یادِ رفتگاں

حضرت استانی میمونہ صوفیہ صاحبہؓ

آپ یکم جنوری ۱۹۰۰ء کو سہارنپور میں حضرت چودھری حبیب احمد صاحبؓ کے ہاں پیدا ہوئیں۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیدائشی احمدی تھیں۔ ۷؍سال کی عمر میں پہلی بار قادیان آئیں تو آپ کو قادیان کا ماحول اتنا پسند آیا کہ پھر یہی دعا کرتی رہیں کہ خدا کسی طرح قادیان لے جائے خواہ یہاں کے کسی غریب آدمی سے شادی ہو جائے۔

اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی اور ۱۵؍ سال کی عمر میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓکے شاگرد حضرت مولوی غلام محمد صاحبؓ سے آپ کی شادی ہوئی اور آپ مستقل قادیان آگئیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا۔

خوش الحانی سے تلاوت کرنا آپ کا شوق تھا۔ اَن گنت لڑکیوں کو قرآن مجید پڑھایا۔آپ بہت سادہ مزاج، عبادت گزار، شب بیدار اور بہت دعائیں کرنے والی خاتون تھیں۔ عاجزی و انکساری، ثابت قدمی اور توکّل الی اللہ بہت تھا ۔ جوانی میں بیوہ ہوئیں لیکن اپنی محنت سے کما کر اپنے اخراجات پورے کیے۔ کبھی کسی سے مدد لینا گوارہ نہ تھا۔ اولاد کی نیک تربیت کی، ایک بیٹا ہونے کے باوجود اُسے دین کی خاطر وقف کردیا۔ خلافت کا بے حد احترام تھا۔ خلافت اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت محبت اور عقیدت تھی۔ کوئی اعتراض برداشت نہ کر تی تھیں۔

آپ خدمت خلق کے کاموں میں بھی بھرپور حصہ لیتی تھیں۔غریب بچیوں کی تعلیم و تربیت اور شادیاں کروانے کا جنون تھا۔ غرباء کی مدد اس طرح کرتیں کہ ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے ہاتھ کو علم نہ ہونے دیتیں۔ بے شمار مستحقین کے خاموشی سے وظائف جاری کیے۔ اپنے عزیزوں کو اس کارِ خیر میں شامل کرتیں لیکن برملا کہتی تھیں کہ میں مستحق کا نام نہیں بتاؤں گی ، مدد کر سکتے ہو تو کرو، ورنہ اللہ مالک ہے۔

تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان آنے سے پہلے اپنے میاں کے رشتہ داروں کو اپنی زمین اور اس کے کاغذات دے آئیں اور پاکستان آکر اس کے عوض میں کچھ نہ لیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ قربانی قبول فرمائی اور بدلے میں بہت نوازا۔

آپ کے بیٹے مکرم غلام احمد عطاءصاحب ایک بار سخت بیمار ہو گئے اور بچنے کی کوئی امید نہ رہی۔ آپ نے بہت دعائیں کیں تو خواب میں دیکھا کہ ان کو ذبح کر رہی ہیں۔ آنکھ کھلتے ہی ظاہری قربانی بکرا ذبح کرکے تو کردی لیکن حضرت مصلح موعود ؓ کے ارشاد کے مطابق انہیں وقف بھی کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قربانی قبول فرمائی اور وہ صحت یاب ہوگئے اور انہوں نے تادمِ آخر اس وقف کو احسن طریق سے نبھایا۔

جماعتی خدمات

۱۹۱۸ءمیں مدرسۃ البنات قادیان میں ملازمت اختیار کی۔ ۱۹۳۰ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ آپ لجنہ اماءاللہ کی پہلی سیکرٹری مال تھیں اور ۱۹۲۲ء سے ۱۹۶۱ءتک اسی حیثیت سے کام کرتی رہیں۔ ۱۹۳۹ء میں خلافت جوبلی کے موقع پر آپ ان خوش نصیب خواتین میں شامل تھیں جنہوں نے سوت کات کر لوائے احمدیت تیار کیا۔ ۱۹۴۴ءمیں وقفِ جائیداد کی تحریک پر آپ نے اپنے مکان کا تین چوتھائی حصہ پیش کر دیا۔ ستمبر ۱۹۴۷ءمیں لجنہ اماءاللہ کراچی کی صدر منتخب ہوئیں۔ ۱۹۵۲ء میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی انسپکٹرس مقرر ہوئیں۔ مختلف مجالس لجنہ کے دورے کیے اور نئی مجالس قائم کیں۔ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا قائم کردہ جنرل سٹور بھی چلایا۔ ۱۹۶۱ءمیں محاسبہ مقرر ہوئیں۔لجنہ مرکزیہ کے دفتر کی بنیاد میں بھی آپ نے اینٹ رکھی۔

۱۹؍جون ۱۹۸۰ ءکو قریباً ۸۰ سال کی عمر میں بھرپور زندگی گزارنے کے بعد اپنے مولائے حقیقی سے جاملیں۔اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ آمین

(رضیہ فرحین۔ قادیان)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: رائے ظہور احمد ناصر صاحب

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button