سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

ہمارے خداوند کریم نے اپنے رسول مقبولؐ کے ذریعہ سے یہی تعلیم دی ہے کہ ہم نیکی کا معاوضہ بہت زیادہ نیکی کے ساتھ کریں اور مُنعم کا شکر بجالاویں۔ اور جب کبھی ہم کو موقعہ ملے تو ایسی گورنمنٹ سے بدلی صدق کمال ہمدردی سے پیش آویں اور بہ طیب خاطر معروف اور واجب طور پر اطاعت اٹھاویں

براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویو زکے سلسلے میںابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب کا تحریر کردہ ریویو

(گذشتہ سے پیوستہ)ہر چند خاص کر مؤلف کتاب (مرزا غلام احمد صاحب) سے ان کی عالمانہ اور درویشانہ وضع و حالت کے سبب کوئی ایسی کارروائی نہیں ہوئی مگر جس قدر خیر خواہی گورنمنٹ منصب علماء اور درویشوں کے مناسب ہے اور اُن کی قدرت میں داخل ہے اس سے انہوں نے بھی دریغ نہیں کیا۔ عالموں کی تلوار قلم ہے اور فقیروں کا ہتھیار دعا۔ مؤلف نے ان ہتھیاروں کے ساتھ گورنمنٹ کی خیر خواہی و معاونت سے دریغ نہیں فرمایا اپنی قلم سے بارہا لکھ چکے اور اپنی اسی کتاب میں جس کی اشاعت ان کا شبا روزی فرض ہے وہ صاف درج کر چکے ہیں کہ ’’گورنمنٹ انگلشیہ خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے‘‘

