الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

تعارف کتاب ’’یاد حبیب‘‘

قریباً اڑھائی صد صفحات میں ’’یادحبیب‘‘ کے نام سے محترم چودھری عبدالعزیز ڈوگر صاحب نے بہت سی ایسی قیمتی روایات اکٹھی کردی ہیں جن کو پڑھنے سے نہ صرف سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی عالی قدر شخصیت کے بعض منفرد پہلو بلکہ تاریخ احمدیت کے کئی گوشے بھی بےنقاب ہوتے ہیں۔ اس کتاب میں چند بزرگان کے چشمدیدحالات کا ذکر بھی شامل ہے جن میں حضرت مرزابشیر احمد صاحبؓ اور حضرت مرزاشریف احمد صاحبؓ کے علاوہ چند دیگر صحابہ کرام اور چنیدہ اصحاب شامل ہیں۔ اسی طرح بہت سے ایسے غیرازجماعت معزّزین کا بھی ذکر ہے جو حضرت مصلح موعودؓ کی ذات گرامی سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ حضورؓ کی دین اسلام اور بنی نوع انسان کے لیے کی جانے والی خدمات کے دل سے معترف بھی تھے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا مبارک وجود ایسا تھا کہ آپؓ کا دوست یا دشمن آپؓ کی عنایات سے محروم نہیں رہا اور آپؓ کے قرب سے فیضیاب ہونے والوں کی زندگیوں کے ہر موڑ پر کچھ ایسے نقوش آپؓ کے حسن و احسان نے چھوڑے کہ وہ زندگی بھر آپؓ کے عشق میں گرفتار رہے۔ ایک ایسے ہی عاشق کی زبانی اپنے مقدّس آقا کی سیرت کے چند واقعات پڑھنے کا اتفاق ہوا تو حضورؓکی غیرمعمولی شخصیت کچھ نئے زاویوں سے آشکار ہوئی۔ چنانچہ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ مارچ؍اپریل ۲۰۱۵ء میں خاکسار محمود احمد ملک کے قلم سے اس منفرد کتاب کا تعارف شامل اشاعت ہے۔ منفرد انداز میں تحریر کردہ اس کتاب سے چند واقعات ہدیۂ قارئین ہیں۔

٭…’’یاد حبیب‘‘کامطالعہ کرتے ہوئے بارہا یہ خیال آتا ہےکہ انسانی نفسیات کا جس قدر گہرا مطالعہ حضرت مصلح موعودؓ کی ذاتِ اقدس کو عطا کیا گیا تھا وہ اُس دَور میں کم ہی لوگوں کو نصیب ہوا ہوگا۔ مثلاًآپؓ نے جب ایک دواخانہ (خدمت خلق)کی بنیاد رکھی تواس امر کی تشہیر کی ممانعت فرمادی کہ عام احمدیوں کو یہ علم ہو کہ یہ دواخانہ حضورؓ کی ملکیت ہے۔ چنانچہ حضورؓ نے متعلقہ منتظم (یعنی مرتّبِ کتاب)سے تاکیداً فرمایا کہ ’’اس بات کو غورسے سن لوکہ نسخہ جات کو صحیح ادویات سے بنانا ہے، کبھی قیمتی ادویات کابدل استعمال نہیں کرنا۔خدا کے سامنے اب تم جوابدہ ہو۔ …اور کسی سے اس بات کا ذکر نہیں کرنا کہ یہ حضور کا دواخانہ ہے کیونکہ اگر کوئی مریض اس خیال سے تم سے دوا خریدے گا تو یہ ایک صورتِ صدقہ بھی ہوسکتی ہے جو میرے لیے جائز نہیں۔ نیز دوسرے احمدی اطبّاء کو چھوڑ کر میری وجہ سے تم سے ادویات نہ خریدنا شروع کردیں۔‘‘

٭…حضورؓ کی شخصیت کا ایک نہایت روشن پہلو اس خدائی خبر کا اظہار تھا کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ چنانچہ حکمت و معرفت کے اُس بحر زخّار میں سے ( جو حضورؓ کے ذہن مبارک میں موجزن تھا)چند موتی اس کتاب میں بھی جابجا بکھرے ملیںگے۔ مثلاً لکھنؤ کے ایک ماہر طبیب، ادیب و شاعر حکیم محمود علی خان ماہر لکھنوی حضورؓ کے بےحد مدّاح تھے۔ ایک صبح حضورؓ کے معائنہ کے لیے وہ ناشتہ پر حاضر تھے۔ حضورؓ نے میز پر رکھے ہوئے پھلوں میں سے امرود کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ نہار کھایا جائے تو ایسا ہے جیسے سونے کا کشتہ کھایا، دوپہر کو کھائیں تو ایسے جیسے چاندی کا کشتہ کھایا اور اگر شام کو کھایا جائے تو ایسے جیسے سکّہ کھایا۔ حکیم صاحب نے حضورؓ کی تائید کی۔

