خلاصہ خطبہ جمعہ

پیشگوئی مصلح موعود کے حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ کے مختلف موضوعات پر بصیرت افروز لیکچرز و خطابات پر ایک نظر۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۲۱؍فروری ۲۰۲۵ء

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

٭…حضرت مصلح موعودؓ دنیاوی مضمونوں میں بہت کمزور تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ سے علمی، دینی اور انتظامی کام ایسے ایسے کروائے ہیں کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے بھی آپ کے سامنے طفلِ مکتب لگتے ہیں اور آپ کا باون سالہ دَورِ خلافت اس کا منہ بولتا ثبوت ہے

٭… بہت سی تقاریر آپؓ نے غیروں کے سامنے کیں اور وہ ان کی گہرائی اور معرفت کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکے

٭… اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پیشگوئی میں جو وعدہ فرمایا تھا اسے ہر پہلو سے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ میں پورا ہوتا دکھایا

٭… آپ کے علم و عرفان کے اس لٹریچر کو ہمیں پڑھنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے
اور بہت ساری ایسی باتیں ہیں جو آجکل کے حالات میں بھی منطبق ہو رہی ہیں اور اس سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۱؍فروری ۲۰۲۵ء بمطابق ۲۱؍ تبلیغ ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۲۱؍فروری۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعدحضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ کل بیس فروری تھی، یہ دن جماعت میں پیشگوئی مصلح موعود کے حوالے سے جانا جاتا ہے، اس دن یا اس حوالے سے ان دنوں میں آگے پیچھے پیشگوئی مصلح موعود کے جماعتوں میں جلسے بھی ہوتے ہیں۔

یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک لمبی پیشگوئی ہے، جس میں ایک بیٹے کی پیدائش اور اس کی خصوصیات کا ذکر ہے، ٢٠؍ فروری ١٨٨٦ء کو اس کو اشتہار کی صورت میں شائع کیا گیا۔

اس پیشگوئی میں لڑکے کی خصوصیات کے بارہ میں الہامی الفاظ کا ایک حصّہ اس طرح سے ہے کہ

وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور پھر ہے کہ علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔

اللہ تعالیٰ نے اس کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو بیٹا عطا فرمایا، جو ان خصوصیات کا حامل تھا، جن کا نام بشیرالدین محمود احمد ہے، ان کو مصلح موعود بھی کہا جاتا ہے۔

جیسا کہ پیشگوئی کے الفاظ ہیں کہ وہ لڑکا علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا، خدا تعالیٰ نے خود ان کی ذہانت کو جلا بخشی اور علوم سے پُر کیا۔دنیاوی مضمونوں میں آپؓ بہت کمزور تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپؓ سے علمی، دینی اور انتظامی کام ایسے ایسے کروائے ہیں کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے بھی آپ کے سامنے طفلِ مکتب یعنی بالکل بچے لگتے ہیں۔ اور آپ کا باون سالہ دَورِ خلافت اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

آپ نے دنیا کے مختلف موضوعات پر بے شمار تقاریر کیں، مضامین لکھے، دینی اور قرآنی علوم کی تو کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔ آپ نے دنیاوی موضوعات، ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر بھی تقاریر کیں اور مضامین لکھے۔ تاریخی حوالے سے غیر معمولی معیار کے مضامین لکھے اور تقاریر کیں۔ اقتصادی امور اور دنیا کے مختلف نظاموں، سوشل ازم، کمیونزم، کیپٹلزم کا بھی تجزیہ کیا اور تقریر کی اور بعد میں کتابی صورت میں بھی چھپ گئی اور یہ جماعت کے لٹریچر میں موجود ہے۔ حتّی کہ عسکری و فوجی معاملات اور سائنسی اور علمی موضوعات پر بھی علم و معرفت کی وہ باتیں بیان فرمائیں کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