(حاشیہ: اصل کلام مؤلف یہ ہے جو اس کتاب کے حصہ سوم و چہارم سے بہ تلخیص نقل کیا جاتا ہے۔ حصہ سوم کے ابتدائی اوراق میں آپؑ فرماتے ہیں:’’مسلمانوں پر جن امور کا اپنی اصلاح حال کے لئے اپنی ہمت اور کوشش سے انجام دینا لازم ہے وہ انہیں فکر اور غور کے وقت آپ ہی معلوم ہوجائیں گے۔ حاجت بیان و تشریح نہیں۔ مگر اس جگہ ان امروں میں سے یہ امر قابل تذکرہ ہے جس پر گورنمنٹ انگلشیہ کی عنایات اور توجہات موقوف ہیں کہ گورنمنٹ ممدوحہ کے دل پر اچھی طرح یہ امر مرکوز کرنا چاہئے کہ مسلمانان ہند ایک وفادار رعیت ہے۔ کیونکہ بعض ناواقف انگریزوں نے خصوصاً ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے کہ جو کمیشن تعلیم کے اب پریسیڈنٹ ہیں اپنی ایک مشہور تصنیف میں اس دعویٰ پر بہت اصرار کیا ہے کہ مسلمان لوگ سرکار انگریزی کے دلی خیر خواہ نہیں ہیں اور انگریزوں سے جہاد کرنا فرض سمجھتے ہیں۔ گو یہ خیال ڈاکٹر صاحب کا شریعت اسلام پر نظر کرنے کے بعد ہریک شخص پر محض بے اصل اور خلاف واقعہ ثابت ہوگا۔ لیکن افسوس کہ بعض کوہستانی اور بے تمیز سفہا کی نالائق حرکتیں اس خیال کی تائید کرتی ہیں۔ اور شاید انہیں اتفاقی مشاہدات سے ڈاکٹر صاحب موصوف کا وہم بھی مستحکم ہوگیا ہے۔ کیونکہ کبھی کبھی جاہل لوگوں کی طرف سے اس قسم کی حرکات صادر ہوتی رہتی ہیں لیکن محقق پر یہ امر پوشیدہ نہیں رہ سکتا کہ اس قسم کے لوگ اسلامی تدین سے دور و مہجور ہیں اور ایسے ہی مسلمان ہیں جیسے مکلین عیسائی تھا۔ پس ظاہر ہے کہ ان کی یہ ذاتی حرکات ہیں نہ شرعی پابندی سے۔ اور ان کے مقابل پر ان ہزارہا مسلمانوں کو دیکھنا چاہئے کہ جو ہمیشہ جان نثاری سے خیر خواہی دولت انگلشیہ کی کرتے رہے ہیں اور کرتے ہیں۔ ۱۸۵۷ء میں جو کچھ فساد ہوا اس میں بجز جہلاء اور بدچلن لوگوں کے اور کوئی شائستہ اور نیک بخت مسلمان جو باعلم اور باتمیز تھا ہرگز مفسدہ میں شامل نہیں ہوا۔ بلکہ پنجاب میں بھی غریب غریب مسلمانوں نے سرکار انگریزی کو اپنی طاقت سے زیادہ مدد دی۔ چنانچہ ہمارے والد صاحب مرحوم نے بھی باوصف کم استطاعتی کے اپنے اخلاص اور جوش خیر خواہی سے پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کرکے اور پچاس مضبوط اور لائق سپاہی بہم پہنچا کر سرکار میں بطور مدد کے نذر کئے اور اپنی غریبانہ حالت سے بڑھ کر خیر خواہی دکھلائی۔ اور جو مسلمان صاحب دولت و ملک تھے۔ انہوں نے تو بڑی بڑی خدمات نمایاں ادا کئے۔ اب ہم پھر اس تقریر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ گو مسلمانوں کی طرف سے اخلاص اور وفاداری کے بڑے بڑے نمونہ ظاہر ہوچکے ہیں۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے مسلمانوں کی بدنصیبی کی وجہ سے ان تمام وفاداریوں کو نظر انداز کردیا اور نتیجہ نکالنے کے وقت ان مخلصانہ خدمات کو نہ اپنے قیاس کے صغریٰ میں جگہ دی اور نہ کبریٰ میں۔ بہرحال ہمارے بھائی مسلمانوں پر لازم ہے کہ گورنمنٹ پر ان کے دھوکوں سے متاثر ہونے سے پہلے مجرد طور پر اپنی خیر خواہی ظاہر کریں۔ جس حالت میں شریعت اسلام کا یہ واضح مسئلہ ہے جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ایسی سلطنت سے لڑائی اور جہاد کرنا جس کے زیر سایہ مسلمان لوگ امن اور عافیت اور آزادی سے زندگی بسر کرتے ہوں اور جس کے عطیات سے ممنون منت اور مرہون احسان ہوں۔ اور جس کی مبارک سلطنت حقیقت میں نیکی اور ہدایت پھیلانے کے لئے کامل مددگار ہو۔ قطعی حرام ہے۔ تو پھر بڑے افسوس کی بات ہے کہ علماء اسلام اپنے جمہوری اتفاق سے اس مسئلہ کو اچھی طرح شائع نہ کرکے ناواقف لوگوں کی زبان اور قلم سے موردِ اعتراض ہوتے رہیں۔ جن اعتراضوں سے ان کے دین کی سستی پائی جائے۔ اور ان کی دنیا کو ناحق ضرر پہنچے۔ سو اس عاجز کی دانست میں قرین مصلحت یہ ہے کہ انجمن اسلامیہ لاہور و کلکتہ و بمبئی وغیرہ یہ بندوبست کریں کہ چند نامی مولوی صاحبان جن کی فضیلت اور علم اور زہد اور تقویٰ اکثر لوگوں کی نظر میں مسلم الثبوت ہو۔ اس امر کے لئے چن لئے جائیں کہ اطراف اکناف کے اہل علم کو جو اپنے مسکن کے گرد نواح میں کسی قدر شہرت رکھتے ہوں اپنی اپنی عالمانہ تحریریں جن میں برطبق شریعت حقہ سلطنت انگلشیہ سے جو مسلمانان ہند کی مربی و محسن ہے جہاد کرنے کی صاف ممانعت ہو۔ ان علماء کی خدمت میں بہ ثبت مواہیر بھیج دیں کہ جوبموجب قرارداد بالا اس خدمت کے لئے منتخب کئے گئے ہیں۔ اور جب سب خطوط جمع ہوجائیں تو یہ مجموعہ خطوط جو مکتوبات علماء ہند سے موسوم ہوسکتا ہے۔ کسی خوشخط مطبع میں بہ صحت تمام چھپایا جائے اور پھر دس بیس نسخے اسکے گورنمنٹ میں اور باقی نسخہ جات متفرق مواضع پنجاب و ہندوستان خاص کر سرحدی ملکوں میں تقسیم کئے جائیں۔ یہ سچ ہے کہ بعض غمخوار مسلمانوں نے ڈاکٹر ہنٹر صاحب کے خیالات کا رد لکھا ہے۔ مگر یہ دوچار مسلمانوں کا ردّ جمہوری ردّ کا ہرگز قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ بلاشبہ جمہوری ردّ کا اثر ایسا قوی اور پرزور ہوگا جس میں ڈاکٹر صاحب کی تمام غلط تحریریں خاک سے مل جائیں گی اور بعض ناواقف مسلمان بھی اپنے سچے اور پاک اصول سے بخوبی مطلع ہوجائیں گے اور گورنمنٹ انگلشیہ پر بھی صاف باطنی مسلمانوں کی اور خیر خواہی اس رعیت کی کماحقہ کھل جاوے گی اور بعض کوہستانی جہلا ءکے خیالات کی اصلاح بھی بذریعہ اسی کتاب کی وعظ و نصیحت کے ہوتی رہے گی۔ بالآخر یہ بات بھی ظاہر کرنا ہم اپنے نفس پر واجب سمجھتے ہیں کہ اگرچہ تمام ہندوستان پر یہ حق واجب ہے کہ بنظر اُن احسانات کے کہ جو سلطنت انگلشیہ سے اس کی حکومت اور آرام بخش حکمت کے ذریعہ سے عامۂ خلائق پر وارد ہیں۔ سلطنت ممدوحہ کو خداوندتعالیٰ کے ایک نعمت سمجھیں اور مثل اور نعماء الٰہی کے اس کا شکر بھی ادا کریں۔ لیکن پنجاب کے مسلمان بڑے ناشکرگزار ہوں گے اگر وہ اس سلطنت کو جو ان کے حق میں خدا کی ایک عظیم الشان رحمت ہے نعمت عظمیٰ یقین نہ کریں۔ ان کو سوچنا چاہئیےکہ اس سلطنت سے پہلے وہ کس حالت پر ملالت میں تھے اور پھر کیسے امن و امان میں آگئے۔ پس فی الحقیقۃ یہ سلطنت ان کیلئے ایک آسمانی برکت کا حکم رکھتی ہے جسکے آنے سے سب تکلیفیں ان کی دور ہوئیں اور ہریک قسم کے ظلم و تعدّی سے نجات حاصل ہوئی اور ہریک ناجائز روک اور مزاحمت سے آزادی میسر آئی۔ کوئی ایسا مانع نہیں کہ جو ہم کو نیک کام کرنے سے روک سکے یا ہماری آسائش میں خلل ڈال سکے۔ پس حقیقت میں خداوند کریم و رحیم نے اس سلطنت کو مسلمانوں کیلئے ایک باران رحمت بھیجا ہے جس سے پودہ اسلام کا پھر اس ملک پنجاب میں سرسبز ہوتا جاتا ہے اور جس کے فوائد کا اقرار حقیقت میں خدا کے احسانوں کا اقرار ہے۔ یہی سلطنت ہے جس کی آزادی ایسی بدیہی اور مسلم الثبوت ہے کہ بعض دوسرے ملکوں سے مظلوم مسلمان ہجرت کرکے اس ملک میں آنا بدل و جان پسند کرتے ہیں۔ جس صفائی سے اس سلطنت کے ظل حمایت میں مسلمانوں کی اصلاح کے لئے اور ان کی بدعات مخلوطہ دور کرنے کے لئے وعظ ہوسکتا ہے۔ اور جن تقریبات سے علماء اسلام کو ترویج دین کے لئے اس گورنمنٹ میں جوش پیدا ہوتے ہیں اور فکر اور نظر سے اعلیٰ درجہ کا کام لینا پڑتا ہے اور عمیق تحقیقاتوں سے تائید دین متین میں تالیفات ہوکر حجت اسلام مخالفین پر پوری کی جاتی ہے وہ میری دانست میں آج کل کسی اور ملک میں ممکن نہیں۔ یہی سلطنت ہے جس کی عادلانہ حمایت سے علماء کو مدتوں کے بعد گویا صدہا سال کے بعد یہ موقعہ ملا کہ بے دھڑک بدعات کی آلودگیوں سے اور شرک کی خرابیوں سے اور مخلوق پرستی کے فسادوں سے نادان لوگوں کو مطلع کریں اور اپنے رسول مقبول کا صراط مستقیم کھول کر بتلاویں۔ کیا ایسی سلطنت کی بدخواہی جس کے زیرسایہ تمام مسلمان امن اور آزادی سے بسر کرتے ہیں اور فرائض دین کو کماحقہ بجا لاتے ہیں اور ترویج دین میں سب ملکوں سے زیادہ مشغول ہیں جائز ہوسکتی ہے۔ حاشا و کلّا ہرگز جائز نہیں۔ اور نہ کوئی نیک اور دیندار آدمی ایسا بدخیال دل میں لاسکتا ہے۔ ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ دنیا میں آج یہی ایک سلطنت ہے جس کے سایہ عاطفت میں بعض بعض اسلامی مقاصد ایسے حاصل ہوتے ہیں کہ جو دوسرے ممالک میں ہرگز ممکن الحصول نہیں۔ شیعوں کے ملک میں جاؤ تو وہ سنت جماعت کی وعظوں سے افروختہ ہوتے ہیں۔ اور سنت جماعت کے ملکوں میں شیعہ اپنی رائے ظاہر کرنے سے خائف ہیں۔ ایسا ہی مقلدین موحدین کے شہروں میں اور موحدین مقلدین کے بلاد میں دم نہیں مارسکتے۔ اور گو کسی بدعت کو اپنی آنکھ سے دیکھ لیں منہ سے بات نکالنے کا موقعہ نہیں رکھتے۔ آخر یہی سلطنت ہے جس کی پناہ میں ہریک فرقہ امن اور آرام سے اپنی رائے ظاہر کرتا ہے۔ اور یہ بات اہل حق کے لئے نہایت ہی مفید ہے۔ کیونکہ جس ملک میں بات کرنے کی گنجائش ہی نہیں۔ نصیحت دینی کا حوصلہ ہی نہیں۔ اس ملک میں کیونکر راستی پھیل سکتی ہے۔ راستی پھیلانے کے لئے وہی ملک مناسب ہے جس میں آزادی سے اہل حق وعظ کرسکتے ہیں۔ یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ دینی جہادوں سے اصلی غرض آزادی کا قائم کرنا اور ظلم کا دور کرنا تھا۔ اور دینی جہاد انہیں ملکوں کے مقابلہ پر ہوئے تھے جن میں واعظین کو اپنی وعظ کے وقت جان کا اندیشہ تھا۔ اور جن میں امن کے ساتھ وعظ ہونا قطعی محال تھا۔ اور کوئی شخص طریقہ حقہ کو اختیار کرکے اپنی قوم کے ظلم سے محفوظ نہیں رہ سکتا تھا۔ لیکن سلطنت انگلشیہ کی آزادی نہ صرف ان خرابیوں سے خالی ہے۔ بلکہ اسلامی ترقی کی بدرجہ غایت ناصر اور موید ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس خداداد نعمت کا قدر کریں۔ اور اس کے ذریعہ سے اپنی دینی ترقیات میں قدم بڑھاویں۔”

