خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 14؍ فروری 2025ء
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تو سب کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح تھی جو جنگ شروع کرنے سے پہلے سب کو حکم دیتے ہیں کہ خبردار! کسی بچے کو قتل نہ کرنا کسی عورت کو قتل نہ کرنا یہاں تک کہ درختوں کو بھی بے سبب نہ کاٹا جائے۔ جو جانوروں کو بھی کسی تکلیف میں دیکھنا پسند نہیں کرتے وہ انسانوں پر کیسے ظلم و تشدد کر سکتے ہیں
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیر لگنے سے زخمی ہو گئے اور تیر لگنے سے آپؐ کے کپڑے پھٹ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر نکالا پھر آپؐ نے ایک مٹھی کنکریوں کی لی اور اس قلعہ کی طرف پھینک دی جس سے ان کا قلعہ لرزنے لگا یہاں تک کہ مسلمانوں نے یہود کو پکڑ لیا۔ پھر قبضہ ہو گیا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس اور آپؐ کی عزت سب سے مقدم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو عدل و انصاف کے پیکر تھے۔ رحمۃ للعالمین تھے۔ ہر وہ روایت جو اس کے منافی ہو وہ قابل قبول نہیں ہو سکتی
کِنانہ بن ربیع قتل ہوا لیکن اس کے قتل کا سبب ایک مسلمان سپہ سالار کا قتل تھا جس کے قصاص میں وہ خود قتل ہوا۔ پس یہ ہے اصل حقیقت
غزوۂ خیبر کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان
مکرم ماسٹر منصور احمد صاحب کاہلوں (حال مقیم آسٹریلیا) کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 14؍ فروری 2025ء بمطابق14؍ تبلیغ 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
خیبر کی جنگ کا ذکر
ہو رہا تھا۔ اب
خیبر کے دوسرے قلعہ کی فتح کا ذکر
کروں گا۔ یہ دوسرا قلعہ، قلعہ صعب بن معاذ کہلاتا ہے۔ اس قلعہ میں خیبر کے باقی تمام قلعوں سے زیادہ کھانا، جانور اور سازو سامان تھا اور اس میں پانچ سو جنگجو رہتے تھے۔ حضرت کعب بن عمر ؓسے روایت ہے کہ انہوں نے تین روز تک صعب بن معاذ کے قلعہ کا محاصرہ رکھا۔ یہ ایک مضبوط قلعہ تھا۔ حضرت مُعَتِّب اسلمیؓ سے روایت ہے کہ بنو اسلم کو خیبر میں سخت بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ بنو اسلم نے اتفاق کیا کہ حضرت اسماء بن حارثہ ؓکو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجیں۔ بنو اسلم نے حضرت اسماء بن حارثہؓ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارا سلام پیش کرنا اور عرض کرنا کہ ہمیں بھوک اور کمزوری نے آ لیا ہے۔ بہت برا حال ہے۔ حضرت اسماءؓ نے آپؐ کو بنو اسلم کا سلام پیش کیا۔ عرض کی کہ ہمیں بھوک اور کمزوری نے سخت پریشان کر رکھا ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے ہمارے لیے دعا کریں۔ آپؐ نے دعا کی پھر فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے جس سے میں آپ لوگوں کو تقویت بخشوں۔ میرے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ میں ان کا حال سمجھتا ہوں جو اس وقت بھوک سے نڈھال ہیں۔ پھر یہ دعا کی کہ اے اللہ!وہ قلعہ ان کے لیے فتح کر دے جو کھانے اور چربی سے بھرا پڑا ہے۔ پھر آپ نے جنگ کے لیے جھنڈا حُباب بن منذرؓ کے حوالے کیا۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ 121، 122 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اس کی تفصیل میں بیان کیا جاتا ہے کہ یہود میں سے ایک شخص مبارزت کے لیے، آمنے سامنے مقابلے کے لیے، باہر نکلا جس کا نام یوشع تھا۔ اس نے مقابلے کے لیے للکارا تو فوراً حضرت حُباب بن منذرؓ اس کے مقابلے کے لیے آئے۔ وہ قتال کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت حُباب نے اس کو قتل کر ڈالا۔ پھر زیال نامی یہودی نے مبارزت طلب کی تو حضرت عمارہ بن عقبہ غفاریؓ اس کے مقابلے کے لیے نکلے اور آگے بڑھ کر اس یہودی کے سر پر کاری ضرب لگائی جس سے اس کا سر پھٹ گیا۔ حضرت عمارہ بن عقبہ غفاری ؓنے کہا: لو، میں غفاری جوان ہوں تو صحابہ ؓنے کہا اس کا جہاد باطل ہو گیا یعنی انہوں نے اس وقت یہ قومی نعرہ لگایا فخر کا اظہار کیا کہ میں غفاری ہوں۔ صحابہؓ نے کہا یہ تو اچھی بات نہیں ہے تم نے اپنی بڑائی بیان کی ہے۔ جب یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی گئی تو آپ نے فرمایا کوئی بات نہیں۔ اسے اجر ملے گا اور تعریف بھی کی جائے گی۔ ایسے موقع پر اگر یہ کر دیا جائے تو ایسی بات نہیں ہے۔
حضرت محمد بن مسلمہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپؐ تیر اندازی کر رہے تھے اور آپ کا ایک نشانہ بھی خطا نہ گیا۔ آپؐ میری طرف دیکھ کر مسکرائے۔
