اطلاعات و اعلانات
ایک مخلص اور نافع الناس وجود سابق سیکرٹری مال ربوه و صدر محلہ دار الرحمت غربی
محترم بشیر احمد سیفی صاحب انتقال کر گئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون

احباب کو افسوس کے ساتھ اطلاع دی جا رہی ہے کہ سلسلہ کے ایک مخلص خدمت گار اور نافع الناس وجود محترم بشیر احمد سیفی صاحب (UBLوالے) سابق صدر محلہ دار الرحمت غربی و سیکرٹری مال لو کل انجمن احمدیہ ربوه مورخہ ۱۲؍فروری ۲۰۲۵ء بروز بدھ ۷۹؍ سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
مورخہ ۱۴؍ فروری ۲۰۲۵ء کو آپ کی نماز جنازہ پڑھائی گئی اور بہشتی مقبرہ دار الفضل میں قبر تیار ہونے پر دعاہوئی۔
محترم بشیر احمد سیفی صاحب جنوری ۱۹۴۶ء میں بستی رنداں ڈیرہ غازیخان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم کا نام حاجی قادر بخش صاحب تھا۔ وہ پیدائشی احمدی تھے۔ ان کے والد محمد بخش صاحب نے ۱۹۰۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی سعادت حاصل کی تھی لیکن زیارت نہ کرسکے۔ تاہم آپ کے خاندان میں حضرت محمد موسیٰ صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے۔ یہ محترم عبدالحکیم جوزا صاحب مرحوم مربی سلسلہ کے والد گرامی تھے۔ بشیر سیفی صاحب دو سال کے تھے کہ والدہ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ آپ کے والد نے ایک بیوہ سے دوسری شادی کرلی۔ اس بیوہ کی اولاد میں پہلے سے مولوی محمد دین صاحب مربی سلسلہ (سندھ ہومیو پیتھک والے)بھی تھے۔ سیفی صاحب نے ابتدائی تعلیم ڈیرہ غازی خان سے اور پھر ایف اے چنیوٹ سے کیا۔ ۱۹۶۷ء میں ٹی آئی کالج ربوہ سے بی اے پاس کیا اور ۱۹۶۹ء میں UBL میں آفیسر بھرتی ہوگئے۔ دوران ملازمت آپ را ولپنڈی، جہلم، چنیوٹ، لالیاں اور ربوہ میں رہے۔ زیادہ عرصہ UBL ربوہ کے مینیجر کے طور پر خدمت کی۔
دوران ملازمت آپ کو جماعتی حوالے سے بعض مشکلات اور مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن آپ نے دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا۔ ۱۹۷۴ء کے فسادات کے دوران آپ جہلم شہر میں تھے اور بہت معروف تھے۔ مخالفین کا جلوس آپ کے گھر تک پہنچ گیا تھا۔ آپ بحفاظت نکل آئے۔ اگلے روز آپ کو خبر ملی کہ جہلم میں مقبول احمد سیٹھی صاحب کو شہید کر دیاگیا ہے۔ مقبول سیٹھی صاحب شہید (والد محترم ڈاکٹر مقبول ثانی سیٹھی صاحب جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ یوکے) آپ کے دوست تھے اور دوپہر کا کھانا ان کے ساتھ کھایا کرتے تھے۔ ۱۹۸۴ء میں آپ چنیوٹ برانچ میں تھے۔ کسی نے آپ کی جھوٹی شکایت کی کہ چونکہ یہ مرزائی ہے اس ليے زکوٰۃ کے نظام کو خراب کر رہا ہے۔ یہ مذہبی بنا پر مقدمہ بنا جو کہ مارشل لا کورٹ میں چلا۔ اس دوران آپ ایک ماہ جیل میں اسیر رہے۔ محکمہ نے آپ کو سپورٹ کیا۔ اللہ کے فضل سے آپ بری ہو گئے۔ یوں احمدی ہونے کی وجہ سے آپ ایک ماہ قید رہے۔ ۱۹۷۴ء میں ہی آپ کی ٹرانسفر جہلم شہر سے سوہاوہ میں ہوئی تو آپ کو مشورہ دیا گیا کہ آپ ألیس اللّٰہ بکافٍ عبدہ کی انگوٹھی نہ پہنا کریں۔ آپ نے یہ مشورہ ماننے سے انکار کردیا۔ وہاں آپ کی مخالفت بھی ہوئی۔