مذکورہ ملاقات کے بعد حکیم صاحب موصوف نے مرتّب کتاب سے فرمایا کہ مَیں بہت خوش قسمت ہوں جو مجھے حضورؓ کی زیارت نصیب ہوگئی۔ ہماری قوم بڑی بدنصیب ہے کہ آج اس عظیم الشان انسان کی قدر نہیں کرتی۔ خدا کی قسم! ایک وقت آئے گاجب آئندہ آنے والے روئیں گے کہ ہمیں وہ زمانہ کیوں نصیب نہ ہوا…۔

٭… ۱۹۵۳ء کے انکوائری کمیشن کے ایک رُکن جناب جسٹس کیانی صاحب تھے۔ وہ کمیشن کے رُوبرو حضورؓ کے بیانات اور علمی اعتراضات کے جوابات سے ازحد متاثر تھے۔ لاہور میں ایک شادی کی تقریب میں حضورؓ سے اُن کی ایک بےتکلّفانہ ملاقات ہوئی۔ دونوں ایک ہی صوفہ پر تشریف فرما تھے۔ کیانی صاحب نے کسی علمی مسئلہ پر گفتگو شروع کردی اور سوالات کرنے شروع کیے تو حضورؓ کے جواب سن کر وہ گویا وجد میں آگئے اور ایک عجیب سرور کی حالت میں سر کو ہلاتے اور تائید کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتے رہے۔

٭…حضورؓ کی چشم پوشی اور درگزر کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی ہوسکتاہے کہ ایک بار میٹنگ کے دوران ملازم نے حضورؓ کی خدمت میں گرم چائے پیش کی۔ جب حضورؓ چائے پینے لگے تو کپ کی ڈنڈی اچانک ٹوٹ گئی اور گرم چائے حضورؓ کے کپڑوں پر گر گئی۔ شکر ہے جسم محفوظ رہا۔ سب ہی فکرمند ہوگئے اور ملازم سخت خوفزدہ اور شرمندہ تھا۔ لیکن حضورؓنے کوئی لفظ ناراضگی کا نہیں فرمایا۔ اُسی وقت گھرجاکر کپڑے تبدیل کیے اور دوبارہ تشریف لاکر میٹنگ میں شرکت فرمائی۔

٭… ملازمین سے حُسن سلوک کے حوالے سے یہ واقعہ بھی بہت سبق آموز ہے کہ حضورؓ اپنی صاحبزادی بی بی امۃالجمیل صاحبہ سے بہت پیار کرتے تھے۔ لیکن جب انہوں نے ایک بار اپنی ایک خادمہ کو سخت سرزنش کرکے گھر سے نکل جانے کو کہا تو وہ روتی ہوئی حضورؓ کے پاس چلی گئی۔حضورؓ کو اُس کی بات سن کر اِس قدر دکھ ہوا کہ بی بی صاحبہ کو بلواکر شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اب تم میرے پاس اس وقت تک نہیں آسکتی ہو جب تک تم اُس سے معافی نہیں مانگتی اور وہ تمہیں معاف نہیں کردیتی۔

٭…حضورؓ کی قبولیتِ دعا کے متعدد واقعات بھی اس کتاب کی زینت ہیں۔ مثلاً حضرت ڈپٹی میاں محمد شریف صاحبؓ نے ایک موقع پر حضورؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور ستّر بہتّر کا ہوگیا ہوں اور ہمارے خاندان کی عمر اس سے زیادہ نہیں ہوتی۔ حضورؓ نے فرمایا:نہیں، آپ کی عمر نوّے سال ہوگی، فکر نہ کریں۔ انہوں نے پھر انکساری سے اپنا پہلا فقرہ ہی دہرادیا تو حضورؓ نے فرمایا:’’آپ کا خاندان آپ سے شروع ہورہا ہے، آپ کی عمر نوّے سال ہوگی۔‘‘ چنانچہ بعد میں وہ یہ واقعہ بیان کرکے لوگوں کو بتاتے کہ اُن کی عمر نوّے سال ہوگی۔ چنانچہ اُن کا وصال ۹۲؍سال کی عمر میں ہوا۔

