تعارف کتاب

خطبات کریمیہ (حصہ دوم)۔ تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعودؑ (قسط ۶۴)

(اواب سعد حیات)

(حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب رضی اللہ عنہ)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک فدائی صحابی حضرت مخدوم الملۃ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ کو اپنے گھر سے منسلک اپنی مسجد میں باجماعت نمازوں کی امامت کے لیے امام الصلوٰۃ چنا اور مولوی صاحبؓ موصوف کو ہی پنج وقتہ فرض نماز یں پڑھانے کے ساتھ ساتھ جمعۃالمبارک کے مواقع پر خطبہ جمعہ پڑھنے اور جمعہ کی نماز پڑھانے کا خاص اعزاز ملا کرتا تھا۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی نہ صرف آواز بہت بلند تھی بلکہ آپ سلاست اور روانی کے ساتھ عمدہ اور جدید دینی نکات پیش کرنے میں خاص مہارت رکھتے تھے۔

ایڈیٹر الحکم حضرت شیخ یعقوب علی ترابؓ احمدی نےحضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ کے ان خطبات کوسن کر لکھنا اور مرتب کرنا شروع کیا، کیونکہ یہ خطبات ان امور اور نکات سے پُر ہوتے تھے جن کی امت کے افراد کو ضرورت ہے۔ ان خطبات میں قرآن کریم کی عظمت، آنحضرت ﷺ کی جلالت شان اور خدا تعالیٰ کے مسیح و مہدی کی ضرورت و صداقت کو ذہن نشین کرنا ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی ان خطبات میں ایسے امور کا بیان ہے جو احمدی قوم کے شیرازہ قوم کو درست رکھنے کےلیے ضروری ہیں۔ اوران ضروری مطالب کو نہایت فصیح و بلیغ زبان میں ادا کیا گیا ہے۔

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے ’’ملفوظات کریمہ‘‘ کے سلسلہ کےپہلے نمبر کے طور پر۱۲ خطبات جمعہ پر مشتمل یہ حصہ اول یعنی ۷۰ صفحات کا یہ کتابچہ قادیان دارالامان میں ۲۴؍جنوری ۱۹۰۵ء کو تیار کیا تھا۔ اورمطبع انوار احمدیہ قادیان سے بار اول میں ۵۰۰ کی تعداد میں چھپوایا ۔

۲۶؍دسمبر ۱۹۱۶ء کو اس زیر حصہ دوم پر مشتمل ان خطبات کے متن یا خلاصے درج کرنے سے قبل ایک صفحہ پر مشتمل عرض حال میں بتایا کہ

’’حضرت مخدوم الملۃ مولانا مولوی عبدالکریم رضی اللہ کا نام میری کسی معرفی کا محتاج نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص اور غیور دوستوں میں آپ کا نام ہمیشہ عزت سے لیا جائیگا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی میں اُسے مسلمانوں کا لیڈر قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ کی بے انتہا رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں عبدالکریم پر اور اس کے مدارج بلند ہوں۔ ایک بے نظیر خادم تھا جو ایک ہی وقت میں زبان اور قلم پر حکومت رکھتا تھا۔ ان کی تقریریں اور تحریریں نہایت وقت اور شوکت کے ساتھ اظہار حق اور ابطال باطل کرتی تھیں وہ آج ہم میں نہیں۔ مگر خدا کے فضل سے اس کے ملفوظات محفوظ ہیں۔

خاکسار ایڈیٹر الحکم کے ساتھ مولانا ممدوح کو خدا کے لیے محبت تھی۔ اور وہ اپنے مذاق سلیم کی وجہ سے ایڈیٹر کا قدردان تھا ۔ آج جبکہ پیغامی کوبرا اپنی کیچلیوں سے زہر نکال رہا ہے میں نے مناسب سمجھا کہ حضرت مخدوم الملت کے ملفوظات اس کی تیز کیچلیوں کے کچلنے کے لیے شائع کردوں…ان سے معلوم ہوگا کہ پیامی فتنہ زا جو کچھ پیش کرتے ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عقائد اور آپ کے مخلص احباب کے عقائد کے خلاف ہے…۔

