خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 07؍ فروری 2025ء
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خداتعالیٰ نے بتایا کہ اس شہر (خیبر)کی فتح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر مقدر ہے۔ آپؐ نے صبح کے وقت یہ اعلان کیا کہ میں اسلام کا سیاہ جھنڈا آج اس کے ہاتھ میں دوں گا جس کو خدا اور اس کا رسول اور مسلمان پیار کرتے ہیں ۔ خدا تعالیٰ نے اِس قلعہ کی فتح اس کے ہاتھ پر مقدر کی ہے۔ اس کے بعد دوسری صبح آپؐ نے حضرت علیؓ کو بلایا اور جھنڈا ان کے سپر د کیا…باوجود اس کے کہ یہودی قلعہ بند تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ اور دوسرے صحابہؓ کو اس دن ایسی قوت بخشی کہ شام سے پہلے پہلے قلعہ فتح ہو گیا (حضرت مصلح موعودؓ)
دشمن کے ساتھ سامنا ہونے کی تمنا مت کرو۔ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو۔ تم کو معلوم نہیں کہ تم کس ابتلامیں ڈال دیے جاؤ۔
جب تم دشمن کے سامنے آؤ تو یہ دعا کرو کہ اَللّٰهُمَّ أَنْتَ رَبُّنَا وَ رَبُّهُمْ وَنَوَاصِیْنَا وَنَوَاصِيْهُمْ بِيَدِكَ وَاِنَّمَا تَقْتُلُهُمْ أَنْتَ۔
اے اللہ !تُو ہمارا ربّ ہے اور ان کا ربّ ہے۔ ان کی پیشانیاں اور ہماری پیشانیاں تیرے ہاتھ میں ہیں۔
تُو ہی ان کو قتل کرے گا (غزوۂ خیبر سے قبل آنحضورﷺ کا خطاب)
غزوۂ خیبر کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان
فلسطینیوں کے لیے خصوصاً اور مسلمان دنیا کے لیے عموماً نیز پاکستان اور بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لیےدعاؤں کی تحریک
عرب ممالک اب بھی اپنی آنکھیں کھولیں اور اتحاد قائم کرنے کی کوشش کریں ۔اس کے بغیر گزارہ نہیں ہے ورنہ فلسطین ہی نہیں باقی عرب ممالک بھی سخت مشکلات کا سامنا کریں گے۔
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 07؍ فروری 2025ء بمطابق07؍ تبلیغ 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
غزوہ خیبر کا ذکر ہو رہا تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خیبر کی طرف روانہ ہونے کی تفصیل یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں 1600 جاں نثاروں کا لشکر مدینہ سے روانہ ہوا۔ اس میں دو سو گھڑ سوار تھے لیکن روانگی سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خبر رساں دستہ آگے روانہ فرمایا جس کا کام تھا کہ لشکر کے آگے آگے راستوں کی دیکھ بھال کرے اور حالات کو بھی معلوم کرتا رہے۔ اس دستے کے قائد حضرت عَبَّاد بن بِشْر انصاریؓ تھے۔ خیبر کے راستوں سے آگاہی کے لیے دو رہبر یعنی گائیڈ بیس صاع کھجور کی اجرت پر لیے گئے۔ بیس صاع کا مطلب پچاس کلو۔ ان کے نام حَسِیْل بن خَارِجَہ اشجعی اور عبداللہ بن نُعَیم بیان کیے جاتے ہیں اور یہ دونوں اشجع قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔
مدینہ سے خیبر کی طرف جاتے ہوئے مختلف مقامات پر پڑاؤ کرتے ہوئےصَھْبَاءمقام پر قیام کیا۔ یہاں نماز کا وقت ہوا تو نماز یہاں ادا کی گئی۔چنانچہ بخاری کی روایت میں ہے کہ صَھْبَاءمیں آپؐ نے عصر کی نماز پڑھی۔ پھر اس کے بعد آپؐ نے کھانے کے لیے کچھ منگوایا۔ لشکر والوں کے پاس صرف ستّو ہی تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ نے وہی تناول فرمائے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر آپؐ مغرب کی نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور آپؐ نے کلّی کی اور ہم نے بھی کلّی کی۔ پھر آپ نے نماز پڑھی اور وضو تازہ نہیں کیا۔ صَھْبَاءاور خیبر کے درمیان بارہ میل کا فاصلہ تھا۔
دوران سفر بعض ایسے واقعات بھی پیش آئے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے ہنگامی حالات میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ ؓکی تربیت کا کتنا خیال فرماتے تھے اور نظم و ضبط اور اطاعت و فرمانبرداری جیسی صفات پیدا کرنے کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے کہ ایک رات لشکر کے آگے آگے کوئی چمکتی ہوئی چیز چلتی ہوئی دکھائی دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فکر ہوا اور پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ اسلامی لشکر کا ایک سپاہی تھا جو لشکر چھوڑ کر سب سے آگے آگے چلا جا رہا تھا اور اس کے سر کا خَود چاندی کی وجہ سے چمک رہا تھا اور اس کا نام ابو عَبْسؓ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو میرے پاس لاؤ۔ حضرت ابوعَبْسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اس پر خوفزدہ ہوا کہ کہیں میرے بارے میں کچھ نازل نہ ہو گیا ہو میں نے غلطی کی ہے۔ وہ ڈرتے ڈرتے خدمت اقدسؐ میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیوں لشکر کو چھوڑ کر آگے آگے جا رہے تھے؟ بہرحال اس نے عذر پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ لشکر کے ساتھ ساتھ چلنا چاہیے۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے باتیں کرنے لگے۔ یہ ان نادار صحابہؓ میں سے ایک تھے جن کے پاس اس جنگ میں آنے کے لیے کوئی زاد راہ نہ تھا اور یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے کہ یا رسول اللہؐ! میرے پاس کوئی زاد راہ نہیں ہے اور نہ ہی نان و نفقہ گھر میں موجود ہے۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک چادر انہیں عطا فرمائی۔ یہ دانا صحابی اس چادر کو لے کر بازار گئے۔ بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور آٹھ درہم میں اس کو بیچ دیا۔ دو درہم سے گھر کا نان و نفقہ لیا۔ خرچہ وغیرہ لیا ۔دو درہم سے زادراہ لیا اور چار درہم کی اپنے لیے چادر خرید لی اور لشکر میں شامل ہو گیا۔ دوران گفتگو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ وہ جو میں نے چادر دی تھی وہ کہاں ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو میں نے فروخت کر دی تھی اور پھر وہ ساری تفصیل بیان کی جو ابھی بیان ہوئی ہے۔ ابوعَبْسؓ کی یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا :
اے ابوعَبْس! تم لوگ اب بہت تنگ دست ہو۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر تم زندہ رہے اور لمبی عمر پائی تو تھوڑے ہی عرصہ بعد تم دیکھو گے کہ تمہارے زاد راہ میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا ۔تمہارے اہل خانہ کے لیے نان و نفقہ بھی بہت زیادہ ہو جائے گا ۔تمہارے ہاں درہم و دینار کی بہت کثرت ہو جائے گی اور غلاموں کی بھی فراوانی ہو جائے گی لیکن یہ سب کچھ تمہارے لیے زیادہ اچھا نہیں ہو گا۔
حضرت ابوعَبْسؓ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی اپنی آنکھوں سے پوری ہوتی ہوئی دیکھی اور وہ کہا کرتے تھے کہ
اللہ کی قسم !سب کچھ بالکل اسی طرح ہوا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔
ابوعَبْسؓ کا تعارف یہ ہے کہ ان کا اصل نام عَبْدُالْعُزّٰی تھا جسے بدل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن رکھ دیا تھا۔ انہوں نے ستّر برس عمر پائی اور حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں وفات پائی۔ حضرت عثمانؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن کیاگیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو غَطَفَان کی طرف صلح کا پیغام بھی بھیجا۔
جیسا کہ ابھی بیان ہوا ہے کہ خیبر کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے صَھْبَاءمقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ فرمایا اور نماز عصر اور مغرب اور عشاء وہیں ادا فرمائیں ۔ یہ جگہ خیبر سے بارہ میل کے فاصلے پر تھی۔ نمازوں سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں رہبروں کو بلایا اور اپنا جنگی منصوبہ ان کو بتاتے ہوئے فرمایا کہ میں خیبر پر اس طرح حملہ کرنا چاہتا ہوں کہ ایک طرف تو اہل خیبر اور ملک شام کے درمیان حائل ہو جاؤں تاکہ وہ وہاں سے بھاگ کر شام کی طرف نہ نکل جائیں اور ساتھ ہی قبیلہ بنوغَطَفَان کے درمیان بھی حائل ہو جاؤں کہ وہ ان یہود کی مدد کو نہ پہنچ سکیں ۔ حَسِیل نامی رہبر لشکر کو لے کر چلنے لگا اور ایسی جگہ پہنچ کر رک گیا جہاں سے مختلف راستے خیبر کی اس وادی تک جاتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ان سب راستوں کے نام پوچھے تو اس نے حَزَنْ، شَاشْ، حَاطِب وغیرہ نام بتائے جو اپنے معنوں کے اعتبار سے تنگی ،سختی اور غم و اندوہ پر دلالت کرتے تھے۔
ایک نام مَرْحَبْ بتایا جو کشادگی اور فراخی کے معنی رکھتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدائی راہنمائی کے مطابق نیک فال لیتے ہوئے اسی مَرْحَبْ نامی راستے کا انتخاب فرمایا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ہو چکی تھی کہ بنو غَطَفَان نے اہل خیبر کی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے اور اب وہ مزید چار ہزار کا لشکر لے کر اس ارادے سے چل پڑے ہیں کہ وہ اسلامی لشکر کے خیبر تک پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں اسلامی لشکر پر حملہ کر دیں ۔ بنو غَطَفَان نے اپنے نامور جنگجو سرداروں طُلَیْحَہ بن خُوَیْلَد اور عُیَیْنَہ بن حِصْن کی قیادت میں کم و بیش ایک ہزار کا لشکر پہلے ہی خیبر کی طرف بھیج دیا تھا اور وہ خیبر کے قلعوں تک پہنچ چکا تھا اور اب چار ہزار کا یہ لشکر اسلامی لشکر کو روکنے اور اپنی دانست میں اس کا خاتمہ کرنے کے لیے راستے میں تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو غَطَفَان سے رابطہ فرمایا اور انہیں ایک خط بھیجا جس میں لکھا کہ
وہ یعنی بنو غَطَفَان خیبر کے ساتھ ہونے والی جنگ سے غیر جانبدار رہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا میرے ساتھ وعدہ ہے۔ ان کو واضح فرمایا کہ وہ مجھے خیبر پر فتح دے گا۔
بعض مؤرخین کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی پیغام دیا کہ وہ یہود کا ساتھ دینے سے ہٹ جائیں اور اسلام قبول کر لیں تو خیبر فتح کرنے کے بعد ان قبائل کو دے دیا جائے گا ۔بعض کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام قبول کرنے کی شرط نہیں رکھی تھی بلکہ یہ فرمایا تھا کہ وہ خیبر والوں کی مدد نہ کریں صرف غیر جانبدار ہوتے ہوئے ہٹ جائیں تو خیبر کی سالانہ پیداوار کا نصف انہیں دیا جائے گا لیکن سولہ سو مسلمانوں کے مقابل پر پندرہ ہزار جنگجو سپاہیوں کی فوج اور مضبوط قلعوں کا غرور ان کے سروں میں سمایا ہوا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خزرج قبیلے کے سردار اور مخلص صحابی حضرت سعد بن عُبَادہ ؓکو غَطَفان کے سپہ سالار عُیَیْنَہ بن حِصن کی طرف بھیجا۔ یہ بنو غَطَفَان کے اس ایک ہزار فوج کی قیادت کرتا ہوا اس وقت خیبر میں یہودی سردار مَرْحَبْ کے قلعہ میں تھا۔ عُیَیْنَہ کو جب معلوم ہوا کہ حضرت سعد ؓنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے کی حیثیت سے آئے ہیں تو وہ انہیں قلعے کے اندر لانے کے ارادے سے جانے لگا تو مَرْحَبْ نے اعتراض کیا کہ مسلمانوں کے اس نمائندے کو قلعہ کے اندر نہیں لانا چاہیے ۔کہیں وہ قلعے کے اندر آنے کے راستوں وغیرہ کو نہ دیکھ لیں جبکہ عُیَیْنَہ کا یہ کہنا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے نمائندے کو اندر لاؤں تا کہ وہ ہماری طاقت اور تیاریوں کے بہترین فوجی سازو سامان دیکھ لیں لیکن مَرْحَبْ نہ مانا جس پر عُیَیْنَہ حضرت سعد ؓکو قلعہ سے باہر ملا۔ حضرت سعدؓ نے عُیَیْنَہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دیا کہ اللہ نے ہمیں خیبر کے فتح کرنے کا وعدہ دیا ہے۔ لہٰذا تم یہاں سے واپس چلے جاؤ اور جنگ سے باز آ جاؤ۔ خیبر فتح کرنے کے بعد اس کی سال بھر کی کھجوریں بھی تم لوگوں کو دے دی جائیں گی۔ اس پر عُیَیْنَہ نے حضرت سعدؓ سے کہا کہ ہم اپنے حلیف کو کسی صورت نہیں چھوڑیں گے اور ہم جانتے ہیں کہ تم لوگوں کی طاقت ہی کتنی ہے۔ یہ یہودی مضبوط قلعوں والے ہیں اور ان کے فوجی جوان بھی زیادہ ہیں اور اسلحہ بھی کہیں زیادہ ہے۔ اگر تم نے مقابلہ کیا تو تم سب لوگ ہلاک ہو جاؤ گے اور یہ قریش وغیرہ کی طرح کے لوگ نہیں ہیں کہ جن پر تم نے فتح پا لی تھی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ میرا یہ پیغام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دے دینا۔ حضرت سعدؓ نے اس کے اس متکبرانہ جواب پر عُیَیْنَہ کو کہا کہ
میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ضرور تیرے پاس اس قلعہ میں آئیں گے اور اب اس وقت جو پیشکش ہم نے تجھے کی ہے اس وقت تم ہم سے اس کا مطالبہ کرو گے لیکن تب تجھے تلوار کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
یعنی پھر جنگ ہی ہوگی۔
اور اے عُیَیْنَہ! میں دیکھ چکا ہوں کہ ہم مدینہ کے یہودیوں کے صحن میں بھی اترے تھے اور وہ بری طرح تباہ ہو گئے تھے۔
یہ کہہ کر حضرت سعدؓ واپس چلے آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ساری بات بتائی اور ساتھ ہی بڑے اخلاص سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ نے جو وعدہ آپ سے کیا ہے وہ اسے ضرور پورا کرے گا اور اپنے دین کو غالب کرے گا۔ اس بدو یعنی عُیَیْنَہ کو اس وقت ایک کھجور بھی نہ دیجئے۔ یا رسول اللہؐ! اگر تلواروں نے اسے آن لیا تو وہ ان یہود کو چھوڑ کر اپنے علاقے کی طرف اس طرح بھاگ جائیں گے جیسے اس سے قبل خندق کے روز وہ بھاگے تھے۔ جنگ خندق کے موقع پر بھی یہ قبیلہ چھ ہزار کا لشکر لے کر قریش کی مدد کے لیے آیا تھا اور پھر وہاں سے واپس بھاگ گیا تھا۔
خدائی رعب اور غَطَفَانیوں کے فرار کا ذکر بھی ملتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ۔ مجھے رعب سے مدد دی گئی ہے۔ یہ واقعہ عملاً یہاں ایک مرتبہ پھر غَطَفَانی فوجوں کے لیے رونما ہوا۔
جیسا کہ ذکر ہوا ہے کہ بنو غَطَفَان کا چار ہزار کا لشکر اسلامی فوج پر حملہ کرنے کے لیے تعاقب کر رہا تھا تا کہ یہ مسلمانوں کو خیبر پہنچنے سے روک دے لیکن کوئی ایسی خدائی تقدیر ظاہر ہوئی کہ غَطَفَانیوں کا یہ لشکر اچانک واپس پلٹا اور اپنے گھروں کی جانب لوٹ گیا۔ تاریخ و سیرت کی کتب میں لکھا ہے کہ غَطَفَانیوں کے سپہ سالار نے اپنے پیچھے سے ایک زوردار آواز سنی۔ ایک انتباہ کرنے والا انہیں آواز دے کر کہہ رہا تھا کہ مسلمانوں کے فوجی دستوں نے ان کے پیچھے سے ان کے گھروں اور مال مویشی پر غارت گری کر دی ہے اور وہ ان کے اموال اور عورتوں اور بچوں کو قید کرنے والے ہیں ۔ اس پر وہ فوراً واپس لوٹ گئے اور یہود کی مدد نہ کر سکے۔ یہ ایک غیبی مدد تھی۔ اللہ تعالیٰ کی آواز تھی۔
(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 8 صفحہ 346 ، 348 دار السلام)
(شرح زرقانی جلد 3 صفحہ 245 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
( فتح خیبر ازباشمیل صفحہ 76، 90-91نفیس اکیڈمی کراچی)
(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد 8 صفحہ 376، 378 تا 379بزم اقبال لاہور)
(صحیح البخاری کتاب الوضوء باب من مضمض من السویق ولم یتوضاحدیث 209)
(امتاع الاسماع جلد 10 صفحہ 56 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 428 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(کتاب المغازی واقدی، جلد 2صفحہ 135 مترجم)
تاریخ کی کتب میں غَطَفَان کے لشکر کی تعداد میں اختلاف بھی ہے۔ جیسا کہ پہلے ایک کتاب کے حوالے سے بیان ہوا ہے کہ بنو غَطَفَان میں سے ایک ہزار جنگجو اپنے سردار عُیَیْنَہ بن حصن کی سرکردگی میں یہود خیبر کی مدد کے لیے ان کے قلعوں میں آ گئے تھے جبکہ دیگر کتب سیرت میں ان کی تعداد ایک ہزار کی بجائے چار ہزار بیان کی گئی ہے۔
(کتاب المغازی واقدی، جلد 2صفحہ135 مترجم)
( سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 8صفحہ 357دار السلام)
اسی طرح بعض کتب سیرت میں لکھا ہے کہ عُیَیْنَہ کی سرکردگی میں بنو غَطَفَان کے چار ہزار افراد پر مشتمل لشکر جب خیبر کی طرف آ رہا تھا تو راستے میں ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وفد کے ساتھ عُیَیْنَہ کی بات چیت ہوئی اور راستے سے ہی خدائی رعب کی وجہ سے یہ چار ہزار افراد پر مشتمل دستہ واپس اپنے علاقے کی طرف چلا گیا۔
(سیرت ابن ہشام صفحہ 694 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(شرح زرقانی جلد 3صفحہ 252،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
سیرت ابن ہشام میں یہ اس طرح لکھا ہے۔
بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی طرف اپنا سفر جاری رکھا اور شام کے اندھیروں میں جب خیبر کے قلعے دکھائی دیے تو آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا: ٹھہر جاؤ۔ پس وہ سب ٹھہر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی۔
اَللّٰهُمَّ رَبَّ الـسَّمَوَاتِ السَّبْعَ وَمَا اَظْلَلْنَ وَ رَبَّ الْاَرْضِيْنَ السَّبْعَ وَ مَا اَقْلَلْنَ وَ رَبَّ الشَّيَاطِيْنَ وَمَا اَضْلَلْنَ وَ رَبَّ الرِّيَاح وَمَا اَذْرَيْنَ فَاِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ هٰذِهِ الْقَرْيَۃِ وَ خَيْرِ اَهْلِهَا وَنَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّھَاوَشَرِّ مَافِیْھَا اَقْدِمُوْا بِسْمِ اللّٰهِ۔
اے ساتوں آسمان کے ربّ اور ہر اس چیز کے جس پر ان کا سایہ ہے! اور ساتوں زمینوں کے ربّ اور جو کچھ انہوں نے اٹھایا ہے! اور شیاطین کے ربّ اور جن کو انہوں نے گمراہ کیا ہے!اور ہواؤں کے ربّ اور جو کچھ وہ اڑاتی ہیں ! اے اللہ! ہم اس بستی کی بھلائی کا سوال کرتے ہیں اور اس کے اہل کی اور اس بستی اور اس کے اہل کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا نام لے کر آگے بڑھو۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ 118،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے یہاں تک کہ مَنْزِلَہ پہنچے۔ یہ خیبر کا بازار تھا۔ یہ بازار جنگ کے بعد حضرت زید بن ثابتؓ کے حصہ میں آیا تھا۔ آپؐ نے رات کا کچھ حصہ مَنْزِلَہ یعنی خیبر کے بازار میں گزارا۔ یہود کو یہ گمان نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر حملہ کریں گے کیونکہ یہود کو اپنے قلعوں اور اسلحہ اور کثرت افراد پر گھمنڈ تھا۔ جب یہود کو یہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف آ رہے ہیں تو ہر دن دس ہزار جنگجو آدمی صفیں باندھ کر باہر نکلتے اور کہتے کہ ذرا دیکھو کہ کیا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )ہم پر لشکر کشی کریں گے؟ یہ ناممکن ہے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس پہنچے تو ان کو خبر نہ ہوئی یہاں تک کہ سورج طلوع ہو گیا۔ رات کو پہنچے تھے۔ پس جب صبح یہود اپنے قلعوں سے باہر نکلے تو ان کے ہاتھوں میں کدال اور ٹوکریاں تھیں۔ اپنے کام کرنے کے لیے نکلے تھے۔ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو بھاگ کر اپنے قلعوں میں چھپ گئے۔