مَیں چند نمونے یہاں پیش کروں گا جو صرف تعارف پر مبنی ہیں۔

آپؓ نے

ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض

کے نام پر ایک مشورہ دیا اور اس پر تبصرہ کیا، یہ ١٩١٩ء یعنی آپ کی خلافت کے ابتدائی دَور کی بات ہے۔ اس کا تعارف یہ ہے کہ اتحادِ ملّت کے ہر موقعے سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کے لیے حضورؓ نے، ایسے وقت میں جبکہ ترکیہ حکومت خطرے میں تھی، نہایت مدبّرانہ راہنمائی کرتے ہوئے ١٨؍ ستمبر ١٩١٩ء کو یہ کتاب تحریر فرمائی۔ مختلف الخیال مسلمانوں کے اتحاد اور اجتماع کے لیےآپؓ نے یہ راہنما اصول بیان فرمایا کہ میرے نزدیک اس جلسے کی بنیاد ( وہاں ترکی کے حق میں جلسہ ہونا تھا) صرف یہ ہونی چاہیے کہ ایک مسلمان کہلانے والی سلطنت کو ہٹا دینا یا ریاستوں کی حیثیت دینا ایک ایسا فعل ہے، جسے ہر ایک فرقہ جو مسلمان کہلاتا ہے، ناپسند کرتا ہے اور اس کا خیال بھی اس پر گراں گزرتا ہے۔

ترکیہ کی بہتری کے لیے آپ نے ایک مشورہ یہ بھی دیا کہ صرف جلسوں اور لیکچروں سے کام نہیں چل سکتا، نہ روپیہ جمع کر کے اشتہاروں اور ٹریکٹوں کے شائع کرنے سے بلکہ ایک باقاعدہ جدوجہد سے جو دنیا کے تمام ممالک میں اس امر کے انجام دینے کے لیے کی جاوے۔

حضور انور نے اس پر تبصرہ فرمایا کہ یہی بات آج بھی مسلمانوں کو سوچنی چاہیے، یہ توصرف اس زمانے میں ترکی حکومت سے اس بات کا تعلق تھا، آج پہلے سے بڑھ کر مسلمان دنیا اور عرب دنیا کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ صرف نعرے لگانے، میٹنگیں کرنے سے کام نہیں بنے گا بلکہ عملی اقدام اٹھانے پڑیں گے۔

ترکوں یا اسلام کے خلاف بغض و تعصب کی وجہ بیان کرتے ہوئے، اس صورتحال کی تبدیلی کے لیےآپ نے یہ راہنمائی فرمائی کہ مسلمان اپنی غلطی سے تائب ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور خود اسلام کو سمجھیں اور اس کی حقیقت سے آگاہ ہوں اور دوسروں کو آگاہ کریں تاکہ وہ نکبت و ادبار جو اس وقت مسلمانوں پر آ رہا ہے، وہ دُور ہو۔

حضور انور نے فرمایا کہ پس

یہی اصول آج بھی مسلمانوں کو اپنانے کی ضرورت ہے، نہیں تو اسلام مخالف دنیا مسلمان ممالک کے گرد گھیرا تنگ کرتی چلی جائے گی اور کر رہی ہے۔

پھر ایک موقع

آل پارٹیز کانفرنس

کا پیدا ہوا، اس پر آپ نے آل پارٹیز کانفرنس کے پروگرام پر ایک نظر کے عنوان سے ہدایات دیں۔ یہ پمفلٹ حضور نے آل انڈیا پارٹیز کانفرنس میں پیش کرنے کے لیے ١٣؍ جولائی ١٩٢٥ء کو تحریر فرمایا۔ اس پمفلٹ میں حضورؓ نے پہلے اسلام کی مذہبی اور سیاسی تعریف بیان فرمائی اور تمام مسلمان فرقوں کے سامنے یہ زرّیں اصول پیش کیا کہ سیاسی معاملات میں مسلمان مکمل اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں، کیونکہ سیاسی لحاظ سے اگر آپ کسی قوم کو الگ کر دیں گے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ دوسری قوموں کی طرف رجوع نہ کرے۔ اس کے بعد اسلام کی ترقی و ترویج اور اس کے سیاسی استحکام کے لیے بعض تجاویز دیں۔

آپؓ نے فرمایا کہ قیامِ امن کے لیے ایک دوسرے کے مذہبی معاملات میں دخل نہ دیا جائے، وسعتِ حوصلہ کے ساتھ دوسروں کو عقیدے کے مطابق کام کرنے دیں اور خود اپنے عقیدے کے مطابق کام کریں۔

