احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویو زکے سلسلے میںابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب کا تحریر کردہ ریویو
(گذشتہ سے پیوستہ)یہ اس کتاب کا خلاصہ مطالب ہے۔ اب ہم اس پر اپنی رائے نہایت مختصر اور بےمبالغہ الفاظ میں ظاہر کرتے ہیں۔ ہماری رائے میں یہ کتاب اِس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی۔ اور آئندہ کی خبر نہیں۔ لَعَلَّ اللّٰہُ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا۔ اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایساثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے۔
ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک ایسی کتاب بتا دے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً فرقہ آریہ و برہم سماج سے اس زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہو۔ اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کے نشان دہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی و جانی و قلمی و لسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بھی بیڑا اُٹھا لیا ہو اور مخالفین اسلام اور منکرین الہام کے مقابلہ میں مردانہ تحدی کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہو کہ جس کو وجود الہام کا شک ہو وہ ہمارے پاس آ کر اس کا تجربہ و مشاہدہ کر لے اور اس تجربہ و مشاہدہ کا اقوام غیر کو مزہ بھی چکھا دیا ہو۔
مگر افسوس صد افسوس سب سے پہلے اس کتاب کی خوبی و بحق اسلام نفع رسانی سے بعض مسلمانوں (حاشیہ: امرتسرو لودیانہ وغیرہ کے ساکنین) ہی نے انکارکیا ہے۔(حاشیہ: نوٹ لائق توجہ گورنمنٹ۔ اس انکار و کفران پر باعث لودیانہ کے بعض مسلمانوں کو تو صرف حسد و عداوت ہے۔ جس کے ظاہری دو سبب ہیں۔ ایک یہ کہ ان کو اپنی جہالت (نہ اسلام کی ہدایت) سے گورنمنٹ انگلشیہ سے جہاد و بغاوت کا اعتقاد ہے۔ اور اس کتاب میں اس گورنمنٹ سے جہاد و بغاوت کو ناجائز لکھا ہے۔ لہٰذا وہ لوگ اس کتاب کے مؤلف کو منکر جہاد سمجھتے ہیں اور ازراہ تعصب و جہالت اس کے بغض و مخالفت کو اپنا مذہبی فرض خیال کرتے ہیں۔ مگر چونکہ وہ گورنمنٹ کے سیف و اقبال کے خوف سے علانیہ طور پر ان کو منکر جہاد نہیں کہہ سکتے اور سر عام مسلمانوں کے روبرو اس وجہ سے ان کو کافر بنا سکتے ہیں لہٰذا وہ اس وجہ کفر کو دل میں رکھتے ہیں اور بجز خاص اشخاص (جن سے ہم کو یہ خبر پہنچی ہے)کسی پر ظاہر نہیں کرتے اور اس کا اظہار دوسرے لباس و پیرایہ میں کرتے اور یہ کہتے ہیں کہ براہین احمدیہ میں فلاں فلاں امور کفریہ (دعویٰ نبوت اور نزول قرآن اور تعریف آیات قرآنیہ پائی جاتی ہیں) اس لئے اس کا مؤلف کافر ہے۔ موقع جلسہ دستاربندی مدرسہ دیوبند پر یہ حضرات بھی وہاں پہنچے۔ اور لمبے لمبے فتویٰ تکفیر مؤلف براہین احمدیہ کے لکھ کر لے گئے اور علماء دیوبند وکنگوہ وغیرہ سے ان پر دستخط و مواہیر ثبت کرنے کے خواستگار ہوئے۔ مگر چونکہ وہ کفر ان کا اپنا خانہ ساز کفر تھا جس کا کتاب براہین احمدیہ میں کچھ اثر پایا نہ جاتا تھا لہٰذا علماء دیوبند و کنگوہ نے ان فتوؤں پر مہر دستخط کرنے سے انکار کیا اور ان لوگوں کو تکفیر مؤلف سے روکا۔ اور کوئی ایک عالم بھی ان کا اس تکفیر میں موافق نہ ہوا۔ جس سے وہ بہت ناخوش ہوئے اور بلا ملاقات وہاں سے بھاگے۔ اور کَاَنَّھُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَۃٌ۔فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَۃٍ کے مصداق بنے۔