حضرت حُباب بن منذرؓ نے اپنے جوانوں کے ساتھ قلعہ کے اندر داخل ہو کر سخت جنگ کر کے اسے فتح کر لیا اور تمام اسلحہ اور غلے پر قبضہ کر لیا۔ قلعہ کا دفاع کرنے والے بہت سے یہودی مارے گئے اور کئی قید ہوئے۔ حضرت مُعَتِّب اسلمی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھوک کی وجہ سے دعا کی درخواست لے کر آئے تھے وہ کہتے ہیں کہ ابھی ہم واپس نہ آئے تھے کہ اللہ نے قلعہ صعب بن معاذ پر فتح دی۔یعنی کہ ابھی باتیں کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کر کے ہم واپس ہی آئے تھے کہ بھوک سے برا حال ہے تو اس دوران میں جنگ شروع ہوئی اور فتح بھی ہو گئی۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ قلعہ صعب میں سے جس قدر کھانے کا سامان ملا وہ اتنا تھا کہ کسی اَور قلعہ سے اتنا سامان نہیں ملا۔ اس میں بہت سا جَو، کھجوریں، گھی، شہد، تیل اور چربی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے اعلان کیا کہ خود بھی کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی کھلاؤ اور اٹھا کر کچھ نہ لے جانا۔ جو کچھ کھانا ہے یہیں کھاؤ۔
(ماخوذ از فتح خیبر از علامہ محمد احمد باشمیل صفحہ140نفیس اکیڈمی کراچی)
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ 122،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
پھر
تیسرے قلعہ کا ذکر ہے، قلعہ زبیر بن عوام۔
اس کی فتح کا ذکر یوں ملتا ہے۔ اس قلعہ کا نام قُلَّہ تھا یہ بعد میں حضرت زبیر بن عوام ؓکے حصہ میں آیا اس لیے اس کا نام قلعہ زبیر مشہور ہو گیا۔ جب یہود ناعم اور صعب بن معاذکے قلعہ سے زبیر بن عوام کے قلعہ کی طرف بھاگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیا۔ یہ قلعہ پہاڑ کی چوٹی پر تھا۔ آپ نے تین دن اس کا محاصرہ کیے رکھا۔ ایک یہودی جس کا نام غزال تھا وہ آیا اور اس نے کہا کہ اے ابوالقاسم !آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہا (غیر مسلم اسی لقب سے بلاتے تھے )کہ آپ مجھے امان دیں اس شرط پر کہ میں آپ کو ایسی بات بتاؤں گا جس سے آپ اہل نطاةسے راحت حاصل کر لیں گے یعنی اس قلعہ پر قبضہ کر سکیں گے اور آپ اہل شَق کی طرف نکلیں گے یقینا ًاہل شَق آپؐ کے رعب کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد آپؐ دوسرے قلعہ کی طرف جا سکتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اہل اور اس کے مال پر اس کو امان دے دی۔ یہودی نے کہا کہ بیشک اگر آپ اس طرح ایک مہینہ بھی کھڑے رہیں تو ان کو کوئی پروا نہیں ہو گی۔ ان کی زمین کے نیچے سرنگیں ہیں وہ رات کو نکلتے ہیں اور اس سے پانی لاتے ہیں پھر اپنے اپنے قلعوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ وہ آپ سے دفاع کر رہے ہیں۔ اگر آپ ان سے ان کے پانی کا راستہ کاٹ دیں تو وہ آپ کے لیے ہتھیار ڈال دیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کےساتھ گئے اور یہود کی سرنگوں کو کاٹ دیا۔ جب ان کی پانی کی جگہ ان سے منقطع ہو گئی تو وہ باہر نکل آئے اور پھر شدید قتال شروع ہو گیا، پھر جنگ شروع ہو گئی۔ اس دن مسلمانوں میں سے کچھ صحابہ ؓ شہید ہو گئے اور یہود میں سے دس آدمی قتل ہوئے اور آپؐ نے فتح حاصل کی اور یہ نطاة کے قلعوں میں سے آخری قلعہ تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نطاة سے فارغ ہوئے تو شَق کے قلعوں کی طرف لے گئے یہ قلعوں کا تیسرا گروپ تھا جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں۔
(شرح زرقانی جلد3 صفحہ265دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5 صفحہ 122، 123دارالکتب العلمیۃ بیروت)
یہاں
یہودی سردار سَلَّام بن مِشکمکی موت
کا بھی ذکر ملتا ہے۔ نطاة کے قلعوں کی جنگ میں سَلَّام بن مِشکمبھی مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ سلام بنو نضیر کا ایک بڑا سردار تھا اور یہود کا قائد تھا لیکن وہ بیمار تھا اس لیے اس نے دیگر یہودی سرداروں کی طرح جنگ میں عملی طور پر حصہ نہیں لیا یعنی خود تلوار تیر کے ساتھ جنگ میں شامل نہیں ہوا۔ اس کے ساتھیوں نے اس کو یہ تجویز پیش کی کہ وہ کَتِیبہ کے علاقے میں چلا جائے کیونکہ وہ زیادہ محفوظ ہیں۔ لیکن سلّام بن مشکم نے دائمی مریض ہونے کے باوجود یہ تجویز قبول نہیں کی حتٰی کہ وہ نطاة ہی میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا۔
(سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد8 صفحہ385 دارالسلام ریاض)
اگر اس کی بیماری کا واقعہ صحیح ہے اور عملاً جنگ کرنے والا نہیں تھا تو پھر بھی اس کا قتل اس لحاظ سے قابل اعتراض نہیں کہ اس نے اپنے لشکر کو جنگ میں بھیجنے کے لیے تیار کیا تھا۔ ان کی عمومی نگرانی یہ کررہا ہو گا۔ اس لیے اس جنگ کے ماحول میں کسی صحابی نے اسے بھی قتل کر دیا چونکہ ان کے ساتھ وہاں موجود تھا۔ لشکر کے سردار کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور سردار کے مرنے سے لشکر بھی دل چھوڑ بیٹھتا ہے۔ پس اس لحاظ سے
اس کا قتل بھی کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔
شق کے دونوں قلعوں کا محاصرہ
شَق بھی دو قلعوں کا یا تین قلعوں کا مجموعہ تھا اور اس کی فتح کے بارے میں یوں ذکر ہے۔
شَق کا پہلا قلعہ
یہ دو قلعے تھے۔ شَق کا پہلا قلعہ جس سے آپؐ نے ابتدا کی وہ
اُبَیکا قلعہ
تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چوٹی پر کھڑے ہوئے جس کا نام سَمْوان تھا۔ اس پر کھڑے ہو کر آپؐ نے قلعہ والوں سے قتال کیا۔ا بتدا میں ایک یہودی نے مبارزت کے لیے بلایا۔ اس کے مقابلے میں حضرت حُباب بن منذرؓ نکلے۔ وہ دونوں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوئے۔ حضرت حُباب نے ایک وار سے اس کا دایاں بازو درمیان سے کاٹ دیا اور اس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی وہ شکست کھاتا ہوا اپنے قلعہ کی طرف لوٹ گیا۔ حضرت حُباب نے اس کا پیچھا کیا اور اس کی ریڑھ کی ہڈی کا پٹھا کاٹ دیا۔ وہ گر گیا تو حضرت حُباب نے اس کو قتل کردیا۔ پھر ایک اور آدمی نکلا اور پکارا کہ کون ہے مبارزت کرنے والا۔ مسلمانوں میں سے آل جحش میں سے ایک شخص باہر آیا مگر وہ مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگیا۔ اس یہودی نے اپنی جگہ پر کھڑے ہو کر پھر مبارزت کے لیے بلایا تو اس سے ابودجانہ نے مقابلہ کیا۔ حضرت ابودجانہؓ نے اپنے خَود پر سرخ کپڑا باندھ رکھا تھا۔ وہ یہودی بڑا اکڑ کر چل رہا تھا۔ حضرت ابودجانہ جلدی سے آگے بڑھے اس پر تلوار سے وار کیا اور اس کی ٹانگ کاٹ دی اور اسے قتل کردیا۔ حضرت ابودجانہؓ اس کا جنگی سامان زرہ اور تلوار لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے یہ اشیاء حضرت ابودجانہؓ کو عنایت فرما دیں اور یہود مبارزت کرنے سے عاجز آ گئے۔ اب پھر اس کے بعد کوئی نہیں نکلا۔ پھر مسلمانوں نے نعرہ ہائے تکبیر کے ساتھ بھرپور حملہ کیا اور قلعہ میں داخل ہو گئے۔ مسلمانوں میں سے سب سے آگے حضرت ابودجانہؓ تھے۔ مسلمانوں نے اس قلعہ میں ساز و سامان بکریاں اور کھانا پایا۔ سب یہودی بھاگ گئے وہ دیواریں پھلانگتے ہوئے جا رہے تھے گویا کہ وہ ہرن ہوں۔ یہاں تک کہ وہ سب شَق کے دوسرے قلعہ کی طرف چلے گئے۔ بہت تیزی سے دوڑے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ ان کی طرف نکلے اور یہود سے قتال ہوا۔ یہود نے مسلمانوں پر شدید تیر اندازی اور سنگ باری کی۔ یہود کے جواب میں مسلمان بھی ان پر ویسی ہی تیراندازی کر رہے تھے مگر یہود کے تیر مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچا رہے تھے کیونکہ یہود انہیں قلعے کے برجوں سے تیر مارتے تھے، اوپر سے مار رہے تھے اور مسلمان قلعہ کے نیچے پڑاؤ کیے ہوئے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسلمانوں کے ساتھ یہود پر تیر اندازی کر رہے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہود کا نشانہ خاص طور پر وہ جگہ تھی جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پڑاؤ کیے ہوئے تھے کیونکہ وہاں بہت زیادہ تیر گر رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ موجود تھے کہ ایک تیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں کو آ لگا۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیر لگنے سے زخمی ہو گئے اور تیر لگنے سے آپؐ کے کپڑے پھٹ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر نکالا پھر آپؐ نے ایک مٹھی کنکریوں کی لی اور اس قلعہ کی طرف پھینک دی جس سے ان کا قلعہ لرزنے لگا یہاں تک کہ مسلمانوں نے یہود کو پکڑ لیا۔ پھر قبضہ ہو گیا۔
(فتح خیبر از علامہ محمد احمد باشمیل صفحہ156-157نفیس اکیڈمی کراچی)
(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد5صفحہ 123،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
پھر
کَتِیبہ کے تین قلعے
ہیں۔ ان تینوں قلعوں کا محاصرہ مسلمانوں نے کیا۔ اس بارے میں لکھا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نطاة اور شَق کے قلعوں کو فتح کیا تو یہودی کَتِیبہ کے تینوں قلعوں وَطِیح، سُلالِم اور قَموص میں منتقل ہو گئے۔ کَتِیبہ کے قلعوں میں سے سب سے بڑا قلعہ قَموص کا تھا اور یہ سب سے محفوظ قلعہ تھا۔ یہود ان تینوں قلعوں میں قلعہ بند ہو گئے اور وہ اپنے قلعوں سے نیچے جھانکتے بھی نہ تھے اور ان میں سے کوئی مبارزت طلب کرنے والا بھی نہ نکلتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ روز تک ان قلعوں کا محاصرہ کیے رکھا حتٰی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ کیا کہ ان پر منجنیق نصب کی جائے۔ جب یہود کو ہلاک ہونے کا یقین ہو گیا یعنی توپ کے ذریعہ سےپتھر پھینکا جائے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کا مطالبہ کیا اور کِنانہ بن ابوحُقَیق نے یہود میں سے ایک آدمی کو جس کا نام شَمَّاختھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیغام دے کر بھیجا کہ میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔ کِنانہ بن ابوحُقَیق قلعہ سے نیچے اترا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کا معاہدہ کر لیا۔ آپؐ نے صحابہ کرام کو بھیجا تو انہوں نے ان کے مالوں پر قبضہ کر لیا۔ یعنی صحابہؓ نے ان کے مالوں پر قبضہ کیا ان قلعوں میں سے ایک سو زرہیں،چار سو تلواریں،ایک ہزار نیزے،پانچ سو کمانیں مع ترکش حاصل ہوئے۔