حضورؓ نے تجارت اور صنعت و حرفت کے متعلق فرمایا کہ تجارت ایک ایسا شعبہ ہے کہ جس سے مسلمانوں نے سب سے زیادہ تغافل برتا ہے اور تجارتی لحاظ سے وہ ہندوؤں کے غلام بن کر رہ گئے ہیں ( اُس وقت یہی حالات تھے، آجکل اس معاملہ میں دنیا کی حکومتوں اور تاجروں کے غلام ہم بن گئے ہیں۔ پس اس طرف مسلمان حکومتوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔)

حضور انور نے فرمایا کہ

پاکستان اور بعض مسلمان ممالک میں عمومی طور پر تو یہی صورتحال ہے، خاص طور پر احمدیوں کے لیے یہ سوچ کہ یہ کافر ہیں، ویسے تو ہر فرقہ دوسرے فرقے کو بھی کافر کہتا ہے اور غیر مسلم دنیا میں اسی وجہ سے غلط تاثر پیدا ہو رہا ہے اور یہ بات مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ پس اس نقطے کو آج بھی مسلمان حکومتوں اور مسلمانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ہندوستان، پاک و ہند، کے اس وقت حالات کے بارے میں ایک گول میز کانفرنس ہوئی تھی اور مسلمانوں کی اس میں نمائندگی کا سوال اٹھا تھا، حکومتِ برطانیہ نے ہندوستان کی آزادی کے جائزے کے لیے ایک کمیشن مقرر کیا تھا، جس نے ہر دس سال بعد جائزہ لینا تھا کہ کس حدتک لوگوں کو یہ اختیار دیے جا سکتے ہیں کہ وہ علیحدہ حکومت قائم کر لیں۔ اس کے پہلے صدر ایک انگریز بیرسٹر سر جان سائمن تھے۔ اس کمیشن اور ان فیصلوں پر مختلف وقتوں میں بحث کی جاتی رہی ہے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مختلف وقتوں میں راہنمائی فرماتے ہوئے اپنے تفصیلی خیالات بھی پیش کیے اور مسلمانوں کی راہنمائی بھی کی۔ اس سلسلے میں ایک گول میز کانفرنس ہوئی، جس کی تفصیل کا ہماری تاریخ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ذکر ملتا ہے۔

اس موقعے پر حضور نے مسلمانوں کی راہنمائی کے لیے فوری طور پر ایک مضمون تحریر فرمایا اور انہیں نصیحت کی کہ وہ باہمی تفرقہ اور اختلافات کو ترک کر دیں اور قومی مفاد کی خاطر اتفاق اور اتحاد سے کام کریں۔ صرف اس طریق پر وہ مخالف قوم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ حضور نے اس موقعے پر گورنمنٹ کو بھی مشورہ دیا کہ وہ سیاسی جماعتوں کے مشورے سے نمائندوں کا انتخاب کرے تاکہ کانفرنس کے فیصلوں کو لوگ خوشدلی سے قبول کر لیں۔

پھر ہندوستان کے اس وقت کے سیاسی حالات کے حل کے بارے میں آپ نے ایک مضمون لکھا۔چونکہ سائمن کمیشن نے مسلمانوں کے حقوق کو پورے طور پر مدّنظر نہیں رکھا تھا، اس لیے حضور کو تشویش تھی اور آپ چاہتے تھے کہ آئندہ مسلمانوں کے حقوق کو نظر اندازنہ کیا جائے۔ اس لیے آپ نے مناسب سمجھا کہ اس موقعے پر سائمن کمیشن رپورٹ پر تبصرہ کر کے اس کے نقائص واضح کیے جائیں اور ہندوستان کے مسائل کا ایسا حل پیش کیا جائے کہ آئندہ زمانے میں سب قومیں صلح اور آشتی سے باامن زندگی گزار سکیں۔ حضور نے اپنے تبصرے میں مسلمانوں کے حقوق اور مطالبات پر سیر حاصل بحث کی اور اس کی معقولیت کو اجاگر کیا، اس کے ساتھ ہی آپ نے ہندوستان کے سیاسی مسائل کا نہایت معقول اور تسلی بخش حل پیش کیا۔ اس کے جامع و مانع تبصرہ کا انگریزی ایڈیشن شائع کروانے کے لیے فوری بھجوا دیا گیا تاکہ گول میز کانفرنس میں شامل ہونے والے اسے پڑھ کر فائدہ اٹھا سکیں۔