(ماخوذاز سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ 118، 119،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں رات کے وقت پہنچے ۔جب بھی آپؐ کسی قوم کے پاس رات کو تشریف لاتے تو جب تک صبح نہ ہو لیتی ان پر حملہ نہ کرتے۔ اور جب صبح ہوئی تو یہود اپنی کدالیں اور ٹوکرے لے کر نکلے۔ اس وقت پہنچے تھے بہرحال رات کو تو آپؐ نے حملہ نہیں کرنا تھا حملہ اسی وقت کرنا تھا جب صبح ہوتی۔ جب صبح ہوئی تو یہود اپنی کدالیں اور ٹوکرے لے کر نکلے ۔ جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو کہنے لگے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کی قسم !محمد اور لشکر ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ۔
خیبر برباد ہو گیا۔ جب ہم کسی قوم کے صحن میں اترتے ہیں تو ڈرائے جانے والوں کی صبح بری ہوتی ہے۔
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوہ خیبر حدیث4197)
مَنْزِلَہ میں مستقل پڑاؤ نہیں رکھا گیا۔
اسلامی لشکر کے پڑاؤ میں تبدیلی
ہوگئی تھی۔ اس کے بارے میں یوں ذکر ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر پہنچے تو آپ نے مَنْزِلَہ مقام پر رات گزاری اور وہیں صبح کی۔
حضرت حُبَاب بن مُنذِر ؓآپؐ کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپؐ کا اس جگہ یعنی مَنْزِلَہ میں ٹھکانہ بنانا اگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے تو ہم کچھ نہیں کہتے اور اگر آپؐ کی رائے ہے تو ہم مشورہ دینا چاہتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ رائے تومیری ہے۔ حضرت حُبَابؓ نے عرض کی یا رسول اللہ !آپؐ ان کے قلعوں کے قریب ہو گئے ہیں اور ان کے باغوں کے سامنے ہیں اور زمین شور والی ہے اور میں اہلِ نَطَاۃکو جانتا ہوں۔ ان کے تیر بہت دور پہنچتے ہیں اور تیر اندازی میں ان کے برابر کوئی نہیں ہے اور وہ ہم سے اونچی جگہ پر بھی ہیں ۔ ان کے تیر ہماری طرف بہت آسانی سے پہنچ سکتے ہیں اور ان کے رات کے حملے سے بھی ہم محفوظ نہیں ہیں ۔ وہ کھجوروں کے جھنڈ میں چھپ سکتے ہیں ۔ لہٰذا میری درخواست ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے دوسری جگہ منتقل ہوجائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اچھی رائے دی ہے لیکن ہم ان سے بہرحال آج جنگ کریں گے۔ لیکن ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مَسْلَمَہؓکو بلایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حفاظتی دستے کے انچارج تھے اور فرمایا: ان کے قلعوں سے کچھ دور ہمارے لیے جگہ تلاش کرو۔ محمد بن مَسْلَمَہؓ چلتے چلتے رجیع کے مقام پر پہنچے جو خیبر اور غَطَفَانی قبائل کے درمیان واقع تھا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس لَوٹ کر عرض کیا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے آپ کے لیے ایک جگہ دیکھ لی ہے۔ آپؐ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ کی برکت کے ساتھ چلو ۔لیکن اس سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے تھے کہ آج تو جنگ اسی جگہ سے ہو گی ۔چنانچہ شام کو جنگ ختم ہونے کے بعد اس نئی جگہ پر سارا اسلامی لشکر منتقل ہو گیا۔
(امتاع الاسماع جلد9صفحہ231،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ 119دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(سبل الھدیٰ والرشاد (مترجم) جلد5صفحہ 130مطبوعہ زاویہ پبلشرز لاہور)
(ماخوذ از السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ694،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
خیبر کے مختلف قلعوں کی تقسیم کے بارے میں
بھی بیان ضروری ہے۔ کیونکہ یہ جنگ قلعوں سے ہی متعلق رہی جو یکے بعد دیگر فتح ہوئے۔ نہ صرف ان قلعوں کی تعداد میں اختلاف ہے بلکہ ان کے ناموں میں بھی اختلاف ہے۔ نیز اس جنگ کے واقعات بھی کچھ کتب میں بعض قلعوں کی طرف منسوب ہیں جبکہ دیگر کتب میں دیگر قلعوں کی طرف ان واقعات کو منسوب کیا گیا ہے۔ خیبر کی جغرافیائی تقسیم کے حوالے سے اس کے قلعوں کا تذکرہ یوں ہے۔
تاریخ یعقوبی میں خیبر کے قلعوں کی تعداد چھ بیان کی گئی ہے اور ان میں قلعہ ناعم کا ذکر ہی نہیں جبکہ اکثر کتب سیرت میں جنگ خیبر کا آغاز ہی اس قلعہ یعنی ناعم سے بتایا جاتا ہے۔ زرقانی میں قلعوں کی تعداد دس بیان ہوئی ہے۔ ان تمام کتب کو دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ خیبر کا علاقہ تین حصوں نَطَاة، شَقّ اور کَتِیْبَہ میں منقسم تھا اور ان تینوں حصوں میں آٹھ قلعے درج ذیل تقسیم کے مطابق تھے۔ نَطَاۃمیں تین قلعے تھے یعنی نَاعِم، صَعْب اور قلعہ زُبَیر۔ اس قلعہ کا نام قُلَّہ تھا۔ یہ بعد میں حضرت زبیر بن عوامؓ کے حصے میں آیا تھا ۔اس لیے اس کا نام قلعہ زبیر مشہور ہو گیا۔ شَقّْ میں دو قلعے تھے یعنی اُبَیْ اور بَرِیٔ یا بعض نے نَزَارْبیان کیا ہے اور کَتِیْبَہ میں تین قلعے تھے یعنی قَمُوصْ، وَطِیْح اور سُلَالِمْ۔
(شرح العلامۃ ا لزرقانی جلد3صفحہ264تا266دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(غزواۃ النبیﷺ از ابوالکلام آزاد صفحہ 162-163)
(طبقات ابن سعدجلد2 صفحہ81 ،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
جنگ کی تفصیل یوں ہے۔