اور حصہ چہارم کے ابتدائی اوراق میں آپؑ فرماتے ہیں:’’تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ بعض صاحبوں نے مسلمانوں میں سے اس مضمون کی بابت کہ جو حصہ سوم کے ساتھ گورنمنٹ انگریزی کی شکرباری میں شامل ہے اعتراض کیا اور بعض نے خطوط بھی بھیجے اور بعض نے سخت اور درشت لفظ بھی لکھے کہ انگریزی عملداری کو دوسری عملداریوں پر کیوں ترجیح دی۔ لیکن ظاہر ہے کہ جس سلطنت کو اپنی شائستگی اور حسن انتظام کے رو سے ترجیح ہو۔ اس کو کیونکر چھپا سکتے ہیں۔ خوبی باعتبار اپنی ذاتی کیفیت کے خوبی ہی ہے گو وہ کسی گورنمنٹ میں پائی جائے۔ اَلْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمَنِ۔ الخ۔ اور یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ اسلام کا ہرگز یہ اصول نہیں ہے کہ مسلمانوں کی قوم جس سلطنت کے ماتحت رہ کر اس کا احسان اٹھاوے اس کے ظل حمایت میں باَمن و آسائش رہ کر اپنا رزق مقسوم کھاوے۔ اس کے انعامات متواترہ سے پرورش پاوے پھر اسی پر عقرب کی طرح نیش چلاوے۔ اور اس کے سلوک اور مروّت کا ایک ذرہ شکربجا نہ لاوے۔ بلکہ ہمارے خداوند کریم نے اپنے رسول مقبولؐ کے ذریعہ سے یہی تعلیم دی ہے کہ ہم نیکی کا معاوضہ بہت زیادہ نیکی کے ساتھ کریں اور مُنعم کا شکر بجالاویں۔ اور جب کبھی ہم کو موقعہ ملے تو ایسی گورنمنٹ سے بدلی صدق کمال ہمدردی سے پیش آویں اور بہ طیب خاطر معروف اور واجب طور پر اطاعت اٹھاویں۔ سو اس عاجز نے جس قدر حصہ سوم کے پرچہ مشمولہ میں انگریزی گورنمنٹ کا شکر ادا کیا ہے وہ صرف اپنے ذاتی خیال سے ادا نہیں کیا بلکہ قرآن شریف اور احادیث نبویؐ کی ان بزرگ تاکیدوں نے جو اس عاجز کے پیش نظر ہیں مجھ کو اس شکر ادا کرنے پر مجبور کیا ہے۔ سو ہمارے بعض ناسمجھ بھائیوں کی یہ افراط ہے جس کو وہ اپنی کوتہ اندیشی اور بخل فطرتی سے اسلام کا جز سمجھ بیٹھے ہیں۔