یوبی ایل سے آپ بطور مینیجر AVPکے گریڈ سے ۲۰۰۶ء میں ریٹائر ہوئے۔ جب آپ ریٹائر ہوئے تو صدر مجلس انصار الله پاکستان مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے آپ کو کہا کہ آپ انصار اللہ میں با قاعدہ نائب قائد عمومی ملازم ہو جائیں۔ آپ نے کہا کہ میں تنخواہ نہیں لوں گا رضا کارانہ خدمت کروں گا۔ چنانچہ آپ ۲۰۰۶ء سے ۲۰۲۰ء تک چودہ سال نائب قائد عمومی کے طور پر باقاعدہ روزانہ رضا کارانہ طور پر ڈیوٹی کرتے رہے۔
آپ کی تمام عمر خدمت دین اور خدمت خلق میں گذری۔ دارالرحمت غربی میں ۱۹۸۰ء سے ۲۰۲۴ء یعنی ۴۴؍سال خدمات بطور صدر و ممبر عاملہ کرتے رہے۔ آپ ۲۵؍ سال صدر محلہ رہے۔ اس دوران آپ کا ایک کارنامہ مسجدبیت الناصر کی شاندار تعمیر نَو ہے جو ۲۰۰۶ء میں شروع ہوئی اور ۲۰۰۹ء میں مکمل ہوئی۔
لوکل انجمن احمدیہ ربوہ میں آپ کی خدمات ۱۹۸۴ء سے ۲۰۲۲ء تک ۳۸؍ سال ہیں۔ آپ مکرم حکیم خورشید احمد صاحب کے زمانہ میں ۱۹۸۴ءمیں سیکرٹری مال لو کل انجمن احمدیہ ربوہ مقرر ہوئے اور ۲۰۱۹ء تک اس عہدے پر قائم رہے۔ آپ کی گاڑی جماعتی خدمت اور ربوہ کے دوروں کے ليے آپ کے ساتھ وقف رہتی تھی۔ ۲۰۱۹ء سے ۲۰۲۲ء آپ معاون صدر عمومی رہے۔ صدارت عمومی میں آپ کئی سال تک شروع میں سیکرٹری مال کےساتھ ساتھ سیکرٹری وقف جدید اور سیکرٹری تحریک جدید بھی رہے۔
خدمت دین کے ساتھ ساتھ آپ خدمت خلق کے ليے ہروقت کمر بستہ رہتے تھے آپ کی گاڑی خدمت خلق کے ليے ہروقت تیار رہتی۔ کسی کو انکار نہ کرتے۔ اہل محلہ، اہل خاندان اور اہل علاقہ کی خدمت خلق کے کام جن میں بل جمع کروانا، مختلف سرٹیفیکیٹس بنوانا، سرکاری اداروں میں ان کے ساتھ جانا اور اس کے علاوہ بھی ان کی ضروریات کا خیال کرنایہ آپ کا روزانہ کا معمول تھا۔ رمضان المبارک میں اپنے محلہ کی بیت الناصر میں دروس کے ليے علمائے کرام کو گھر سے لاتے بھی اور چھوڑ کر بھی آتے۔ محلے کے کئی بزرگان آپ کے ساتھ گاڑی میں دفاتر میں آتے اور کئی بزرگان کو روزانہ لے کر آنے اور چھوڑنے کی رضاکارانہ ڈیوٹی اپنے ذمہ لی ہوئی تھی۔ سیفی صاحب کا وسیع حلقہ احباب تھا اور دوستیاں بھی خوب نبھاتے تھے۔
۱۹۷۰ء میں آپ کی شادی مکرمہ بشریٰ مسرت صاحبہ بنت حکیم نیاز محمد صاحب سے ہوئی جو کہ گورنمنٹ ٹیچر تھیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں اور گذشتہ سال ان کی وفات ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹا عمران احمد خان اور تین بیٹیاں عطا فرمائیں۔ سب اولاد جرمنی میں ہے اور صاحبِ اولاد ہے۔ آپ کا ایک پوتا شارب عمران جامعہ احمدیہ جرمنی سے فارغ التحصيل مربی سلسلہ ہے۔
اللہ تعالیٰ محترم بشیر احمد سیفی صاحب کے درجات بلند فرمائے، آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور جملہ لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے اور آپ کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق دے۔ آمین
(ایم ایم طاہر)
٭…٭…٭