(ماخوذ از سبل الھدیٰ والرشاد جلد5 صفحہ 131 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(السیرۃ النبویۃ لابن کثیر جزء 3 صفحہ 376 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
قلعہ قَموص کی فتح کے سلسلہ میں بعض اَور مختلف روایات بھی ہیں جیسا کہ قلعہ قَموص کے فتح کے ضمن میں کتب سیرت میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس کا محاصرہ بیس روز تک کیا گیا اور بالآخر حضرت علیؓ کے ہاتھ یہ قلعہ یہود کے ساتھ سخت مقابلے کے بعد فتح ہوا۔ نیز اس قلعہ کی تسخیر کے ضمن میں بعض سیرت نگاروں نے کتب میں وہی واقعات درج کیے ہیں جو قلعہ ناعم کی تسخیر کے حوالے سے دیگر مصنفین نے بیان کیے ہیں۔
(شرح زرقانی جلد 3 صفحہ 265 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 8 صفحہ 392-393دارالسلام ریاض )
(سبل الھدیٰ جلد 5 صفحہ 124 تا 126 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
بہرحال یہ قلعہ فتح ہو گیا۔ یہود سے پھر ایک معاہدہ ہوا اور معاہدے کی شرائط یہ تھیں:
نمبر ایک
کہ یہود پر لازم ہو گا کہ وہ تمام قلعوں کو خالی کر دیں اور اپنا تمام جنگی سامان اور اسلحہ وہیں چھوڑ دیں تاکہ اسلامی فوج اس پر قبضہ کرے اور وہ مسلمانوں کی املاک کا ایک حصہ بن جائے۔ یعنی اپنا اسلحہ مسلمانوں کے سپرد کر دیں۔ آجکل کے زمانے میںجسے سرنڈر (surrender)کرنا کہتے ہیں۔
دوسرا
یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مذاکرات کے مطابق یہودیوں کے خون کی حفاظت اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنانے سے معافی دینے کا عہد کریں۔ یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہودیوں کی حفاظت کریں گے قتل نہیں ہوں گے اور ان کے بیوی بچوں کی حفاظت ہو گی۔
نمبر تین
یہ تھا کہ یہود پر لازم ہو گا کہ خیبر سے جلا وطن ہو کر شام کی طرف چلے جائیں۔
نمبر چار
یہ شرط تھی کہ خیبر سے جلا وطنی کے وقت مسلمان انہیں اجازت دیں گے کہ جس قدر مال ان کی سواریاں اٹھا سکتی ہیں اٹھا کر لے جائیں۔
نمبر پانچ
یہ کہ یہود اس بات کا عہد کریں کہ وہ مخفی خزانوں کے تمام اموال کے متعلق مسلمانوں کو آگاہ کریں گے اور فاتحین کے سپرد کریں گے۔
نمبر چھ
یہ کہ یہود اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ جب وہ اس معاہدے کی شروط کی خلاف ورزی کریں یا کسی ایسی چیز کو چھپائیں جس کا ظاہر کرنا ضروری ہو تو مسلمانوں پر اس کی کوئی ذمہ داری نہ ہو گی اور مسلمان اس معاہدے کی تمام شروط سے آزاد ہوں گے اور یہودیوں کے اموال اور اولاد مسلمانوں کے لیے حلال ہو گی۔
(فتح خیبر از علامہ محمد احمد باشمیل صفحہ185-186 نفیس اکیڈمی کراچی)
خیبر کی فتح کے بعد یہود کا خیبر میں قیام اور یہود کی نصف پیداوار پر خیبر کے باغات دینے کا ذکر
بھی ملتا ہے۔لکھا ہے کہ معاہدے کے مطابق تو یہود کو شام کی طرف جلاوطن ہونا تھا مگر یہود نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ انہیں خیبر میں رہنے دیا جائے تا کہ وہ یہاں کی زراعت اور کھیتی باڑی کرتے رہیں کیونکہ وہ اس کے متعلق بہت کچھ جانتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے انہیں خیبر میں رہنے کی اجازت دے دی تا کہ وہ زراعت کا کام کریں اور اس کے عوض نصف پھل حاصل کریں۔ ان سے بڑی نرمی کا سلوک کیا۔ صحیح بخاری کی روایت میں اس کا ذکر یوں ملتا ہے کہ حضرت عبداللہؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر یہود کو دیا کہ وہ اس میں کام کریں اور وہاں کھیتی باڑی کریں اور ان کے لیے نصف ہے جو وہاں پیدا ہو۔
(فتح خیبر از علامہ محمد احمد باشمیل صفحہ57 نفیس اکیڈمی کراچی)
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب معاملۃ النبیﷺ اھل خیبر حدیث4248)
خیبر میں جو صحابہ شہید ہوئے ان کی تعداد سترہ ہے۔ ان کے نام یہ ہیں:
حضرت ربیعہ بن اَکثمؓ، ثَقف بن عمروؓ، حضرت رفَاعَہ بن مَسْرُوح ؓ، حضرت عبداللہ بن امیہؓ، حضرت محمود بن مَسْلَمَہ ؓ، حضرت ابو ضَیَّاح بن نعمانؓ، حضرت حارث بن حاطبؓ ، حضرت عدی بن مُرّةؓ، حضرت اوس بن حبیبؓ، حضرت اُنَیف بن وائلؓ، حضرت مسعود بن سعدؓ، حضرت بِشر بن براءؓ، حضرت فُضَیل بن نعمانؓ، حضرت عامر بن اَکْوَع، حضرت عمارہ بن عُقْبہؓ اور حبشی غلام حضرت یسارؓ، قبیلہ اَشْجع کا ایک شخص اس کا نام نہیں لکھا۔
یہود میں سے ترانوے افراد اس غزوے میں قتل ہوئے جن میں سے چند سرداروں کے نام ہیں: حارث، ابوزینب، مَرحب، اُسیر، یاسر، عامر، کِنانہ بن ابی الحُقیق۔
(طبقات الکبریٰ جلد 2صفحہ 82 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(کتاب المغازی جلد2 صفحہ160 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(امتاع الاسماع جلد1 صفحہ323 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(شرح زرقانی جلد3 صفحہ264 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
خیبر کے بعض متفرق واقعات بھی بیان ہوئے ہیں ان میں سے ایک واقعہ
کِنانہ بن ربیع کے قتل