یہ خطبات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حاضری میں پڑھے گئے اور شائع ہوئے ہیں…۔‘‘

ضرورت وقت کے عین مطابق منتخب کردہ ان ۶ خطبات کے عناوین یوں تھے: (۱) اظہارالدین اور مسیح موعود علیہ السلام (۲) میثاق النبیینؐ (۳) معیار الصادق (۴) دعائے کامل کی شناخت (۵) اخوت (۶) خدا کے نبی کا نشان اور قادیان دارالامان

اس احسن انتخاب میں جہاں ایک خاص تنوع ہے وہاں یہ سب خطبات پیغامیوں کے پھیلائے گئے زہر کے تریاق اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت و شان کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔

۶اہم خطبات پر مشتمل یہ دوسرا حصہ بار اول میں ۴۰۰ کی تعداد میں شائع کیا گیا تھا۔ قریباً چالیس صفحات پر مشتمل اس کتابچہ کا پہلا خطبہ ’’اظہار الدین اور مسیح موعودعلیہ السلام‘‘ ہے جو مولوی صاحب موصوف نے ۳؍ اپریل ۱۹۰۳ء کو ارشاد فرمایا تھا۔ جس میں آیت قرآنی ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَدِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَلَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ(الصّف:۱۰) کی روشنی میں مسیح موعودؑ کے خاص مقام و مرتبہ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ کس طرح موجودہ زمانہ کے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ہستی، قرآن کریم، آنحضرت ﷺ کی رسالت و نبوت ، خدا کے رسولوں اور کتابوں وغیرہ کے معاملہ میں سخت غلطیاں کھائی ہیں۔ پھر صلیبی فتنہ کی پھیلائی ہوئی مشکلات کا ذکر کرکے آخر پر فتح نصیب مسیح موعودؑ کے متعلق بتایا کہ

’’اب چاروں طرف سے اس قسم کی ہوا چل رہی ہے۔ برکات اللّٰہ علیک و صلوٰت علیک ایھا المسیح۔ خدا کے حضور ہماری جماعت کو چاہیے کہ سجدہ میں پڑی رہے۔ اب رسول کریم ﷺ کی عزت کے دن آگئے۔ احمدی قوم! خدا کا تجھ پر بڑا احسان ہے۔ اس لیے بڑے شاکر اور متقی ہوجاؤ تاکہ نعمت بڑھے۔ اور باقی وعدے پورے ہوویں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے۔ آمین‘‘ (صفحہ ۸)

میثاق النبیین کے موضوع پر دوسرا خطبہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۳ء کا ہے۔ جس میں آیت میثاق النبیین (سورہ آل عمران، آیت ۸۲) کی نہایت عمدہ تفسیر کرتے ہوئے آخر پر کہاکہ

’’یہ خدا کا موعود ثریا پر سے ایمان لیکر آیا ہے پس اس وقت ہر ایک کا فرض ہے کہ اس پر ایمان لائے اور اس کی نصرت کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔ جن لوگوں نے خدا کے فضل سے اس کی شناخت کی توفیق پائی ہے وہ اپنے پاکیزہ چال چلن اور اعمال صالحہ سے اس کی نصرت کریں۔ اور ہر طرح سے اس کی تائید کے لیے تیارہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق دے کہ وہ اس موعود کی بعثت کو پورا کرنے والی ثابت ہو۔ آمین‘‘ (صفحہ ۱۳)

