متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب(دورہ امریکہ اور گوئٹے مالا۔ اکتوبر نومبر ۲۰۱۸ء کے چند واقعات۔ حصہ دوازدہم)

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز

حقیقی احترام

حضورِانور سے ملاقات کرنے والوں میں سے ایک Morinat Kukoyi-Sayalouبھی تھیں جن کے والدین ان کی پیدائش سے قبل نائیجیریا سے ہجرت کر کے امریکہ آ گئے تھے۔ اکثر اسلام پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ عورتوں کے حقوق کی پاسداری نہیں کرتا یا انہیں مردوں کے برابر مقام نہیں دیتا۔ یہی بات Morinat نے اپنی ملاقات کے بعد مجھ سےکی۔ Morinat نے کہا:کہ مَیں حضور کا انتہائی احترام کرتی ہوں۔ وہ ایک مقدس اور پاک وجود ہیں جو اپنی زندگی اس تعلیم کے مطابق بسر کرتے ہیں کہ ’جو اپنے لیے پسند کرو، وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرو‘۔ جب آپ انہیں دیکھتے ہیں تو اعتماد کا احساس ہوتا ہے۔ وہ ہماری حفاظت کرتے ہیں اور ہماری بھلائی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ایک عورت ہونے کے ناطے میں نے محسوس کیا کہ حضورِانور نے میرے ساتھ اعلیٰ درجے کے احترام اور عزت کا سلوک فرمایا۔ میں اپنے شوہر کے ساتھ تھی اورحضور بآسانی ایسا فرماسکتے تھے کہ صرف میرے شوہر سے گفتگو فرماتے اور مجھ سے نہ بولتے لیکن اس کے برعکس حضورِانور نے مجھ سے زیادہ گفتگو فرمائی۔

Morinat نے بات جاری رکھتےہوئے کہاکہ حضورِانور نہایت خوش مزاج، گہری نظر رکھنے والے اور توجہ سے بات سننے والے ہیں۔ وہ عورتوں کو خودمختاری اور آزادی دیتے ہیں تاکہ وہ ترقی کر سکیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض مرد جن میں بعض مسلمان بھی شامل ہیں خواتین کی اس طرح عزت نہیں کرتے جس طرح کہ حق ہے لیکن جب آپ حضور سے ملتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان مردوں کی غلطی ہے اور اسلام کی تعلیمات خواتین کی عزت کی حفاظت کرتی ہیں اور مردوں سے یہ تقاضا کرتی ہیں کہ وہ خواتین کے ساتھ احترام سے پیش آئیں۔ Morinat نے مزید کہاکہ حضورِانور بے حد شفیق بھی ہیں، جب میں نے انہیں بتایا کہ ہماری شادی کو آٹھ سال ہو چکے ہیں لیکن ہمارے ہاں اولاد نہیں ہوئی تو انہوں نے نہایت محبت اور خلوص سے ہمارے لیے دعا کی کہ اللہ ہمیں اولاد سے نوازے۔ حضور سے ملاقات کے بعد میں انتہائی پُرسکون اور مطمئن ہوں۔

احمدیوں کے جذبات

بعد ازاں اسی روزحضورِانور نے ستّر سے زائد خاندانوں سے ملاقات کی اور ازراہِ کرم واقفِ زندگی طلحہ چودھری کے ولیمہ کی تقریب میں بھی شرکت فرمائی جو جماعت احمدیہ امریکہ کے شعبہ مال کے دفترمیں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

اس شام حضورِانور سے ملاقات کرنے والوں میں اٹلانٹا سے تعلق رکھنے والی احمدی نومسلمہ، لیزا محمود بھی شامل تھیں۔ ملاقات کے بعد، لیزا نے کہا: اوہ میرے خدایا! جس محبت اور اتحاد کی فضا میں نے حضور کے امریکہ کے دورے کے دوران محسوس کی ہے وہ میں نے زندگی میں پہلے کبھی محسوس نہیں کی۔ حضور سے بالمشافہ ملاقات اور انہیں دیکھنا میرے تصورات سے کہیں بڑھ کر ہے۔

لیزا نے مزید کہاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ لوگ جوق در جوق آپؑ کی جماعت میں شامل ہوں گے اور آج میں نے اس پیشگوئی کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھا! آج یہاں امریکہ بھر سے ہزاروں افراد اس مسجد میں جمع ہوئے ہیں اور ہم سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت اور اطاعت کے رشتے میں متحد ہیں۔