مسلمان نمائندوں کو خاص طور پر اس سے فائدہ پہنچا۔چنانچہ انہوں نے پہلی بار متفقہ طور پر کامیابی سے اپنے مطالبات کانفرنس میں پیش کیے، جس کا انگلستان کے صائب الرّائے لوگوں پر گہرا اثر ہوا اور وہ ہندوستان میں مسلمانوں کی خصوصی حیثیت کے قائل ہو کر ان کے مطالبات کی معقولیت اور افادیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے۔

حضور ؓکی یہ کتاب، ہندوستان، انگلستان دونوں جگہوں پر بہت مقبول ہوئی اور اسے بڑی توجہ اور دلچسپی سے پڑھا گیا اور کئی مدبّر سیاستدانوں اور صحافیوں نے شاندار الفاظ میں حضور کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

بعد ازاں حضور انور نے تاریخِ احمدیت میں درج واقعات میں سے جو اس تبصرے کی بابت تھے، چند کو بطورِ نمونہ پیش فرمایا۔

سر عبداللہ ہارون ایم ایل اے کراچی کہتے ہیں کہ

میری رائے میں سیاست کے باب میں جس قدر کتابیں ہندوستان میں لکھی گئی ہیں، ان میں کتاب ہندوستان کے سیاسی مسائل کا حل، بہترین تصانیف میں سے ہے۔

پھر دنیا کی موجودہ بے چینی کا اسلام کیا حل پیش کرتا ہے، اس بارے میں بھی آپ نے لکھا، آپ نے عالمگیر امن کو مدّنظر رکھتے ہوئے یہ پُر معارف تقریر ٩؍اکتوبر ١٩٤٦ء کو دہلی میں ارشاد فرمائی۔

پھر ایک مضمون آپ نے اس اعتراض پر لکھا کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم مظلوم قوم کی مدد کریں، چاہے وہ ہمیں ماریں یا دکھ دیں۔دہلی کے اخبار کے تبصرے کے بیان پر آپؓ نے یہ مضمون لکھا تھا۔ اس اخبار نے لکھا تھا کہ احمدی پاکستان کی حمایت کر رہے ہیں، حالانکہ ان کے ساتھ دوسرے مسلمانوں نے اچھا سلوک نہیں کیا۔ جب پاکستان بن جائے گا تو مسلمان پھر ان کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو کابل میں ان کے ساتھ ہوا تھا اور اس وقت احمدی کہیں گے کہ ہمیں ہندوستان میں شامل کر لو۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ١٦؍مئی ١٩٤٥ء کو نمازِ مغرب پر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ

ہمارا فرض ہے کہ ہم مظلوم کی مدد کریں، چاہے وہ ہمیں ماریں یا دکھ پہنچائیں۔ ہمارا دشمن اگر ہمارے ساتھ ظلم اور بے انصافی بھی کرے تو ہم عدل و انصاف سے کام لیں گے۔

حضور انور نے فرمایا کہ آجکل بھی بعض لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ آپ نے کیوں پاکستان میں شامل ہونے کی حمایت کی تھی؟ تو یہ خطاب اس کا جواب ہے۔

اس وقت کے حالات میں مسلمانوں کی مدد کی ضرورت تھی

اور جماعت ہمیشہ مسلمانوں کی مدد کے لیے صفِ اوّل میں ہے۔

پاکستان کے مستقبل کے بارہ میں آپ نے ایک بصیرت افروز لیکچر پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد دیا، جس میں لاہور کے بڑے بڑے دانشور، سکالرز اور اہلِ علم حضرات شامل ہوئے اور ان لیکچرز میں اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ پہلے پانچ لیکچرز مینارڈ ہال لاہور اور چھٹا لیکچر یونیورسٹی ہال لاہور میں ارشاد فرمایا۔

دستورِ اسلامی یا اسلامی آئینِ اساسی اس بارے میں آپ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ قادیان سے لاہور ہجرت کے بعد پاکستان کے مستقبل کے موضوع پر جو آپ نے لیکچرز دیے، یہ لیکچر ان میں سے آخری لیکچر ہے۔

