امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ممبرات نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ جرمنی کی ملاقات
دینے والا ہاتھ بنو، لینے والا ہاتھ نہ بنو، اس پر ہمیں عمل کرنا چاہیے۔ یہ اسلامی تعلیم ہے تو ہم تو اس تعلیم پر عمل کرتے ہیں اور اس کے مطابق ہی ہمیں عمل کرنا چاہیے۔
اور یہ اگر ہو تو رائٹ ونگ(دائیں بازو) اور لیفٹ ونگ (بائیں بازو) والی باتیں ہی کوئی نہیں رہتیں۔ ایک قوم بن کے ہم رہیں گے
مورخہ٩؍ فروری ۲۰۲۵ء کو امام جماعتِ احمدیہ عالمگیر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ممبراتِ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ جرمنی کوشرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔ عاملہ ممبرات نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سے جرمنی سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔

جب حضورِ انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نے شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔
ملاقات کا باقاعدہ آغاز دعا سے ہوا، اس کے بعد تمام عاملہ ممبرات کو حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں اپنے اپنے متعلقہ شعبہ جات کا تعارف کرانے، اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کی بابت بروئے کار لائی گئی مساعی اور کارگزاری کی مختصر رپورٹ پیش کرنے نیز اس حوالے سے بیش قیمت راہنمائی حاصل کرنے کا موقع بھی ملا جو بلاشبہ لجنہ اماء اللہ کے لیے ایک سنگِ میل ثابت ہوگا ان شاءاللہ۔اس کے ذریعہ نہ صرف انہیں اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کو گہرائی سے سمجھنے کا نادر موقع ملا بلکہ حضورِ انور کی بصیرت افروز راہنمائی کی روشنی میں اپنے فرائض کو مزید احسن رنگ میں سرانجام دینے کی ترغیب بھی حاصل ہوئی۔
سیکرٹری ناصرات سے مخاطب ہوتے ہوئے حضورِانور نے ناصرات کی تربیت کے حوالے سے خصوصی ہدایات سے نوازا۔
حضورِانور نے تاکید فرمائی کہ traditional (روایتی) پروگراموں سے ہٹ کر کوئی ایسے پروگرام بنائیں جن سے لوگوں کی دلچسپی قائم ہو۔ جن میں ناصرات آئیں اور حصّہ لیں۔ان پروگراموں کے ذریعےکوئی دلچسپی پیدا ہونے کی باتیں ہوں اور پھر اسی میں باتوں باتوں میں ان کی تربیت کی باتیں بھی آ جائیں۔
حضورِانور نے توجہ دلائی کہ صرف کھڑے ہو کر ایک تقریر کر دینا کہ یہ یہ کرو، نمازیں پڑھو، یوں نہیں کرو گی تو فلاں عذاب آ جائے گا یا قرآنِ شریف نہیں پڑھو گی تو یہ ہو جائے گا، پردہ نہیں کرو گی تو یوں ہو جائے گا، اللہ میاں نے سختی کی ہے یا فلاں کیا ہے۔ اس طرح نہیں بلکہ پیار اور نرمی سے دیکھیں اور ماحول کے مطابق پلان ترتیب دیں اور پیار سے سمجھائیں۔
حضورِانور نے اس بات کی اہمیت پر بھی زور دیا کہ ناصرات کو بتائیں کہ ہم کیوں احمدی ہیں اور کیوں مسلمان ہیں؟ اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے، مذہب کی ضرورت کیوں تھی۔ اللہ تعالیٰ کیوں ہے اور اس کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ تعالیٰ ہے بھی کہ نہیں؟