یکم مئی ۱۹۰۳ء کو ’’معیار الصادق‘‘ کے موضوع سے خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے سورہ الانعام کی آیت ۹۴ کے ضمن میں بتایا کہ ’’یہ ایک آیت ہے جو بہت ہی غور کے قابل ہے۔ کیونکہ اس میں خدا تعالیٰ کے ماموروں، مرسلوں، برگزیدوں کی سچائی اور صداقت کی شناخت کے لیے ایک معیار قائم کیا گیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ من اظلم ممن افتریٰ علی اللّٰہ کذبًا ۔ بڑا ظالم، بدمعاش ، مفسد اور شریر خدا کی سلطنت میں وہ شخص ہے جو مفتری ہے اور جھوٹی وحی کا دعویٰ کرتا ہے ۔ یہ آیت اگر قوی تر اثر ثبوت نبوت کے لیے نہیں رکھتی تو پھر خدا تعالیٰ کی حکیم اورمبارک کتاب میں کیوں ہے؟ مگر نہیں۔ یہ آیت عظیم الشان اثر ثبوت نبوت کے لیے رکھتی ہے۔ اور من جملہ دیگر دلائل نبوت کے یہ زبردست دلیل ہے۔‘‘ (صفحہ ۱۴)

کتاب کے صفحہ ۲۱ پر شروع ہونے والے چوتھے خطبہ میں انما المؤمنون اخوة کے تحت اخوت کا ماحصل بیان کیا گیا ہے۔ اور کتاب کے صفحہ ۲۸ پر ’’دعائے کامل کی شناخت‘‘ کے عنوان سے اس خطبہ جمعہ کاایڈیٹر کے الفاظ میں خلاصہ دیا گیا ہے جو۲۴؍جولائی ۱۹۰۳ء کوحضرت مولوی صاحبؓ نے پڑھا تھا۔

جبکہ اس کتاب کا آخری خطبہ ’’دارالامان خدا کے نبی کا نشان‘‘ ہے جو یکم دسمبر ۱۸۹۹ء کو حضرت مولوی صاحبؓ نے پڑھا تھا۔ اس میں تاریخ مذاہب کے تسلسل کو بیان کرتے ہوئے سمجھایا کہ ’’بیس بائیس (سال) پیچھے چلو اور دیکھو کہ خدا کے ایک راستباز بندہ کو جو اسی بستی کا نور اور ہادی ہے، یہ الہام ہوا تھا۔ وسع مکانک۔ یاتون من کل فج عمیق…اس وقت یہ مسکین گمنام کوٹھڑیوں میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ برہما، مدراس ، غزنی اور کشمیر اور دور دراز قطعات الارض سے مہمان آئینگے۔ مگرتم آج دیکھ سکتے ہو کہ وہ جو کچھ براہین احمدیہ میں لکھا گیا تھا کیسا سچ ثابت ہوا۔ اور کس قدر دور دراز حصوں سے محض خدا کی رضاجوئی کے لیے خدا کے مہمان چلے آتے ہیں اور آئے دن مکانات کی وسعت کا الہام کیا ثابت ہورہاہے۔

اس گاؤں کا وہ مشرقی حصہ جو سنڈاس بنا ہوا تھا۔ اور جہاں ہزاروں من پاخانہ پڑا ہوا تھا۔ آج تم دیکھتے ہو کہ وہاں کیا ہے؟ ایک لمبا سلسلہ مکانوں کا دیکھ کر تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ آواز خدا کی آواز تھی…۔‘‘

اس دلچسپ اور ایمان افروز کتاب کے آخر پر ایک نہایت مفید اشتہار ہے جس میں درج ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد نبوت کی مستند اور جامع تاریخ، جس میں اعلیٰ حضرت کے کلمات، طیبات، مکتوبات اور الہامات و نشانات کے علاوہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے عظیم الشان بزرگوں کی تقریروں، خطوط ، مباحثے ، فتاویٰ درج ہیں۔ پڑھنا چاہو تو اخبار الحکم ۱۸۹۷ء سے لیکر ۱۹۰۸ء تک خرید لو…

پیغامی فتنہ کی ابتدائی تاریخ اورا س کے لیڈروں کی حقیقت سے آگاہ ہونا چاہو تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کا الحکم خرید لو۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button