جنگ شروع ہونے سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے ایک مختصر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
دشمن کے ساتھ سامنا ہونے کی تمنا مت کرو۔ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو۔ تم کو معلوم نہیں کہ تم کس ابتلامیں ڈال دیے جاؤ۔ جب تم دشمن کے سامنے آؤ تو یہ دعا کرو کہ اَللّٰهُمَّ أَنْتَ رَبُّنَا وَ رَبُّهُمْ وَنَوَاصِیْنَا وَنَوَاصِيْهُمْ بِيَدِكَ وَاِنَّمَا تَقْتُلُهُمْ أَنْتَ۔اے اللہ !تُو ہمارا ربّ ہے اور ان کا ربّ ہے۔ ان کی پیشانیاں اور ہماری پیشانیاں تیرے ہاتھ میں ہیں۔تُو ہی ان کو قتل کرے گا۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ119 – 120دارالکتب العلمیۃ بیروت)
پھر اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کا حکم دیا اور صحابہ کرام ؓکو صبر کی ترغیب دی۔ سب سے پہلے نَاعِم قلعہ کا محاصرہ کیا۔ یہ ان کا بہت مضبوط قلعہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن سخت جنگ کی اور اہلِ نَطَاۃنے آپؐ کا سخت ترین مقابلہ کیا اور اس دن صحابہ کرامؓ نے دفاع کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو زرہیں اور خَود پہن رکھا تھا اور ظَرِبْ گھوڑے پر سوار تھے۔ ظَرِبْ آپؐ کے گھوڑے کا نام تھا اور آپؐ کے ہاتھ میں نیزہ اور ڈھال تھی۔ دشمن مسلسل تیر برساتا رہا لیکن مسلمان احتیاط سے تیر برسا رہے تھے کیونکہ تیر کم تھے بلکہ یہود کے گرے ہوئے تیر بھی اٹھا کر انہی پر برسا دیے جاتے تھے۔
اس جنگ میں حضرت محمود بن مَسْلَمَہ ؓکی شہادت کا ذکر بھی ملتا ہے۔
حضرت محمود بن مَسْلَمَہ ؓکچھ تھک گئے اور اسلحہ بوجھل لگنے لگا اور گرمی نے خوب ستایا تو وہ ناعم کے قلعہ کی دیوار کے سائے میں بیٹھ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہودی سردار مَرْحَبْ نے ان کو دیکھ لیا اور ان پر چَکّی لڑھکا دی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کِنَانَہ بن رَبِیع نے لڑھکائی تھی، اوپر سے پھینک دی۔ وہ چَکّیان کے سر میں لگی اور ان کے سر کو اس طرح پھاڑ دیا کہ ان کے سر کی کھال کٹ کر چہرے پر آ پڑی۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔ آپ نے کھال کو واپس اس جگہ رکھا اور کپڑے سے اس پر پٹی باندھ دی مگر زخم اس قدر شدید تھا کہ حضرت محمود بن مَسْلَمَہ ؓجانبر نہ ہو سکے اور چند دن کے بعد وفات پا گئے۔ حضرت محمودؓ کے زخمی ہونے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بھائی حضرت محمد بن مَسْلَمَہ ؓکو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے بھائی کا قاتل جلد اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔
اس پہلے دن مسلمانوں کو بہت نقصان برداشت کرنا پڑا۔ قلعوں سے تیر اندازی سے پچاس مسلمان زخمی ہوئے۔ جب شام ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رَجِیع کی طرف تشریف لے گئے اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ بھی آ جائیں ۔ یہ وہی جگہ تھی جو حضرت حُبَابؓ کے مشورے سے مقرر ہوئی تھی اور اب یہی مقام مسلمانوں کا گویا مرکزی مقام تھا۔ جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ یہ قلعہ یہود کا سب سے مضبوط قلعہ تھا اور خیبر کا بہادر ترین اور مشہور جنگجو مَرْحَبْ اس قلعہ کے دفاع کی قیادت کر رہا تھا اور اس کی مدد ایسے شہسوار کر رہے تھے جو جرأت اور شجاعت میں اس سے کم نہ تھے اور وہ اس کے دونوں بھائی یاسر اور حارث تھے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دس دن تک مسلسل جنگ کرتے رہے۔ آپ حضرت محمد بن مَسْلَمَہ ؓکو ساتھ لے کر نکلتے اور پڑاؤ میں حضرت عثمان ؓکو نگران بنا جاتے۔ شام ہو جاتی تو آپ اسی جگہ واپس آ جاتے اور زخمی مسلمانوں کو بھی وہیں لایا جاتا۔ وہاں ان کے زخموں کی مرہم پٹی کی جاتی۔
(سیرت الحلبیہ جلد3 صفحہ50-51دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(کتاب المغازی جلد2 صفحہ121دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 8 صفحہ 361 دار السلام)
(دائرہ معارف محمد رسول اللہ ﷺ جلد 8 صفحہ 388، 390 بزم اقبال لاہور)
(فرہنگ سیرت صفحہ183 زوار اکیڈمی کراچی)
اس جنگ کے واقعات میں ایک
مَرْحَبْ کی مبارزت اور عامر بن اَکْوَع ؓکی شہادت کا ذکر بھی ملتا ہے۔
اس کی تفصیل یوں ہے کہ انہی دنوں میں ایک دن مَرْحَبْ اس قلعہ کا یہودی سپہ سالار جو بہادری اور جرأت میں اپنا ثانی نہ رکھتا تھا قلعہ سے باہر آ کر مسلمانوں کو للکارنے لگا اور غرور اور تکبر سے اپنی تلوار لہراتے ہوئے یہ شعر پڑھنے لگا کہ
قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ
شَاكِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ
إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تُلَهَّبُ
خیبر جانتا ہے کہ میں مَرْحَبْ ہوں ۔ ہتھیار بند ،بہادر ،تجربہ کار جبکہ جنگیں شعلہ بھڑکاتی ہوئی آئیں۔ مَرْحَبْ کا یہ چیلنج سن کر حضرت عَامِر بن اکوعؓ لشکر سے نکل کر سامنے آئے اور یہ رجزیہ شعر پڑھا کہ
قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي عَامِرُ شَاكِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُغَامِرُ
کہ خیبر کا چپہ چپہ آگاہ ہے کہ میں عامر ہوں ہتھیار بند، بہادر اور جنگی خطرات کے ریلے میں بےخوف و خطر کود پڑنے والا۔
اس کے بعد دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل آ گئے اور ایک دوسرے پر وار کرنے لگے۔ مَرْحَبْ نے تلوار کا وار کیا جسے حضرت عامرؓ نے اپنی ڈھال پر روکا اور فوراً جھک کر نیچے سے اس پر وار کیا لیکن ان کی تلوار چھوٹی تھی اس لیے ان کو لگنے کی بجائے حضرت عامرؓ کو اپنی تلوار ہی لگ گئی جس سے انہیں گہرا زخم لگا اور ان کی شہادت ہو گئی۔ یہ اس جنگ کے دوسرے شہید تھے۔ دونوں کو ایک ہی قبر میں یعنی رجیع کے مقام پر دفن کیا گیا۔
(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد 8 صفحہ 388-389بزم اقبال لاہور)
