غزوۂ خیبرکےتناظر میں سیرت نبویﷺ کا بیان۔ خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍فروری ۲۰۲۵ء
٭…یہود بری طرح شکست کھانے کے بعد نبی کریمﷺ کی رحمت و شفقت سے اس طرح فیض یاب ہوئےکہ
نہ صرف نبی کریمﷺ نےانہیں معاف کردیا بلکہ انہیں خیبر میں رہنے کی بھی اجازت دے دی
٭… بعض سادہ لوح مسلمان اس زہر سے آنحضرتﷺ کی شہادت ثابت کرنے کی کوشش کر تے ہیں۔ آنحضورﷺ کی وفات ہرگز ہرگز اس زہر کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی۔ صرف ایک تکلیف کا احساس تھا۔
٭…حضرت صفیہؓ سے شادی پر مستشرقین کے اعتراضات کے جواب
٭… دو دن بعد رمضان بھی شروع ہو رہا ہےخدا تعالیٰ ہر ایک کو رمضان سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے، اس کے لیے دعا بھی کریں اور کوشش بھی کریں
٭… مکرم چودھری محمد انور ریاض صاحب آف ربوہ کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۸؍فروری ۲۰۲۵ء بمطابق ۲۸؍ تبلیغ ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۲۸؍فروری۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعدحضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ
آنحضرتﷺ کی سیرت کے حوالے سے خیبر کی جنگ میں آپؐ کا کیا اُسوہ تھا،یہ ذکر ہورہا تھا۔
جنگ کے بعد
یہود کی طرف سے نبی کریمﷺ کو قتل کرنے کی سازش کی گئی تھی،
اور بکری کا زہرآلود گوشت کھلانے کی کوشش کی گئی تھی۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب خیبر فتح ہوگیا اوریہود بری طرح شکست کھانے کے بعد نبی کریمﷺ کی رحمت و شفقت سے اس طرح فیض یاب ہوئے کہ نہ صرف نبی کریمﷺ نے انہیں معاف کردیا بلکہ انہیں خیبر میں رہنے کی بھی اجازت دے دی۔ جب لوگ مطمئن ہوگئے تو ایک روز یہود کے سردار سلام بن مشکمکی بیوی زینب بنت حارث نے آنحضرتﷺ کی خدمتِ اقدس میں بکری کا گوشت پیش کیا اور کہا کہ آپؐ کے لیے ہدیہ لائی ہوں۔ اس سازش میں یہ اکیلی عورت شامل نہ تھی بلکہ کچھ اور لوگ بھی تھے۔ آنحضرتﷺ کے حکم پر وہ گوشت آپؐ کے سامنے رکھ دیا گیا اور وہاں بعض دیگر صحابہ ؓبھی موجود تھے۔ جن میں حضرت بِشر بن براء ؓبھی تھے، آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ قریب آجاؤ اور پھر آپؐ نے اُس میں سے دستی کا گوشت اٹھایا اور اس میں سےتھوڑا سا ٹکڑا لیا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اپنے ہاتھ روک لو کیونکہ یہ دستی کا گوشت بتارہا ہے کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے۔ حضرت بِشر بن براء ؓنے عرض کیا کہ جب مَیں نے اسے کھایا تو مجھے کچھ محسوس ہوا تھا ، مگر مَیں نے اس لیے کچھ نہیں بولا کہ آپؐ کا کھانا خراب ہوگا۔ مگر جب آپؐ نے لقمہ اُگل دیا تو مجھے خود سے زیادہ آپؐ کا خیال آیا لیکن مجھے خوشی ہوئی کہ آپؐ نے اسے نگلا نہیں بلکہ اُگل دیا۔
حضرت بِشرؓ ابھی اپنی جگہ سے اٹھے نہ تھے کہ اُن کے جسم کی رنگت تبدیل ہونا شروع ہوگئی، اور پھر اس قدر بیمار ہوگئے کہ خود سے کروٹ بھی نہ لے سکتے تھے۔ تقریباً ایک سال کے بعد آپؓ کی وفات ہوگئی، بعض روایات کے مطابق حضرت بِشرؓ اپنی جگہ سے اٹھنے ہی نہ پائے تھے کہ آپؓ کی وفات ہوگئی۔