٭…حضورؓ کا بیان فرمودہ یہ سنہری اصول بھی اس کتاب کی زینت ہے کہ’’مومن عہدِ وفاداری پر دوستی کو ترجیح نہیں دیتا۔‘‘یعنی کوئی دنیاوی تعلق، دوستی، مصلحت یا حکمت اُس عہدِ بیعت کے کسی بھی جزو کو مجروح نہ کرسکے جو ہم نے خداتعالیٰ کی خاطر اپنے پیارے امام کے ہاتھ پر کیا ہے۔ یہ اصول ہم سب کو ہمہ وقت پیش نظررکھنے کی ضرورت ہے۔

٭…سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ ایک اعلیٰ درجہ کے طبیب، خطیب، مفسّر، مفکّر اور منتظم تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپؓ بہترین گھوڑسوارتھے، بہترین تیراک تھے اور بہت ہی اچھے کشتی ران تھے۔اس کتاب میں حضورؓ کے بہت سے ایسے ایمان افروز واقعات شامل ہیں جو ہر پڑھنے والے کو اُس کے اخلاقی اور روحانی مقام کو ترقی دیتے چلے جانے کے گُر بتاتے ہیں اور اُس کی جسمانی صحت اور ذہنی بالیدگی کی نشوونما کو کمال تک پہنچانے کی طرف بھی متوجہ کرتے ہیں۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اس کتاب کا مطالعہ شروع کرنے کے بعد قاری اس وقت تک چَین سے نہیں بیٹھ پاتا جب تک اس کتاب کو پڑھ کر ختم نہ کرلے ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک بار پڑھ لینے کے بعد بھی وہ ان منفرد واقعات میں سے بار بار گزرنے اور ان میں بیان شدہ حکمت کو جذب کرنے کی سعی میں ایک لذّت محسوس کرتا ہے۔

٭…محترم چودھری عبدالعزیز ڈوگر صاحب کی یہ چھٹی کتاب ہے۔ آپ نے ۱۹۴۵ء میں زندگی وقف کرنے کی سعادت حاصل کی اور ۱۹۴۷ء سے حضرت مصلح موعودؓ کی وفات تک غیرمعمولی خدمت کی سعادت پائی۔ ذیلی تنظیموں کی مرکزی عاملہ کے رُکن رہنے کے علاوہ آپ احمدی تجّار ا ور احمدی اطبّاء کی تنظیموں کے لمبا عرصہ صدر بھی رہے۔ ۱۹۶۷ء میں تحریک جدید سے پنشن پانے کے بعد آپ نے تعمیراتی فرم بنائی اور ذاتی کاروبار میں بھی عروج حاصل کیا۔ ۱۹۸۲ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے وقف میں دوبارہ بلالیا جس کے بعد جماعتی تعمیرات کے سلسلہ میں ربوہ کی متعدد عمارتوںکے علاوہ سیرالیون، گیمبیا اور جرمنی میں بھی سالہاسال خدمت کی توفیق پائی۔ ناصر باغ (جرمنی) میں مسلسل دو سال تک سرانجام پانے والے وقارعمل کی نگرانی بھی کی اور اس دوران رونما ہونے والے ایمان افروز واقعات کو اپنی کتاب کی زینت بنادیا۔ ۱۹۹۹ء میں بوجہ بیماری آپ نے ریٹائرمنٹ لے لی۔

موصوف ڈوگر صاحب نے وقف کے تقاضوں کو نباہنے کے حوالے سے زندگی کے مختلف ادوار میں پیش آنے والے بہت سے کٹھن مراحل میں خداتعالیٰ کے بےپایاں افضال و انعامات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ بلاشبہ اہم نکتہ یہی ہے کہ خدمتِ دین کی توفیق عطا ہونے کا ذکر ہو یا ذاتی ترقیات کے حصول کا بیان، ہر کامیابی محض خدا تعالیٰ کے غیرمعمولی فضل اور خلافتِ احمدیہ کی دعاؤں اور برکات کی بدولت نصیب ہوئی۔