یہ لیکچر افادہ عام کے لیے ١٨؍فروری ١٩٤٨ء کو ایک پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا گیا۔ اس خطاب میں آپؓ نے دستورِ اسلامی کی وضاحت کرتے ہوئے اس پہلو پر روشنی ڈالی کہ پاکستان میں کس قسم کا آئین یا دستور نافذ ہونا چاہیے؟ چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں کہ اگر پاکستان کے کانسٹیٹیوشن میں اگر مسلمان، جن کی بھاری اکثریت ہوگی، یہ قانون کر دیں کہ پاکستان کے علاقے میں مسلمانوں کے لیے قرآن اور سنّت کے مطابق قانون بنائے جائیں گے، اس کے خلاف قانون بنانا جائز نہیں ہوگا، تو گو اساسِ حکومت کلّی طور پر اسلامی نہیں ہوگا کیونکہ وہ ہو نہیں سکتا مگر حکومت کا طریقِ عمل اسلامی ہو جائے گا اور مسلمانوں کے متعلق اس کا قانون بھی اسلامی ہو جائے گا اور اسی کا تقاضا اسلام کرتا ہے۔ اسلام ہرگز یہ نہیں کہتا کہ ہندو اور عیسائی اور یہودی سے بھی اسلام پر عمل کروایا جائے بلکہ وہ بالکل اس کے خلاف ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ آج یہ لوگ کہتے ہیں کہ اسلامی ملک میں اسلامی آئین اور قانون ہے لیکن عملاً تو اس کی ابتدا اور اس کا مشورہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے دیا تھا۔ اور اسلام کے نام پر ہی ہم پر ظلم کیا جا رہا ہے جبکہ آپ نے اسلامی تعلیم کے مطابق عمل درآمد اور آئین بنانے کی طرف توجہ دلائی تھی۔

اگر احمدی اتنے ہی اسلام کے خلاف ہیں، جیسا کہ آجکل کا ملاں کہتا ہے، پھر اس مشورے اور توجہ کی آپؓ کو کیا ضرورت تھی؟ بہرحال آجکل تو ملک کو نام نہاد ملاں یرغمال بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اللہ تعالیٰ ملک میں کوئی رجلِ رشید پیدا کرے، جو ان کے منصوبوں سے ملک کو نجات دے اور ملک ترقی کی را ہ پرگامزن ہو۔

پھر ایک مضمون ہے کہ پاکستان اس اسلامی عمارت کی ایک اینٹ ہے جسے ہم نے دنیا میں قائم کرنا ہے۔ یہ لیکچر آپ نے ٹاؤن ہال کوئٹہ میں دیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے پاکستان بننے کے معاً بعد پاکستان کا مستقبل کے موضوع پر لاہور میں چھ لیکچر دیے تھے۔

سرگودھا میں آپ نے پاکستان کی ترقی اور اس کے استحکام کے سلسلے میں زرّیں نصائح کے موضوع پر تقریر کی۔ ۱۱؍نومبر۱۹۴۹ء کو جماعت احمدیہ سرگودھا نے کمپنی باغ میں یہ پبلک جلسہ منعقد کیا۔

پھر حضورؓ نے روس اور موجودہ جنگ کے حوالے سےجنگ عظیم دوم میں روس کا پولینڈ میں داخل ہونا اس کے اوپر تبصرہ ہے۔ جنگ عظیم دوم کے دوران جب روس پولینڈ میں داخل ہوا تو اس وقت حضرت مصلح موعودؓ نے یہ مضمون تحریر فرمایا۔

حضورؓ نے اس مضمون میں روس کے پولینڈ میں داخلے کی وجوہات اور مقاصد پر تبصرہ فرمایا۔

بین الاقوامی حالات پر بھی آپ کی گہری نظر تھی ۔اس سلسلے میں آپ کے اور بھی مضامین ہیں۔ دینی لٹریچر تفاسیر غیر معمولی تعداد میں ہیں۔ خطبات جمعہ اور جماعتی جلسوں اور موقعوں پر تقاریر تو علم و عرفان کا ایک خزانہ ہے۔

پس اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پیشگوئی میں جو وعدہ فرمایا تھا اسے ہر پہلو سے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ میں پورا ہوتا دکھایا۔ چند مثالیں میں نے ابھی آپ کو دی ہیں۔

آپ کے علم و عرفان کے اس لٹریچر کو ہمیں پڑھنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے اور بہت ساری ایسی باتیں ہیں جو آجکل کے حالات میں بھی منطبق ہو رہی ہیں اور اس سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس کی اللہ تعالیٰ توفیق دے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button