ناظرین ان کا یہ حال سن کر متعجب اور اس امر کے منتظر ہوں گے کہ ایسے دلیر اور شیر بہادر کون ہیں جو سب علماء وقت کے مخالف ہو کر ایسے جلیل القدر مسلمان کی تکفیر کرتے ہیں اور اپنی مہربان گورنمنٹ کے (جس کے ظل حمایت میں باامن شعار مذہبی ادا کرتے ہیں) جہاد کو جائز سمجھتے ہیں۔ ان کے دفع تعجب اوررفع انتظار کے لئے ہم اُن حضرات کے نام بھی ظاہر کر دیتے ہیں۔ وہ مولوی عبدالعزیز و مولوی محمدؐ وغیرہ پسران مولوی عبد القادر ہیں جن سب کا ۵۷ء سے باغی و بدخواہ گورنمنٹ ہونا ہم اشاعۃ السنہ نمبر ۱۰ جلد ۶ وغیرہ میں ظاہر و ثابت کر چکے ہیں اور اب بھی پبلک طور پر سرکاری کاغذات کی شہادت سے ثابت کرنے کو موجود و مستعد ہیں۔ اگر وہ یا کوئی ان کا ناواقف معتقد اس سے انکار کرے۔
دوسرا سبب یہ کہ انہوں نے باستعانت بعض معزز اہل اسلام لودہانہ (جن کی نیک نیتی اور خیر خواہی ملک و سلطنت میں کوئی شک نہیں) بمقابلہ مدرسہ صنعت کاری انجمن رفاہ عام لودہانہ ایک مدرسہ قائم کرنا چاہا تھا اور اس مدرسہ کے لئے لودہانہ میں چندہ جمع ہو رہا تھا کہ اُن ہی دنوں مؤلف براہین احمدیہ باستدعا اہل اسلام لودہانہ میں پہنچ گئے۔ اور وہاں کے مسلمان ان کے فیض زیارت اور شرف صحبت سے مشرف ہوئے۔ ان کی برکات و اثر صحبت کو دیکھ کر۔ اکثر چندہ والے اُن کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اور اس چندہ کے بہت سے روپیہ طبع و اشاعت براہین احمدیہ کے ریویو مؤلف کی خدمت میں پیشکش کئے گئے۔ اور مولوی صاحبان مذکور تہیدست ہو کر ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اس امر نے بھی ان حضرات کو بھڑکایا اور مؤلف کی تکفیر پر آمادہ کیا۔ جن کو ان باتوں کی صدق میں شک ہو وہ ہم کو اس امر سے مطلع کرے ہم لودہانہ سے عمدہ اور واضح طور پر ان باتوں کی تصدیق کرا دیں گے۔ وَ بِاللّٰہِ التَّوْفِیْق۔
امرتسر کے مسلمانوں کے اس انکار کا باعث اُن کی نافہمی اور بے ذوقی اور کسی قدر عموماً اہل اللہ و اہل باطن سے گوشہ تعصبی ان کو خاص کر مؤلف براہین سے کچھ عداوت نہیں ہے) اور برطبق اَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ اس احسان مؤلف کے مقابلہ میں کفران کر کے دکھا دیا۔
اُن کے اس انکار و کفران کا مورد و موجب مؤلف کتاب کے وہی الہامات ہیں جو اس کتاب کے اخص برکات سے ہیں۔ ان الہامات کو بعض مسلمان امرتسری تو صرف غیر صحیح و غیر ممکن و ناقابل تسلیم بتاتے ہیں اور بعضے (لودہانہ والے) ان کو کھلم کھلا کفر قرار دیتے ہیں۔ فریق اوّل (امرتسری مسلمان) تو اپنے انکار کی وجہ یہ پیش کرتے ہیں کہ الہام غیبی (جو ہمرنگ وحی ہے) بجز انبیاء کسی کو نہیں ہو سکتا اور آج تک کسی کو نہیں ہوا اور اگر طبعی خیالات و خطرات مراد ہیں تو ان کو ولی سے کیا خصوصیت ہے۔ یہ خطرات کافر انسان بلکہ حیوان مکھی وغیرہ کو بھی ہوتے ہیں۔