٭…اس کتاب میں ایک ایسی دردناک داستان بھی رقم ہے جس کا ذکر حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں بھی فرمایا تھا۔ چنانچہ تقسیمِ ہند کے بعد جب قیامتِ صغریٰ کا منظر تھا تو محترم عبدالعزیز ڈوگر صاحب کو قادیان میں حفاظتی ڈیوٹیاں دینے اور غیرمعمولی شجاعت کا مظاہرہ کرنے کی توفیق بھی ملی۔ آپ رقمطراز ہیں کہ جب ایک قافلہ میں ہم نے پاکستان کی طرف اپنے سفر کا آغاز کیا تو ہجرت کا غم اس قدر ہوا کہ والدہ صاحبہ قادیان کو چھوڑتے ہی بیہوش ہوگئیں۔ دو تین میل بڑی مشکل سے راستہ طے کیا تھا کہ ان کو ڈائریا ہوگیا۔ ہر دس منٹ بعد اسہال آنے لگے۔ کمزوری بڑھتی گئی اور پھر بیہوش ہوگئیں۔ تب مَیں نے فیصلہ کیا کہ اب اُن کو اپنی کمر پر اٹھاکر سفر کروں گا اور کسی حالت میں ان کو چھوڑ کر نہیں جائوں گا۔ دوسرے بھائیوں کی عمریں ۳ سے ۱۶؍سال کے درمیان تھیں۔ والد صاحب ۵۸؍سال کے تھے اور غم نے ان کی کمر توڑ دی تھی۔ بڑی مشکل سے ساتھ چل رہے تھے۔ مَیں نے والدہ صاحبہ کو کمر پر اٹھالیا۔ چھ دن ہم نے سفر کیا۔ راستہ میں فاقے سے رہے۔ کچھ پتے اور کچھ امرود ایک باغ سے توڑ کر ابال کر کھائے۔ کچھ گندم ملی جو ابال کر استعمال کی لیکن خداتعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ والدہ صاحبہ کو لے کر ایسے چلتا رہا جیسے کوئی وزن نہیںہے۔ انتہائی خطرناک سفر تھا مگر تکان کا احساس ہوا نہ بھوک کا خیال آیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے کیا کیا دعائیں میرے لیے کیں لیکن ان دعائوں کا پھل مَیں ساری زندگی کھاتا رہا۔

………٭………٭………٭………

سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۲۰؍فروری ۲۰۱۶ء میں چند شعراء کے خوبصورت کلام سے ایک انتخاب شامل ہے۔ اس گلدستے میں سے چند منتخب نمونے ذیل میں ہدیۂ قارئین ہیں۔

٭…حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کے کلام میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:

محمودؔ کا یہ دَور بھی اِک دَورِ حمد ہے
لکھی خبر صحیفوں میں جس کے ظہور کی
وہ لوگ خوش نصیب ہیں جن کو ملا یہ وقت
صد شکر پائیں برکتیں ربّ شکور کی

٭…حضرت چودھری علی محمد صاحبؓ بی اے، بی ٹی کے خوبصورت کلام میں سے انتخاب پیش ہے:

وہ زمیں جو شور تھی شورے سے جو یکسر سفید
بن گئی ہے آج وہ رشکِ گُلِ باغِ جناں
کیا کرامت ہے کہ تیرے پاؤں کے نیچے سے آج
کر دیا جاری خدا نے چشمۂ آبِ رواں

٭…استاذی المکرم مبارک احمد عابد صاحب کی ایک معروف نظم میں سے انتخاب درج ذیل ہے:

اے فضل عمر تیرے اوصاف کریمانہ
بتلا ہی نہیں سکتا میرا فکرِ سخندانہ
ہر روز تو تجھ جیسے انسان نہیں لاتی
یہ گردشِ روزانہ یہ گردشِ دورانہ

٭…مکرم محمد ابراہیم شاد صاحب کا کلام ملاحظہ فرمائیں:

شکر صد شکر دلستاں آیا
للہ الحمد مہرباں آیا
وہ فہیم و ذکی و دل کا حلیم
وہ اولوالعزم خوش بیاں آیا

٭…محترم ظفر محمد ظفر صاحب کے کلام میں سے انتخاب ذیل میں ہدیۂ قارئین ہے:

عاشقانِ ملّتِ احمد کے دل ہیں باغ باغ
دشمنانِ تیرہ باطن کے ہیں سینے داغ داغ
حق نے باندھا ہے تیرے سر سہرہ فتح و ظفر
اے بشیرالدین محمود احمد و فضل عمر

مزید پڑھیں: حاصل مطالعہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button