواب آگیا ہے۔ وہ احمدیوں کو روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس پر گورنر صاحب نے فوراً اپنی کونسل کا اجلاس بلایا اور کہا کہ قادیان سے یہ جواب آیا ہے کہ وہ احمدیوں کو روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور کونسل نے بغیر اس کے کہ وہ یہ دیکھتی کہ خط میں لکھا کیا ہے، جھٹ فیصلہ کیا کہ پنجاب کریمنل لاء امنڈمنٹ ایکٹ PUNJAB CRIMINAL LAW AMENDMENT ACT 1932 کے ماتحت امام جماعت احمدیہ کو نوٹس دے دیا جائے کہ وہ ایسا نہ کریں ورنہ وہ قانون کی زد میں آ جائیں گے۔ حالانکہ ابتدا میں جو لوگوں کو بلایا بھی گیا تھا اور جسے بعد میں منسوخ بھی کردیا گیا وہ میری طرف سے نہ تھا بلکہ امور عامہ کی طرف سے تھا۔ پس اگر واقع میں اس موقع پر سپرنٹنڈنٹ سی آئی ڈی نے افسرانِ بالا کو کوئی دھوکا دیا تو وہ میرے اختیار میں نہیں تھا اور اگر انہوں نے دھوکا دیا تو کیا ڈی آئی جی اُن کے ساتھ نہ تھے؟ اور کیا ان کا فرض نہ تھا کہ وہ اس خط کو پڑھ لیتے اور دیکھ لیتے کہ اس میں کیا لکھا ہے؟ پھر کیا انسپکٹر جنرل پولیس اس خط کو پڑھ نہیں سکتا تھا کہ اُسے بھی دھوکا لگ گیا؟ پھر اگر انسپکٹر جنرل پولیس نے غلطی کر دی تو کیا گورنر صاحب اُس خط کو نہیں پڑھ سکتے تھے؟ کیا ان کی کونسل اس خط کو نہیں پڑھ سکتی تھی؟ اور کیا چیف سیکرٹری اس خط کو نہ پڑھ سکتے تھے؟ پس اگر یہ غلطیاں ہیں جو یکےبعد دیگرے تمام افسروں سے سرزد ہوتی چلی گئیں تو کیا یہ سب کچھ میرے اختیار میں تھا یا میری طاقت میں تھا کہ مَیں ایسا کرسکتا؟ واقعات پر غور کرکے دیکھ لو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ خدا کا ایک فعل تھا اور خدا ہماری جماعت میں بیداری پیدا کرنا چاہتا تھا۔

خدا میرے ہاتھ سے اسلام کے اس نازک دَور میں تبلیغِ دین کی ایک عظیم الشان بنیاد رکھنا چاہتا تھا۔

خدا ہماری جماعت کو ایک کوڑا مار کر جگانا چاہتا تھا اس لیے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس نے غفلت کی کہ اُس نے خط کو نہ پڑھا۔ انسپکٹر جنرل پولیس نے غفلت کی اور اس نے خط کو نہ پڑھا۔ پھر یہی غلطی گورنر صاحب سے ہوئی۔ پھر یہی غلطی ان کی کونسل کے ارکان سے ہوئی اورساروں نے ہی یہ سمجھ لیا کہ ہماری طرف سے یہ جواب دیا گیا ہے کہ ہم احمدیوں کو روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حالانکہ اس جواب کی کوئی بنیاد ہی نہ تھی اور کوئی ایسا خط گورنمنٹ کو لکھا ہی نہیں گیا تھا۔ مگر اُن ساروں نے یہ غلطی کی اور اُس خط کی بنا پر مجھے نوٹس دے دیا گیا جس کی کوئی بنیاد نہ تھی۔ چنانچہ جب بعد میں ہم نے بالا افسروں سے کہا کہ ہم نے تو احمدیوں کو روک دیا تھا اور امور عامہ نے بھی میری ہدایت کے مطابق اپنے اس حکم کو منسوخ کردیا تھا، آپ ہمیں وہ خط دکھائیں جس میں ہم نے یہ لکھا ہو کہ ہم احمدیوں کو روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو وہ اتنے شرمندہ ہوئے کہ اُن سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ آخر چیف سیکرٹری نے چھ ماہ کے بعد ہمارے ایک وفد سے کہا کہ اب ہماری کافی ذلّت ہو گئی ہے ہم مانتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہوئی۔ آپ ہم سے بار بار اُس خط کا مطالبہ کرکے ہمیں شرمندہ نہ کریں۔تو دیکھو خط میں بالکل اُلٹ مضمون تھا۔ اُس خط میں لکھا یہ گیا تھا کہ احمدیوں سے کہہ دیا گیا ہے وہ احرار کے جلسہ کے موقع پر قادیان میں نہ آئیں۔ مگر گورنمنٹ نے یہ نوٹس دے دیا کہ چونکہ تم احمدیوں کو قادیان آنے سے روکنے کے لیے تیار نہیں ہو اس لیے تمہیں آگاہ کیا جاتا ہے کہ اگر اس موقع پر احمدی آئے تو تم قانون کی زد میں آ جاؤ گے۔ حالانکہ وہ خط جس کی بنا پر انہوں نے یہ نوٹس دیا اُن کے ہاتھ میں تھا، اُن کی فائل میں موجود تھا مگر پھر اُن سے یہ غلطی ہو گئی۔ پس اگر یہ غلطی ہے تو پھر