آنحضرتﷺ نے اُس عورت کو بلابھیجا اور پوچھا کہ کیا تُو نے اس گوشت میں زہر ملایا تھا؟ اس عورت نے کہا کہ آپؐ کو کس نے خبر دی؟ آپؐ نے فرمایا کہ مجھے اس دستی کے گوشت نے خبر دی ہے جو میرے ہاتھ میں ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تجھے کس نے یہ کام کرنے کے لیے کہا تھا؟ اس عورت نے جواب دیاکہ آپ نے جو کچھ میری قوم کےساتھ کیا ہے وہ آپ پر مخفی نہیں ہے۔ مَیں نے یہ سوچا کہ اگر آپ بادشاہ ہیں تو ہم آپ سے نجات پالیں گے اور اگر آپ نبی ہیں تو آپ کو خبر دے دی جائے گی۔ آپؐ نے اس عورت سے درگزر فرمایا۔ جبکہ ایک اور روایت کے مطابق بشر بن براء ؓکی شہادت کے بعد آپؐ نے فرمایا کہ اس عورت کو قتل کردو اور اسے قتل کردیا گیا۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق اس عورت کو قتل نہیں کیا گیا تھا۔
صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ سے مروی ایک روایت کے مطابق آنحضورﷺ مرض الموت میں فرمایا کرتے تھے کہ اے عائشہ! مَیں اُس کھانے کی تکلیف جو مَیں نے خیبر میں کھایا تھا ہمیشہ محسوس کرتا رہا ہوں اور اب بھی اُس زہرسے مَیں اپنی رگیں کٹتی ہوئی محسوس کرتا ہوں۔ بعض مفسرین نے اسی وجہ سے آپؐ کے لیے کہا ہے کہ آپؐ کی وفات خیبر کے اس زہر کی وجہ سے ہوئی اور یوں آپؐ شہید ہوئے اور یہ کہ آپؐ شہیدِ اعظم ہیں۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ
نبی کریمﷺ کے لیے اس تکلّف کی کوئی ضرورت نہیں۔
نبی تو اس مقام و مرتبے کا حامل ہوتا ہے کہ وہ صدیق بھی ہوتا ہے، شہید بھی ہوتا ہے ۔
پھر یہ کہ یہود نے تو اس زہر سے بچ جانے کو معجزہ سمجھا اور اس بات کا ثبوت سمجھا کہ آنحضرتﷺ جھوٹے نبی نہیں ہیں، مگر
بعض سادہ لوح مسلمان اس زہر سے آنحضرتﷺ کی شہادت ثابت کرنے کی کوشش کر تے ہیں۔ آنحضورﷺکی وفات ہرگز ہرگز اس زہر کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی۔ صرف ایک تکلیف کا احساس تھا۔
خیبر کی جنگ میں
حضرت صفیہؓ سے شادی کا بھی ذکر ملتا ہے۔
خیبر میں جب جنگی قیدیوں کو اکٹھا کیا گیا تو حضرت دحیہؓ آئے اور عرض کیا کہ مجھے اِن قیدیوں میں سے ایک لڑکی دے دیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ جاؤ! ایک لڑکی لے لو۔ حضرت دحیہؓ نے حیی بن اخطب کی بیٹی صفیہ ؓکو لے لیا۔ اس پر ایک شخص آپؐ کے پاس آیا اور کہا کہ آپؐ نے حیی بن اخطب کی بیٹی دحیہ کو دے دی وہ تو بنو قریظہ اور بنو نضیر کی شہزادی ہے اور وہ آپؐ کے علاوہ کسی اَور کے لیے مناسب نہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اُسے بلا لاؤ، پھر آپؐ نے دحیہؓ سے فرمایا کہ اس کے علاوہ کسی اَور کو لے لو۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے صفیہ ؓکو آزاد کردیا ۔ مسند احمد بن حنبل کی روایت میں ذکر ہے کہ
آپؐ نے حضرت صفیہ ؓکو آزاد کرتے ہوئے فرمایا کہ مَیں تمہیں آزاد کرتا ہوں چاہو تو مجھ سے شادی کرلو اور چاہو تو اپنے قبیلے کی طرف واپس چلی جاؤ۔ جس پر حضرت صفیہؓ نے آنحضرتﷺ سے شادی کو پسند کیا۔
خیبر کے تمام معاملات سے فارغ ہوکر آپؐ وہاں سے روانہ ہوئے اور چھ میل کا فاصلہ طے کرکے آپؐ نے قیام کرنا چاہا تاکہ حضرت صفیہؓ سے شادی کی تکمیل ہوسکے۔ مگر حضرت صفیہؓ کی خواہش پر آپؐ نے سفر جاری رکھا اور کوئی بارہ میل کے فاصلے پر پڑاؤ کیا اور وہاں حضرت صفیہؓ سے شادی ہوئی۔