حضورِانور نے بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ آجکل atheism کا بڑا زور و شور پڑا ہواہے۔ بچوں کی تربیت ماؤں نے ہی کرنی ہوتی ہے اور پھر جو لڑکیاں ناصرات ہیں ان کی اگر آپ تربیت کر لیں گی تو آئندہ آنے والی نسلیں سنبھالی جائیں گی۔ اس لیے دیکھیں کہ کس طرح ہم نے خود اپنا ذاتی تعلق اللہ تعالیٰ سے پیدا کرنا ہے، نمازیں کیوں ضروری ہیں، کیوں ہم احمدی ہیں، کیوں یہ دینی علم ضروری ہے؟ اس کے لیے تاریخ پڑھیں، حدیثیں پڑھیں، قرآن کریم میں دیکھیں۔ اس میں بہت ساری باتیں آپ کو مل جائیں گی۔
حضورِانور نے اس امر کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی کہ چودہ سے پندرہ سال کی عمر کی بعض ناصرات بڑے mature سوال کرتی ہیں تو دیباچہ تفسیر القرآن کتاب، جو جرمن میں بھی ترجمہ ہوئی ہوئی ہے، تفسیر کبیر کے پہلے حصہ میں تھی اب جرمنوں نے علیحدہ شائع کر دی ہے، تو اس میں سے پوائنٹس نکال کے انہیں بتائیں۔
آخر میں حضورِانور نے اپنی اول الذکر فرمودہ نصیحت کا اعادہ فرماتے ہوئے تلقین کی کہ تربیت کے پروگرام بنائیں، صرف وہی پرانے ٹکسالی، روایتی قسم کے پروگرام نہ رکھیں۔ جو پڑھی لکھی لڑکیاں ہیں، ان کی سوچیں بدل گئی ہیں، ان کی سوچوں کے مطابق پروگرام ترتیب دیں۔تیرہ سے پندرہ سال کی عمر کی پڑھی لکھی لڑکیوں کو بلائیں، ان کی میٹنگ کریں اور ان کو کہیں کہ ہم نے تربیت کا یہ پلان بنانا ہے تو اپنی تجاویز دو کہ کس طرح کا پلان ہونا چاہیے کہ جس سے تمہیں فائدہ بھی ہو اور اس کو implement کرنا بھی آسان ہو، بجائے اس کے کہ اپنے آرڈر ان پر imposeکریں، مشورے سے کام ہونا چاہیے۔
دورانِ ملاقات عاملہ ممبرات کو اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے متفرق امور پر مشتمل بعض سوالات پیش کرنے اور ان کے جواب کی روشنی میں حضورِانور سے براہِ راست راہنمائی حاصل کرنے کا قیمتی موقع بھی میسر آیا۔
ایک سوال حضورِانور کی خدمت اقدس میں یہ پیش کیا گیا کہ آجکل جرمنی میں رائٹ ونگ(دائیں بازو) کی پارٹیز کے بڑھتے ہوئے اثر اور اینٹی مسلم ریس ازم کے پھیلاؤ کے پیش نظر ہمیں کن تبلیغی حکمت عملیوں پر زیادہ توجہ دینی چاہیے؟
اس سوال کے جواب میں حضورِانور نے نہایت حکمت کے ساتھ اس مسئلے کے پس منظر پر روشنی ڈالی اور مؤثر تبلیغی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
حضورِانور نے مغربی ممالک میں رائٹ ونگ جماعتوں کے بنیادی اعتراض کے متعلق نشاندہی فرمائی کہ وہ کہتے ہیں کہ مہاجرین نہیں آنے چاہئیں۔ ہمارے لوکل جرمن لوگوں کا یہ ملک ہے اور اس پر اس کے وسائل پر ہمارا حق ہے اور ہونا چاہیے۔
حضورِانور نے یاد دلایا کہ اس پر مَیں کئی دفعہ لکھ چکا ہوں کہ یہ لوگ شور اس لیے مچاتے ہیں کہ جو ہم باہر سے لوگ آتے ہیں، امیگرنٹس آتے ہیں، پاکستانی بھی اور دوسرے ممالک سے بھی، ہم وہاں سوشل ہیلپ پر گزارہ کرتے ہیں اور کام نہیں کرتے۔ اس پر ان کے taxpayerکا پیسہ کھا رہے ہوتے ہیں، اس لیےان کو شکوے ہوتے ہیں۔
حضورِانور نے توجہ دلائی کہ اپنے لوگوں کو بھی کہنا چاہیے اور لکھتے بھی رہنا چاہیے، اور میرا خیال ہے کہ مَیں نے سویڈن میں ایک تقریر بھی کی تھی اور اس میں بھی مَیں نے لوگوں کو بتایا تھا کہ اس کا حل یہ ہے کہ ہمارے جو بھی آنے والے امیگرنٹس ہیں ان کو یہاں آکے کام کرنا چاہیے تاکہ taxpayer کا ٹیکس کھانے، ہیلپ لینے کی بجائے ٹیکس دینے والے بنیں۔