اے جفاکیش نہ عذرست طریق عشاق
ہرزہ بدنام کنی چند نکو نامے را

(براہین احمدیہ )

کہ ’’یہ ایک عظیم الشان رحمت ہے۔ یہ سلطنت مسلمانوں کے لئے آسمانی برکت کا حکم رکھتی ہے۔ خداوند رحیم نے اس سلطنت کو مسلمانوں کے لئے ایک باران رحمت بھیجا۔ ایسی سلطنت سے لڑائی اور جہاد کرنا قطعی حرام ہے۔ اسلام کا ہرگز یہ اصول نہیں کہ مسلمانوں کی قوم جس سلطنت کے ماتحت رہ کر اس کا احسان اُٹھاوے اس کے ظل حمایت میں بامن و آسائش رہ کر اپنا مقسوم کھاوے اُس کے انعامات متواترہ سے پرورش پاوے پھر اسی پر عقرب کی طرح نیش چلا وے۔ اور دعا سے بھی انہوں نے اِس گورنمنٹ کو بہت دفعہ یاد کیا ہے۔ اُن کی آخری دعا ان کے اشتہار مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر جس کی بیس ہزار ۲۰۰۰۰ کاپی چھپوا کر ہند اور انگلنڈ میں اُنہوں نے شائع کرنی چاہی ہے۔ یہ کلمات دعائیہ مرقوم ہیں۔ انگریز جن کی شائستہ اور مہذب اور بارحم گورنمنٹ نے ہم کو اپنے احسانات اور دوستانہ معاملات سے ممنون کر کے اس بات کے لئے دلی جوش بخشا ہے کہ ہم ان کے دین و دنیا کے لئے دلی جوش سے بہبودی اور سلامتی چاہیں تا اُن کے گورے و سپید مونہہ جس طرح دنیا میں خوبصورت ہیں آخرت میں بھی نورانی و منور ہوں۔ فَنَسْئَلُ اللّٰہَ تَعَالیٰ خَیْرَھُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ۔ اَللّٰھُمَّ اھْدِھُمْ وَ اَیِّدْھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْکَ وَ اجْعَلْ لَھُمْ حَظًّا کَثِیْرًا فِیْ دِیْنِکَ۔ الخ‘‘

(باقی آئندہ ہفتہ کو ان شا ء اللہ)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: صحابہؓ کرام کا رسول کریمؐ اور خلفائے وقت کی بے مثال اطاعت اور ادب و احترام کا نمونہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button