ایک اور شخص جن کی حضور سے ملاقات ہوئی وہ الحسن عطا بعمر۶۲؍سال تھے۔ وہ گھانا سے تعلق رکھتے تھے لیکن ۱۹۸۹ء میں امریکہ منتقل ہو گئے تھے اور اب نیویارک میں مقیم ہیں۔ حضورِانور سے پہلی بار ملاقات کے بعد الحسن عطا نے کہا کہ حضورِانور نہایت پُر وقار ہیں اور میں نے محسوس کیا کہ حضور کو ہم گھانا کے لوگوں سے ایک خاص محبت ہے۔ جب آپ حضور کو دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فطری طور پر بےحد پُرسکون اور شفیق ہیں۔میرا بیٹاحضور سے ایک سوال پوچھنا چاہتاتھالیکن میں نے اسے روک دیا کیونکہ میں جانتا تھا کہ حضور کا وقت بہت قیمتی ہے۔ تاہم جب حضور نے یہ دیکھا تو فوراً میرے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ اپنے والد سے نہ ڈرو، جو بھی پوچھنا چاہتے ہو پوچھ سکتے ہو۔

ہجوم کنٹرول کرنا

جب حضور مسجد [مسرور، South Virginia Manassas]سے رات ۸ بج کر ۲۵؍ منٹ پر روانہ ہوئے، تو سینکڑوں احمدی آپ کو رخصت کرنے کے لیے باہر جمع ہوگئے۔بہت سے لوگ جذباتی تھے، نعرے لگا رہے تھے اور حضور کے قریب جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ڈیوٹی پر موجود افراد ایک ساتھ کھڑے ہو کر ہجوم کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور انہیں زیادہ قریب جانے سے روک رہے تھے۔تاہم، حضور نے محسوس کیا کہ کچھ سیکیورٹی اہلکار قدرے بے چینی یا گھبراہٹ محسوس کر رہے ہیں۔ اس پر حضور نے خود آگے بڑھ کر صورتحال کو سنبھالا۔سب سے پہلے حضور نے کچھ احمدی مردوں کو پیچھے ہٹنے کی ہدایت فرمائی کیونکہ وہ ان لجنہ ممبرات کے سامنے آرہے تھے جو حضور کو الوداع کہنے کے لیے جمع ہوئی تھیں۔اس کے بعد حضور نے دیکھا کہ سیکیورٹی ٹیم کی جانب سے ایک بڑی گاڑی ہجوم کے قریب چل رہی ہے۔حضور نے گاڑی کے ڈرائیور کو ہدایت دی کہ وہ اپنی گاڑی بند کر کے باہر آ جائے تاکہ کسی ممکنہ حادثے کا خطرہ نہ رہے۔اسی دوران حضور نے دیکھا کہ حفاظتِ خاص کے ایک رکن نے ایک احمدی کو روکنے کے لیے ہاتھ اٹھایا جو محض خلافت سے اپنی محبت میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس پر حضور نے سختی سے اُسے ہدایت دی کہ کسی بھی احمدی پر جو محض خلافت کی محبت میں یہاں موجود ہیں ہاتھ اُٹھانا یا کسی بھی طور پر physical ہونا ہرگز قابل قبول نہیں ۔ یہ حیرت انگیز منظر تھا کہ حضور ارد گرد موجود حالات سے کس قدر چوکنا اور باخبر تھے۔ ایک طرف احمدی انتہائی جذباتی تھے کہ حضور ان سےملنے تشریف لائے اور وہ انہیں دیکھنے کے مشتاق تھے۔ شاید احمدی اس وجہ سے زیادہ جذباتی تھے کہ چند دنوں بعد حضور لندن واپس جارہے تھے۔دوسری طرف کچھ سیکیورٹی اہلکاروں نے اس کوشش میں کہ کوئی نامناسب یا خطرناک طریقے سے حضور کے قریب نہ پہنچے قدرے سخت رویہ اختیار کر لیا۔چنانچہ صورتحال کو سنبھالنے کے لیے حضور نے خود کنٹرول سنبھال لیا۔ چند لمحوں میں سب کچھ معمول پر آگیااور وہاں موجود احمدیوں کو محبت اور سکون کے ساتھ حضور کو الوداع کہنے کا موقع ملا۔ حضور نے بھی شفقت سے اُنہیں ہاتھ کے اشارے سے الوداع کیا اورپھر کار میں سوار ہو کر واپس مسجد بیت الرحمٰن روانہ ہو گئے۔