حضورِانور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ کی روشنی میں فرمایا کہ دینے والا ہاتھ بنو، لینے والا ہاتھ نہ بنو، اس پر ہمیں عمل کرنا چاہیے۔ یہ اسلامی تعلیم ہے تو ہم تو اس تعلیم پر عمل کرتے ہیں اور اس کے مطابق ہی ہمیں عمل کرنا چاہیے۔ اور یہ اگر ہو تو رائٹ ونگ(دائیں بازو) اور لیفٹ ونگ (بائیں بازو) والی باتیں ہی کوئی نہیں رہتیں۔ ایک قوم بن کے ہم رہیں گے۔
دوسرے جب اس ملک میں ہم آئے ہیں تو ہم قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، ہمارے پڑھے لکھے لوگ ہیں اور وہ سروس کرنے کے لیےتیار ہیں، اس لیے ہم اپنا حق نہیں مانگتے بلکہ ہم خدمت انسانیت اور خدمت قوم کرنے کو تیار ہیں۔
حضورِانور نے تحریک فرمائی کہ پریس اینڈ میڈیا والوں کے ساتھ مل کر اس طرح کے آرٹیکل اخباروں میں لکھیں اور چھوٹے چھوٹے کلپ سوشل میڈیا پر بھی ڈالے جاسکتے ہیں۔ اس کی ایک ٹیم بنائیں۔ باقاعدہ اینٹی مسلم ریس ازم کے متعلق بھی بتا دیں کہ اسلام کی اصل تعلیم کیا ہے۔
اینٹی مسلم ریس ازم کے خاتمے کےحوالے سے حضورِانور نے یاددہانی کرائی کہ اس بارے میں تو مَیں جرمنی میں بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں، کئی تقریریں ہیں، اس میں سے quote لے کے بتائیں۔ قرآن شریف کی آیتیں ہیں، حدیثیں ہیں کہ مسلمانوں کی کیا تعلیم ہے اور مسلمان امن پسند ہیں۔ مسلمانوں کی تعلیم عورتوں کے بارے میں کیا ہے اور شرعی حقوق کے بارے میں کیا ہے، حکومت کے بارے میں کیا ہے، deprived لوگوں کے بارے میں کیا ہے، تو اس طرح کی باتیں زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی کوشش کریں کہ ہم یہاں آئے ہیں تو ہم کسی تکلیف کی وجہ سے آئے ہیں، ہمیں کوئی اتنا شوق نہیں تھا اور ہم تو اس لیے آئے تھے کہ یہاں ریس اِزم نہیں ہے اور یہاں تم ایک دوسرے کی قدر کرنے والے ہو، ایک دوسرے کی انسانیت کی بنیادوں پر مدد کرنے والے ہو اور اس کا لحاظ کرنے والے ہو۔ تو اس لیے ہم یہاں آئے تھے اور ہم اس جذبہ کے ساتھ آئے ہیں کہ ہم یہاں رہ کے قوم اور ملک کی خدمت کریں گے۔ اس لیے نسل پرستی کا سوال ہی نہیں ہے۔
حضورِانور نے آخر میں اس بات کی اہمیت کو اجاگر کیا کہ اسلام ہمیں یہی کہتا ہے کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا اور اللہ تعالیٰ بھی یہی کہتا ہے کہ سب انسان برابر ہیں۔ تو اس طرح کی اسلامی تعلیم قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں سے نکال کے دیں۔ اور اس بارے میں تو میرے بھی کافی سارے ایڈریسز ہیں، لٹریچر ہے، آپ کوئی محنت کریں تو پوائنٹ نکل آئیں گے۔
[حضورِانور نے مؤخر الذکر جواب میں سویڈن کی جس تقریر کا حوالہ دیا تھا، یہ مورخہ ١٧؍ مئی ٢٠١٦ءکو سٹاک ہولم، سویڈن میں منعقدہ استقبالیہ تقریب سے آپ کا صدارتی خطاب تھا، قارئین کے استفادہ کے لیے اس کا ایک حصّہ پیش خدمت ہے۔حضورِانور نے ارشاد فرمایا تھا کہ اب لمبے سفر کرنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ گذشتہ سال کے دوران ہی اگر کروڑوں نہ سہی تو لاکھوں افراد جنگ سے متاثرہ ممالک شام اور عراق سے فرار ہو کر بہتر مستقبل کی تلاش میں یہاں مغربی دنیا میں آئے ہیں۔ سویڈش حکومت اور سویڈش لوگوں کی فراخدلی کی وجہ سے اس ملک نے اپنی آبادی کے لحاظ سے اپنے حصّہ سے کہیں زیادہ پناہ گزینوں کو قبول کیا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو اپنے اندر شامل کرنا بظاہر بہت معقول ہے اور ثابت کرتا ہے کہ سویڈن رحمدل اور فراخدل لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔ آپ کی یہ فراخدلی یہاں آنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد کر دیتی ہے اور ان سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ یہاں ایک پر امن شہری کی حیثیت سے آکر رہیں اور یہاں کی حکومت اور یہاں کے باشندوں کے مشکور وممنون بن کر ر ہیں۔
