جلسہ یومِ مصلح موعود
دادی جان : السلام علیکم بچو!
بچے: وعلیکم السلام
دادی جان: آپ کے امتحانات ختم ہو گئے ہیں۔ اللہ کرے کہ آپ اچھے مارکس لےلیں۔
آمین۔ محمود سب سے پہلے زور سے بولا۔
چلیں مجھے بتائیں کہ آپ لوگوں کو یومِ مصلح موعود کے جلسے کی تقاریر سے کیا کیا یاد رہا؟
گڑیا: میں پہلے بتاؤں؟
دادی جان: سننا تو مجھے محمود سے تھا لیکن آپ بتائیں۔
گڑیا: حضرت صاحبزادہ مرزا محموداحمدصاحبؓ کو حضرت مسیح موعود ؑ نے ہدایت فرمائی تھی کہ کسی سے کوئی چیز لے کر نہ کھانا۔ آپؓ کی اطاعت کا یہ عالم تھا کہ اپنے گھر سے متّصل مکان میں حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ سے پڑھنے کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ اگر پیاس لگتی تو اپنے گھر آتے اور پانی پی کر پھر چلے جاتے۔ مقصد یہی تھا کہ حضور علیہ السلام کے حکم کی نافرمانی نہ ہو۔ مربی صاحب نے کہا تھا کہ یہی حد درجہ کی احتیاط ہے جسے تقویٰ کہتے ہیں۔
دادی جان : خوب یاد رہا آپ کو۔ ہاں جی تو احمد میاں آپ بتائیں اب۔ آپ تو ویسے بھی دینی معلومات کے چیمپئن ہیں۔
احمد: جزاکم اللہ دادی جان ! تقاریر میں سے مجھے یاد ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ اپنے بچپن میں دوسرے بچوں کی طرح اپنا وقت ضائع نہیں کرتے تھے، گلیوں میں بے کار نہیں پھرتے تھے بلکہ بزرگوں کی مجلس میں وقت گزارنا پسند فرماتے تھےاور اگر کھیلتے تو صحت مندانہ کھیلیں آپ کو پسند تھیں۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ میری تعلیم تو کچھ بھی نہ تھی لیکن یہ بات تھی کہ حضرت مسیح موعود ؑکی مجلس میں جا بیٹھتا تھا۔ حضرت خلیفہ اولؓ کی مجلس میں چلا جاتا تھا۔ کھیلا بھی کرتا تھا۔مجھے شکار کا شوق تھا۔فٹ بال بھی کھیل لیتا تھا۔لیکن گلیوں میں بیکار نہیں پھرتا تھا بلکہ اس وقت مجلسوں میں بیٹھتا تھا اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ بڑی بڑی کتابیں پڑھنے والوں سے میرا علم خدا تعالیٰ کے فضل سے زیادہ تھا۔
دادی جان: شاباش! اب محمود کی باری ہے۔
محمود: مجھے یہ واقعہ یاد ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت مصلح موعودؓ کو 1907ء میں اخبار پڑھتے ہوئے آواز دی ’’محمود‘‘۔ جب وہ آپؑ کے پاس گئے تو آپؑ نے ایک خبر سنائی۔ ایک شخص مر گیا ہے۔ اس پر آپؓ کی ہنسی نکل گئی اور آپؓ نے کہا مجھے اس سے کیا؟ حضرت صاحبؑ نے فرمایا تھا کہ اس کے گھر میں تو ماتم پڑا ہو گا اور تم کہتے ہو مجھے کیا؟
دادی جان: جی بالکل چاہے دوست ہو یا دشمن دکھ سکھ میں جذبات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ چلیں اب ایک ایک بار اور کچھ بتائیں۔
گڑیا: مجھے ایک اور واقعہ یاد آیا کہ بچپن میں ایک دفعہ ایک طوطا شکار کر کے لے آئے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اسے دیکھ کر فرمایا: محمود اس کا گوشت حرام تو نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ہر جانور کھانے کے لیے ہی پیدا نہیں کیا۔ بعض خوبصورت جانور دیکھنے کے لیے ہیں کہ انہیں دیکھ کر آنکھیں راحت پائیں۔ بعض جانوروں کو عمدہ آواز دی ہے کہ ان کی آواز سُن کر کان لذت حاصل کریں۔ پس اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہر حِس کے لیے نعمتیں پیدا کی ہیں وہ سب کی سب چھین کر زبان ہی کو نہ دے دینی چاہئیں۔ دیکھو یہ طوطا کیسا خوبصورت جانور ہے؟ درخت پر بیٹھا ہوا دیکھنے والوں کو کیسا بھلا معلوم ہوتا ہو گا۔
احمد: مجھے یہ بھی یاد رہا ہے کہ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ کسی ایک کھیل کے ایسے شوقین نہیں ہوئے کہ اس میں غیرمعمولی مہارت پیدا کرنے کے لیے اسے مستقلاً اپنا لیا ہو۔ طبیعت میں تجسس کا مادہ بہت تھا اور نئی چیز دیکھنے پر اس کا ذاتی تجربہ حاصل کرنے کا شوق مچلنے لگتا۔ چنانچہ ایسے دنوں میں جب موسم اور طبیعت کو فٹ بال سے زیادہ مناسبت ہو، آپؓ فٹ بال کھیلا کرتے۔ جب کبڈی کا میدان لگتا، آپ کبڈی کے میدان میں نکل جاتے۔ جب بچے میرو ڈبہ یا گلی ڈنڈا کی کھیلتے تو آپ میروڈبہ یا گلی ڈنڈا کی بھی کھیلتے۔ برسات میں تیراکی اور کشتی رانی کرتے۔ اور خزاں اور بہار میں شکار کرتے۔
محمود: حضرت مصلح موعودؓ جب چھوٹے تھے تو ایک لڑکے کے کندھے پر کہنی لگا کر کھڑے تھے تو ایک صحابی حضرت مسیح موعودؑ نے اس سے منع کیا اور کہا کہ یہ بہت بری بات ہے۔
دادی جان: ماشاء اللہ سب نے اچھی باتیں اور اچھے واقعات یاد رکھے ہوئے ہیں۔ آج تو یہی کہانی بن گئی۔ اب چلیں سو جائیں۔ رات بہت ہو گئی ہے۔