حضرت سَلَمہ بن اکوعؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے چچا حضرت عَامِر بن اکوعؓ جب اپنے ہی ہاتھوں شہید ہو گئے تو بعض صحابہ ؓکہنے لگے کہ عامر کے اعمال تو ضائع ہو گئے ۔چنانچہ حضرت سلمہ ؓکہتے ہیں کہ اس پر میں روتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ میں نے کہا یا رسول اللہؐ !عامر کے عمل ضائع ہو گئے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کس نے کہاہے؟ کہتے ہیں میں نے کہا آپؐ کے بعض صحابہؓ نے۔ آپؐ نے فرمایا: كَذَبَ مَنْ قَالَهٗ، إِنَّ لَهٗ لَأَجْرَيْنِ – وَجَمَعَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ – إِنَّهٗ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ، قَلَّ عَرَبِيٌّ مَشٰى بِهَا مِثْلَهٗ۔ یعنی جس نے یہ کہا غلط کہاہے۔ اس کے لیے دو اجر ہیں اور آپؐ نے دو انگلیوں کو اکٹھا کیا یعنی دو گنتی کا شمار کرنے کے لیے اور فرمایا وہ تو بڑا ہی جہاد کرنے والا ہے۔ اس جیسا کم ہی کوئی ایسا عرب ہے جو اس سرزمین پر چلا ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ ’چلا ہو ‘کی جگہ یہ ہے کہ ’پیدا ہوا ہو‘یعنی عامر جیسا کوئی عرب پیدا نہیں ہوا۔ آپؐ نے فرمایا اس نے تو دو اجر لیے۔ یہ غلط کہتے ہیں جو کہتے ہیں کہ اس کو اجر نہیں ملا۔
(صحیح بخاری ،کتاب المغازی ،باب غزوۃ خیبر،4196)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام رجیع میں ہی قیا م فرما رہے اور وہیں سے قلعہ ناعم کو فتح کرنے کے لیے مسلسل دس دن تک صحابہ کرام ؓکو بھیجا جاتا رہا۔ اس بار بار کی ناکامی اور صحابہؓ کے زخمی ہونے اور دو صحابہ ؓکی شہادت سے یہود کے حوصلے اَور بڑھ رہے تھے۔ آخر ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کل میں اس شخص کے ہاتھ میں جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا۔ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔
بخاری کی روایت ہے یہ۔ حضرت بُرَیْدَہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے وہ رات بڑی خوشی میں گزاری کہ کل فتح ہو جائے گی اور لوگوں نے یہ سوچتے سوچتے رات گزاری کہ کل کس کو جھنڈا دیا جائے گا۔ پھر جب صبح ہوئی تو سارے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ ہر شخص یہ امید اور تمنا کر رہا تھا کہ جھنڈا اس کو دیا جائے۔ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس روز سے پہلے کبھی بھی امارت کو پسند نہیں کیا۔ حضرت بُرَیْدَہ ؓبیان کرتے ہیں کہ ہم میں سے کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی مرتبے کے حصول کی تمنا نہیں ہوئی مگر آج ہر شخص یہ تمنا کر رہا تھا کہ اس کو یہ جھنڈا ملے۔ حتی کہ کہتے ہیں میں نے ایڑھیوں کو اونچا کیا اور سر کو بلند کیا کہ شاید مجھے جھنڈا دے دیا جائے۔ حضرت سلمہؓ اور حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ سفر خیبر کے دوران بیماری کی وجہ سے ساتھ نہیں آئے تھے لیکن بعد میں بے چین ہو کے چلے آئے کیونکہ ان کی آنکھوں میں شدید درد تھا اور اس سے دکھائی نہیں دیتا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت علیؓ نے سوچا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ جاؤں یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ حضرت علیؓ پیچھے چل پڑے حتٰی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا ملے۔ حضرت بُرَیْدَہ ؓبیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی تو آپ نے صبح کی نماز پڑھی۔ پھر جھنڈا منگوایا اور کھڑے ہو گئے اور لوگوں کو وعظ کیا۔ پھر فرمایا علی کہاں ہے؟ صحابہؓ نے کہا کہ علی کی آنکھوں میں تکلیف ہے۔ آپؐ نے فرمایا :علی کو بلاؤ۔ حضرت سلمہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت علی ؓکو لے آیا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا: انہیں کیا ہو گیا ہے؟ حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ میری آنکھوں میں درد ہے حتٰی کہ میں سامنے والی چیز کو بھی نہیں دیکھ سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :میرے قریب آؤ۔ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں میرا سر آپؐ نے اپنی گود میں رکھا۔ پھر اپنے ہاتھوں میں لعاب دہن لیا اور میری آنکھوں پر لگایا۔ حضرت علیؓ ایسے ٹھیک ہو گئے کہ گویا آپ کی آنکھوں میں کبھی کوئی تکلیف ہوئی ہی نہیں ہے۔ پھر وفات تک آپ کی آنکھوں میں کبھی تکلیف نہیں ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کے لیے دعا کی اور انہیں جھنڈا دیا۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ 124، 125دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد 8 صفحہ 390 بزم اقبال لاہور)
(بخاری کتاب المغازی حدیث 4209)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ
’’خیبر کے دن حضرت علیؓ کو موقع ملا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج میں اسے موقع دوں گا جو خدا سے محبت کرتا ہے اور جس سے خدا تعالیٰ محبت کرتا ہے اور تلوار اس کے سپرد کروں گا جسے خدا تعالیٰ نے فضیلت دی ہے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں اس مجلس میں موجود تھا اور اپنا سر اونچا کرتا تھا کہ شاید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ لیں اور مجھے دے دیں۔مگر آپؐ دیکھتے اور چپ رہتے۔ میں پھر سر اونچا کرتا اور آپؐ پھر دیکھتے اور چپ رہتے۔ حتّٰی کہ علیؓ آئے ان کی آنکھیں سخت دکھتی تھیں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی! آگے آؤ۔ وہ آپ کے پاس پہنچے تو آپ نے لعاب دہن ان کی آنکھوں پر لگایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھوں کو شفا دے۔ یہ تلوار لو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے سپرد کی ہے۔‘‘
(خطبات محمود جلد 19 صفحہ614)
ایک اَور مقام پر حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح لکھا ہے کہ