در اصل بانی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ وہ شخص جو اپنے ساتھی کا شکر گزار نہیں بن سکتا وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکرگزار نہیں کہلا سکتا ۔ پس ان مسلمان مہاجرین اور پناہ گزینوں کا یہ مذہبی فریضہ ہے کہ اس ملک نے ان کو یہاں رہنے اور یہاں سے فائدے حاصل کرنے کی اجازت دے کر جو احسان کیا ہے وہ ہمیشہ اس کو یاد رکھیں۔ یہ پناہ گزین امن کی تلاش میں اپنی پرانی زندگیاں چھوڑ کر نکلے تھے اور اب جب انہیں سلامتی اور تحفظ مل گیا ہے تو ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس ملک کے اندر پر امن طور پر رہیں اور اس ملک کے قوانین کی پاسداری کریں۔ تمام پناہ گزینوں کا فرض ہے کہ وہ اس معاشرہ کا مفید حصّہ بنیں اور یاد رکھیں کہ اسلام کے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی ہے کہ بطور ایک مسلمان وطن سے محبّت آپ کےایمان کا لازمی حصّہ ہے۔ پس جس ملک نے ان مہاجرین کو قبول کیا اب ان مہاجرین کا فرض ہے کہ وہ اس ملک کے ساتھ ہمیشہ وفادار رہیں اور اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس ملک کی ترقی اور فلاح کے لیے مدد کریں۔
حضورِانور نے فرمایا کہ علاوہ ازیں حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ صرف ان مہاجرین کو ہی بسانے میں نہ لگی رہے، جس کے نتیجہ میں ان کے موجودہ شہریوں کے حقوق نظر انداز ہو جائیں، پہلے ہی ایسی رپورٹیں موجود ہیں کہ مقامی شہریوں نے میڈیا سے شکایت کی ہے کہ مہاجرین کو ان پر فوقیت دی جارہی ہے۔
اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ یہ رپورٹس کس حد تک درست ہیں لیکن اگر ان رپورٹس میں کوئی صداقت ہے تو پھر یہ بات بڑی پریشان کن اور خطرناک ہے۔ اگر مہاجرین کو آئندہ بھی اسی طرح فوقیت دی جاتی رہی تو اس کے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔ اس قسم کی بے انصافی کی وجہ سے مقامی لوگوں میں طبعی طور پر ناپسندیدگی اور مایوسی کے جذبات فروغ پائیں گے، جو بآسانی مہاجرین کے خلاف نفرت میں بدل سکتے ہیں۔ سویڈش قوم ایک عرصہ سے اپنی فراخدلی کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ مگر ان کے ساتھ غیر امتیازی سلوک ان کے رویہ میں یکدم تبدیلی بھی لاسکتا ہے جس سے معاشرے کے امن کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اور پھر یہ تبدیلی ہجرت اور Integration کے مثبت اثرات سے فائدہ اٹھانے کی بجائے نفرت اور تصادم میں اضافہ کا باعث بن سکتی ہے۔
حضورِانور نے فرمایا کہ پس مَیں حکومت اور پالیسی سازوں کو یہی مشورہ دوں گا کہ وہ اس بات کی یقین دہانی کریں کہ مقامی لوگوں کے حقوق کسی طرح بھی نظر انداز نہ ہوں یا ان پر کسی بھی قسم کا برا اثر نہ پڑے۔ یہ ایک حساس معاملہ ہے اور اس کو بڑی احتیاط اور توجہ کے ساتھ دیکھنا ہوگا، کیونکہ اگر مقامی لوگوں کے اندر مہاجرین کے لیے ناپسندیدگی پیدا ہوگئی تو اس سے خطر ناک ردِّ عمل کی کڑی شروع ہو جائے گی۔ مقامی شہری پناہ گزینوں کے خلاف ہو جائیں گے جس کے نتیجہ میں شاید مہاجرین کو معاشرے سے الگ تھلگ کر دیا جائے اور ممکن ہے کہ اس اکیلے پن کے احساس کی وجہ سے بعض مہاجرین انتہاپسند لوگوں کے ہاتھ لگ کر انتہاپسندی کا شکار ہو جائیں اور ہو سکتا ہے کہ اس طرح ایک شیطانی چکر شروع ہو جائے جس سے اس قوم کا امن اور سکون برباد ہو جائے۔