کا ہے۔ تاریخ و سیرت کی کتب میں مذکور ہے کہ خیبر فتح ہونے کے بعد جب یہود کے ساتھ معاہدہ ہو گیا تو اس کے بعد لوگ کِنانہ اور اس کے بھائی ربیع کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے۔ کِنانہ پورے خیبر کا رئیس تھا اور حضرت صفیہؓ کا خاوند تھا اور ربیع اس کا چچا زاد بھائی تھا۔ کِنانہ کے پاس یہودی قبیلہ بنو نضیر کے سردار حُیی بن اخطب کا خزانہ تھا جس میں سونے چاندی کے زیورات وغیرہ تھے اور یہ زیورات اہل عرب کو ان کی شادی بیاہ کی تقریبات پہ اجرت پر دیا کرتے تھے۔ ان دونوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں کا وہ خزانہ کہاں ہے؟ انہوں نے کہا کہ جب ہم مدینہ سے نکلے تو اس کے بعد آہستہ آہستہ وہ سارا خرچ ہو گیا۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ انہوں نے کہا کہ اے ابوقاسم! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب ہو کے کہ ہم نے اسے اپنی جنگ میں خرچ کر دیا اور اب اس میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ ہم نے اس مال کو اس دن کے لیے ہی جمع کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ مدینہ سے نکلنے کا زمانہ کوئی بہت دور کا زمانہ نہیں کہ وہ سارا مال خرچ ہو جائے۔ ان دونوں نے اس بات پر قسم اٹھائی کہ ان کے پاس کچھ بھی مال نہ ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ خزانہ تم سے برآمد ہو گیا تو پھر تم سے اللہ اور اس کے رسول کا کوئی ذمہ نہ ہو گا۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ کو گواہ بنایا۔ اس وقت یہود کا ایک شخص اٹھا اور اس نے کِنانہ کے پاس جا کر کہا کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مانگ رہے ہیں اگر تمہارے پاس ہے تو انہیں دے دو۔یا اگر تمہیں پتہ ہے تو بتا دو کہ کہاں ہے تمہاری جان بچ جائے گی ورنہ اللہ کی قسم! وہ ضرور اس پر غالب ہو کر رہیں گے۔ابن ابی الحُقَیق نے اسے ڈانٹا اور وہ یہودی الگ ہو کر بیٹھ گیا۔ یہ ایک تاریخ کی کتاب میں لکھا ہے۔
(طبقات الکبریٰ جلد2 صفحہ86 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(تاریخ الخمیس جلد2 صفحہ415 دار صادر بیروت)
(کتاب المغازی جلد2صفحہ140 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا کہ اگر تم نے مجھ سے کوئی چیز چھپائی اور پھر مجھے معلوم ہو گیا تو میں تمہارے خون اور تمہاری اولادوں کو اس کی وجہ سے حلال سمجھوں گا۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ تاریخ کی ایک کتاب میں اس خزانے کا علم ہونے کی ایک روایت مختصر یوں بیان ہوئی ہے۔
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار میں سے ایک آدمی کو بلایا اور کہا کہ تم فلاں فلاں میدان میں جاؤ۔ پھر کھجوروں کے پاس آؤ پھر کھجوروں کو دائیں طرف سے یا بائیں طرف سے جو اونچی ہوں ان کو دیکھو جو کچھ وہاں ہو اس کو میرے پاس لے آؤ یعنی ان کے نیچے کیا ہے۔ اس خزانے کی قیمت لگائی گئی تو اس کی قیمت دس ہزار دینار لگی۔ وعدہ خلافی کی وجہ سے ان دونوں کو قتل کر دیا گیا اور ان کے اہل و عیال کو قید کر لیا گیا۔ یہ ایک روایت ہے۔
ایک روایت میں یہ بیان ہو اہے، کہاں تک صحیح ہے یہ بعد میں تجزیہ ہو گا۔ ایک اَور روایت میں یوں بیان ہوا ہے کہ ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کِنانہ کو لایا گیا اور اس کے پاس بنو نضیر کا خزانہ تھا۔ اس سے خزانے کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے انکار کر دیا۔
(طبقات الکبریٰ جلد2 صفحہ86 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(شرح زرقانی جلد3صفحہ266 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہود کا ایک آدمی لایا گیا اس کا نام ثَعْلَبہ تھا۔ بعض جگہ یہ ذکر ہے کہ سَعْیَۃ بِنْ سَلَّامْ بِنْ اَبُوْحُقَیْق کو بلا کر پوچھا اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ میں نے کِنانہ کو دیکھا کہ وہ ہر صبح ان کھنڈرات کے گرد گرد گھومتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثَعْلَبہ کے ساتھ حضرت زبیر بن عوام ؓاور چند مسلمانوں کو بھیجا جہاں ثَعْلَبہ نے کہا تھا۔ وہاں سے کھودا گیا تو اس سے خزانہ نکل آیا۔
ایک روایت میں یہ ہے کہ کچھ خزانہ مل گیا لیکن باقی نہ ملا اور کِنانہ نے بھی بتانے سے انکار کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر کو حکم دیا کہ کِنانہ کو سزا دو۔ حضرت زبیر چقماق کے پتھر لے کر آئے اور اس کے سینے پر مارتے جس سے آگ نکلتی۔ اور جب وہ مرنے کے قریب ہو گیا تب اس نے باقی خزانے کا بتایا اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کِنانہ کو محمد بن مَسْلَمَہ کے حوالے کر دیا کہ وہ اس کو قتل کر دے۔ چنانچہ محمد بن مَسْلَمَہنے اپنے بھائی محمود بن مَسْلَمَہجن پر چکی کا پاٹ گرایا تھا اور شہید ہو گئے تھے ان کے بدلے میں کِنانہ کو قتل کر دیا۔