یہ غلطی اُسی خدا کی کروائی ہوئی ہے جس خدا نے غار ِثور کے مُنہ پر پہنچ جانے والے کفار کی زبان سے یہ الفاظ نکلوا دئے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس غار میں نہیں ہوسکتے۔

اس کے بعد حکومت کی طرف سے ہماری تبلیغ کے راستے میں روکیں پیدا ہونی شروع ہوئیں اور ہمیں یہاں تک خوف پیدا ہوا کہ سلسلہ کے مقدس لٹریچر پر بھی گورنمنٹ ہاتھ نہ ڈالے اور میں نے سلسلہ کی کتب کی متعدد کاپیاں مختلف ممالک میں پھیلا دیں۔ غرض گورنمنٹ کے یہ افعال میری آنکھیں کھولنے کا موجب ہو گئے اور میں نے سمجھا کہ یہ اسلام کی مظلومیت اور احمدیت کی بے کسی کا ثبوت ہے کہ ہر کس وناکس، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، ادنیٰ ہو یا اعلیٰ احمدیت کو اپنے بُوٹ کی ٹھوکر لگانے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا۔تب مَیں نے سمجھا کہ ہماری طرف سے اب تک احمدیت کو پھیلانے کی گو کوششیں ہوئی ہیں مگر وہ کوششیں اور محنتیں اتنی نہیں ہیں کہ اسلام اور احمدیت کو جلد سے جلد پھیلا سکتیں۔ہم نے بے شک اپنے فرض کو ایک حد تک ادا کیا ہے۔ مگر ایسا احساس ابھی ہم میں پیدا نہیں ہوا کہ اس کے نتیجہ میں قلیل سے قلیل عرصہ میں احمدیت کا رُعب دنیا پر چھا جاتا اور اس قسم کی فرعونی طبائع کو پتہ لگ جاتا کہ یہ سلسلہ خدائی طاقت سے بڑھ رہا ہے، اس کا مقابلہ دنیا کا کوئی شخص نہیں کرسکتا۔ اس طرح تحریک جدید کا آغاز ہوا اور پھر ہر قدم پر اس تحریک نے ایسا رنگ بدلا جو میرے اختیار میں نہیں تھا اور جماعت میں خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک ایسی روح پیدا کردی جو ترقی کرنے والی جماعتوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔

مَیں تحریک جدید کے اُس چندہ کو اتنی عظمت نہیں دیتا جو ان چند سالوں میں جمع ہوا۔ مَیں عظمت دیتا ہوں مجاہدین کی اُس جماعت کو جنہوں نے اپنی زندگیاں دین کے لیے وقف کی ہوئی ہیں یا آئندہ وقف کریں گے اور مَیں عظمت دیتا ہوں قربانی کی اُس روح کو جو جماعت میں پیدا ہوئی۔

خدا تعالیٰ کی قدرت ہے اس سے پہلے صدر انجمن احمدیہ ہمیشہ مقروض رہا کرتی تھی اور اُسے اپنا بجٹ ہر سال کم کرنا پڑتا تھا۔ جب مَیں نے اس تحریک کا اعلان کیا تو ناظروں نے میرے پاس آ آکر شکایتیں کیں کہ اس تحریک کے نتیجہ میں انجمن کی حالت خراب ہو جائے گی۔ مَیں نے ان سے کہا کہ تم خدا تعالیٰ پر توکل کرو، انتظار کرو اور دیکھو کہ حالت سدھرتی ہے یا گرتی ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ یا تو صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ دو اڑھائی لاکھ روپیہ کا ہوا کرتا تھا اور یا اس تحریک کے دوران میں چار پانچ لاکھ روپیہ تک جا پہنچا۔ اُدھر جماعت نے تحریک جدید کی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کردیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلے سال کے اندر ہی مطالبہ سے کئی گنا زیادہ رقم جمع ہو گئی۔ جب مَیں نے پہلے دن جماعت سے ۲۷؍ ہزار روپیہ کا مطالبہ کیا ہے تو واقع میں مَیں یہی سمجھتا تھا کہ میرے مُنہ سے یہ رقم نکل تو گئی ہے مگر اس کا جمع ہونا بظاہر بڑا مشکل ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ کس قدر عظیم الشان فضل ہے کہ ۲۷؍ ہزار کیا، اب تک ۲۷؍ ہزار سے پچاس گنے سےبھی زیادہ رقم آ چکی ہے اور یہ اتنی زیادہ رقم ہے کہ مولوی محمد علی صاحب بھی حیرت سے پوچھتے ہیں کہ اگر تیرہ لاکھ روپیہ اکٹھا ہوا تھا تو وہ گیا کہاں ہے؟ انہیں یقین ہی نہیں آتا کہ اتنا روپیہ جمع ہوا ہو۔ کیونکہ اگر آیا ہوتا تو یہ سارا روپیہ غالباً ان کے خیال میں ہمیں حفاظت کے ساتھ ان کے پاس بھجوا دینا چاہیے تھا یا کم سے کم ان کا حصہ تو انہیں ضرور بھجوا دینا چاہیے تھا۔ مگر وہ روپیہ آیا اور وہیں خرچ ہوا جہاں اس خدا کا منشا تھا جس نے میری زبان سے اس تحریک کا اجراء کرایا۔یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جو بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم الشان کام ہونے والا تھا۔سو وہ کام ہوا اور خدائی سامانوں سے ہوا اور ان ذرائع سے ہوا جو ہمارے اختیار میں نہ تھے۔

(الفضل ۱۶ فروری، ۷ مارچ ۱۹۴۴ء)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: مصلح موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی(قسط اول)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button