اگر خدانخواستہ! ایسے شدّت پسند چند ایک لوگوں کو بھی radicalise کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ اس قوم کی خوشحالی ، تحفظ اور سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ بن جائے گا۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ایک توازن برقرار رکھنا ہوگا اور بےحد محتاط ہو کر انتہاپسندی کو دیکھنا ہوگا۔ حکومت جہاں ان مہاجرین کو آباد کرنے کی کوشش کر رہی ہے وہاں ان پر یہ بھی واضح کرنا ہو گا کہ ان مہاجرین سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ جلد از جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں اور اس معاشرہ کی فلاح کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ دوسری طرف مقامی شہریوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سویڈن نے خدمت انسانیت کو اخلاقی فرض سمجھتے ہوئے ان پناہ گزینوں کو قبول کیا ہے۔ اس لیے انہیں چاہیے کہ وہ خدمت اور پیار کے جذبے سے آنے والوں کا استقبال کریں۔ مَیں پھر سے کہوں گا کہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ آپ ان مہاجرین کی اپنے معاشرہ میں Integration پر بہت زیادہ توجہ دیں ورنہ حالات آپ کے قابو سے باہر چلے جائیں گے۔
جہاں تک دینی تعلیمات کا تعلق ہے تو میں آپ کو ایک مرتبہ پھر یقین دلاتا ہوں کہ دین سب کے لیے امن ، سلامتی اور پیار کا مذہب ہے۔ اسلام تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنے وطن سے محبّت کریں، اپنے وطن سے وفادار رہیں اور اس کے قوانین کی پاسداری کریں۔ یہاں کے مسلمان ائمہ کو مغرب میں آنے والے تمام مہاجرین کو یہ پیغام دینا چاہیے ۔ ان لوگوں کو بتانا چاہیے کہ اس ملک اور قوم کا مشکور ہونا ان کا اسلامی فریضہ ہے۔ انہیں اس بات کی یاددہانی کروائی جانی چاہیے کہ ان لوگوں کو ایک نئی زندگی ملی ہے اور اپنے بچوں کی ایک ایسے ملک میں پرورش کرنے کا موقع ملا ہے جس میں کوئی جنگ یا فساد نہیں ہے۔ اس لیے ان پر فرض ہے کہ وہ اپنے اس نئے گھر کی قدر کریں اور اس کا خیال رکھیں۔(بحوالہ ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل١٥؍جولائی٢٠١٦ء)
قارئین کی دلچسپی کے لیے مزید تحریر کیا جاتا ہے کہ حضورِ انور نے برطانیہ میں منعقدہ نیشنل پیس سمپوزیم ٢٠١٩ء کے موقع پر بھی اپنے معرکہ آرا صدارتی خطاب میں توجہ دلائی تھی کہ آج ہم ایک ایسے دَور سے گزر رہے ہیں کہ جب یورپ کو اپنی خودمختاری کی جنگ درپیش ہے۔ مغربی دنیا کے سر پر قومیت پرستی کا بھوت دوبارہ سوار ہو گیا ہے اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے شدّت پسند گروہ مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔
ان پارٹیوں کو بے شک سیاسی طور پر واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی لیکن پھربھی جب تک معاشرے کی ہر سطح پر انصاف قائم نہ ہو جائے یہ پارٹیاں مقبولیت حاصل کرتی رہیں گی۔ ان کی مقبولیت کی ایک بہت بڑی اور بنیادی وجہ پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہے جس سے لوگوں میں بےچینیاں جنم لےرہی ہیں اور یہ نظریہ جڑ پکڑ رہا ہے کہ ان ممالک کے اصل شہریوں کے وسائل بجائے اُن پر خرچ ہونے کے غیر ملکی پناہ گزینوں کی امداد پر خرچ کیے جا رہے ہیں۔
مختصراًیہ کہ مہاجرین یا سیاسی پناہ لینے والے جب اپنے ممالک کی سیاسی یا مذہبی صورتحال کی وجہ سے مغربی ممالک کا رُخ کرتے ہیں توجہاں ان کے ساتھ عزت و احترام کا سلوک ہونا چاہیے وہاں یہ بھی مدِ نظر رہے کہ انہیں مہیا کی جانے والی امداد اور مراعات سے مقامی شہریوں کی سہولیات متاثر نہ ہوں۔
مہاجرین کی اس بات پر حوصلہ افزائی ہونی چاہیے کہ وہ جلد از جلد اپنے لیے ذریعۂ معاش تلاش کریں بجائے اس کے کہ لمبے عرصہ تک حکومت کی طرف سے احسان کے طور پر ملنے والے الاؤنس اور مراعات پر گزارہ کرتے رہیں۔
انہیں خود بھی چاہیے کہ وہ محنت کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں اور معاشرے کی ترقی میں مثبت کردار ادا کریں ورنہ اگر انہیں مسلسل ٹیکس اداکرنے والوں کے پیسہ سے امداد مہیاکی جاتی رہی تو اس سے لازماً شکوے جنم لیں گے۔
مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ معاشی اوراقتصادی محرومیاں معاشرے میں نفرت اور بے چینی پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ بعض گروہ اس بے چینی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر مہاجرین کو یا کسی خاص مذہب کے ماننے والوں کو ملزم ٹھہراتے اور ان کے خلاف نفرت پھیلانے لگتے ہیں۔(بحوالہ الفضل انٹرنیشنل٥؍ اپریل ٢٠١٩ء)
اسی طرح حضورِانور نے ایک مرتبہ توجہ دلائی تھی کہ مہاجرین جومغربی ممالک کی طرف آتے ہیں وہ اس معاشرے میں آ کر integrate نہیں ہوتے اور اس سے ہٹ کر بہت سے ایسے ہیں جو کام بھی نہیں کرتے۔ یا اگر وہ کام بھی کرتے ہیں تو ٹیکس ادا نہیں کرتے اور خود کو مقامی لوگوں سے الگ رکھتے ہیں۔ جب مقامی باشندے دیکھتے ہیں کہ یہ معاشرے کا حصہ نہیں بن رہے جبکہ یہ گورنمنٹ سے benefits بھی حاصل کررہے ہیں جو ان مقامی لوگوں کے ٹیکسز سے ادا ہوتے ہیں تو یہ بات انہیں غصّہ دلاتی ہے۔اور ایسے لیڈ رز جو مہاجرین کے لیے نفرت رکھتے ہیں وہ عوام النّاس کو ان کے خلاف اکساتے ہیں۔ اس لیے نسل پرستی بڑھ رہی ہے۔
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ اگر مہاجرین خود کو لوکل معاشرےکےساتھ integrateکرنے کی کوشش کریں تو وہ مقامی لوگوں کے شبہات دُور کرسکتے ہیں۔ integration کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ مقامی لوگوں کی طرح کا لباس پہنیں یا کلبز میں جائیں یا الکحل والے مشروبات پینا شروع کر دیں۔ نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ ان کے کلبز میں جا کر ڈانس کریں۔ نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ اپنے اخلاق سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
اگر مقامی لوگوں کو یقین دہانی ہو جائے کہ مہاجرین ان کے لیے مفید وجو د ہیں اور وہ ملک کی بہتری کے لیے سرگرم ہیں اور ملک کی اقتصادی ترقی میں اپنا حصّہ ڈال رہے ہیں تو وہ ایسے سوال نہیں اٹھائیں گے۔ پھر جب ہم مقامی لوگوں سے بات چیت کریں تو ہم ان کے شبہات کو دور کر سکتے ہیں۔ ان کے ساتھ مل جل کر رہیں لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ اپنے اخلاق، اپنی تعلیمات اور اپنا ایمان بھی ہاتھ سے نہیں دینا۔ (سہ روزہ الفضل انٹرنیشنل٢٠؍اگست٢٠٢١ء)]
