رمضان المبارک(قسط اوّل)
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ فرمودہ۱۲؍مئی ۱۹۲۲ء)
۱۹۲۲ء میں ارشادفرمودہ اس خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے سورۃ البقرہ کی آیت ۱۸۴ کی روشنی میں روزے اور نمازکے فلسفے کو عام فہم انداز میں بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)
صلوٰۃ کے فعل میں حرکت پائی جاتی ہے اور صَوم کے معنی میں رکنا پایا جاتا ہے۔ نماز قائم مقام ہے
ان باتوں کی جو کرنے کی ہیں اور روزہ قائم مقام ہے ان باتوں کا جو نہ کرنے کی ہیں۔… ان دونوں سے تقویٰ اﷲ پیدا ہوتا ہے۔ جب تک یہ دونوں طرح کے احکام نہ بجا لائے جائیں تقویٰ اﷲ نہیں پیدا ہو سکتا
حضورؓ نے تشہد، تعوّذ اور سورہ فاتحہ اور آیت شریفہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ (البقرہ:۱۸۴)کی تلاوت کے بعد فرمایا:
میں نے پچھلے خطبہ میں یہ بات بیان کی تھی کہ احکامِ الٰہیہ انسان کے نفع کے لیے ہیں۔ یعنی ان کی غرض انسان سے کچھ لینا نہیں ہوتا بلکہ کچھ دینا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس آیت میں بھی جو میں نے پڑھی ہے
روزوں کے فرض کرنے کی وجہ بتائی گئی کہ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ تا کہ متقی ہو جاؤ۔ روزہ سے تم لوگوں کا متقی بنا دینا غرض ہے۔
روزے کس طرح متقی بنا دیتے ہیں؟ اور تقویٰ کیا چیز ہے؟ ان دو سوالوں کے حل ہونے سے یہ آیت حل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جب کسی چیز کی تعریف معلوم ہو جائے تو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ اگر یہ معلوم نہ ہو کہ روٹی کیا چیز ہے تو کسی کے یہ کہنے سے کہ آگ جلاؤ روٹی پکائیں۔ آگ جلانے اور روٹی پکانے کا تعلق معلوم نہ ہو گا۔ فرض کرو کہ جوتی یا کپڑے کا نام روٹی ہوتا تو یہ کہنے پر کہ آگ لاؤ روٹی پکائیں۔ واقف یہ کہنے والے پر ہنسیں گے۔ پس اگر کسی چیز کی تعریف معلوم نہ ہو تو اُس سے تعلق رکھنے والی باتوں کو نہیں سمجھ سکتے اور یہ نہیں معلوم کر سکتے کہ فلاں چیز فلاں چیز کے ذریعہ سے کس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی کہے کہ قینچی لاؤ روٹی پکائیں۔ تو ناواقف سمجھیں گے کہ قینچی کا روٹی پکانے سے تعلق ہو گا۔ لیکن اگر کسی کو معلوم ہو کہ روٹی پکانے کے لیے پہلے آٹا گوندھتے ہیں پھر آگ جلاتے ہیں تو وہ کہے گا کہ قینچی کا روٹی پکانے سے تعلق نہیں۔ روٹی تو آٹا گوندھ کر آگ پر پکائی جاتی ہے۔
پس ہمیں پہلے مقصد معلوم ہونا چاہیے پھر تطابق معلوم ہوجائے گا۔ اس لیے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ کس طرح روزوں سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔
اِس آیت کا مفہوم بیان کرنے سے پہلے ضرورت ہے کہ یہ بیان کیا جائے کہ اتقاء کیا ہے۔