’’ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خداتعالیٰ نے بتایا کہ اس شہر کی فتح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر مقدر ہے۔ آپؐ نے صبح کے وقت یہ اعلان کیا کہ میں اسلام کا سیاہ جھنڈا آج اس کے ہاتھ میں دوں گا جس کو خدا اور اس کا رسول اور مسلمان پیار کرتے ہیں ۔ خدا تعالیٰ نے اِس قلعہ کی فتح اس کے ہاتھ پر مقدر کی ہے۔ اس کے بعد دوسری صبح آپؐ نے حضرت علیؓ کو بلایا اور جھنڈا ان کے سپر د کیا۔
جنہوں نے صحابہؓ کی فوج کو ساتھ لے کر قلعہ پر حملہ کیا۔ باوجود اس کے کہ یہودی قلعہ بند تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ اور دوسرے صحابہؓ کو اس دن ایسی قوت بخشی کہ شام سے پہلے پہلے قلعہ فتح ہو گیا۔‘‘
(دیباچہ تفسیر القرآن،انوار العلوم جلد 20صفحہ 325-326)
حضرت علیؓ دوڑتے ہوئے جھنڈا لے کر اس قلعہ کے نیچے پہنچے اور جھنڈے کو پتھروں کے بیچ میں کھڑا کر دیا۔
(سیرت ابن ہشام صفحہ697دار الکتب العلمیۃ بیروت)
دشمنوں کے قتل کے بارے میں بھی ذکر ملتا ہے
کہ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ خیبر کے قلعوں میں سے سب سے پہلے مَرْحَبْ کا بھائی حارث مبارزت کے لیے نکلا۔حضرت علیؓ نے اس کو قتل کر دیا تو حارث کے ساتھی قلعہ میں لوٹ گئے۔
پھر
یہودی جرنیل عامر کا قتل ہے۔
عامر مبارزت کے لیے نکلا اور وہ بہت جسامت والا آدمی تھا۔ حضرت علیؓ اس کے مقابلے کے لیے نکلے اور اس کو کئی ضربیں لگائیں لیکن کوئی ضرب کارگر نہ ہوئی۔ پھر حضرت علیؓ نے اس کی پنڈلی پر وار کیا تو وہ بیٹھ گیا۔ آپؓ نے اس کو قتل کر دیا اور اس کے ہتھیار لے لیے۔
(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد5صفحہ 125دارالکتب العلمیۃ بیروت)
یہودی جرنیل اُسَیر کے قتل کا واقعہ ہے۔
ایک اَور یہودی جرنیل اُسَیر مبارزت طلب کرتے ہوئے نکلا تو محمد بن مَسْلَمَہؓ اس کے مقابلے کے لیے نکلے اور اس کو قتل کر دیا۔
(امتاع الاسماع جلد1 صفحہ311 ،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
مَرْحَبْ کے بھائی یاسر کا قتل ہوا۔
ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ پھر یاسر ظاہر ہوا جو مَرْحَبْ کا بھائی تھا اور وہ رجز پڑھ رہا تھا۔ محمد بن عمر نے لکھا ہے کہ یہ ان میں سے سب سے زیادہ مضبوط تھا اور اس کے پاس جنگی ہتھیار تھے جن کے ذریعہ لوگوں کو وہ روندتا تھا۔ اس کے مقابلے میں حضرت علیؓ نکلے۔ حضرت زبیر بن عوامؓ نے ان کو کہا کہ میں قسم دیتا ہوں کہ آپ میرے اور اس کے درمیان حائل نہ ہوں ۔ انہوں نے کہا میں اس سے لڑوں گا۔ حضرت علیؓ پیچھے ہٹ گئے۔ جب حضرت زبیرؓ اس کافر کی طرف نکلے تو ان کی والدہ حضرت صفیہؓ نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !وہ میرے بیٹے کو قتل کر دے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ آپ کا بیٹا ان شاء اللہ اس کو قتل کر دے گا۔ حضرت زبیرؓ اس کی طرف گئے اور کچھ اشعار کہے۔ پھر ان دونوں کی لڑائی ہوئی اور حضرت زبیر ؓنے اس کو قتل کر دیا۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ 125، 126 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ696 ،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
پھر قلعہ سے خیبر والوں کا سب سے نمایاں بہادر جنگجو مَرْحَبْ اپنے ہتھیاروں سے مسلح باہر نکلا اور یہ شعر پڑھنے لگا جو پہلے بھی اس نے پڑھا تھا کہ
قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ اَنِّی مَرْحَبُ
شَاکِی السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ
اِذَا الحُرُوبُ اَقْبَلَتْ تُلَھَّبُ
خیبر جانتا ہے کہ میں مَرْحَبْ ہوں۔ ہتھیار بند، بہادر، تجربہ کار جبکہ جنگیں شعلے بھڑکاتی ہوئی آئیں ۔ اس کے مقابل پر حضرت علی بن ابی طالبؓ نکلے اور انہوں نے سرخ رنگ کا ایک جبہ پہن رکھا تھا۔ آپؓ نے تلوار نکالی اور یہ اشعار کہے۔ ؎
أَنَا الَّذِی سَمَّتْنِی أُمِّی حَیْدَرَہْ
کَلَیْثِ غَابَاتٍ کَرِیْہِ الْمَنْظَرَہْ
اُوفِیْھِمُ بِالصَّاعِ کَیْلَ السَّنْدَرَہْ
یعنی مَیں وہ ہوں کہ میرا نام میری ماں نے حیدر رکھا ہے ہیبت ناک شکل والے شیر کی مانند جو جنگلوں میں ہوتا ہے۔ میں ایک صاع کے بدلے سَنْدَرَہ دیتا ہوں ۔
یہ ایک محاورہ ہے جس کا مفہوم ہے کہ سیر کے مقابلے میں سوا سیر یا اینٹ کا جواب پتھر سے۔ سَنْدَرَہ کے لفظی معنی مِکْیَال وَاسعیعنی بہت بڑا پیمانہ ہے جوکہ صاع سےکچھ کم ہوتا ہے۔ اڑھائی سیر کے برابر۔ وہ کہتے ہیں
حضرت علیؓ نے مَرْحَبْ کے سر پر ضرب لگائی اور اسے قتل کر دیا۔ پھر ان کے ہاتھوں فتح ہوئی۔
(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5 صفحہ126-127 ،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(صحیح مسلم (مترجم ) کتاب الجہاد و السیر باب غزوہ ذی قرد و غیرھا جلد 9 صفحہ 240 مع حاشیہ، نور فاؤنڈیشن)
(لغات الحدیث جلد 4 صفحہ 487’’وسق‘‘۔ جلد 2صفحہ 648’’صاع‘‘ ناشر نعمانی کتب خانہ لاہور 2005ء)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت علیؓ اور مَرْحَبْ کے درمیان لڑائی ہوئی۔ حضرت علیؓ نے آگے بڑھ کر مَرْحَبْ کو ایک ضرب لگائی جو اس کے خَود اور سر کو چیرتے ہوئے اس کے دانتوں تک پہنچ گئی۔ پھر لوگ حضرت علیؓ کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ قلعہ کو فتح کر لیا۔
(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5صفحہ126-127 ،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