بہرحال قتل تو کیا لیکن جس طرح یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اسوہ ہے اس کے خلاف لگتا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان دونوں بھائیوں کو قتل کر دیا اور ایک روایت کے مطابق کِنانہ کو محمد بن مَسْلَمہ نے قتل کیا۔ جبکہ اس کے دوسرے بھائی کو بِشْر بن براء کے گھر والوں کے سپرد کر دیا اور اسے بھی بِشْر بن براء کے بدلے میں قتل کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اموال کو حلال قرار دیا اور ان کی اولاد کو قیدی بنا لیا۔
یہ روایات جو ہیں تاریخ و سیرت کی معتبر کتب میں موجود ہیں جیسے تاریخ طبری،تاریخ الخمیس، طبقات ابن سعد، کتاب المغازی واقدی کی ہے، سیرت ابن ہشام،سیرت ابن اسحاق،سیرت حلبیہ اور زرقانی وغیرہ اور کِنانہ کو اسی وجہ سے قتل کرنے کا ذکر حدیث کی کتب سنن ابو داؤد میں بھی ہے لیکن
کِنانہ کے قتل کی مختلف وجوہات اور روایات بھی ملتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے قتل کی وجہ خزانے کی نشاندہی نہ کرنا نہیں تھی۔
(سیرت حلبیہ جلد3 صفحہ62 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(کتاب المغازی جلد2 صفحہ140 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(شرح زرقانی جلد3 صفحہ265 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(سیرت ابن ہشام صفحہ698 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(امتاع الاسماع جلد1صفحہ315 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(سنن ابوداؤد،كتاب الخراج والفيء والإمارة باب في حكم أرض خيبرَ،حدیث نمبر3006)
بہرحال خیبر کے اس واقعہ کو مستشرقین نے بھی اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے اور پھر اعتراض کرنے والوں نے اپنی عادت کے مطابق اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر اعتراض کیے ہیں۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مال اور دولت کی حرص تھی یا یہ ظاہر کرنا چاہا کہ نعوذ باللہ آپؐ کس کس طرح کے ظلم اور تشدد کیا کرتے تھے اور اعتراض کرنے والوں نے عقل و انصاف سے ذرا بھی کام نہیں لیا کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تو سب کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح تھی جو جنگ شروع کرنے سے پہلے سب کو حکم دیتے ہیں کہ خبردار !کسی بچے کو قتل نہ کرنا کسی عورت کو قتل نہ کرنا یہاں تک کہ درختوں کو بھی بے سبب نہ کاٹا جائے۔
(صحیح البخاری کتاب الجھاد والسیر باب قتل النساء فی الحرب حدیث 3015)(سنن الکبری للبیہقی جلد9صفحہ154حدیث18665مکتبہ الرشد)
جو جانوروں کو بھی کسی تکلیف میں دیکھنا پسند نہیں کرتے وہ انسانوں پر کیسے ظلم و تشدد کر سکتے ہیں۔
اسی طرح مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے جنگ کرنا ایک سراسر بے بنیاد الزام ہے اور جنگ خیبر تو وہ جنگ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے روانہ ہونے سے پہلے ہی اعلان فرما دیا تھا کہ جو مال غنیمت کی امید یا طمع لے کر شامل ہونا چاہے وہ ہمارے ساتھ نہیں جائے گا۔(سبل الھدیٰ والرشادجلد 5صفحہ115 دارالکتب العلمیۃ بیروت) اس کی تفصیل پہلے بیان ہو چکی ہے۔
جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ اور اسوہ یہ ہو کہ اس کے متعلق جب ایسی روایات سامنے آئیں تو انصاف کا تقاضا ہے کہ ہم اچھی طرح ان روایات کو دیکھ لیں ان کی چھان پھٹک کر لیں اور بیشک پہلی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہر حدیث اور ہر روایت کو جہاں تک ممکن ہو احترام کی نظر سے دیکھا جائے اور جس حد تک ہو سکے ان کے مضامین کی اگر کوئی توجیہ ہو سکتی ہے تو کی جائے لیکن بہرحال
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس اور آپؐ کی عزت سب سے مقدم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو عدل و انصاف کے پیکر تھے۔ رحمۃ للعالمین تھے۔ ہر وہ روایت جو اس کے منافی ہو وہ قابل قبول نہیں ہو سکتی
جبکہ مؤرخین اور اصحاب سیر یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ سینکڑوں ہزاروں احادیث اور روایات بعد کے لوگوں نے خود سے گھڑ لی ہوئی ہیں اور یہ بھی مَسْلَمَہ حقیقت ہے کہ اس سازش میں یہود کا بھی دخل رہا ہے کہ وہ غلط روایتیں پیش کرتے تھے۔
پھر یہی واقعہ جو کہ کِنانہ اور اس کے بھائی کے قتل کا بیان ہو رہا ہے اس کا ہماری ریسرچ ٹیم نے بھی بڑا اچھا تجزیہ کیا ہے اور روایات کی روشنی میں جوبیان کیا ہے اور مستشرقین نے جو اعتراض کیا ہے اس کا جواب دیا ہے۔ بڑا اچھا جواب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کی اندرونی شہادت بتا رہی ہے کہ بیان کرنے والوں کو جگہ جگہ بیان کرنے میں غلطی لگی ہے۔ وہ بھول رہے ہیں اور مختلف باتوں کو ملا جلا رہے ہیں۔ اگر کوئی ایسا واقعہ ہوا بھی ہے تو ایک چھوٹی سی بات کو بہت بڑھا چڑھا کر مبالغہ آمیزی کے ساتھ منفی رنگ میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً جب یہود کے ساتھ معاہدہ ہو گیا اور ہر قسم کی شرائط طے کرنے کے بعد صلح نامہ تحریر ہو گیا تو پھر کسی خزانے کی طلب بظاہر عجیب سی لگتی ہے کیونکہ معاہدے کی رو سے یہود کی کسی بھی چیز پر تصرف اور ملکیت ختم ہو گئی تھی سوائے خیبر کی اراضی وغیرہ کے۔ پھر اگر وہ خزانہ مل گیا تھا جیسا کہ روایات میں مذکورہے تو وہ خزانہ کہاں گیا؟ خیبر کا جو بھی مالِ غنیمت تقسیم ہوا اس کی تمام تفاصیل کتب تاریخ و سیرت میں موجود ہیں۔ گھی، چربی،کھجور،کپڑے،سامان،مویشی، نیزے،تلواریں، تیر، ڈھالیں وغیرہ۔ لیکن کہیں کسی جگہ یہ ذکر نہیں کہ فلاں کو اتنا سونا چاندی یا ہیرے جواہرات ملے بلکہ اس کے برعکس یہ لکھا ہوا ملتا ہے کہ خیبر کے اموالِ غنیمت میں کسی قسم کا کوئی سونا چاندی نہیں ملا۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔
خزانے کی تلاش کے لیے جو تفتیش کی گئی ہے ان روایات میں سخت اختلاف و اضطراب ہے۔ کسی روایت میں ہے کہ کِنانہ سے پوچھا، کسی میں ہے کہ کِنانہ اور اس کے بھائی دونوں کو بلایا گیا، کسی میں ہے کہ ان کے ساتھ ایک یہودی سے پوچھا گیا، کسی میں ہے کہ حُیَیّ کے چچاسے پوچھا گیا۔ پھر اس ساری تفتیش کے بعد اگر سزا دینی چاہیے تھی تو بہت سے مجرم قرار پاتے تھے لیکن روایات کے مطابق صرف دو کو سزا دی گئی یعنی کِنانہ اور اس کا بھائی۔ بعض روایات کے مطابق صرف کِنانہ کو سزا دی گئی۔ بخاری میں لکھا ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں خیبر سے یہود کی جلا وطنی کا ارادہ کیا تو اس وقت آپؓ کے پاس ابوالحُقَیق کا ایک بیٹا آیا۔ شارح بخاری علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ کِنانہ کا یہ بھائی حضرت عمرؓ کے عہد تک زندہ رہا اور جلا وطنی تک خیبر میں ہی مقیم تھا۔ اس لیے یہ بھی بات غلط ہو گئی بھائی کے قتل کی۔ بعض سیرت نگار بخاری کی اس روایت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ صرف کِنانہ کو ہی سزا دی گئی تھی۔
(ماخوذ از فتح الباری شرح صحیح البخاری حدیث2730 جلد5صفحہ411مطبوعہ قدیمی کتب خانہ)
(سیرت النبی ﷺ ازشبلی جلد اول صفحہ333مکتبہ اسلامیہ)
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوہ خیبر حدیث4234)
بہرحال یہ ساری جو باتیں بیان کی گئی ہیں، جو تضادات تھے اس کی وجہ سے ایسی تمام روایات جن میں کسی خزانے کے حصول کے لیے بدنی سزا کا ذکر ہے مشتبہ قرار پاتی ہیں جن میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت ہی درست نہیں ہے۔ چنانچہ ایک معروف سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی یہ لکھتے ہیں کہ خیبر کے واقعات میں اربابِ سیر نے، سیرت لکھنے والوں نے ایک سخت غلط روایت نقل کی ہے اور وہ اکثر کتابوں میں منقول ہو کر متداول ہو گئی ہے یعنی اس کو مان لیا گیا ہے اور روایتوں میں شامل کر لی گئی ہے یعنی یہ کہ اول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو اس شرط پر امن و امان دیا تھا کہ کوئی چیز نہ چھپائیں گے لیکن جب کِنانہ بن ربیع نے خزانہ بتانے سے انکار کیا تو آپؐ نے حضرت زبیرؓ کو حکم دیا کہ سختی کر کے اس سے خزانہ کا پتہ لگائیں۔ حضرت زبیرؓ چقماق چلاکر اس کے سینے کو داغتے تھے یہاں تک کہ اس کی جان نکلنے کے قریب ہو گئی۔ بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کِنانہ کو قتل کرا دیا اور تمام یہودی لونڈی، غلام بنا لیے گئے۔ اس روایت کا اس قدر حصہ صحیح ہے کہ کِنانہ قتل کر دیا گیا لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ خزانہ بتانے سے انکار کر تا تھا بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ کِنانہ نے محمود بن مَسْلَمَہ کو قتل کیا تھا۔ طبری میں تصریح ہے کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کِنانہ کو محمد بن مَسْلَمہ کے حوالے کیا انہوں نے اپنے بھائی محمود بن مَسْلَمہ کے قصاص میں اس کو قتل کر دیا۔ باقی روایت کا یہ حال ہے کہ یہ روایت طبری اور ابن ہشام دونوں نے ابن اسحاق سے روایت کی ہے لیکن ابن اسحاق نے اوپر کے کسی راوی کا نام نہیں بتایا۔ محدثین نے رجال کی کتابوں میں تصریح کی ہے کہ ابن اسحاق یہودیوں سے مغازی نبوی کے واقعات روایت کرتے تھے۔ بہت سی روایتیں یہودیوں سے انہوں نے لی ہیں۔ اس روایت کو بھی انہی روایتوں میں سے سمجھنا چاہیے اور یہودی کبھی صحیح بات نہیں بتائیں گے اور یہی وجہ ہے کہ ابن اسحاق ان راویوں کے نام نہیں لیتے۔ کسی شخص پر خزانہ بتانے کے لیے اس قدر سختی کرنا کہ اس کے سینے پر چقماق سے آگ جھاڑی جائے رحمۃ للعالمین کی شان اس سے بہت ارفع ہے۔ وہی شخص جو زہر دینے والے سے مطلق تعرض نہیں کرتا اس کو سزا نہیں دیتا کیا چند سکوں کے لیے کسی کو آگ میں جلانے کا حکم دے سکتا ہے؟ اصل واقعہ اس قدر تھا کہ کِنانہ کو اس شرط پر امان دی گئی تھی کہ کسی قسم کی بدعہدی اور خلاف بیانی نہ کرے گا بلکہ روایت میں ہے کہ اس نے یہ بھی منظور کیا تھا کہ اگر اس کے خلاف اس نے کچھ کیا تو وہ قتل کا مستحق ہو گا۔ کِنانہ نے بدعہدی کی اور جو امن اس کو دیا گیا تھا ٹوٹ گیا۔ کِنانہ نے محمود بن مَسْلَمَہ کو قتل کیا تھا اب اس کے قصاص میں وہ قتل کر دیا گیا۔ پہلے تو شاید معاف ہو جاتا لیکن جو ایک اَور جگہ بدعہدی کی اس نے اس کی وجہ سے اس کو سزا ملی۔