حضرت صفیہؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضورﷺ خیبر کے بہت قریب قیام کرنا چاہتے تھے اور مجھے خطرہ تھا کہ میری قوم کہیں آپؐ کو نقصان نہ پہنچائے اس لیے مَیں نے وہاں رکنے کی بجائے تھوڑے فاصلے پر رکنے کی درخواست کی۔
جب آنحضورﷺ صبح اپنے خیمے سے باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ تلوار تھامے پوری مستعدی کے ساتھ خیمے کےباہر کھڑے ہیں۔ پوچھنے پر حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! مجھے اس نَو مسلم خاتون یعنی حضرت صفیہؓ کے بارے میں خوف محسوس ہوا کہ اس کا باپ ، خاوند اور قوم کے لوگ قتل ہوئے ہیں اور یہ ابھی نئی نئی مسلمان ہوئی ہے اس لیے مَیں نے سوچا کہ کہیں یہ آپؐ کو کوئی نقصان نہ پہنچائے اس لیے مَیں باہر تلوار لیے پہرہ دیتا رہا۔ حضرت ابو ایوبؓ کی اس معصومانہ محبت پر آپؐ نے انہیں دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ
یا اللہ! ابو ایوب کی حفاظت فرما جیسے انہوں نے میری حفاظت کرتے ہوئے رات بسر کی۔
اگلے روز آنحضورﷺ کے ولیمے کا اہتمام ہوا یہ ولیمہ نہایت سادہ اور باوقار تھا۔ تین دن قیام کے بعد یہاں سے روانہ ہوئے، حضرت صفیہؓ کی آزادی اُن کا حق مہر قرار پایا۔
یہاں
حضرت صفیہؓ کے ایک خواب کا بھی ذکر ملتا ہے
جس کی تفصیل یہ ہے کہ آنحضورﷺ نے حضرت صفیہؓ کی آنکھ کے گرد نِیل کا نشان دیکھا تو پوچھا کہ یہ نشان کیسا ہے؟ حضرت صفیہؓ نے بتایا کہ آپؐ کی آمد سے چند روز قبل مَیں نے خواب دیکھا تھا کہ یثرب کی طرف سے چاند آیا ہے اور میری جھولی میں گِر گیا ہے۔ جب مَیں نے یہ خواب اپنے خاوند کنانہ کو بتایا تو اس نے مجھے زوردار تھپڑ رسید کیاا ور کہا کہ تم یثرب کے بادشاہ یعنی رسول اللہﷺ کے ساتھ شادی کے خواب دیکھ رہی ہو۔
حضرت صفیہؓ نے پچاس ہجری میں وفات پائی اور جنّت البقیع میں تدفین ہوئی۔
حضرت صفیہ ؓکی شادی پر مستشرقین اعتراض کرتے ہیں۔اس حوالے سے حضور انور نے مفصل جواب ارشاد فرماتے ہوئے علاوہ دیگر امور کے حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ کا ایک ارشاد بھی پیش فرمایا کہ ملکِ عرب میں دستور تھا کہ مفتوحہ ملک کے سردار کی بیٹی یا بیوی سے ملک میں امن و امان قائم رکھنے اور اِ س ملک کے لوگوں سے محبت پیدا کرنے کے لیے شادیاں کیا کرتے تھے۔ تمام رعایا اور شاہی خاندان والے مطمئن ہوجایا کرتے تھے۔
خطبے کے آخر میں حضورِانور نے فرمایا کہ
دو دن بعد رمضان بھی شروع ہو رہا ہےخدا تعالیٰ ہر ایک کو رمضان سے
بھرپور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے، اس کے لیے دعا بھی کریں اور کوشش بھی کریں۔
اس کے بعد حضورانور نے مکرم چودھری محمد انور ریاض صاحب ابن مکرم چودھری محمد اسلام صاحب کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔ مرحوم کی گذشتہ دنوں وفات ہوئی ہے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے بیٹے مکرم ناصر محمود طاہرصاحب امیرو مشنری انچارج کینیا ہیں۔ مرحوم کو اسیرِ راہِ مولیٰ رہنے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔ نمازوں اور چندوں میں باقاعدہ، نظامِ جماعت کے پابند نیک اور صالح طبیعت کے مالک تھے۔
٭…٭…٭