اور فریق دوم (لودہانوی مدعیان اسلام) اپنی تکفیر کی یہ وجہ پیش کرتے ہیں کہ ان الہامات میں مؤلف نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے اور اپنے آپ کو اُن کمالات کا جو انبیاء سے مخصوص ہیں محل ٹھہرایا ہے اور ان آیات قرآنیہ کا جو خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور انبیائے سابقین کے خطاب میں وارد ہیں مورد نزول قرار دیا ہے۔ از انجملہ چند آیات معہ ترجمہ و نشان محل بیان از قرآن و براہین احمدیہ کی جاتی ہیں۔
۱: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران ع ۴ براہین احمدیہ صفحہ ۲۳۹ و ۵۰۴)اے رسول تو کہہ دے اگرتمہیںخدا کی محبت ہےتومیری تابعداری کروخداتم سے پیار کرے گا۔
۲: یٰٓاَ یُّھَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْ (المدثر ع ۱ براہین احمدیہ صفحہ ۲۴۲)اے (نبی) کپڑا لپیٹ کر پڑ جانے والے اُٹھ لوگوں کو جگا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر۔
۳: فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ۔(الحجر ع ۶ براہین احمدیہ صفحہ ۵۰۳) اے نبی پکار کر کہہ جو تجھے حکم ملا ہے اور جاہلوں سے مونہہ پھیر لے۔
۴: وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ(زخرف ع ۲ براہین احمدیہ صفحہ۵۰۳) مشرکوں نے کہا کہ یہ قرآن دو بستیوں مکہ اور طائف کے کسی سردار پر کیوں نہ اُترا۔
۵: تَاللّٰہِ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ(نحل ع ۸ براہین احمدیہ صفحہ ۵۰۴) ہم کو اپنی قسم ہے ہم نے تجھ سے پہلے امتوں کی طرف رسول بھیجے پھر شیطان نے اُن کو اُن کے بد اعمال اچھے کر دکھائے۔
۶: قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ(حم السجدہ ع۱ براہین احمدیہ صفحہ ۵۱۱)تو کہہ دے (اے نبی) میں تمہارے جیسا بشر ہی ہوں پر میری طرف وحی ہوتی ہے۔
۷: اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ (الفتح ع ۱۔ براہین احمدیہ صفحہ ۵۱۵) ہم نے تم کو (اے نبی) کھلی کھلی فتح دی ہے تا کہ تیرے اگلے پچھلے گناہ ہم معاف کریں۔
۸: اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ (کوثر ع ۱ براہین احمدیہ صفحہ ۵۱۷)اے نبی ہم نے تجھے حوض کوثر عطاکیا ہے۔ پس تو خدا کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔
۹: یَا عِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ (آل عمران ع ۶ براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۶) اے عیسیٰ میں تجھے فوت کرنیوالا ہوں۔ اور اپنی طرف اٹھانے والا اورتیرے پیروان کو تیرے منکروں سے قیامت تک اونچا رکھنے والا۔
۱۰: وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنَاہُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ(بنی اسرائیل ع ۱۲ براہین احمدیہ صفحہ ۲۹۸)ہم نے قرآن کو حق کے ساتھ اُتارا ہے اور یہ حق کے ساتھ اتارا ہے۔
۱۱: یٰٓاَدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ(بقرہ ع ۴ براہین احمدیہ صفحہ ۴۹۶)اے آدم تو اور تیری جورو بہشت میں رہو۔
اسی قسم کی بیسیوں آیات اور ہیں جس کے مورد نزول ہونے کامؤلف کو دعویٰ ہے۔ علاوہ براں بہت سے عربی و انگریزی و فارسی فقرات ایسے اس کتاب میں درج ہیں جن سے مؤلف کا دعویٰ نبوت مترشح ہوتا ہے۔ جیسے یہ فقرات (عربی زبان میں)
اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْرَتِیْ اَخْتَرْتُکْ لِنَفْسِیْ (براہین احمدیہ صفحہ ۴۸۹) تو ہماری بارگاہ میں صاحب وجاہت ہے۔ ہم نے تجھے اپنے لئے چن لیا ہے۔
اِنَّا اَنْرَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَانِ وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنَاہُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ۔(براہین احمدیہ صفحہ ۴۹۸) ہم نے اُس کو یا اس کے الہامات کو قادیان کے قریب اُتارا ہے اور ہم نے ان کو حق کے ساتھ اُتارا ہے اور حق کے ساتھ اُترے ہیں۔
ان آیات و فقرات کو دیکھ کر فریق مکفر کو یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ مؤلف کتاب ان آیات قرآنی کا جو انبیاء کے شان و خطاب میں وارد ہیں اپنے آپ کو مخاطب ٹھہراتا ہے اور اِن کمالات کا (جو آیات یا اُن عربی فقرات میں مذکور اور وہ انبیاء سے مخصوص ہیں) محل ہونے کا مدعی ہے۔ پھر اس کے دعویٰ نبوت میں کیا کسر رہی ۔
ایک مولوی صاحب (امرتسری) ایک اور مدعی الہام آیات قرآنیہ کے مقابلہ میں اپنے رسالہ میں لکھتے ہیں کہ مدعی الہام آیات قرآنیہ ان آیات کا مخاطب و مورد اپنے آپ کو ٹھہراتا ہے تو اس سے قرآن کا دعویٰ اعجاز و تحدی (قرآن کے مثل بنانے کا مطالبہ) باطل ہوتا ہے کیونکہ ان آیات کو جو اس شخص کے خطاب میں نازل ہوئی ہیں قرآن تو کہا نہیں جاسکتا۔ اس لئے کہ وہ غیر نبی کے خطاب میں نازل ہوئے ہیں اور قرآن وہ ہے جو آنحضرتؐ کے خطاب میں نازل ہوا ہے اور مع ذالک وہ آیات صورت و الفاظ میں مثل قرآن ہیں تو قرآن کا بے مثل ہونا کہاں باقی رہا اور دعویٰ اعجاز و تحدی کیونکر نہ ٹوٹا۔
ان دلائل تکفیر و انکار کے علاوہ فریقین ان الہامات پر کئی اعتراضات (حاشیہ: یہ اصولی اعتراضات ہیں۔ ان کے فروعات اور بہت ہیں جن کا ذکر و جواب ان اعتراضات کے جوابات کے ضمن میں آوے گا) اور بھی کرتے ہیں جن سے ان الہامات کا غلط اور ناقابل اعتبار ہونا ثابت ہو۔ ازان جملہ ایک اعتراض یہ کہ بعض الہامات میں لفظی و معنوی غلطیاں ہیں جیسے ھٰذِی اِلَیْک بِجِذْعِ الْنَخْلَہ سے جو بصیغہ تانیث ہے مؤلف مذکر کا خطاب اور یَا مَرْیَمَ اُسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنْۃَ میں مریم مؤنث کا صیغہ مذکر سے خطاب اور مریم کے لئے زوج کا اثبات۔
از انجملہ یہ کہ بعض الہامات انگریزی میں ہوئے ہیں اور انگریزی ایسی بُری زبان ہے کہ اس کے پڑھنے اور بولنے سے مومن کا ایمان جاتا رہتا ہے یا اُس کو گناہ چمٹ جاتا ہے پھر اس میں الہام خداوندی جو ایمان کا رہنما ہے کیونکر ممکن ہے۔ از انجملہ یہ کہ مؤلف نے اپنے الہامات کے قطعی ہونے کا دعویٰ کیا ہے حالانکہ علماء اہل سنت الہام کو حجت نہیں سمجھتے۔ چنانچہ عقائد نسفی میں لکھا ہے کہ الالھام لیس من اسباب المعرفۃ بصحۃ الشیٔ عند اھل الحق الہام علم صحیح کا موجب و سبب نہیں ہے اور عامہ کتب میں لکھا ہے کہ اور شرعیہ چار ہیں۔
جن میں کشف و الہام غیر نبی کو کسی نے شمار نہیں کیا۔
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: رَحۡمَۃٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَﷺ بیٹیوں کے لیے رحمت