ایک غیر معمولی نکاح

نماز کے بعد حضور نے جماعت احمدیہ امریکہ کےکئی احمدیوں کے نکاحوں کا اعلان فرمایا۔ایک انتہائی غیر معمولی اور جذباتی لمحہ اس وقت آیا جب ایک ایسے جوڑے کا نکاح پڑھایا گیا جس میں دلہا سننے کی صلاحیت سے محروم تھا۔ اس وجہ سے اس کانکاح اشاروں کی زبان (sign language) میں ہوا۔حضور نے دلہا اور دلہن کے ناموں کا اعلان فرمایا اور جب دلہے کی رضامندی معلوم کرنےکا وقت آیا تو ایک احمدی جو اشاروں کی زبان میں مہارت رکھتے تھےانہوں نے حضور کے الفاظ کو اشاروں کے ذریعے دلہے تک پہنچایا۔ دلہے نے اپنی رضامندی کا اظہار اشاروں کی زبان میں کیاجسے ایک اور فرد نے آواز دے کر کہا: ’’جی، مجھے قبول ہے۔‘‘ یہ ایک منفرد لمحہ تھا اور اس بات کی علامت تھا کہ خلیفۂ وقت ہر ممکن طریقے سے ان افراد کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں جو کسی معذوری کا شکار ہیں۔ حضور مسلسل شفقت و محبت کی ایسی مثالیں قائم کرتے ہیں جن سے جماعت کے افراد سیکھیں اور عمل کر یں۔

اس کے بعدشام چار بجکر ۴۰ منٹ پر مسلسل چھ گھنٹے بغیر کسی وقفے کے مصروفیات انجام دینے کے بعدحضور دوپہر کا کھانا تناول فرمانے کے لیےاپنی رہائش گاہ تشریف لے گئے ۔

فیملی کا خیال رکھنا

ایک فرد جو حضور کے تین ہفتے کے دورے کے دوران زیادہ تر وقت موجود رہیں وہ نیو جرسی سے تعلق رکھنے والی نقاشہ احمد تھیں۔ امیر صاحب امریکہ کی سب سے بڑی بیٹی ہونے کے ناطے وہ رشتے میں حضور کی بھتیجی ہیں جبکہ ان کے شوہر خالد احمدحضور کی سب سے بڑی بہن کے بیٹے ہیں۔ نقاشہ باجی امریکہ میں پلی بڑھی ہیں مگر ۲۰۰۱ء میں شادی کے بعد وہ کچھ عرصہ کے لیے ربوہ منتقل ہو گئی تھیں جس دوران انہیں حضور کے قرب میں وقت گزارنے کا موقع ملا۔ تب حضور ناظر اعلیٰ کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ پاکستان میں قیام کے دوران انہوں نے قریب سے مشاہدہ کیا کہ حضور کس طرح دوسروں کے اعتماد اور امانتوں کی حفاظت کرتے ہیں۔

نقاشہ باجی کہتی ہیںکہ۲۰۰۲ء میں مَیں نے گریجوایٹ اسکولز میں داخلے کے لیے درخواست دینا شروع کی۔ اس وقت کمیونیکیشن اتنی آسان نہیں تھی، مجھے اپنی درخواستیں اور ان کے جوابات بھی فیکس کے ذریعے بھجوانے اور وصول کرنے ہوتے تھے۔ چنانچہ میں نے حضور سے اس سلسلے میں مدد کی درخواست کی نیز درخواست کی کہ وہ کسی کو نہ بتائیں کہ میں گریجوایٹ اسکولز میں داخلے کے لیے درخواست دے رہی ہوں تو حضور نے واقعی اس امر کا خیال رکھا۔ یہ دوسروں کی امانت کی حفاظت کی صرف ایک چھوٹی سی مثال ہے۔