اتقاء وقیٰ سے نکلا ہے۔ وقیٰ کے معنی ہیں کسی چیز کو محفوظ کر دینا، بچا دینا۔ اس کے اور ضرر رساں چیزوں کے درمیان روک ہو جائے یا کسی کی اصلاح کر دینا، اسے خرابی اور نقص سے بچا دینا۔
یہ وقیٰکے معنی ہیں۔ کوئی چیز جو اپنی ذات میں بگڑنے کے اسباب رکھتی ہو اُن سے اس کو بچا دینا۔ یا ایسی چیزوں سے بچا دینا جو اسے خراب کرنے والی ہوں۔اتقاء کے معنی ہیں اپنے اندر یہ بات پیدا کرنا یعنی وقیٰکے جو معنی ہیں وہ اپنے اندر بات پیدا کرنا۔ نقصان سے محفوظ ہو جانا۔ دوسری چیزوں کے ضرروں اور نقصانوں سے محفوظ ہو جانا۔ یا یہ معنی بھی ہوں گے کہ اپنے اندر یہ حال پیدا کر لینا کہ جس سے ہماری اندرونی اصلاح ہو جائے۔
پھر اِتَّقُوااللّٰہَ کے کیا معنی ہیں؟ یہ کہ ہمارے اور خدا کے تعلقات کے درمیان جو کسی وجہ سے نقص آ سکتا ہے اُس سے بچ جانا۔ اِس کے یہ معنی نہیں کہ اﷲ کوئی ضرر رساں ہے اُس سے بچ جانا۔ بلکہ
خدا سے تعلق میں جن باتوں سے ایسا نقص پیدا ہو سکتا ہے جس پر گرفت ہو اس سے بچنے کو تقویٰ کہتے ہیں۔
مطلب یہ ہوا کہ اس خرابی کو دُور کرنا جس سے انسان خدا کی گرفت میں آ جائے یا اندرونی اصلاح کرنا۔ تو عام فہم لفظوں میں یہ مفہوم ہوا کہ
تقویٰ اﷲ کے معنی ہیں ایسی باتوں سے بچ جانا جو اﷲتعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوتی ہیں۔ یا اُن باتوں کو دُور کرنا جو انسان کے اندر پیدا ہو کر خداتعالیٰ کی ناراضگی کو بھڑکاتی ہیں۔
پس لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ کے یہ معنی ہوئے کہ
خداتعالیٰ نے روزے اِس لیے مقرر فرمائے ہیں کہ تم اُن اشیاء کے حملوں سے بچ جاؤ جو خدا سے ناراضگی بڑھاتی ہیں۔ یا اپنے نفسوں کی ایسی اصلاح کرو کہ خدا کی ناراضگی کے اسباب دور ہوجائیں۔ یا یہ کہ ایسے سامان جوخواہ بیرونی ہوں یا اندرونی جن سے خدا ناراض ہوتا ہے اُن سے بچ جاؤ۔ یہ تقویٰ اﷲ ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ
روزے کس طرح تقویٰ اﷲ کا باعث ہو سکتے ہیں اور کس طرح اُن اسباب سے بچا سکتے ہیں جو خدا سے دور کرنے والے ہوں۔
اس کا جوڑ معلوم ہونا چاہیے کیونکہ جب جوڑ معلوم ہو تبھی کام اچھی طرح ہوتا ہے۔
تعلق بتانے سے پہلے میں اُن اعمال کی تقسیم بیان کرتا ہوں جن سے نیکی اختیار کی جاتی ہے یا جن پر دنیا میں کام ہورہا ہے۔
کسی کام میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے بعض کام کیے جاتے ہیں اور بعض نہیں کیے جاتے۔ مثلاً ہم اپنے ماں باپ کو خوش کرتے ہیں تا کہ ہمارے اور ان کے تعلقات مضبوط ہوں۔ مگر وہ تب خوش ہوں گے جب ہم اُن کے لیے بعض کام کریں اور بعض نہ کریں۔ پھر ہمارا اپنا نفس ہے اس کی تندرستی کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ بعض چیزیں ہم کھائیں اور ایک خاص مقدار میں کھائیں اور بعض نہ کھائیں۔ جو کھانے والی ہیں اگر مقررہ مقدار سے کم کھائیں گے تو ہماری تندرستی قائم نہیں رہے گی۔ اور جو نہیں کھانے والی وہ اگر کھائیں گے تو بھی صحت نہیں رہے گی۔ اسی طرح دوستوں، حاکموں، آقاؤں کے ساتھ کرتے ہیں کہ بعض باتیں اُن کی خاطر کی جاتی ہیں اور بعض اُن کے لیے چھوڑ دی جاتی ہیں۔ فنون سیکھنے کے لیے بھی یہی کرنا پڑتا ہے۔ انسان کوئی فن نہیں سیکھ سکتا جب تک بعض کام کرے اور بعض نہ کرے۔ مثلاً روٹی پکانا ہے پہلے ضروری ہے کہ اس میں مناسب حد تک پانی ڈالے، زیادہ نہ ڈالے ورنہ آٹا پتلا ہوجائے گا۔ پھر خاص حد تک اس کو چوڑا اور گول کرے۔ اگر زیادہ بڑھائی جائے گی تو روٹی نہ پکے گی۔ پھر آگ جلائے اور مناسب حد تک جلائے اور زیادہ نہ جلائے تب روٹی پکے گی۔ اِس طرح مثلاً زمیندار ہے اس کو بھی اپنے کام کے انجام دینے کے لیے بعض باتیں کرنی پڑتی ہیں اور بعض سے رکنا پڑتا ہے مثلاً زمیندار ہل چلانے پر مجبور ہے اور مجبور ہے کہ بیج ڈالے لیکن اِس پر بھی مجبور ہے کہ ایک ہی جگہ اور قریب قریب ملا کر بیج نہ ڈالے یا گھنے درخت کے نیچے بیج نہ ڈالے۔ اگر ملا کر ڈالے گا تو بیج خراب ہو جائے گا۔ تو جتنے کام ہیں تبھی مکمل ہو سکتے ہیں کہ اُن کی تکمیل کے لیے بعض کام کیے جائیں اور بعض نہ کیے جائیں۔ اِسی طرح
خدا سے تعلق تب مضبوط ہو سکتا ہے کہ بعض کام کریں اور بعض نہ کریں۔ کرنے کے کام حرکت چاہتے ہیں اور نہ کرنے کے سکون۔
ان دونوں باتوں اور حالتوں کو پیدا کرنے کے لیے خداتعالیٰ نے ہمیں احکام دیئے ہیں جن میں سے ایک صلوٰۃ (نماز) ہے اور دوسرا صَوم۔
صلوٰۃ کے فعل میں حرکت پائی جاتی ہے اور صَوم کے معنی میں رکنا پایا جاتا ہے۔ نماز قائم مقام ہے ان باتوں کی جو کرنے کی ہیں اور روزہ قائم مقام ہے ان باتوں کا جو نہ کرنے کی ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس یہی دو احکام ہیں۔ شریعت کے احکام تو بہت ہیں مگر یہ دونوں احکام دونوں قسم کے احکام کے لیے مرکزی نقطہ اور قائم مقام ہیں۔ یعنی کرنے کے احکام صلوٰۃ کے ماتحت آ جاتے ہیں اور نہ کرنے کے احکام صَوم کے ماتحت۔ اور
ان دونوں سے تقویٰ اﷲ پیدا ہوتا ہے۔ جب تک یہ دونوں طرح کے احکام نہ بجا لائے جائیں تقویٰ اﷲ نہیں پیدا ہو سکتا۔
نماز پڑھنے کا یہ مطلب ہے کہ میں خدا کے حکم سے یہ کام کرتا ہوں اور روزے رکھنے کا یہ مدعا ہے کہ میں خدا کے حکم کے ماتحت یہ کام چھوڑتا ہوں۔ نماز کا چونکہ یہاں ذکر نہیں اس لیے میں اس کی تفصیل چھوڑتا ہوں اور روزے کو لیتا ہوں۔ روزے میں حکم ہوتا ہے کہ یہ کرو، وہ نہ کرو۔ مثلاً حکم ہوتا ہے کہ روٹی نہ کھاؤ، پانی نہ پیو، بیوی خاوند کے تعلقات کے پاس نہ جاؤ۔ اور نماز میں حکم ہوتا ہے وضو کرو اور اس طرح کرو، کھڑے ہو جاؤ اور یوں کھڑے ہو اور فلاں سمت کو کھڑے ہو، جھکو اور یوں جھکو وغیرہ۔گویا نماز میں کرنے اور روزہ میں نہ کرنے کا حکم ملتا ہے۔
(باقی آئندہ)