بعض سیرت نگاروں کا بیان ہے کہ محمد بن مَسْلَمَہؓ نے مَرْحَبْ کو قتل کیا تھا ۔چنانچہ حضرب جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ جب مَرْحَبْ اپنے ہتھیار پہنے ہوئے مقابلے کی دعوت دیتے ہوئے قلعہ سے نکلا اور رجزیہ اشعار پڑھ رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون اس کا مقابلہ کرے گا؟ حضرت محمد بن مَسْلَمَہؓ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس کا مقابلہ کروں گا۔ اللہ کی قسم!کل اس نے میرے بھائی کو قتل کیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا :اس کے مقابلے کے لیے اٹھو! اور فرمایا :اے اللہ! اس کی مدد کر۔ روایت ہے کہ جب دونوں مقابلے کے لیے ایک دوسرے کے قریب ہوئے تو ان دونوں کے درمیان ایک پرانا درخت حائل ہوگیا۔ دونوں ایک دوسرے سے درخت کی آڑ میں بچنے لگے۔ جب بھی کوئی ایک درخت کی اوٹ میں پناہ لیتا دوسرا اس طرف سے اس درخت کو کچھ نہ کچھ کاٹ دیتا حتی کہ وہ دونوں آمنے سامنے ہو گئے۔پھر مَرْحَبْ نے حضرت محمد بن مَسْلَمَہؓ پر تلوار سے وار کیا تو انہوں نے خود کو ڈھال سے بچایا۔ مَرْحَبْ کی تلوار ڈھال میں پھنس گئی اور ڈھال کو کاٹ دیا۔ حضرت محمد بن مَسْلَمَہؓ نے اس کو تلوار ماری اور اس کو قتل کر دیا۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ محمد بن مَسْلَمَہؓ نے مَرْحَبْ کو ضرب لگائی اور اس کی ٹانگیں کاٹ دیں تو وہ گر گیا۔ پھر حضرت علیؓ اس کے پاس سے گزرے تو انہوں نے اس کو قتل کر دیا۔
شارح بخاری حافظ ابن حَجَر نے لکھا ہے کہ ابنِ اسحاق، موسیٰ بن عُقْبہ، واقِدی اور کئی دیگر اہل سِیَر نے لکھا ہے کہ مَرْحَبْ کو محمد بن مَسْلَمَہؓ نے قتل کیا تھا۔ محمد بن مَسْلَمَہؓ نے مَرْحَبْ کے بھائی حارث کو قتل کیا تھا لیکن بعض راویوں کو اشتباہ ہو گیا اور انہوں نے حارث کے بجائے مَرْحَبْ کا نام لکھ دیا۔اور اگر معاملہ اس طرح نہیں ہےتو پھر جو صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت علیؓ نے مَرْحَبْ کو قتل کیا وہ دیگر کی نسبت بہرحال مقدم ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت سلمہ بن اکوعؓ سے یہ روایت ہے کہ حضرت علیؓ نے ہی مَرْحَبْ کو قتل کیا تھا۔ صحیح مسلم کی روایت دو وجہوں سے مقدم ہے۔ پہلی یہ کہ وہ سند کے اعتبار سے صحیح ہے۔ دوسری یہ کہ حضرت جابرؓ جنہوں نے محمد بن مَسْلَمَہؓ والی روایت بیان کی ہے غزوہ خیبر میں موجود نہیں تھے۔
اس بارے میں یہ بھی واضح ہو کہ مَرْحَبْ اور اس کے ساتھ ان دیگر یہودیوں کی مبارزت اور قتل کے واقعات کی بابت تاریخ و سیرت کی کتب میں یہ اختلاف ہے کہ یہ کس قلعہ میں ہوا تھا۔ بخاری، مسلم، صحاح ستہ وغیرہ میں تو کسی بھی قلعہ کا نام مذکور نہیں ہے۔ اسی طرح بعض کتب سیرت نے یہ واقعات بیان کیے ہیں لیکن کسی قلعہ کی تخصیص نہیں کی جیسے سیرت ابنِ ہشام ،طبقات ابنِ سعد، شرح زرقانی وغیرہ البتہ بعض کتب میں قلعہ قموص کی نسبت ان واقعات کا ذکر ہے اور بعض میں قلعہ ناعم کی نسبت ذکر کیا گیا ہے۔ بہرحال نو دن تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ساتھ اس قلعہ پر حملہ کرتے رہے یہاں تک کہ دسویں دن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس قلعہ پر فتح دی۔
(ماخوذ از سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ 120،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(غزوہ خیبر از باشمیل صفحہ 115-116 نفیس اکیڈمی کراچی)
(امتاع الاسماع جلد1 صفحہ311دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(فتح الباری جلد7 صفحہ608قدیمی کتب خانہ آرام باغ )
مسلمانوں کے قلعہ ناعم پر قبضہ کرنے کے بیان میں کسی مؤرخ نے اس بات کا ذکرنہیں کیا کہ اس قلعہ کی فتح کے وقت جو خیبر کا مضبوط ترین قلعہ تھا مسلمانوں نے کتنی غنائم اور کس قدر ہتھیاروں پر قبضہ کیا۔ ممکن ہے کہ مسلمانوں کو کوئی قابل ذکر چیز نہ ملی ہو کیونکہ یہود نے ہنگامی حالات کے پیش نظر عورتوں اور بچوں کو پہلے ہی دوسرے قلعوں میں منتقل کر دیا تھا اور جب یہود شکست کھا گئے اور قلعہ ناعم پر مسلمانوں کا حملہ روکنے سے عاجز آ گئے تو وہ خود بھی سہولت کے ساتھ قلعہ صعب بن معاذ میں منتقل ہو گئے اور قلعہ ناعم کے معرکوں میں کوئی ایک یہودی بھی مسلمانوں کے ہاتھ قید نہیں ہوا۔
(ماخوذاز فتح خیبراز باشمیل صفحہ129تا 131مطبوعہ نفیس اکیڈمی)
اس کی اور مزید تفصیل بھی ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ باقی قلعوں کے واقعات۔
جیسا کہ میں دنیا کے حالات کے بارے میں مسلمانوں کے حالات کے بارے میں دعا کے لیے کہتا رہتا ہوں۔
فلسطینیوں کے لیے خصوصا ًاور مسلمان دنیا کے لیے عموماً بہت دعا کریں ۔
ان کے حالات بظاہر تو یہ لگتا ہے اور لوگ خوش ہیں کہ شاید سیز فائر (ceasefire) ہو گئی تو بہتر ہو جائیں گے لیکن بد سے بدتر ہو رہے ہیں ۔ نئے امریکن صدر کی پالیسی اور سکیم ظلم کی ایک اَور انتہا پہ پہنچی ہوئی ہے۔ پہلے تو امریکن کہتے تھے ناں کہ ہمارے ملک کے لیے خطرناک تھا اور باہر دنیا میں دخل اندازی نہیں کرتا تھا لیکن اب تو یہ ساری دنیا کے لیے خطرناک بن چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ فلسطینیوں پر رحم فرمائے اور دنیا پر رحم فرمائے اور اس سے یہ لوگ بچے رہیں۔
عرب ممالک اب بھی اپنی آنکھیں کھولیں اور اتحاد قائم کرنے کی کوشش کریں ۔ اس کے بغیر گزارہ نہیں ہے ورنہ فلسطین ہی نہیں باقی عرب ممالک بھی سخت مشکلات کا سامنا کریں گے۔
گو اب بعض غیر مسلموں کی طرف سے بھی ان کے حق میں، فلسطینیوں کے حق میں ظلم کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں لیکن جو طاقتور ہے وہ تو اس وقت مکمل طور پر اپنی طاقت کے نشے میں چُور ہے وہ کسی کی سننا نہیں چاہتا۔ پس
بہت زیادہ مسلمانوں کو توجہ کی ضرورت ہے اور ہمیں ان کے لیے دعائیں کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس تو اور کوئی طاقت نہیں ہے۔
اسی طرح
پاکستان کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں
ان کے بھی حالات بعض دفعہ بعض دنوں میں مخالفت میں بہت زیادہ شدت اختیار کر جاتے ہیں ۔
بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں
وہاں بھی اللہ تعالیٰ ان کو ہر قسم کی مخالفتوں سے اور حملوں سے بچائے۔ باقی جگہوں پر بھی
مظلوم لوگوں کے لیے دعا کریں ،مظلوم احمدیوں کے لیے دعا کریں
اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔ دنیا کو عقل دے۔ امن قائم کرنے کی ان سب کی توجہ پیدا ہو۔اللہ تعالیٰ ہمیں دعاؤں کی توفیق دے۔
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: غزوۂ خیبر کے تناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۱۴؍فروری ۲۰۲۵ء