ایک عاملہ ممبر نے حضورِانور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ بعض ایسی فیملیز ہیں جو کہ ایک لمبا عرصہ مثلاً دو، تین ماہ رشتے کی بات چلاتی ہیں، آپس میں ملتے بھی ہیں، پھر آخر میں استخارہ اچھا نہیں آیا کہہ کر بات ختم کر دیتے ہیں اور ایسی فیملیز بھی ہیں جو کسی بھی وجہ سے ہر رشتہ کو ردّ کر دیتی ہیں۔اس صورتحال میں کیا کرنا چاہیے؟
اس پر حضورِانور نے توجہ دلائی کہ بات یہ ہے کہ دعا تو کرنی چاہیے اور لڑکی والوں کو تو خاص طور پر زیادہ لمبا عرصہ دعا کرنی چاہیے۔ مہینہ، چالیس دن دعا کر کے پھر فیصلہ کرنا چاہیے۔ تو چالیس دن کے اندر اندر دعا کرکے فیصلہ کر دینا چاہیے اور اس عرصہ میں ملاقاتیں، لمبی باتیں اور لمبی مجلسیں اور آپس میں دوستیاں نہیں ہونی چاہئیں۔ لڑکے لڑکی کو ایک distance رکھنا چاہیے۔ اور دعا کا عرصہ صرف چالیس دن ہے اور جب پورا ہو جائے اور رشتے مل جائیں تو پھر اس کو پکا کر لینا چاہیے۔
حضورِانور نے اس بات کی بھی نشاندہی فرمائی کہ بعض شکایتیں ایسی بھی آتی ہیں کہ لوگ رشتہ تو کر لیتے ہیں اور منگنی بھی کر لیتے ہیں لیکن پھر اس کے بعد کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے لوگوں سے لڑکی یا لڑکے کے بارے میں یہ یہ باتیں سنی ہیں، مگر ان کو نہیں بتاتے کہ ہم نے یہ باتیں کہاں سے سنی ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم نے دوبارہ دعا کی تھی تو شرح صدر نہیں ہوئی اور پھر منگنی کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں۔ تو یہ بھی ہوتا ہے۔
حضورِانور نے اس امر کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی کہ یہ چیزیں ان کو پہلے ہی سمجھائیں، کونسلنگ ہونی چاہیے، اس لیے مَیں نے کونسلنگ کی کمیٹیاں بنائی ہوئی ہیں، جس میں لجنہ بھی شامل ہے۔ آپ لوگ بھی ایک کیمپ لگایا کریں اور اس میں لڑکی اور لڑکے والوں کو بتایا کریں کہ تم نے کیا کرنا ہے، تیس چالیس دن دعا کرو اور پھر فیصلہ کرو۔ اس کے بعد ہاں ہوجائے گی تو پھر آپس میں رابطہ بھی ہو سکتا ہے اور رابطہ کرنے کے بعد پھر جلدی سے جلدی یہ ہونا چاہیے کہ نکاح ہو جائے اور شادی ہو جائے بجائے اس کے لمبا لٹکایا جائے، اس سے پھر مزید قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔
آخر میں حضورِ انور نے متنبّہ فرمایا کہ بعض لوگ عادی ہوتے ہیں، وہ رشتہ تو کر لیتے ہیں، لیکن پھر تھوڑی دیر بعد کوئی آتا ہے، فتنہ پرداز بھی لوگ بہت ہوتے ہیں، اور کہتا ہے کہ اوہو! تم نے یہاں رشتہ کر لیا اور کہتے ہیں کہ وہاں بڑا اچھا رشتہ تھا، وہ لڑکی بڑی اچھی تھی یا لڑکا بڑا اچھا تھا، اس سے رشتہ کر لیتے تو بہتر تھا۔ تو وہ کہتے ہیں کہ کوئی بات نہیں، ہم رشتہ توڑ دیتے ہیں، ان کو پروا ہی کوئی نہیں، انہوں نے تو گڈے گڈی کا کھیل بنایا ہوا ہے، یہ ظالم لوگ ہیں، اللہ میاں کے ہاں یہ لوگ جواب دہ ہوں گے۔ تو اللہ تعالیٰ رحم کرے، دعا بھی کیا کریں، اس لیے دعا کر کے فیصلہ کرنا چاہیے۔
ملاقات کے اختتام پرحضورِانور نے الوداعی دعائیہ کلمات ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ چلو، پھر اللہ حافظ ہو!
٭…٭…٭