باوجود اس کے کہ وہ حضور کی قریبی رشتہ دار ہیں ،نقاشہ باجی کا کہنا ہے کہ ان کاحضور سے خاندانی تعلق بطور احمدی تعلق کی نسبت ثانوی حیثیت رکھتا ہے ۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ خلافت کا رشتہ سب سے اہم ہے اور یہ تمام دیگر رشتوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے جب خلافت کے ساتھ تعلق کی بات آتی ہے تو خاندان کے افراد بھی دیگر احمدیوں کی طرح برابر ہیں۔ جیسے باقی احمدیوں کو حضور سے ملاقات میں گھبراہٹ محسوس ہوتی ہےمجھے بھی ہوتی ہے بلکہ شاید مجھے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ دنیا بھر میں زیادہ تر احمدی حضور سے پہلی بار اس وقت ملے جب وہ خلیفہ منتخب ہو چکے تھے اور انہوں نے اپنا بہترین رویہ پیش کیا۔ لیکن حضور مجھے بہت پہلے سے جانتے ہیں۔ ایک بات جس کی تصدیق حضور کے خاندان کے تمام افراد کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ دنیا بھر کی ذمہ داریوں کے باوجودحضور اپنے اہل خانہ اور رشتہ داروں کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں اور ان کی زندگیوں میں اور ان کی بہبود میں ذاتی دلچسپی لیتے ہیں۔

نقاشہ باجی نے اپنے ذاتی تجربات کے حوالے سے بتایاکہ ذاتی سطح پرحضور کی محبت اور شفقت ایک چچا کی حیثیت سے وقت کے ساتھ بڑھتی ہی گئی ہے۔ اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھنا ایک اسلامی خُلق ہے اور اس لحاظ سے حضور ان خاندانی تعلقات کو پہلے سے بھی زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئےکہا:میرے شوہر خالد اور میں جس دن لندن پہنچے اسی دن پیس سمپوزیم تھا۔ میں نے حضور کو لکھا کہ ہم اگلے دن سپین جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حالانکہ پیس سمپوزیم جماعت احمدیہ کے سالانہ بڑے پروگراموں میں سے ایک ہے اور حضور کو اس میں خطاب فرمانا تھا،اس کے باوجود چند گھنٹوں میں ہی ہمیں حضور کی طرف سے جواب موصول ہوگیا۔ نہ صرف حضور نے ہمیں سفر کی اجازت مرحمت فرمائی بلکہ تفصیلات پوچھیں اورہمارے سفرمیں بھی دلچسپی ظاہر فرمائی حالانکہ وہ پیس سمپوزیم میں مہمانوں سے خطاب کرنے والے تھے۔

امریکہ اور گوئٹے مالا کے دوروں کے مصروف اور تھکا دینے والے معمول کا ذکر کرتے ہوئےنقاشہ باجی نے کہاکہ امریکہ کے دورے کے پہلے دو ہفتے انتہائی تھکا دینے والے تھے اور میرے جاننے والے سب لوگ بہت تھک چکے تھے۔ لیکن اس دوران حضور سب سے زیادہ تازہ دم لگ رہے تھے اور کئی بار انہوں نے خالد سے، مجھ سے اور دیگر لوگوں سے سفر کی انتہائی باریک تفصیلات کے بارے میں بھی دریافت فرمایا حالانکہ مجھے خود اپنا سفری شیڈول بھی مشکل سے یاد رہتا ہے۔ میں حیران تھی کہ خلافت کے بھاری بوجھ کے باوجودخلیفۃ المسیح کس طرح ہر ایک کا خیال رکھتے ہیں اور ان کی انفرادی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں ۔

بلا شک و شبہ ہر لحاظ سے حضور، آنحضرت ﷺ کے اسوہ کی پیروی کرتے ہیں اور یہ بات ان کی طرزِ زندگی میں بھی واضح نظر آتی ہے کہ وہ کتنی سادہ ہےحتیٰ کہ اس مصروف دورے کے دوران بھی انہوں نے یہ مشاہدہ کیا کہ حضور اپنا سامان خود پیک کررہے تھے اور دیگر گھریلو کام بھی خود انجام دے رہے تھے۔

اپنے ذاتی مشاہدات پر غور کرتے ہوئے نقاشہ باجی نے کہاکہ مجھے امید ہے کہ یہ کہنا کسی کے اعتماد کو توڑنے والا نہیں ہوگا کہ حضور لوگوں کے اندازے سے بھی زیادہ محنت کرتے ہیں اور یہ سلسلہ دن رات جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ سفر اور کام کے شدید اور تھکا دینے والے شیڈول کے دوران بھی ۔

(مترجم:طاہر احمد۔فن لینڈ۔انتخاب:مظفرہ ثروت۔جرمنی)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مصروفیات

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button