(سیرت النبی ﷺ ازشبلی نعمانی جلد اول صفحہ 284-285مکتبہ اسلامیہ)
موجودہ زمانے کے ایک احمدی مصنف سید برکات احمد صاحب اپنی تصنیف رسول اکرم اور یہودِ حجاز میں لکھتے ہیں کہ ابن اسحاق نے بغیر کسی سند کے ایک قصہ بیان کیا ہے اور یہ حقائق بداہتا ًغلط ہے۔ اوّل تو تعذیب اور وہ بھی آگ کی تعذیب اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ دوسرے یہ کہ پورے خیبر کے مال غنیمت میں اس برآمدشدہ خزانے کی تقسیم کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ نہ ہی اس خزانے کی بیت المال میں داخل ہونے کی کوئی روایت موجود ہے۔ ابن اسحاق ہی نہیں بلکہ دوسرے قدیم ترین ماخذ میں بھی خیبر کے مال غنیمت میں نقدی سونا چاندی یا اس قسم کے دوسرے قیمتی سامان کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ ساری روایات اجناس، کپڑے یا اسلحے سے متعلق ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ جو خیبر کی جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہتے تھے کہ ہم نے خیبر تو فتح کیا لیکن مال غنیمت میں ہمیں سونا چاندی نہیں ملا۔
(رسول اکرم ؐاور یہود حجاز مترجم صفحہ162-163مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نیو دہلی)
خلاصہ یہ کہ کِنانہ بن ربیع قتل ہوا لیکن اس کے قتل کا سبب ایک مسلمان سپہ سالار کا قتل تھا جس کے قصاص میں وہ خود قتل ہوا۔ پس یہ ہے اصل حقیقت۔
یہ واقعات آگے چل رہے ہیں۔ یہاں انہی واقعات میں ایک یہودی عورت کا ذکر بھی ہے جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دینے کی کوشش کی آپؐ کے خلاف سازش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو محفوظ رکھا۔ کیونکہ لمبا واقعہ ہے اس کی تفصیل ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔
اس وقت میں
ایک مرحوم کا ذکر
کرنا چاہتا ہوں اور پھر ان کا جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔
ماسٹر منصور احمد صاحب کاہلوں ابن شریف احمد صاحب کاہلوں
جو آجکل آسٹریلیا میں تھے۔ گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ مرحوم چودھری سردار خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آف چہور صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے تھے۔ تعلیم ربوہ میں پائی بچپن سے خدمت دین کی توفیق پانے کا شرف حاصل رہا۔ سندھ میں بشیر آباد تعلیم الاسلام ہائی سکول سے ملازمت کا آغاز کیا۔ تقریباً چونتیس سال تدریس کے شعبہ سے منسلک رہے۔ بشیر آباد میں بھی ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ خدام الاحمدیہ کے قائد بھی تھے، صدر جماعت بھی رہے، جوبلی فنڈ کے خدمت کی توفیق ملی۔ جنرل سیکرٹری کے طور پر بھی ان کو حیدرآباد میں اٹھارہ سال کام کی توفیق ملی پھر تیرہ سال امیر ضلع حیدرآباد اور امیر مقامی کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ ان کا یہ طریقہ تھا کہ اپنے کام سے ملازمت سے فارغ ہو کر فوری طور پر مسجد آ جایا کرتے تھے اور وہاں سارے کام کرتے تھے اور مغرب کی نماز کے بعد گھر جاتے تھے بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ دیر ہو جاتی تھی۔
خلافت سے والہانہ لگاؤ تھا ہر آواز پر لبیک کہنے والے غریب پرور انسان، مہمان نواز، ہمدرد، بہت سخی تھے۔ بہت سارے عزیزوں کو اپنے گھروں میں رکھ کر تعلیم دلوائی۔ ان کے شاگردوں میں مربیان بھی ہیں، ڈاکٹر بھی ہیں، انجنیئر بھی ہیں ملکوںملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مرحوم موصی تھے۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی اور پانچ بیٹے شامل ہیں۔
مبشر احمد صاحب گوندل جو یہاں کارکن دفتر امیر صاحب یوکے ہیں، ان کے یہ ہم زلف تھے۔
ان کے بیٹے اسامہ کہتے ہیں جب سے ہوش سنبھالا اپنے والد کا مسجد سے اور جماعت سے ایک مضبوط تعلق دیکھا۔ شاذ ہی مسجد جانے سے ناغہ کیا ہو۔ دفتر میں باقاعدہ موجود ہوتے۔ بغیر کسی اشد مجبوری کے کبھی یہ نہیں ہوا کہ دفتر جانے سے ناغہ کریں اور جماعت کے ممبران کو بھی پتہ تھا کہ یہ مسجد میں ملیں گے۔ مرکزی مہمانوں کی بہت عزت افزائی کرتے تھے خدمت کرتے تھے۔ آسٹریلیا شفٹ ہو گئے۔ حالات کی وجہ سے شفٹ ہوئے تھے تو یہاں آنے کے بعد بھی جماعتی خدمت کرتے رہے اور ہر مالی تحریک میں نہ صرف آسٹریلیا میں بلکہ پاکستان میں بھی حصہ لیتے رہے۔ آسٹریلیا میں بھی اپنا حلقہ احباب وسیع کیا۔ بڑی جلدی لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ آسٹریلیا میں لوکل جماعت میں سیکرٹری تعلیم القرآن تھے اور سیکرٹری تربیت کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ بڑے عاجز اور خدمت کرنے کے جذبہ سے سرشار تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے، ان کے بچوں کو بھی ان کی یہ نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔
(الفضل انٹرنیشنل۷؍ مارچ ۲۰۲۵ء، صفحہ۲تا۶)